اسلام آباد (ٹی این ایس) حکومت پاکستان زائرین کے مسائل فوری طور پر حل کرے۔

 
0
39

اسلام آباد (ٹی این ایس) حکومت پاکستان کوایران اور عراق کیلئے جانیوالے زائرین کے مسائل فوری طور پر حل کرنے چاہئیں,زائرین کے صرف پیسے نہیں ڈوبے، کربلا جانے والوں کا امام حسین علیہ السلام سے جذباتی تعلق ہوتا ہے اور زائرین اس وقت ذہنی اذیت کا شکار ہیں رواں سال بذریعہ روڈ جانے والے زائرین کو سکیورٹی کیوں نہیں دی جا سکتی؟ وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر ایک پوسٹ میں لکھا تھا کہ وزارتِ خارجہ، حکومتِ بلوچستان اور سکیورٹی اداروں سے تفصیلی مشاورت کے بعد عوامی تحفظ اور قومی سلامتی کے پیش نظر یہ فیصلہ کیا گیا ہے۔محسن نقوی کا کہنا تھا کہ زائرین اس مرتبہ صرف فضائی راستے سے ہی عراق و ایران جا سکیں گے اور وزیرِاعظم شہبازشریف نے متعلقہ حکام کو ہدایت کی ہے کہ زائرین کی سہولت کے لیے زیادہ سے زیادہ پروازوں کا بندوبست کیا جائے۔ مگر ٹریول ایجنٹس کے بقول فضائی سفر پر زائرین کا دو سے تین لاکھ روپے کا اضافی خرچہ ہو گا۔وفاقی حکومت کی جانب سے عائد کی جانے والی اس پابندی کی وجہ سے کوئٹہ شہر میں زائرین کی بڑی تعداد پھنس گئی ہے ان زائرین کا تعلق پاکستان کے مختلف شہروں سے ہے جنھیں کوئٹہ سے بسوں کے ذریعے ضلع چاغی کے سرحدی شہر تفتان سے ایران اور عراق جانا ہے۔اس پابندی کے خلاف کوئٹہ میں ان زائرین نے علمدار روڈ پر واقع شہدا چوک پر دھرنا دینے کے علاوہ احتجاجی مظاہرہ کیاانھوں نے مطالبہ کیا کہ انھیں سکیورٹی فراہم کرکے سڑک کے راستے ایران جانے کی اجازت دی جائے۔ مظاہرین کا کہنا تھا کہ یہاں پھنسنے والوں میں زیادہ تر وہی خاندان شامل ہیں جن کے لیے جہاز کے ذریعے ایران جانا ممکن نہیں حکومت اس بڑے اور اہم مسئلے پر اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرتے ہوئے تجاویز پر غور کرے اور مسائل کو مثبت پیرائے میں حل کر کے زائرین میں پھیلی بے چینی کو دور کرے اگر مسئلے کا مثبت حل تلاش نہ کیا گیا تو عوام میں پھیلی بے چینی شدت اختیار کر سکتی جو موجودہ حکومت کیلئے نقصان دہ ہو سکتی ہےزائرین کے اربعین مارچ کے معاملے پر حکومت اور ایم ڈبلیو ایم کے درمیان کامیاب مذاکرات کے بعد مارچ مؤخر کرنے کا اعلان کیا گیاہے۔ وفاقی وزیر مملکت برائے داخلہ طلال چوہدری، گورنر سندھ، ایم ڈبلیو ایم اور ایم کیو ایم کی قیادت نے مشترکہ پریس کانفرنس میں کہا کہ زائرین کے پیدل سفر پر پابندی سیکیورٹی خدشات کے باعث عائد کی گئی تھی، جو ایک تکلیف دہ مگر ناگزیر فیصلہ تھا۔ گورنر سندھ نے بتایا کہ رات گئے زائرین سے ملاقات کی اور صورتحال کو وفاقی حکومت کے سامنے رکھا۔ زائرین کے تحفظ کو مدنظر رکھتے ہوئے پیدل سفر کی اجازت نہیں دی جاسکتی تھی، تاہم تمام فریقین کی مشاورت سے 7 نکاتی معاہدہ طے پایا، جس پر مکمل عملدرآمد کے لیے ایک مشترکہ کمیٹی قائم کی جائے گی۔

