اسلام آباد (ٹی این ایس) وزیر اعظم پاکستان شہبازشریف نے جنرل اسمبلی میں مسئلہ فلسطین بھرپور طریقے سے اٹھایا، فلسطین کا معاملہ حل کی جانب بڑھ رہا ہے اور فلسطینی عوام نے غزہ امن منصوبے کا خیرمقدم کیا ہے۔ٹرمپ کی جانب سے اس منصوبے کے اعلان کے وقت پاکستان کا بھی خصوصی طور پر ذکر کیا گیا اور وزیرِاعظم شہباز شریف نے اس 20 نکاتی منصوبے کا خیرمقدم کرتے ہوئے دو ریاستی حل پر زور دیا، انہوں نے ایک پوسٹ میں کہا کہ فلسطینی عوام اور اسرائیل کے درمیان پائیدار امن خطے میں سیاسی استحکام اور اقتصادی ترقی کے لیے ناگزیر ہے۔7 اکتوبر 2023سے اسرائیل کی غزہ پر جنگ میں اب تک کم از کم 66 ہزار 55 افراد شہید اور ایک لاکھ 68 ہزار 346 زخمی ہو چکے ہیں، ہزاروں مزید افراد ملبے کے نیچے دبے ہونے کا خدشہ ہے، جنہیں مردہ تصور کیا جارہا ہے حملوں میں اسرائیل میں ایک ہزار 139 افراد ہلاک ہوئے تھےاس منصوبے کو کئی ممالک نے خوش آمدید کہا ہے جن میں سعودی عرب، اردن، متحدہ عرب امارات، قطر، مصر، اٹلی، فرانس اور برطانیہ کے ساتھ ساتھ فلسطینی اتھارٹی بھی شامل ہیں۔واضح رہے کہ ٹرمپ کے پہلے دورِ صدارت میں طے پانے والے ابراہام معاہدوں کے تحت 4 مسلم اکثریتی ممالک نے امریکا کی ثالثی میں اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے پر اتفاق کیا تھا۔ وزیراعظم کے بیان پر ملک بھر میں شدید ردِعمل سامنے آیا ہے، سیاستدانوں، ماہرین، صحافیوں اور کارکنوں نے اسے ’سرنڈر‘ قرار دیا۔ سینیٹ میں اظہار خیال کرتے ہوئے وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑنے کہا کہ فلسطین کا معاملہ حل کی جانب بڑھ رہا ہے، فلسطینی عوام نے غزہ امن منصوبے کا خیرمقدم کیا ہے۔حرمین شریفین کی حفاظت کیلئے دفاعی معاہدے پر فخر ہے۔
ٹرمپ غزہ امن منصوبہ ; اسلامی رہنماؤں کےاتحاد کی وجہ سے گریٹر اسرائیل منصوبہ ناکام ہو رہا ہے پاکستان فلسطین کاز پر ہمیشہ بہت مضبوط آواز رہاہے غزہ میں امن کے لیےٹرمپ منصوبہ اسلامی رہنماؤں کےاتحاد کا مظہر ہےحال ہی میں امریکی صدر کے ساتھ ایک نتیجہ خیز ملاقات میں اسلامی رہنماؤں کے اتحاد نے غزہ میں امن کے لیےاہم کردار ادا کیاہےوزیر اعظم پاکستان شہباز شریف کی سفارت کاری کو دنیا بھر میں سراہا گیا.ٹرمپ کا امن منصوبہ، غزہ جنگ کا خاتمہ یا مذاکرات کے نئے دور کا نقطہ آغازہے؟ پاکستان، سعودی عرب، قطر، اردن، ترکیہ، متحدہ عرب امارات، مصر اور انڈونیشیا کی جانب سے مشترکہ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ وہ معاہدے کو حتمی شکل دینے کے لیے ’تعمیری‘ کردار ادا کریں گے۔ انہوں نے جنگ کے خاتمے کی ٹرمپ کی ’مخلصانہ کوششوں‘ کا خیرمقدم کیا جس سے غزہ کو دوبارہ تعمیر کیا جاسکے گا اور فلسطینیوں کی نقل مکانی کو روکا جاسکے گا۔اس بیان میں امریکی صدر کی جانب سے مغربی کنارے کے الحاق کی اجازت نہ دینے کی بھی تعریف کی گئی ہے۔ وزرائے خارجہ کے اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ وہ ’دو ریاستی حل کی بنیاد پر امن کا قیام‘ چاہتے ہیں اور غزہ کا مکمل طور پر مغربی کنارے کے ساتھ فلسطینی ریاست میں ضم کے خواہاں ہیں۔ اس کے بعد انٹرنیشنل اسٹیبلائزیشن فورس (آئی ایس ایف) کا سوال آتا ہے جو کسی حد تک غزہ میں امن کو یقینی بنانے والی فوج کی طرح کام کرے گی۔ جامع منصوبہ‘ کہتا ہے کہ یہ نئی فورس اسرائیلی فوج کے غزہ سے انخلا کے وقت کنٹرول سنبھالے گی اور حالات کو مستحکم رکھے گی اس نے کچھ اہداف مقرر کیے ہیں جنہیں فوج کے انخلا کے لیے پورا کرنا ہوگا اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کم از کم نظریاتی طور پر، امریکا کی یہ توقع ہے کہ اسرائیلی فوج اور نئی سیکیورٹی فورس مل کر کام کریں گی گزشتہ رات بنیامن نیتن یاہو نے کہا کہ اسرائیل مستقبل قریب میں غزہ اور اس کے ارد گرد کے علاقوں میں سیکیورٹی کا ذمہ دار رہے گا پاکستان کبھی بھی اپنی افواج کو اسرائیل کے زیرِ کنٹرول کسی بھی علاقے میں نہیں بھیجے گا۔ ٹرمپ کی فہرست میں شامل دیگر مسلم ممالک بھی شاید ایسا ہی محسوس کرتے ہوں گے۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے غزہ تنازع کے خاتمے کے لیے وائٹ ہاؤس کے جاری کردہ جامع منصوبے کا مکمل متن درج ذیل ہے، 1۔ غزہ ایک غیر انتہا پسند، دہشت گردی سے پاک علاقہ ہوگا جو اپنے ہمسایوں کے لیے کوئی خطرہ نہیں ہوگا۔ 2۔ غزہ کو اس کے عوام کے فائدے کے لیے دوبارہ تعمیر کیا جائے گا، جو پہلے ہی بہت زیادہ تکالیف برداشت کر چکے ہیں۔ 3۔ اگر دونوں فریق اس تجویز پر رضامند ہو جائیں تو جنگ فوراً ختم ہو جائے گی، اسرائیلی فوجیں یرغمالیوں کی رہائی کی تیاری کے لیے متفقہ لائن تک پیچھے ہٹ جائیں گی، اس دوران فضائی اور توپ خانے کی بمباری سمیت تمام عسکری اقدامات معطل کیے جائیں گے، اور جنگی صفیں اس وقت تک منجمد رہیں گی جب تک مکمل مرحلہ وار واپسی کے لیے ضروری شرائط پوری نہ ہو جائیں۔ 4۔ اسرائیل کی جانب سے اس معاہدے کو عوامی سطح پر منظور کیے جانے کے 72 گھنٹے کے اندر تمام [قیدی]، چاہے زندہ ہوں یا مردہ، واپس کیے جائیں گے۔ 5۔ جیسے ہی تمام [قیدی] رہا کر دیے جائیں گے، اسرائیل عمر قید کے 250 قیدیوں کے علاوہ غزہ کے 1700 ایسے باشندوں کو رہا کرے گا جو 7 اکتوبر 2023 کے بعد حراست میں لیے گئے تھے، جن میں اس سلسلے میں زیرِ حراست تمام خواتین اور بچے شامل ہیں، ہر اسرائیلی یرغمالی کی لاش کے بدلے اسرائیل غزہ کے 15 شہدا کی میتیں حوالے کرے گا۔ 6۔ جیسے ہی تمام [قیدی] واپس کر دیے جائیں گے، حماس کے وہ ارکان جو پرامن بقائے باہمی اور اپنے ہتھیار غیر فعال کرنے کے عہد پر قائم ہوں گے، انہیں عام معافی دی جائے گی، حماس کے وہ ارکان جو غزہ چھوڑنا چاہتے ہیں، انہیں وصول کرنے والے ممالک تک محفوظ راستہ فراہم کیا جائے گا۔ 7۔ اس معاہدے کی منظوری کے فوراً بعد غزہ کی پٹی میں مکمل امداد بھیج دی جائے گی، کم از کم امداد کی مقدار وہی ہوگی جو 19 جنوری 2025 کے معاہدے میں انسانی ہمدردی کی امداد کے حوالے سے طے کی گئی تھی، جس میں بنیادی ڈھانچے (پانی، بجلی، نکاسی آب) کی بحالی، ہسپتالوں اور بیکریوں کی بحالی، اور ملبہ ہٹانے اور سڑکیں کھولنے کے لیے ضروری سامان کی فراہمی شامل ہے۔ 8۔ غزہ کی پٹی میں امداد اور اس کی تقسیم کا عمل اقوام متحدہ اور اس کے اداروں، ہلالِ احمر اور کسی بھی فریق سے غیر وابستہ دیگر بین الاقوامی اداروں کے ذریعے بلا مداخلت جاری رہے گا، رفح کراسنگ کو دونوں اطراف سے اسی طرح کھولا جائے گا جیسا 19 جنوری 2025 کے معاہدے میں نافذ کیا گیا تھا۔ 9۔ غزہ کا انتظام ایک عارضی عبوری نظامِ حکومت کے تحت ہوگا جو تکنیکی ماہرین پر مشتمل غیر سیاسی فلسطینی کمیٹی کے ذریعے چلایا جائے گا، یہ کمیٹی غزہ کے عوام کے لیے عوامی خدمات اور بلدیاتی امور کی روزمرہ نگرانی اور انجام دہی کی ذمہ دار ہوگی۔ یہ کمیٹی ماہر فلسطینیوں اور بین الاقوامی ماہرین پر مشتمل ہوگی، جس کی نگرانی اور دیکھ بھال ایک نئے بین الاقوامی عبوری ادارے ’بورڈ آف پیس‘ کے ذریعے کی جائے گی، جس کی قیادت اور صدارت صدر ڈونلڈ جے ٹرمپ کریں گے، دیگر اراکین اور سربراہانِ مملکت کا اعلان بعد میں کیا جائے گا، جن میں سابق برطانوی وزیرِاعظم ٹونی بلیئر بھی شامل ہوں گے۔ یہ ادارہ غزہ کی دوبارہ تعمیر کے لیے فریم ورک تشکیل دے گا اور فنڈنگ کا انتظام کرے گا، یہاں تک کہ فلسطینی اتھارٹی اپنی اصلاحاتی منصوبہ بندی مکمل کر لے، (جیسا کہ مختلف تجاویز میں بیان کیا گیا ہے، جن میں صدر ٹرمپ کا 2020 کا امن منصوبہ اور سعودی۔فرانسیسی تجویز شامل ہیں) اور اس قابل ہو جائے کہ وہ غزہ کا مؤثر اور محفوظ طریقے سے کنٹرول دوبارہ سنبھال سکے، یہ ادارہ بہترین بین الاقوامی معیارات کی بنیاد پر جدید اور مؤثر طرزِ حکمرانی قائم کرنے کی کوشش کرے گا جو غزہ کے عوام کی خدمت کرے اور سرمایہ کاری کے لیے سازگار ماحول فراہم کرے۔
10۔ غزہ کی تعمیرِ نو اور اسے ترقی کی نئی راہ پر گامزن کرنے کے لیے ٹرمپ کا اقتصادی ترقیاتی منصوبہ تشکیل دیا جائے گا، جس کے لیے ایسے ماہرین پر مشتمل ایک پینل قائم کیا جائے گا جنہوں نے مشرقِ وسطیٰ میں جدید اور خوشحال معجزاتی شہروں کی بنیاد رکھنے میں کردار ادا کیا ہے، کئی بین الاقوامی تنظیموں کی جانب سے سوچے سمجھے سرمایہ کاری کے منصوبے اور پرجوش ترقیاتی تجاویز تیار کی گئی ہیں، جنہیں زیرِ غور لایا جائے گا تاکہ سیکیورٹی اور حکمرانی کے ڈھانچوں کو یکجا کر کے ایسی سرمایہ کاری کو راغب اور آسان بنایا جا سکے جو غزہ کے مستقبل کے لیے روزگار، مواقع اور امید فراہم کرے گی۔ 11۔ ایک خصوصی اقتصادی زون قائم کیا جائے گا، جس کے لیے ترجیحی ٹیرف اور رسائی کی شرحیں شریک ممالک کے ساتھ طے کی جائیں گی۔ 12۔ کسی کو بھی غزہ چھوڑنے پر مجبور نہیں کیا جائے گا اور جو لوگ جانا چاہیں گے وہ آزاد ہوں گے کہ جا سکیں اور واپس بھی آسکیں، ہم لوگوں کو یہاں رہنے کی ترغیب دیں گے اور انہیں ایک بہتر غزہ تعمیر کرنے کا موقع فراہم کریں گے۔ 13۔ حماس اور دیگر دھڑے اس بات پر متفق ہیں کہ وہ غزہ کی حکمرانی میں براہِ راست، بالواسطہ یا کسی بھی شکل میں کوئی کردار نہیں رکھیں گی، تمام فوجی، دہشت گردی سے متعلق اور جارحانہ انفرااسٹرکچر، بشمول سرنگیں اور اسلحہ بنانے کی فیکٹریاں، تباہ کی جائیں گی اور دوبارہ تعمیر نہیں کی جائیں گی۔ غزہ کو غیر عسکری بنانے کا ایک عمل آزاد نگرانوں کی نگرانی میں انجام دیا جائے گا، جس میں اسلحہ کو ایک طے شدہ غیر فعال کرنے کے طریقہ کار کے تحت مستقل طور پر ناقابلِ استعمال بنایا جائے گا، اور اسے ایک بین الاقوامی مالی معاونت یافتہ باز خریداری اور دوبارہ شمولیت کے پروگرام سے سہارا دیا جائے گا، آزاد نگران تمام مراحل کی توثیق کریں گے، نیا غزہ ایک خوشحال معیشت کی تعمیر اور اپنے پڑوسیوں کے ساتھ پُرامن بقائے باہمی کے لیے پوری طرح پرعزم ہوگا۔ 14۔ علاقائی شراکت داروں کی جانب سے ایک ضمانت فراہم کی جائے گی تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ حماس اور دیگر دھڑے اپنی ذمہ داریوں کی پابندی کریں اور نیا غزہ اپنے ہمسایوں یا اپنے لوگوں کے لیے کوئی خطرہ نہ ہو۔ 15۔ امریکا، عرب اور بین الاقوامی شراکت داروں کے ساتھ مل کر ایک عارضی بین الاقوامی استحکام فورس (آئی ایس ایف) تیار کرے گا جو فوری طور پر غزہ میں تعینات کی جائے گی، آئی ایس ایف غزہ میں جانچ پڑتال شدہ فلسطینی پولیس فورسز کو تربیت اور معاونت فراہم کرے گی، اور اس سلسلے میں وسیع تجربہ رکھنے والے اردن اور مصر سے مشاورت کرے گی۔ یہ فورس طویل المدتی داخلی سلامتی کا حل ہوگی، آئی ایس ایف اسرائیل اور مصر کے ساتھ مل کر نئے تربیت یافتہ فلسطینی پولیس اہلکاروں کے ساتھ سرحدی علاقوں کو محفوظ بنانے میں مدد کرے گی، یہ نہایت ضروری ہے کہ غزہ میں اسلحہ داخل ہونے سے روکا جائے اور تعمیرِ نو و بحالی کے لیے سامان کی تیز اور محفوظ ترسیل کو ممکن بنایا جائے، فریقین کے درمیان ایک ٹکراؤ سے بچاؤ کا طریقہ کار طے کیا جائے گا۔ 16۔ اسرائیل غزہ پر قبضہ یا الحاق نہیں کرے گا، جب آئی ایس ایف کنٹرول اور استحکام قائم کرے گا تو اسرائیلی فوج ایسے معیارات، سنگ میل اور وقتی حدود کی بنیاد پر پیچھے ہٹے گی جو اسرائیلی فوج، آئی ایس ایف، ضامنوں اور امریکا کے درمیان طے کیے جائیں گے، مقصد یہ ہوگا کہ ایک محفوظ غزہ قائم کیا جائے جو اسرائیل، مصر یا اس کے شہریوں کے لیے خطرہ نہ رہے۔ اسرائیلی فوج عبوری اتھارٹی کے ساتھ کیے گئے معاہدے کے تحت عملی طور پر غزہ کے مقبوضہ علاقے کو بتدریج آئی ایس ایف کے حوالے کرے گی، یہاں تک کہ وہ مکمل طور پر غزہ سے واپس نہ ہو جائیں، تاہم ایک سیکیورٹی حصار کے طور پر موجودگی برقرار رہے گی جب تک کہ غزہ کسی دوبارہ سر اُٹھانے والے دہشت گردی کے خطرے سے مکمل طور پر محفوظ نہ ہو جائے۔ 17۔ اگر حماس اس تجویز میں تاخیر کرے یا اسے رد کر دے تو اوپر بیان کردہ اقدامات، بشمول بڑھائی گئی امدادی کارروائی، ان دہشت گردی سے پاک علاقوں میں جاری رکھے جائیں گے جو اسرائیلی فوج نے آئی ایس ایف کے حوالے کیے ہوں گے۔ 18۔ ایک بین المذاہب مکالمے کا عمل قائم کیا جائے گا جو رواداری اور پُرامن بقائے باہمی کی اقدار پر مبنی ہوگا، تاکہ فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کی ذہنیت اور بیانیے کو بدلنے کی کوشش کی جا سکے اور امن سے حاصل ہونے والے فوائد کو اجاگر کیا جا سکے۔ 19۔ جب غزہ کی تعمیرِ نو آگے بڑھے گی اور فلسطینی اتھارٹی کا اصلاحاتی پروگرام دیانت داری سے نافذ کیا جائے گا، تو ممکن ہے کہ ایسے حالات آخرکار میسر آجائیں جو فلسطینی عوام کی خواہشات کے مطابق ان کی خود ارادیت اور ریاست کے قیام کے لیے ایک معتبر راستہ فراہم کریں، جسے ہم فلسطینی عوام کی آرزو کے طور پر تسلیم کرتے ہیں۔ 20۔ امریکا اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان ایک مکالمہ عمل شروع کرے گا تاکہ پُرامن اور خوشحال بقائے باہمی کے لیے ایک سیاسی افق پر اتفاق ہو سکے۔بہت سے اہم معاملات غزہ جنگ کے خاتمے کے لیے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے نام نہاد ’جامع منصوبے‘ پر منحصر ہیں، اس لیے یہ امکان نہیں ہے کہ اس منصوبے کو مکمل طور پر ناکام ہونے دیا جائے گا۔ امریکی صدر نے یقینی بنایا ہے کہ خود اسرائیل، مسلم ممالک کے بلاک اور یورپ سمیت تمام بااثر اسٹیک ہولڈرز کو اس منصوبے کے لیے اعتماد میں لیا جائے جو جنگ کے خاتمے کے بعد فلسطینی علاقوں میں ایک مثالی صورت حال کا تصور پیش کرتا ہے۔ اس امن مسودے کے کچھ ایسے حصے ہیں جن پر تل ابیب اور فلسطینی گروہوں، دونوں کی جانب سے اعتراضات سامنے آسکتے ہیں۔ لہٰذا اس بات کا امکان نہیں ہے کہ وائٹ ہاؤس کی جانب سے جاری کردہ مسودہ، زیادہ عرصے تک کسی رد و بدل سے محفوظ رہ پائے گا مجوزہ منصوبے میں حماس اراکین یا کم از کم وہ جو پُرامن رہنے اور ہتھیار ڈالنے پر رضامند ہوں گے، انہیں معاف کردیا جائے گا یا غزہ سے نکلنے کا محفوظ راستہ فراہم کیا جائے گا۔ امکان نہیں کہ یہ نکتہ بنیامن نیتن یاہو کی کابینہ کے سخت گیر اراکین کے لیے قابلِ قبول ہوگا وہ ایسے منصوبے کو پسند نہیں کریں گے جس کا نفاذ غزہ پر قبضہ کرنے کی اسرائیلی صلاحیت کو روکے جبکہ وہ مسودے کے نکتہ 19 کی سختی سے مخالفت کریں گے جو فسلطینی ریاست کی راہ ہموار کرتا ہے امریکی صدر کے نقطہ نظر سے، اس میں ایک ’گیٹ آؤٹ‘ شق بھی موجود ہے یعنی ’اگر حماس معاہدے کو مسترد کرتا ہے تو اسرائیل کو امریکا کی مکمل حمایت حاصل ہوگی کہ وہ جو کرنا چاہے کرسکتا ہے فلسطینی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو یہ منصوبہ زیادہ تر ان مفادات کی حمایت کرتا ہے جو اسرائیل چاہتا ہے جبکہ یہ فلسطینی مفادات کا تحفظ نہیں کرتا۔ حماس نے زور دیا ہے کہ وہ ایسے کسی منصوبے کو قبول نہیں کریں گے کہ جس میں جنگ کا خاتمہ نہ ہو اورجو غزہ سے اسرائیلی افواج کے انخلا کی ضمانت نہ دیتا ہو لیکن حماس اب مستقبل میں خود کو ایسی پوزیشن میں پا سکتا ہے جہاں وہ ماضی میں پیش کیے گئے مسودے جنہیں انہوں نے مسترد کردیا تھا، موجودہ پیش کش سے زیادہ پُرکشش محسوس کریں گے۔ فلسطینی اسلامی جہاد کے رہنما زیاد النخالہ نے کہا کہ وہ غزہ کے لیے امریکی منصوبہ، خطے کے لیے ’تباہی کا نسخہ‘ سمجھتے ہیں۔ٹرمپ کا ’جامع منصوبہ‘ پہلی بار پیر کی رات کو عوامی طور پر جاری کیا گیا لیکن گزشتہ ہفتے کے دوران بین الاقوامی خبر رساں اداروں کی جانب سے اس اور اس سے متعلقہ تجاویز کی اطلاع ایک سیریز کی صورت میں دی جارہی تھیں۔ حماس سے پاک غزہ کا تصور کرنے کے علاوہ، اس 20 نکاتی مسودے میں جنگ کے خاتمے کے بعد تباہ حال پٹی میں ’بحالی و تعمیر نو‘ کے عمل پر توجہ دی گئی ہے جہاں عبوری، ٹیکنوکریٹک سیٹ اپ کو بنیادی عوامی اور میونسپل خدمات کی فراہمی کی ذمہ داریاں سونپی جائیں گی اسرائیلی خبررساں ادارے کے مطابق ممکنہ طور پر اس مجوزہ منصوبے میں یہاں غزہ بین الاقوامی عبوری اتھارٹی کا حوالہ دیا گیا ہے۔ اس منصوبے میں ایک ایسے نظام کا تصور پیش کیا گیا ہے جس میں ارب پتی اور دولت مند کاروباری حضرات بین الاقوامی بورڈ کے اعلیٰ عہدوں پر فائز ہوں گے جبکہ احتیاط سے منتخب کردہ ’غیرجانبدار‘ فلسطینی منتظمین نچلے عہدوں پر ہوں گے مڈل ایسٹ آئی کے مطابق برطانیہ کے سابق وزیر اعظم ٹونی بلیئر کے پیش کردہ مسودے کے تحت، یہ اتھارٹی ایک بین الاقوامی بورڈ کے ذریعے چلائی جائے گی جس کے پاس ’عبوری مدت کے دوران غزہ کے لیے اعلیٰ ترین سیاسی و قانونی اختیارات‘ ہوں گے۔ یہ انتظامیہ اسرائیل، مصر اور امریکا کے تعاون سے کام کرے گی اور ہاریٹز کے اسرائیلی ذرائع کے مطابق، اسے وائٹ ہاؤس کی حمایت بھی حاصل ہوگی۔ بورڈ تمام تقرریوں کا ذمہ دار ہوگا اور اتھارٹی کے ہر جزو کی نگرانی کرے گا۔ ایسا لگتا ہے یہ اتھارٹی وہی ’بورڈ آف پیس‘ ہے جس کا ذکر گزشتہ رات اپنی پریس کانفرنس میں ڈونلڈ ٹرمپ نے کیا تھا کہ وہ بذات خود اس کی سربراہی کریں گے۔ اس بورڈ میں اقوامِ متحدہ کے ایک سینئر عہدیدارکو بھی شامل کیا جائے گا جبکہ ایگزیکٹیو اور مالیاتی مہارت رکھنے والی سرکردہ معروف بین الاقوامی شخصیات’ کی بھی اس میں شمولیت کا امکان ہے۔ اس بورڈ میں ’کم از کم ایک اہل فلسطینی نمائندہ‘ ہوگا جس کا تعلق ممکنہ طور پر ’کاروبار یا سیکیورٹی سیکٹر‘ سے ہوگا لیکن یہ واضح نہیں تھا کہ یہاں ’اہل‘ کے معنیٰ کیا ہیں دستاویز میں کہا گیا ہے کہ بورڈ میں بہت سے مسلمان ممبران کو شامل کیا جائے گا تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ اس اتھارٹی کو علاقائی اور ثقافتی اعتبار سے مسلم اراکین کی حمایت حاصل ہے’۔ ان مسلم اراکین کو مثالی طور پر اپنے ممالک کی سیاسی حمایت حاصل ہوگی جبکہ وہ ’دیرینہ کاروباری ساکھ‘ کے بھی مالک ہوں گے اگرچہ اسے فلسطینی ایگزیکٹو اتھارٹی کہا جاتا ہے لیکن اپنے نام کے برعکس یہ جنگ کے خاتمے کے بعد غزہ کے نئے نظام میں سب سے نچلی سطح پر ہوگی اور اس کے پاس حقیقی آزاد اختیارات زیادہ نہیں ہوں گے۔ یہ اُس فلسطینی اتھارٹی سے الگ ہے جو مقبوضہ مغربی کنارے کا انتظام سنبھالتی ہے۔ فلسطینی ایگزیکٹو اتھارٹی، ٹیکنو کریٹک وزارتوں پر مشتمل ہوگی جو صحت، تعلیم، پانی کی فراہمی اور توانائی، لیبر مارکیٹ کی پالیسیز، ہاؤسنگ، مقامی فوجداری نظام عدل اور فلاح و بہبود کے علاوہ کچھ دیگر پالیسی شعبوں کا انتظام سنبھالے گی۔ اس کی سربراہی ایک ’فلسطینی چیف ایگزیکٹو آفیسر‘ کرے گا جسے بین الاقوامی بورڈ تعینات کرے گا۔ یہ قابل ذکر ہے کہ پوری دستاویز میں تمام کرداروں کے لیے استعمال ہونے والی زبان جیسے بورڈ، چیئرمین اور سی ای او سے ایسا لگتا ہے جیسے کسی ملک یا علاقے کی نہیں بلکہ کسی کاروباری ڈھانچے کے متعلق بات ہورہی ہوفلسطینی سی ای او، صحت، تعلیم، انفرااسٹرکچر اور منصوبہ بندی جیسے مختلف شعبوں کے لیے ’ڈائریکٹرز‘ کی سربراہی کرے گا اور ان ڈائریکٹرز کے انتخاب کا اختیار سی ای او کو حاصل ہوگا۔ ڈائریکٹرز کو ’تکنیکی قابلیت، دیانتداری اور غیر جانبداری کے معیارات پر پورا اترنا‘ ہوگا

