دسویں عالمی اُردو کانفرنس: آخری دن ’’یادِرفتگاں‘‘ کے حوالے سے ممتاز ترین شعراء اور ادباء کی خدمات کو خراجِ عقیدت پیش 

 
0
453

کراچی ،دسمبر 25 (ٹی این ایس): آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی میں منعقدہ دسویں عالمی اُردو کانفرنس کے آخری دن ’’یادِرفتگاں‘‘ کے حوالے سے اُن ممتاز ترین شعراء اور ادباء کی خدمات کو خراجِ عقیدت پیش کیا گیا جو اس دُنیا سے رخصت ہوچکے ہیں۔ ان شخصیات میں نیئر مسعود ،خلیق انجم، ابراہیم جویو، شان الحق حقیق، ندا فاضلی، تصدق سہیل، فارغ بخاری اور مسعود احمد برکاتی شامل ہیں۔بھارت سے آئے ہوئے معروف شاعر و ادیب شمیم حنفی نے نیئر مسعود کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ کسی ایسے دوست کو یاد کرنا جس سے آپ بہت محبت کرتے ہیں اور جو اب اس دُنیا میں موجود نہ ہوں بڑا مشکل کام ہے،نیئرمسعود باغ و بہار شخصیت کے مالک تھے، افسانہ نگار کی حیثیت سے انہوں نے بہت کم عمری میں خود کو منوا لیا تھا ،انہوں نے کہاکہ میری اور نیئرمسعود کی ملاقات اور دوستی تقریباً 60برس کے عرصے پر محیط ہے جب دوست یا کسی اور کی یاد آتی ہے تو یادیں ایک تصویر کا روپ دھار لیتی ہیں اور اس تصویر کی صورت میں ہم اپنے چاہنے والوں کو دیکھ لیتے ہیں انہوں نے کہاکہ نیئرمسعود کو میں زیادہ تر ایک سامع کے طور پر سنتا تھا وہ لکھنو یونیورسٹی میں اپنی ایک ریسرچ پہلے مکمل کرچکے تھے اس کے بعد الہ آباد منتقل ہوگئے انہوں نے عام انسانوں کو اپنی کہانیوں کا حصہ بنایا ہے زندگی کے آخری دس برس وہ بہت بیمار رہے اور اتنے بیمار رہے کہ بول چال سے بھی قاصر رہے۔

بھارت ہی سے آئے ہوئے ادیب ودانشور قاضی افضال حسین نے خلیق انجم کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ خلیق انجم نے جتنی کتابیں بھی لکھی ہیں وہ کسی نہ کسی طرح دہلی سے تعلق رکھتی ہیں غالب کے خطوط کا انتہائی مستند ترجمہ بھی خلیق انجم نے کیا ہے۔ انہوں نے کہاکہ خلیق انجم کا ہم پر یہ بڑا احسان ہے انہوں نے اُردو تحریک کی قیادت کی اور تادمِ حیات اُردو تحریک کے لئے کوشاں رہے، انہوں نے کہاکہ خلیق انجم کو انسانوں سے بہت دلچسپی تھی انہوں نے جو کچھ بھی تحریر کیا اور جو انشایئے لکھے وہ پڑھنے کے قابل ہیں ان کی شوخی کسی کو بخشنے کے قائل نہ تھی،انہوں نے کہاکہ خلیق انجم کے دوست اطہر پرویز نے بہت اچھا مضمون اُن پر تحریر کیا ہے ۔ اُردو اور سندھی ادب کے معروف ادیب و دانشور سید مظہر جمیل نے ابراہیم جویوکی شخصیت پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہاکہ ابراہیم جویو سندھی زبان کے بہت بڑے محرک اور محقق تھے گزشتہ ماہ 102سال کی عمر میں ان کا انتقال ہوا ان کے انتقال کے بعد سندھ کی جامعات اور دیگر تعلیمی اداروں میں ان پر تقریباً 22 سیمینارز منعقد ہوئے اور ان کی شخصیت پر 30کتابیں شائع کی گئیں۔ انہوں نے کہاکہ ابراہیم جویو13اگست 1915ء کو پیدا ہوئے تھے ان کا بچپن بہت ہی غربت میں گذرا وہ ایک کسان کے بیٹے تھے ان کے دادا نے بچپن ہی سے اُن کے ذہن میں علم کی شمع جلائی تھی ان کے گاؤں میں کوئی اسکول نہ تھا 7میل چل کر اسکول جایا کرتے تھے انہوں نے کہاکہ ابراہیم جویو نے سندھ مدرستہ الاسلام سے میٹرک کیا اور اُس وقت پوری بمبئی ریذیڈنسی میں نمایاں ترین نمبر حاصل کئے،

