تنقید برائے اصلاح 

 
0
20450

تحریر:عاصمہ فضیلت

ایک دانشور چارلیس ایف گلاسمین کا قول ہے! ‘کامیابی کے راستے میں سب سے بڑی اور واحد رکاوٹ منفی فکار پر یقین رکھنا ہے’اگر دور حاضر کا مشاہدہ کیا جائے، تو آج کے خراب اور انتشار سے بھرپور حالات میں بے جا تنقید، عدم برداشت،کم ظرفی کا بڑا ہاتھ ہے۔ یہ مہلک امراض ہیں جوہمارے معاشرے میں ترقی کی راہوں کو دیمک کی طرح اندر ہی اندر کھوکھلا کر رہی ہیں۔ ایک دوسرے کی خامیاں تلاش کرنا،نکتہ چینی کرنا،جس قدر ممکن ہو دوسروں کی غلطیوں اور کوتاہیوں پر ان کے اتدارک کے بجائے تذلیل کرنا ہمارا وطیرہ بن چکا ہے۔یہاں تک کہ ہم اخلاقی حدیں پار کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔ یہ مرض ہمارے معاشرے میں ہر سطح پر پایا جاتا ہے۔ ہمارے سیاستدان ہوں ، یا افسران۔گھرہوں، یا دفاتر، اسکول ہوں، یا مدرسے ایک فرد سے لے کر کردار تک سب ہی اس مہلک مرض میں مبتلا ہو چکے ہیں۔بدقسمتی سے اب ہمارے ہاں criticim کچھ زیادہ ہی ہونے لگا ہے، اور کچھ ہم ایسے تنقیدی ذہن کے مالک ہیں کہ ہم کہتے ہیں ہر بات کا احتساب کرو۔ احتساب کے نام پر ہم اس قدر غفلت میں ڈوبے ہوئے ہیں کہ دوسروں کی زندگیاں اجیران بنا کر کہتے ہیں، ہم نے کون سا جھوٹ بولا ہے۔ سچ کہنے میں کیا حرج ہے۔ کسی نے کیا خوب کہا تھا ، ‘اگر سچ ہی بولنا ہے تو اپنے بارے میں بولو، دوسروں کے بارے میں مت بولو’ کیونکہ سچ وہ ہوتا ہے جو اپنے بارے میں بولا جاتا ہے، جو دوسروں کے بارے میں بولا جاتا ہے وہ سچ نہیں ہوتا ۔ ہم دوسروں پر تنقید کر کے ان کی خرابیاں بیان کر کے سمجھ رہے ہوتے ہیں،ہم کونسا گناہ کر رہے ہیں، ہم تو وہ ہی کہہ رہے ہیں جو حقیقت ہے۔ اس ایک سچ نے پتا نہیں کتنے لوگوں کی زندگیاں عذاب کر دی ہیں۔ کوئی کلاس میں کم نمبر حاصل کرنے کی بنا پر باربار تنقید کا نشانہ بنے کی وجہ سے اعلی تعلیم حاصل کرنے کے ٹوٹے خواب کی گر چیاں اپنے سینے میں لیے اسکول چھوڑنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔اور دوسری طرف کتنی ہی محسوم لڑکیاں اس سچ کے لباس میں لپٹے چھوٹ کی بنا پر جہنم جیسی زندگی گزارتی ہیں۔کسی کو جہیز کم لانے کی وجہ سے ساری عمر تلخ جملوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ تو کوئی اولاد نا ہونے کی بنا پر نا گوار طعنے برداشت کرنے پر مجبور ہے۔ اسی طرح کوئی صرف بیٹیاں پیدا کرنے کی وجہ سے تنقید کے تیر سہنے پر مجبور ہے۔
آخرہمارے معاشرے میں ایسا کیوں ہے ۔ ہم ایک دوسرے کے لئے بجائے آسانیاں پیدا کرنے کے مشکالات کیوں پیدا کرتے ہیں۔ہم خود میں تبدیلی لانے کے بجائے دوسروں پر تنقید کرتے ہیں۔دوسروں میں خامیاں تلاش کرتے ہیں۔ہم نے یہ وطیرہ بنا لیا ہے، چونکہ مجھے ماسی اسطرح سے کہتی ہے، فلاں اسطرح سے کہتا ہے اس لئے یہ کام نہیں ہوسکتا۔ ماما میں ہی خرابی ہے چچی ہی ٹھیک نہیں ہے۔ محلے والے یا حکومت خراب ہے، سسٹم ہی ٹھیک نہیں ہے۔ اگر کہیں کوڑا پڑا ہو یا پانی کھڑا ہو تو ہم کہتے ہیں، حکومت اس پر توجہ نہیں دے رہی اسطرح اپنی خرابی سے ہٹ کر ہمارے پاس سارے جواز اور بہانے ہوتے ہیں، اور یہ سلسلہ مسلسل ہماری زندگی میں پھیلتا جارہا ہے۔ ‘حضرت علی نے ایسے شخص کی بابت کرتے ہوئے فرمایا! کسی شخص کی ساری شخصیت میں سے مخص برا پہلو ہی نظر آتا ہو اس کی مثال اس گندی مکھی سی ہے جو سارا جسم چھوڑ کر زخم پر بیٹھتی ہے’ دراصل ہم دوسروں کی خرابیوں سے پردہ فحاش نہیں کررہے ہوتے ہیں ، ہم تو اپنے بارے میں بتا رہے ہوتے ہیں، اپنی کم ظرفی شو کر رہے ہوتے ہیں۔ ہم دوسروں کے بارے میں سچ بول کے خود کو جھوٹا ثابت کر رہے ہوتے ہیں۔