طے پانے والے 7 نکات میں زائرین کے لیے مخصوص فلائٹ آپریشن دو روز میں شروع کیا جائے گا۔ ایڈوانس میں دیے گئے بس کرایوں کی واپسی یقینی بنائی جائے گی۔
ایراقی حکومت سے ویزہ کی مدت میں توسیع کے لیے رابطہ کیا جائے گا۔
زمینی سفر کے متبادل انتظامات پر بھی غور کیا جائے گا۔بارڈر پر موجود اسٹوڈنٹس کے لیے فوری احکامات جاری کیے جائیں گے۔ پیدل مارچ روکنے کے فیصلے پر حکومت زائرین سے معذرت خواہ ہے۔ زائرین کے مسائل کے حل کے لیے مستقل رابطہ کمیٹی قائم کی جائے شامل ہیں ایم ڈبلیو ایم کے وائس چیئرمین مولانا اقبال رضوی نے اعلان کیا کہ کاروانِ عزاداری کو مؤخر کیا جا رہا ہے اور حکومت کے ساتھ ہونے والے معاہدے پر مکمل اعتماد ہے۔ تمام مسلمان نواسہ رسولؐ امام حسینؑ سے عقیدت رکھتے ہیں، اور یہ سفر، خواہ ہوائی، بحری یا زمینی، تاقیامت جاری رہے گا۔گورنر سندھ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ زائرین کے مطالبات میں ویزہ توسیع، ہوائی سفر میں رعایت، اور خرچ شدہ رقوم کی واپسی شامل تھے، جن پر حکومت نے یقین دہانی کرائی ہے۔ طلال چوہدری کا کہنا تھا کہ حکومت اس سال کے مخصوص حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ فیصلہ کرنے پر مجبور ہوئی تاہم آئندہ زائرین کے سفر میں کسی قسم کی پابندی نہیں ہوگی۔یہ یاد رکھیں کہ4 اگست 2025ءشیعہ علما کونسل پاکستان مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ ڈاکٹر شبیر حسن میثمی نے زائرین امام حسین کے چہلم میں شرکت کرنے والے زائرین کیلئے زمینی راستوں پر پابندی کیخلاف ملک گیر احتجاج کا اعلان کر تے ہوئے کہاتھا کہ وفاقی حکومت زمینی راستوں کی بندش کا فیصلہ واپس لے، حکومت مسلسل ٹال مٹول کا رویہ اپنا کر زائرین کا وقت ضائع کر رہی ہےحکومت کی جانب سے زمینی راستے سے ایران و عراق جانے پر پابندی کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ زیارات ویزا پر ان ممالک کو جانے والے کئی افراد وہاں جا کر غائب ہو جاتے ہیں اور حکومت اس صورتحال پر قابو پانے کی کوشش کر رہی ہے۔ یہ یاد رکھیں کہ وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی نے حالیہ دورۂ ایران کے دوران ایرانی اور عراقی حکام کو اس حوالے سے یقین دہانی بھی کروائی ہے۔ حکومت کا مؤقف ہے کہ ہوائی سفر کے ذریعے جانے والوں کا ریکارڈ رکھنا زمینی راستے کے مقابلے میں زیادہ مؤثر اور آسان ہے۔