ارب پتی اور کاروباری افراد کا بین الاقوامی گروپ اس بات کا حتمی فیصلہ کرے گا کہ کس کو تعینات کیا جائے، تاکہ ’ادارہ جاتی ساکھ اور اس کی خودمختاری کو تحفظ فراہم کیا جاسکے دستاویز کے مطابق ’تمام محکمہ جات کے سربراہان کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے گا اور انہیں اپنی عبوری حکمرانی کے طریقہ کار کی بنیاد پر برطرف یا تبدیل کیا جاسکتا ہے امریکی صدر نے واضح کیا ہے کہ مسلم ممالک حماس کے ساتھ ڈیل کریں گے اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ٹرمپ مسلم بلاک پر منصوبے پر تعمیل کو یقینی بنانے کی ذمہ داری دے رہے ہیں جنہیں گزشتہ ہفتے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر ٹرمپ کے ساتھ ملاقات کے دوران اس تجویز کے نکات کے حوالے سے بظاہر آگاہ کیا گیا تھا۔ اس کے باوجود اس مسودے میں کچھ ایسے عناصر شامل ہیں جو شاید اتحادیوں کے عدم اطمینان کا باعث بنیں اگرچہ اب حماس پر قطر و دیگر عرب ممالک کی جانب سے نکات کو قبول کرنے کے حوالے سے دباؤ ہے لہٰذا اب حقیقی مذاکرات کا آغاز ہوگا جہاں دونوں فریقین جامع منصوبے‘ میں استعمال ہونے والی مبہم زبان پر آپس میں بحث کریں گے اس تناظر میں تازہ ترین پیش رفت جنگ کا اختتام نہیں بلکہ ایک طرح سے مذاکرات کی بحالی کی بنیاد ہے اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے قطری وزیراعظم سے فون کال پر دوحہ حملے پر معذرت کی جبکہ اسرائیل اور قطر نے امریکی صدر کی ہم آہنگی کو فروغ دینے کے لیے ’ سہ فریقی نظام’ قائم کرنے کی تجویز منظور کرلی۔وائٹ ہاؤس کے مطابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو اور قطر کے وزیر اعظم محمد بن عبدالرحمن بن جاسم الثانی کے ساتھ سہ فریقی ٹیلی فونک گفتگو کی گفتگو میں صدر نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ کئی برسوں کی باہمی شکایات اور غلط فہمیوں کے بعد اسرائیل اور قطر کے تعلقات کو مثبت سمت میں ڈالا جائے۔رہنماؤں نے صدر کی اس تجویز کو قبول کیا کہ ایک سہ فریقی نظام قائم کیا جائے تاکہ ہم آہنگی کو فروغ دیا جا سکے، رابطے بہتر ہوں، باہمی شکایات حل ہوں اور خطرات کو روکنے کے لیے اجتماعی کوششیں مضبوط کی جائیں۔انہوں نے تعمیری طور پر ساتھ مل کر کام کرنے، غلط فہمیوں کو دور کرنے اور امریکا کے ساتھ اپنے دیرینہ تعلقات کو بنیاد بنانے کے عزم کا اعادہ کیا۔خیال رہے کہ اسرائیل نے 9 ستمبر کو قطر کے دارالحکومت دوحہ میں حماس کے سینئر رہنماؤں کو نشانہ بنانے کے لیے فضائی حملہ کیا تھا۔تاہم حملے میں حماس رہنما خلیل الحیہ محفوظ رہے تھے لیکن ان کے بیٹے اور معاون سمیت 6 افراد شہید ہو گئے تھے۔یہ حملہ اُس وقت ہوا تھا، جب حماس کے مذاکرات کار امریکا کی جانب سے پیش کی گئی تازہ ترین جنگ بندی کی تجویز پر غور کرنے کے لیے ملاقات کر رہے تھے۔