اسلام آباد (ٹی این ایس) دنیا بھر میں جاری سلگتے ہوئے تنازعات عالمی امن کے لیے سنگین خطرہ بنتے جا رہے ہیں عالمی معاشی منظر نامہ تبدیل ہو رہا ہے جنوبی ایشیا کو غربت، ناخواندگی، ناگہانی افات سمیت دیگر چیلنجز درپیش ہیں خطے کے ممالک کو اپنے مسائل کے حل بارے سنجیدگی سے سوچنا ہوگا امن محض جنگ کے نہ ہونے کا نام نہیں بلکہ یہ عدل مساوات انسانی حقوق کے احترام اور معاشرتی ہم آہنگی پر مبنی ہوتا ہے تنازعات کا پر امن حل صرف ایک اصول نہیں بلکہ یہ عالمی استحکام کی لائف لائن ہے دنیا کے کئی خطوں میں جنگ کے شعلے بھڑک اٹھے ہیں ان بحرانوں نے بے شمار انسانی مصائب کو جنم دیا لاکھوں افراد بے گھر ہوئے ہیں فلسطین میں جاری مظالم اور بھارت کے غیر قانونی طور پر قابض مقبوضہ جموں وکشمیر کی بدحالی واضح مثالیں ہیں
دوسری عالمی جنگ کے اختتام پر معرض وجود میں آنے والی اقوام متحدہ کی تشکیل کا بنیادی مقصد آنے والی نسلوں کو جنگ کی لعنت سے محفوظ اور دنیا میں پائیدار امن کے قیام کو یقینی بنانا تھا مگر 24 اکتوبر 1945 کو اپنے قیام سے لے کر اب تک 80 برسوں میں ڈھائی سو سے زائد جنگیں ہوچکی ہیں عالمی برادری دنیا کو جوہری جنگ کے خطرات سے بچانا چاہتی ہے تو پھر اسے فوری طور پر ان تنازعات کی جانب بھرپور توجہ دینا ہوگی جو کسی بھی وقت چنگاری سے شعلوں میں تبدیل ہوکر پوری دنیا کے امن کو تہہ وبالا کر سکتے ہیںان میں تنازعہ کشمیر اور فلسطین آج بھی ایک سلگتی ہوئی آگ ہیں کشمیری اور فلسطینی 78 سال سے عالمی برادری اور انصاف اور انسانی حقوق کے علمبردار اداروں کی جانب دیکھ رہے ہیں کہ شاید ان کے مسائل کا کوئی حل نکل سکے، ان پر ہونے والے مظالم بند ہو جائیں دنیا نے ان کے حوالے سے جو قراردادیں منظورکر رکھی ہیں شاید ان پر عملدرآمد کرایا جائے اور ان خطوں کو ان کا جائز اور بنیادی حق دیا جائے مگر سات دہائیاں گزر جانے کے باوجود آج تک ایسا ممکن نہیں ہوسکا اور نہ ہی مستقبل قریب میں عالمی برادری سے کوئی ایسی امید کی جا سکتی ہے اقوام متحدہ کے فیصلے اس کی قراردادیں سفارشات سب کچھ اسرائیل اور بھارت ہوا میں اڑا رہے ہیں دونوں مقبوضہ خطوں میں ان کی ریاستی دہشت گردی بڑھتی جارہی ہے اور دنیا تماشائی بنی ہوئی ہے بھارت کی جانب سے کشمیریوں پر ڈھائے جانے والے مظالم برداشت کی حدوں سے تجاوز کر چکے ہیں۔ بچے بوڑھے جوان مرد و خواتین غرض کوئی بھی بھارتی ریاستی دہشت گردی سے محفوظ نہیں بچوں پر ایسا بہیمانہ تشدد کیا جاتا ہے کہ اسکے تصور سے ہی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں اور انسانیت شرمانے لگتی ہے مقبوضہ کشمیر میں جوانوں کو اغوا کر کے لاپتا کر دیا جاتا ہے اور بعد ازاں بے دردی سے مسخ شدہ لاشیں توہین آمیز انداز میں پھینک دی جاتی ہیں جو بھارت کی فرعونیت اور چنگیزیت کا منہ بولتا ثبوت ہوتی ہیں۔ خواتین کو جنسی تشدد کا نشانہ بنا کر حوا کی بیٹی کی حرمت و تقدس کو پامال کیا جاتا ہے ہنستے بستے گھروں کو اجاڑنا بھارتی فوج اور بھارتی پولیس کا مشغلہ بن چکا ہے 5 اگست 2019 کو نریندری مودی کی فاشسٹ حکومت نے مقبوضہ جموں وکشمیر کی جغرافیائی حیثیت میں تبدیلی کے اقدام کو کشمیر میں امن لانے کا اقدام قرار دیا تھا مگر حقیقت میںیہ اقدام کشمیریوں پر بھارتی ظلم وستم کے ایک نئے باب کا آغاز تھا’ جو ہنوز جاری ہے خطے میں امن آنا تو کجا یہ خطہ آج بھی ایک ایسے فلیش پوائنٹ کی حیثیت رکھتا ہے جو کسی بھی وقت ایک نئی جنگ بھڑکا سکتا ہے اور پہلگام واقعے کے بعد پیش آنے والے حالات نے یہ ثابت کردیا ہے کہ مسئلہ کشمیر کا پائیدار اور منصفانہ حل ہی اس خطے میں امن کی ضمانت ہے خطے میں وسائل اور مسائل یکجا ہیں ایک جانب بڑی آبادی بڑھتی ہوئی غربت اور نوجوان آبادی کے لئے روز گار کے مواقعوں کی کمی پاکستان سمیت خطے کے اکثر ممالک کا بنیادی مسئلہ ہے تو دوسری جانب سرحدی تنازعات اور دہشت گردی کے مسائل یکجہتی اور ہم آہنگی کے جذبات پر کاری ضرب لگار ہے ہیں پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدہ تعلقات اور کئی حل طلب مسائل کی وجہ سے نہ صرف خطے میں غربت اور بیروز گاری بڑھتی جارہی ہے بلکہ جنوبی ایشیا میں امن و خوشحالی کا خواب بھی ایک سراب بن کر رہ گیا ہے حالانکہ دونوں ممالک مذاکرات سے تنازعات کا حل ایک دوسرے کی خود مختاری کا احترام سیاست، ڈپلومیسی اور تجارت کو علیحدہ رکھ کر خطے کو سماجی ومعاشی ترقی کی راہ پر گامزن علاقائی امن و استحکام کو یقینی اور اپنے عوام کے معیار زندگی کو بہتر بنا سکتے ہیں لیکن بھارت اس کے لئے تیار نہیں پاکستان کسی کے خلاف جنگی عزائم نہیں رکھتا اس کا پہلا ہدف اپنے عوام کی معاشی اور سماجی اصلاح قومی ترقی غربت کا خاتمہ اور معاشی امکانات سے استفادہ کرنا ہے جبکہ بھارت عجیب ادھیڑ پن کا شکار ہے 10مئی کے واقعات اور پاکستانی فوج کے ہاتھوں بد ترین شکست کے بعد بھارتی حکمران ایک نفسیاتی کیفیت کا شکار بن چکے ہیں اور جنگ بندی کے بعد سے ا شتعال انگیز بیانات کا محاذ کھول رکھا ہے بھارتی حکمرانوں کے جارحانہ عزائم اور پاکستان کے خلاف دھمکی آمیز بیانات جنوبی ایشیا میں جنگ کے نئے خدشات کا سبب بن سکتے ہیں بھارتی قیادت کی زہر افشانی ایک ایسی ذہنیت کی عکاسی کر رہی ہے جو امن کے بجائے دشمنی کو ترجیح دیتی ہے بھارتی حکمرانوں کے جارحانہ عزائم اور پاکستان کے خلاف دھمکی آمیز بیانات جنوبی ایشیا میں جنگ کے نئے خدشات کا سبب بن سکتے ہیںن کے چہرے پر اڑنے والی ہوائیاں ظاہر کر رہی ہیں کہ وہ پھر سے بمباری اور مکاری پر مصر ہیں**