وفاقی وزیرِ داخلہ محسن نقوی کا کہنا تھا کہ سکیورٹی خدشات کے باعث زائرین کے سڑک کے ذریعے سفر پر پابندی عائد کی گئی ہے تاہم رواں ماہ ہی وفاقی وزیر مذہبی امور سردار محمد یوسف نے انکشاف کیا تھا کہ اب تک تقریباً 40 ہزار پاکستانی زائرین ایران، عراق اور شام جا کر یا تو وہیں رک گئے یا لاپتا ہو چکے ہیں، جن کا کوئی سرکاری ریکارڈ موجود نہیں لہذا جنوری 2026 سے عراق کا سفر صرف رجسٹرڈ گروپ آرگنائزرز کے ذریعے ہی ممکن ہو گا تاکہ غیر قانونی سفر اور زائد قیام روکا جا سکے۔ اس صورتحال میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اصل وجہ سیکورٹی خدشات ہیں یا مقصد غیرقانونی طور پر عراق جا کر زائد قیام کرنے والوں کی روک تھام ہے؟ جس پر شیعہ علماء کونسل پاکستان کی مرکزی مجلس عاملہ نے عوامی احتجاج میں جانے کا فیصلہ کیا

اربعین پر جانے والے زائرین کو زمینی راستے فراہم نہ کئے گئے تو عراق میں مشی سے رہ جانے والے زائرین کی پاکستان میں مشی شروع کرنے کا اعلان اور چہلم امام حسین علیہ السلام کے جلوسوں کو احتجاجا ًسڑکوں پر روکا جا سکتا ہے۔علامہ ڈاکٹر شبیر حسن میثمی مرکزی سیکرٹری جنرل شیعہ علماء کونسل پاکستان ، علامہ عارف واحدی مرکزی نائب صدرشیعہ علماء کونسل پاکستان ، علامہ رمضان توقیر مرکزی نائب صدرشیعہ علماء کونسل پاکستان علامہ سید سبطین حیدر سبزواری مرکزی نائب صدرشیعہ علماء کونسل پاکستان ،علامہ مظہر عباس علوی مرکزی نائب صدرشیعہ علماء کونسل پاکستان، علامہ موسیٰ رضا جسکانی مرکزی نائب صدرشیعہ علماء کونسل پاکستان، معظم علی بلوچ ایڈووکیٹ مرکزی نائب صدررشیعہ علماء کونسل پاکستان،علامہ سید ناظر عباس تقوی مرکزی ایڈیشنل سیکرٹری جنرل شیعہ علماء کونسل، سیدسکندر عباس گیلانی ایڈووکیٹ مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل شیعہ علماء کونسل پاکستان ، زاہد علی آخونزادہ مرکزی سیکرٹری اطلاعات شیعہ علماء کونسل پاکستان، علامہ سید اشتیاق حسین کاظمی صوبائی صدر شیعہ علماء کونسل شمالی پنجاب ،سید ساجد حسین نقوی صوبائی صدر شیعہ علماء کونسل وسطی پنجاب ، سید جاوید علی شاہ صدر شیعہ علماء کونسل وفاقی علاقہ اسلام آباد سمیت دیگر اراکین نے ان خیالات کا اظہار نیشنل پریس کلب اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کیاتھا،مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ شبیر حسن میثمی کا کا مزید کہنا تھا کہ شیعہ علما کونسل پاکستان کی مرکزی مجلس عاملہ کا دو روزہ اجلاس زیر صدارت قائد ملت جعفریہ پاکستان علامہ سید ساجد علی نقوی اسلام آباد میں منعقد ہواتھا جس میں اربعین کے موقع پر سفر مقدسہ زیارات کے لیے زمینی راستوں کی بندش کے حکومتی فیصلے پر ہونے والے مذاکرات پر غور و خوص کیا گیاتھا اور یہ محسوس کیا گیاتھا کہ حکومت کے ساتھ روابط میں اس اہم مسئلہ کا کوئی خاطر خواہ نتیجہ سامنے نہ آ سکا اور حکومت مسلسل ٹال مٹول کا رویہ اپنا کر زائرین