جب آپ کسی پر تنقید کرتے ہیں چاہے وہ تنقید اسکی اصلاح کے لیے ہی کیوں نہ ہو ۔ بعض اوقات ہم سمجھ ہی نہیں پا رہے ہوتے کہ ہمارے کہے ہوئے الفاظ دوسروں کیلئے کس حد تک تکلیف دہ ثابت ہوسکتے ہیں۔ وہ الفاظ سامنے والے میں خود اعتمادی ختم کر سکتے ہیں۔ اس کی عزت نفس کو ٹھیس پہنچا سکتے ہیں۔ وہ آہستہ آہستہ خود کو دنیا کا غلط ترین انسان سمچھنے لگتا ہے۔ مانا کہ وہ غلط تھا اور آپ نے اسکی اصلاح کرنے کے لئے اسکو تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ قرآن مجید میں اللہ تعالی فرماتے ہیں ! تم دوسروں کی پردہ پوشی کرو ،میں قیامت والے دن تمہاری پردہ پوشی کروں گا۔جب انسان کسی پر تنقید کرتا ہے، تو حکم ہے کہ آپ پہلے دیکھ لیں اور اسکی عینی شہادت لیں کہ آیا اس میں ایسی کوئی بات یا خرابی پائی بھی جاتی ہے یا نہیں۔ بل فرض اگر اس میں خرابی ہو بھی تو پھر بھی اسکا اعلان نہیں کرنا چاہئے ۔ اگر خداوندتعالی ہماری خامیوں کو اچاگر کرنے لگے تو ہم تو ایک سیکنڈ بھی زندہ نہ رہیں، لیکن وہ ہمارے پھید چھپا کر رکھتا ہے۔خوبیاں، خامیاں ہر انسان میں ہوتی ہیں اس لئے ہمیں کوئی خق نہیں پہنچتا کہ دوسروں کی خرابیوں کا ڈھنڈورا پیٹتے پھریں۔اگر آپ کو کسی میں کوئی خرابی نظر آے تو سوچھیں اگرمیں اسکی جکہ ان ہی حالات میں ہوتا تو میں کیسا رویہ اختیار کرتا ۔ میری شخصیت کسی ہوتی۔ دوسروں پر تنقید کرنے کے بجائے ان کا معاملہ اللہ پر چھوڑ دیں، وہ جانے اور اسکا کام ۔ اس کے ساتھ اگر ہم دنیا کا کولڈن اصول یاد رکھیں کہ انسان غلطی کا پتلا ہے، ہر کوئی غلطیاں کرتا ہے اور غلطیاں حکمت اور ترقی کا اوزار ہیں۔اس اصول کو مدنظر رکھتے ہوئے، آپ کا پہلا فرض ہے کہ دوسروں پر تنقید کرنا، نکتہ چینی کرنا، چھوڑ دیں۔ کیونکہ جب آپ کسی کے نقص نکالنا چھوڑ دیتے ہیں تو وہ انسان سارے کا سارا آپ کو سمجھ آنے لگتا ہے، اسکا وجود ایکسرے کی طرح اندر باہر سے آپ کی نظروں کے سامنے آجاتا ہے۔کسی کی خرابیاں تلاش کرنے کے بجائے اسکی خوبیوں پر نظر رکھنی چاہے اور ظاہر ہے کہ انسان کسی کی خوبیوں پر نظر نہیں رکھ سکتا، کیونکہ اسکو بڑی تکلیف ہوتی ہے لیکن ڈھونڈننی چاہے۔’نبی کریم ﷺ نے بھی دل آزاری سے منع فرمایا ہے اور سمجھانے کے طریقے میں اعتدال کا دامن ہاتھ سے ناجانے کی تنہبہ کی ہے’ اسی طرح ایک دانا کا قول ہے کہ جیسے تو نے اعتدال تنہائی میں سمجھایا اس کے دل میں عزت بنالی اور جسے سب کے سامنے لعن طعن کی اس کی دشمنی مول لے لی۔ اگر آپ واقعی ہی کسی کی راہنمائی کرنا چاہتے ہیں تو اس پر توجہ دیں، اسے اہمیت دیں ،اپنا وقت، پیار،چاہت دینے کی کوشش کریں۔ اسطرح وہ غلطی سے بھی بچ سکتا ہے اور زیادہ خود اعتمادی اور آگے بڑھنے کی طاقت بھی آے گی۔
اسکے علاوہ اگر ہم انفرادی سطح پر معاشرے میں مایوسی کی بجائے امید کی کرن پیدا کرنے کی کوشش کریں تو شائد ہم اس مسئلے کو کسی حد تک حل کر پائیں۔ایک دوسرے کو برداشت کرنے کی کوشش کرنی چاہئے اور دوسروں کی رائے کا احترام کرنے میں بخل سے کام ہر گز نہیں لینا چاہئے۔ یہاں اچھا کا م دیکھیں اسکی تعریف کریں وہ کام چاہیے معمولی سا ہی کیوں نہ ہو۔ کرنے والے کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔تنقید برائے تذلیل نہ ہو بلکہ تنقید برائے اصلاح ہو تو ممکن ہے ہم دوبارہ ترقی کی رہ پر گامزن ہو سکیں۔