ملٹری ڈاکٹرائن تبدیل ہونے کے بعد سیاسی ڈاکٹرائن بھی تبدیل کرنے کی ضرورت ہے، فردوس عاشق اعوان

 
0
416

اسلام آباد دسمبر 23(ٹی این ایس)سابق وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے کہا ہے کہ ملٹری ڈاکٹرائن تبدیل ہونے کے بعد سیاسی ڈاکٹرائن بھی تبدیل کرنے کی ضرورت ہے، سیاست سے بدعنوان اور غاصبوں کو باہر کرنا ہوگا۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے نیشنل پریس کلب اسلام آباد اور آر آئی یو جے کے زیراہتمام اے پی ایس اور ملک کے دیگر شہیدوں کی یاد میں منعقدہ تقریب اور متاع وطن کی مصنفہ ’’رابعہ رحمن روہی کے ساتھ ایک شام‘‘ سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ تقریب کی صدارت نامور دانش ور اور نقاد پروفیسر فتح محمد ملک نے کی جبکہ تقریب سے پی ایف یو جے کے صدر افضل بٹ، نیشنل پریس کلب کے صدر شکیل انجم، آر آئی یو جے کے سابق صدر و موجودہ جنرل سیکرٹری علی رضا علوی اور موجودہ صدر مبارک زیب خان، جی بی اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر جعفر اللہ خان، سینئر صحافی اور دانشور مظہر برلاس اور شہیدوں کے ورثا نے خطاب کیا۔ اس موقع پر شہداء کے خانوادوں میں یادگاری شیلڈز بھی تقسیم کی گئیں۔ تقریب میں بڑی تعداد میں پشاور سے اے پی ایس کے شہیدوں کے ورثا نے شرکت کی۔ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے کہا کہ اچھے اور برے طالبان کا فرق ختم ہو چکا ہے اور تمام طالبان کو قاتل اور دہشت گرد قرار دیا جا چکا ہے۔ اسی طرح سیاسی ڈاکٹرائن بھی تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ تاکہ لٹیروں اور خدمت گاروں کا فرق واضح ہو سکے۔ انہوں نے کہا کہ نفرت کے دروازے بند ہونے چاہئیں اور کفر اور شرک ساز فیکٹریوں پر تالے لگانے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ اے پی ایس کے بچے بندوق اٹھا کے محاذ جنگ پر جنگ لڑنے نہیں گئے تھے بلکہ کاغذ، قلم، کتابیں اور بستے لے کر گئے تھے۔

انہوں نے کہا کہ دہشت گردی اس ملک کی بدترین دشمن ہے۔ اس کے خلاف سب کو متحد ہونا چاہئے۔ نامور دانشور اور نقاد پروفیسر فتح محمد ملک نے کہا کہ علامہ اقبال نے کہا تھا ’’دین ملا فی سبیل اللہ فساد‘‘ بدقسمتی سے بعض ملاؤں نے اسلام کی غلط تشریح کر کے معاشرے میں نفرتوں کو پروان چڑھایا ہے۔ علامہ اقبال اور قائداعظم کے نظریہ اسلام کے مطابق پاکستان کے تمام مسائل کا حل تلاش کیا جا سکتا ہے۔ نفرت، تعصب اور ہٹ دھرمی جہالت کی پیداوار ہے۔ ہمیں جہالت کے خاتمے کیلئے علم کو فروغ دینا ہوگا۔ کتاب سے رشتہ جوڑنا ہوگا اور عقل و شعور کو پروان چڑھانا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ رابعہ رحمن نے شہیدوں کے وارثوں کے تاثرات قلمبند کر کے گویا ایک تاریخ مرتب کر دی ہے۔ ان کی یہ قابل قدر تصنیف اردو نثر میں خوبصورت اضافہ ہے۔ متاع وطن کی مصنفہ رابعہ رحمن نے کہا کہ کتاب کی تدوین میں شوہر اور مختلف دوستوں نے بے حد مدد کی ہے۔ میں ان کی شکرگزار ہوں۔ شہیدوں کے وارثوں کے انٹرویو کرتے ہوئے میں جس کرب سے گزری اسے لفظوں میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔

انہوں نے کہا کہ شہیدوں کا خون ہمارے اوپر قرض ہے۔ پی ایف یو جے کے صدر افضل بٹ نے کہا کہ آر آئی یو جے اور نیشنل پریس کلب نے شہیدوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کیلئے اچھی تقریب کا اہتمام کیاہے۔ ہمیں اپنے شہیدوں کی قربانیاں کبھی فراموش نہیں کرنی چاہئیں۔ این پی سی کے صدر شکیل انجم نے کہا کہ قوم نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بہت قربانیاں دی ہیں۔ دہشت گردی کی روک تھام کے لئے مزید کام کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ شہیدوں کا حق ادا نہیں کیا جا سکتا۔

آر آئی یو جے کے سابق صدر و موجودہ جنرل سیکرٹری علی رضا علوی نے کہا کہ جس کے آنگن کے کھلتے پھول خون میں نہلا دیئے جائیں تکلیف کا وہی ادراک کر سکتا ہے۔ ہمیں شہیدوں کے وارثوں کی بات غور سے سننی چاہئے اور ان کے دکھ درد کو بانٹنے سے بڑھ کر تحفظات بھی دور کرنے چاہئیں۔ ہماری یہ تقریب صرف اے پی ایس ہی نہیں پاکستان، نظریہ پاکستان اور سبز ہلالی پرچم کے لئے جان قربان کرنے والے ہر شہید کی قربانیوں کا اعتراف ہے۔ آر آئی یو جے کے صدر مبارک زیب خان نے کہا کہ میرا اپنا تعلق پشاور سے ہے اس حادثے نے میرے بیٹے پر بھی بہت برے اثرات مرتب کئے ہیں۔ اس ملک کے لئے عوام اور سیکورٹی فورسز نے بہت قربانیاں دی ہیں۔ یہ ہم سب کا ملک ہے اور اس کی حفاظت ہماری اجتماعی ذمہ داری ہے۔

سینئر صحافی مظہر برلاس نے کہا کہ بدعنوانوں کا راستہ روکنا چاہئے اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں قربانیاں دینے والوں کا اعتراف کیا جانا چاہئے۔ گلگت و بلتستان اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر جعفر اللہ نے کہا کہ رابعہ رحمن نے اے پی ایس کے شہیدوں کو اچھے انداز میں خراج تحسین پیش کیا ہے ان کی یہ کاوش قابل قدر ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں متحد ہونا پڑے گا۔ دہشت گردوں نے خود مجھے نشانہ بنایا، مجھے 25 گولیاں لگیں لیکن خدا کا شکر ہے کہ میں آج آپ کے درمیان موجود ہوں۔ تقریب سے جب شہید بچوں کے والدین نے خطاب کیا تو ہر آنکھ اشکبار ہو گئی۔ تقریب کے بعد شہداء کے لئے فاتحہ خوانی بھی کی گئی اور شہیدوں کے وارثوں کو یادگاری شیلڈز پیش کی گئیں۔