کا وقت ضائع کر رہی ہے ،انہوں نے واضح کیا تھا کہ وفاقی وزیر داخلہ کی طرف سے ٹویٹ کے ذریعے راستوں کی بندش کا فیصلہ آٹھ کروڑ شیعہ عوام کی توہین ہے، پاکستان اس طرح نہیں چلے گا،حکومت کی جانب سے زائرین کے زمینی راستوں کی بندش کے تاخیر سے کیے گئے فیصلے پر حکمرانوں سے مکمل اور تفصیل سے مذاکرات کیے گئے تاہم زائرین کے اہم ترین مسئلہ پر حکومت نے انتہائی غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کیاتھا ،حکمرانوں کے اس سنگین مسلے پر غیر سنجیدہ روئیے نے ہمیں مجبور کر دیا کہ ہم اب عوامی حقوق کے حصول کے لیے عوام میں جائیںمرکزی مجلس عاملہ کے فیصلے کے مطابق شیعہ علما کونسل پاکستان نے آج سے ملک گیر احتجاجی تحریک شروع کرنے کا فیصلہ کیا تھا بعدازاں شیعہ علما کونسل پاکستان کی مرکزی مجلس عاملہ کے اراکین نینشنل پریس کلب کے باہر احتجاجی مظاہرہ بھی کیا تھااور حکومت سے مطالبہ کیا تھاکہ وہ فوری طور پر زمینی راستوں کی بندش کا فیصلہ واپس لے۔ دوسری طرف مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے چیئرمین سینیٹر علامہ راجہ ناصر عباس جعفری کا کہنا تھا کہ ہم ہر صورت ریمدان جائیں گے، امام بارگاہ شہدائے کربلا انچولی میں نیوز کانفرنس میں علامہ احمد اقبال رضوی، علامہ باقر عباس زیدی، علامہ صادق جعفری، علامہ مقصود ڈومکی، علامہ مختار امامی، علامہ نثار قلندری، علامہ صادق تقوی، علامہ اصغر شہیدی، علامہ نعیم الحسن سمیت بڑی تعداد میں قافلہ سالار موجود تھےحکومت اگر ریاست یا متعلقہ ادارے زائرین کے مسائل کے حل کیلئے سنجیدہ ہیں تو ہم ہر تعمیری بات چیت کیلئے تیار ہیں، عراق میں داعش کی موجودگی کے باوجود عراقی حکومت نے زائرین کو سہولیات و سکیورٹی فراہم کی، امام بارگاہ شہدائے کربلا انچولی کراچی میں علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے کہا کہ کافی عرصے سے زائرین اور زیارت کے حوالے سے پروپیگنڈا کیا جاتا رہا ، کہا گیا تھاکہ 40 ہزار افراد وہاں جا کر غائب ہوگئے، ایک منصوبے کے تحت اسے بدنام کیا جاتا رہا، حکومت زائرین کو بدنام نہ کرے، عراق و ایران جانے والے زائرین کا مکمل ڈیٹا موجود ہے، زائرین کے پاسپورٹ وہاں بارڈر پر لے لئیے جاتے ہیں۔ محرم کے ایام میں ایران، عراق اور پاکستان کے وزرائے داخلہ کی میٹنگ ہوئی تھی، زائرین نے تیاری شروع کر دی تھی، ہوٹلوں کی بکنگ شروع ہوگئی تھی، یہاں گاڑیوں کی بکنگ سمیت قافلوں کی تیاری شروع ہوگئی تھی ، پھر اچانک خبر آئی کہ زمینی راستے سے قافلے نہیں جائیں گے، زائرین پر پابندی سے اربوں روپوں کا نقصان ہوا ہے ہ یہ سفر ہمارا عشق ہے ہماری عبادت ہے ہمارے ایمان کی نشانی ہے، غریب لوگوں کا اربوں روپے کا نقصان ہوگا اگر یہ سفر نہ ہو، ایک سال میں بلوچستان کی سرحد سے 10 لاکھ سے زیادہ زائرین زیارت پر جاتے ہیں، اس سے صوبوں کے درمیان تعلقات میں بہتری آتی ہے، حکومت نے اس فیصلے سے زائرین کو کاٹ کر رکھ دیا۔ ہمیں متبادل دیا جاتا، سستی فلائٹ چلاتے، سستی فیری سروس شروع کی جا سکتی تھی، لیکن کوئی متبادل راستہ اور کوئی ریلیف نہیں دیا گیا، ہمارے لئیے کربلا جانے کا آسان راستہ بند کر دیا، جو طلبا ریمدان بارڈر پر موجود ہیں انہیں بھی روکا جا رہا ہے، یہ ہمیں عبادت سے محروم کرنا چاہتے ہیں۔ افغانستان کا راستہ بھی کھول سکتے ہیں، وہاں سے بھی مشہد بہت قریب ہے، اہل تشیع اور اہل سنت کے ساتھ ساتھ غیر مسلم بھی زیارتوں پر جاتے ہیں اگر ریاست یا متعلقہ ادارے زائرین کے مسائل کے حل کے لیے سنجیدہ ہیں تو ہم ہر تعمیری بات چیت کے لیے تیار ہیں۔ عراق میں داعش کی موجودگی کے باوجود عراقی حکومت نے زائرین کو سہولیات و سکیورٹی فراہم کی، انہوں نے کہاتھا کہ ہمارا مطالبہ ہے کہ ہمیں جانے دیا جائے، ماضی میں لوگ ہر طرح کی قربانیاں دے کر کربلا جاتے رہے ہیں پابندی ہمارے بنیادی حقوق پر حملہ ہے، جن کے وزیرے لگے ہوئے ہیں انہیں زیارت کیلئے جانے دیا جائے۔ہمارا سوال ہے کہ سیکورٹی دینا کس کی ذمہ داری ہے،بہت سے زائرین اپنے وسائل سے تفتان اور ریمدان تک پہنچ گئے ہیں، حکومت کو چاہئیے کہ لوگوں کیلئے آسانیاں پیدا کرے یاد رکھیں کہ چند سال قبل کوئٹہ سے متصل ضلع مستونگ میں زائرین پرہونے والے متعدد حملوں کے بعد انھیں کوئٹہ سے سکیورٹی میں قافلوں کی صورت میں سرحدی شہر تفتان لے جایا جاتا رہا ہے اور اسی طرح سکیورٹی میں وہاں سے آنے والے زائرین کو واپس لایا جاتا ہے۔ خیال رہے کہ بلوچستان میں عسکریت پسندوں کی جانب سے پنجاب سے تعلق رکھنے والے افراد کو شناخت کے بعد قتل کیے جانے کے متعدد واقعات پیش آ چکے ہیں، جن میں حالیہ عرصے میں نمایاں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ اس کے علاوہ ماضی میں بلوچستان میں زائرین کی بسوں پر مبینہ فرقہ وارانہ حملوں کے بھی متعدد واقعات پیش آتے رہے ہیں۔ ٹریول ایجنٹس کے مطابق ہر سال اربعین کے موقع پر پاکستان سے تقریباً دو سے اڑھائی لاکھ افراد (چار سے ساڑھے چار ہزار بسیں) بذریعہ سڑک عراق کا سفر کرتے ہیں۔ ان کے مطابق زائرین کی بڑی تعداد سڑک کے ذریعے سفر کو اس لیے ترجیح دیتی ہے کیونکہ اس پر پیسے کم خرچ ہوتے ہیں۔اربعین کے موقع پر بذریعہ سڑک عراق جانے پر تقریباً ڈیڑھ لاکھ سے ایک لاکھ 70 ہزار روپے تک خرچ ہوتے ہیں اور اگر یہی سفر بذریعہ ہوائی جہاز کیا جائے تو ساڑھے تین سے چار لاکھ روپے تک خرچ آتا ہے۔ پاکستان کے مختلف شہروں سے بذریعہ سڑک اربعین کے لیے جانے کے خواہشمند افراد سے بات کی تو اُن کی مایوسی اُن کے لہجے سے عیاں تھی۔ ان زائرین کا کہنا ہے کہ ’ہم سڑک کے ذریعے جانے والے پہلے ہی بے بس ہوتے ہیں ۔ بذریعہ جہاز جانے کی نہ تو استطاعت ہے اور نہ ہی سوچ۔‘اربعین جانے کے خواہشمندزائرین نے بتایا کہ انھوں نے تقریباً 17 لاکھ پچاس ہزار روپے (ایک لاکھ 75 ہزار فی شخص کا پیکج) سالار کو دیے ہیں اور ان تمام افراد کے ویزے آ چکے ہیں مگر اب حکومتی فیصلہ آنے کے بعد ’سالار کہتا ہے کہ آپ کا ایک ایک لاکھ روپیہ بسوں اور ہوٹلوں کے انتظامات پر خرچ ہو چکا ہے، اس لیے ان پیسوں کی واپسی جلد ممکن نہیں ہے۔‘بذریعہ سڑک جانے کے خواہشمند افراد کے عراق کے ویزا لگ چکے ہیں جس کی فیس تقریباً 90 ہزار ہے جو کہ ناقابلِ واپسی ہے اور یہ ای ویزا تھے جو 20 سے 30 دن میں ایکسپائر ہو جائیں گے۔ ’نہ تو لوگ اربعین کے بعد جا سکتے ہیں نہ یہ فیسیں واپس مل سکتی ہیں، سارا نقصان ہی نقصان ہے۔ اس سے قبل ایران اسرائیل جنگ کے باعث زائرین کے عاشور کے ویزے بھی ختم ہو گئے تھے جن سے لاکھوں کا نقصان ہوا تھا۔ ٹریول ایجنٹس کے مطابق ان زائرین کی اکثریت کے ایران کے ویزے بھی لگ چکے ہیں جس کی فیس تو کوئی نہیں مگر ڈبل انٹری ویزا پر تقریباً تین سے سے چار ہزار روپے خرچ آتا ہے اور پیر سے ایران ویزا سٹیمپ ہونے ہیں، سالار کو پاسپورٹ ملتے ہی دو یا تین صفر سے بارڈ کی جانب سفر شروع ہو جانا تھا۔گذشتہ سال کی طرح اس سال بھی ایرانی حکومت کی شرط تھی کہ پاکستانی زائرین اپنی بسیں لے کر آئیں۔ اربعین کے موقع پر پاکستان سے دو سے ڈھائی لاکھ زائرین بذریعہ سڑک سفر کرتے ہیں جس کے لیے تقریباً چار سے ساڑھے چار ہزار بسیں بُک ہوتی ہیں۔ بذریعہ ہوائی جہاز جانے والوں کی تعداد کم ہے مگر پنجاب، سندھ اور خیبر پختونخوا سے زیادہ تر کم آمدن اور متوسط طبقہ بس سے ہی سفر کرتا ہے۔ فی بس تقریباً 22-25 لاکھ روپے میں پڑتی ہے جس کے لیے ایڈوانس ادائیگیاں ہو چکی ہیں۔ اس حوالے سے بس کمپنیوں نے حکومتی اداروں سے بس پرمٹ بھی بنوا لیے تھے جس کی فیس ہی تقریباً 60 ہزار روپے فی پرمٹ ہے، اور اس کے ساتھ ایک لاکھ سکیورٹی ڈیپازٹ بھی ادا کیا جا چکا تھا۔ کوئٹہ میں 200-400 تک بسوں کا شیڈول جاری ہو چکا ہے، ایران عراق میں ہوٹلوں کی کنفرم بکنگ سے لے کر ہر چیز کی ادائیگی ہو چکی ہے جو اب واپس نہیں ملے گی۔ یہ زائرین کا نقصان ہے، ٹریول ایجنٹوں کا نقصان ہے، بس مالکان اور ٹرانسپورٹ کمپنیوں سمیت ہر بندے کا نقصان ہے۔ حکومت کو بتا دینا چاہیے تھا کہ ہم بذریعہ سڑک سفر کی اجازت نہیں دیں گے۔ بذریعہ سڑک جانے والے زائرین کے پاس پہلے ہی محدود رقم ہوتی ہے اور وہ ایک دم مزید دو سے تین لاکھ روپے ادا کی استطاعت نہیں رکھتے۔حکومت کو چاہیے کہ رواں برس زائرین کو ہوائی سفر پر سبسڈی دے تاکہ بائے روڈ جتنے خرچے میں ہی وہ عراق جا کر زیارت کر سکیں