حماس غزہ کی پٹی پر برسراقتدار فلسطینی عسکریت پسند گروہ ہے جو 2007 میں اقتدار سنبھالنے سے اب تک اسرائیل کے ساتھ متعدد جنگیں لڑ چکا ہے۔ ان جنگوں کے علاوہ حماس نے اسرائیل پر ہزاروں راکٹ داغے ہیں اور کئی حملے کیے ہیں۔ اسرائیل نے بھی حماس کو کئی بار فضائی حملوں سے نشانہ بنایا ہے۔ 2007 سے اسرائیل نے مصر کی مدد سے غزہ کی پٹی کا محاصرہ کر رکھا ہے۔ اسرائیل، امریکہ، برطانیہ اور یورپی یونین سمیت کئی عالمی طاقتیں حماس یا اس کے عسکری ونگ کو دہشت گرد قرار دے چکی ہیں۔ حماس کو ایران کی حمایت حاصل ہے حماس اور اسرائیل کے درمیان مستقل تناؤ موجود رہتا ہے ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام میں تاخیر کے علاوہ اسرائیل کی جانب سے غرب اردن میں یہودی بستیوں کی تعمیر اور ان کے گرد سکیورٹی رکاوٹوں کی تعمیر نے امن کے حصول کو مشکل بنا دیا ہے۔ تاہم ان کے علاوہ بھی کئی اختلافات موجود ہیں۔ اسرائیل یروشلم پر مکمل دعوی کرتا ہے اور اس کا دعوی ہے کہ یہ اس کا دارالحکومت ہے۔ تاہم اس دعوے کو بین الاقوامی حمایت حاصل نہیں ہے۔ فلسطینی مشرقی یروشلم کو اپنا دارالحکومت بنانا چاہتے ہیں۔ فلسطینیوں کا مطالبہ ہے کہ ان کی مستقبل کی ریاست کے سرحدیں 1967 کی جنگ سے قبل کی حالت پر طے ہونی چاہیے تاہم اسرائیل اس مطالبے کو تسلیم نہیں کرتا۔ اسرائیل نے 1967 کی جنگ کے بعد جن علاقوں پر قبضہ کیا، وہاں غیر قانونی بستیاں تعمیر کی گئی ہیں اور اب غرب اردن اور مشرقی یروشلم میں پانچ لاکھ کے قریب یہودی بستے ہیں۔ ایک اور معاملہ فلسطینی تارکین وطن کا بھی ہے۔ پی ایل او کا دعوی ہے کہ اس وقت دنیا بھر میں ایک کروڑ سے زیادہ فلسطینی موجود ہیں جن میں سے نصف اقوام متحدہ کے ساتھ رجسٹر ہیں۔ فلسطینیوں کا کہنا ہے کہ ان افراد کو اسرائیل واپس آنے کا حق حاصل ہے جبکہ اسرائیل کا ماننا ہے کہ ایسا کرنے سے اس کی یہودی شناخت خطرے میں پڑ سکتی ہے۔ ایسے میں امن کیسے قائم ہو گا؟ اس کے لیے دونوں جانب سے چند اقدامات ضروری ہوں گے۔ اسرائہل کو فلسطیونیوں کی آزاد ریاست کا حق تسلیم کرنا ہو گا، غزہ کی پٹی کے محاصرہ ختم کرنا ہو گا اور مشرقی یروشلم اور غرب اردن میں رکاوٹیں ختم کرنی ہوں گی۔ پاکستانی فلسطین اور کشمیر کے درد کو اپنا درد سمجھتے ہیں علامہ اقبالؒ نے 3جولائی 1937ء کو اپنے ایک تفصیلی بیان میں کہا تھا کہ عربوں کو چاہئے کہ اپنے قومی مسائل پر غوروفکر کرتے وقت اپنے بادشاہوں کے مشوروں پر اعتماد نہ کریں کیونکہ یہ بادشاہ اپنے ضمیروایمان کی روشنی میں فلسطین کے متعلق کسی صحیح فیصلے پر نہیں پہنچ سکتے۔ قائد اعظم ؒنے 15ستمبر 1937ء کو مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس منعقدہ لکھنؤمیں مسئلہ فلسطین پر تقریر کرتے ہوئے ایک قرارداد کے ذریعہ تمام مسلم ممالک سے درخواست کی گئی کہ وہ بیت المقدس کو غیر مسلموں کے قبضے سے بچانے کیلئے مشترکہ حکمت عملی وضع کریں پھر 23مارچ 1940ء کو آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس منعقدہ لاہور میں بھی مسئلہ فلسطین پر ایک قرار داد منظور کی گئی ۔













