سینیٹ قائمہ کمیٹی کا پرائیوٹ ممبر بل برائے بغیر سود قرض اور فاٹا میں 7500نئی اسامیوں کا جائزہ

 
0
372

 

اسلام آباد،اکتوبر 03 (ٹی این ایس):  سینیٹ قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کا اجلاس چیئرمین کمیٹی سینیٹر سلیم مانڈوی والا کی صدارت میں پارلیمنٹ ہاؤس میں منعقد ہوا ۔قائمہ کمیٹی نے سینیٹر سراج الحق کے پرائیوٹ ممبر بل برائے بغیر سود قرض کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا ۔ اراکین کمیٹی نے کہا کہ بل انتہائی اہمیت کا حامل ہے اور آئین کی دفعات میں بھی بل میں درج سفارشات پر عمل درآمد کا ذکر ہے۔ سینیٹر سراج الحق نے کہا کہ پاکستان کی غریب عوام لوگوں سےنجی سطح پر لئے جانے والے  قرض پر بھاری سود ادا کرتے ہیں اور ہمارے مذہب میں بھی سود کو حرام قراردیا گیا ہے۔ جس پر قائمہ کمیٹی نے وزارت خزانہ کو ہدایت کی کہ وہ اس بل کا تفصیل سے جائزہ لیکر ایک مہینے کے اندر تفصیلی رپورٹ پیش کرے۔ چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ اس بل کے حوالے سے اگر اراکین کمیٹی کوئی تجویز دینا چاہیں تو ان کا بھی جائزہ لیا جائے گا۔سینٹ اجلاس میں سینیٹر ہدایت اللہ کے توجہ دلاؤ نوٹس برائے فاٹا میں 7500نئی اسامیوں کے حوالے سے معاملے کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا۔ سینیٹر ہدایت اللہ نے کہا کہ فاٹا اور اس کی ایجنسیوں میں 2008میں سکولز اور ہسپتال تعمیر کیے گئے تھے جو اب کھنڈرات میں تبدیل ہورہے ہیں ۔300بچوں کے لیے ایک کلاس روم اور 200طلباء کے لیے ایک استاد وقف ہے۔ سیکرٹری خزانہ برائے فاٹا سیکرٹریٹ نے کہا کہ 5540 نئی پوسٹوں کی سمری وزارت خزانہ کو بھیجی تھی جس کا جواب ابھی تک نہیں دیا گیا ۔ سینئر جوائنٹ سیکرٹری خزانہ نے قائمہ کمیٹی کو بتایا کہ نومبر 4646نئی پوسٹوں کی تجویز آئی تھی ۔ 10اعتراضات تھے جو وزارت سیفران اور فاٹا سیکرٹریٹ کو بھجوائے ہیں ۔ 2ارب روپے کا معاملہ ہے۔ جس پر چیئرمین کمیٹی و اراکین کمیٹی نے کہا کہ بیوروکریسی مسائل کے حل کے بجائے ٹالنے کی کوشش کرتی ہے۔ وزارت خزانہ ، فاٹا سیکرٹریٹ اوروزارت سیفران کے ساتھ ملکر 15دن میں مسئلے کے حل کی رپورٹ قائمہ کمیٹی کوفراہم کرے۔ قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں پاکستان کی ایگمونٹ گروپ(Egmont) میں ممبر شپ کے حوالے سے معاملے کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا۔ ڈائریکٹر ایف ایم یو نے قائمہ کمیٹی کو بتایا کہ ایگمونٹ گروپ کے 156ممبران ہیں۔ پاکستان نے2012میں ممبرشپ کے لیے درخواست دی تھی ۔ کچھ قانونی مسائل تھے جن کو حل کیا جارہا ہے۔ ممبرشپ کے لیے 2ممبران ممالک سپانسر کرتے ہیں ۔ امریکہ اور جاپان نے پاکستان کو سپانسر کرنا ہے۔ ممبر شپ کے لیے دوبارہ درخواست دے د ی گئی ہے۔ اگلے سال تک ممبر شپ مل جائے گی۔جس پر چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ اگر کہیں مسائل کا سامنا ہے تو کمیٹی مدد کرنے کو تیار ہے۔ نومبر 2017 میں مسئلے کا دوبارہ جائزہ لیا جائے گا۔ کمپٹیشن کمیشن آف پاکستان کے ادارے کی آمد ن میں اضافے کے حوالے سے معاملے کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا۔قائمہ کمیٹی کو بتایا گیا کہ ایس ای سی پی کے علاوہ دیگر ریگولیٹری ادارے نیپرا، اوگراوغیرہ ٹیکس /فنڈز جمع نہیں کرارہے۔ وزارت قانون کے حکام نے قائمہ کمیٹی کو بتایا کہ سی سی پی کے ایکٹ میں اگر یہ چیز شامل ہیں تو ریگولیٹری ادارے جع کرانے کے پابند ہیں ۔ چاہے ان کے رولز میں درج نہ بھی ہو۔ جس پر کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ رپورٹ تیار کرکے سینٹ ہاؤس میں پیش کرکے اختیار کی جائے گی اور تمام ریگولیٹری اداروں کو بھیج کر عملدرآمد کرایا جائے گا۔ اراکین کمیٹی نے رپورٹ اختیار کرنے کی منظوری بھی دے دی ۔ قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں سینیٹرز ، نسرین جلیل، الیاس احمد بلور ،عائشہ رضافاروق ، کامل علی آغا، عثمان سیف اللہ، سراج الحق ، ہدایت اللہ اور محسن عزیز کے علاوہ چیئرپرسن سی سی پی ، وزارت خزانہ ،وزارت قانون،ایف بی آر ، وزارت سیفران کے اعلیٰ حکام نے شرکت کی۔