جبکہ انہوں نے ڈی جے کالج سے بی اے کیا، بعد ازاں سندھ مدرستہ الاسلام ہی سے بطور ٹیچر منسلک ہوگئے، انہوں نے کہاکہ شیخ ایاز سمیت دیگر شعراء انہیں اپنا استاد تسلیم کرتے تھے جدیدسندھی ادب کے فروغ کے لئے انہوں نے مہران رسالہ بھی نکالا آج کے دور میں سندھی ادب سے وابستہ مختلف شخصیات جو بہت نامور ہیں وہ ماضی میں مہران رسالہ سے ہی نکل کر آگے پہنچی ہیں۔ ابراہیم جویو اس مہران رسالے کے مدیر تھے۔انہوں نے کہاکہ ابراہیم جویو نے افسانہ ،جدید فکشن اور ناول کے بارے میں تفصیل سے آگاہ کیا ہے ابراہیم جویواس سرزمین پر رہنے کے باوجود ایک انچ زمین کے مالک نہ تھے ہمیشہ پیدل چلتے اور کبھی کوئی گاڑی نہیں رکھی۔معروف شاعر و نقاد جاذب قریشی نے ڈاکٹر شان الحق حقی کی شخصیت سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ ان کی شخصیت بہت پہلو دار ہے وہ موجود لمحے میں اکثرغائب رہتے ، بھلکڑ بھی تھے وہ اکثر کسی بازار میں اپنی زوجہ کے ہمراہ آنے کے باوجود انہیں واپسی پر ساتھ لے جانا بھول جاتے مگر لکھتے اور شاعری کرتے وقت اُن سے
کبھی بھول نہ ہوتی اور کئی کئی اشعار زبانی سنا دیا کرتے تھے ۔ انہوں نے کہاکہ ان کی کتابوں کو پڑھ کر احساس ہوا کہ سب سے گہرا نقش اعلیٰ اقدار کی باقیات چاہتا ہے۔

انہوں نے کہاکہ انہوں نے زبان و بیان کی بہت زیادہ خدمت کی ہے اور کئی لغات مرتب کی ہیں وہ توڑنے سے زیادہ جوڑنے کو افضل سمجھتے تھے۔ انہیں ترجمہ نگاری سے بہت عشق تھا شیکسپیئر کے ڈرامے کا بھی بہت عمدہ ترجمہ کیا۔ انہوں نے کہاکہ ڈاکٹر شان الحق حقی نے کئی دیگر زبانوں کے شاعروں کو اُردو زبان میں منتقل کیا، ان کی شاعری میں زندگی اور عشق کے سچے رنگ جھلکتے رہے، حکومت پاکستان میں انہیں 1958 ء میں ستارۂ امتیاز اور 1969ء میں تمغۂ قائداعظم بھی پیش کیا تھا وہ زبان اور کلچر میں زندہ رہنے والی شخصیت تھے جو ہمارے اور آنے والوں کے لئے معتبر اثاثہ ہیں، معروف صحافی پیرزادہ سلمان نے معروف شاعر ندا فاضلی کی شخصیت پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہاکہ جس محفل میں مصطفی زیدی، مجازاور شکیب جلالی کا ذکر نہ ہو وہاں ندا فاضلی کا ذکر کیوں ہورہا ہے انہوں نے کہاکہ ندا فاضلی امیر خسروکے بہت شیدائی تھے وہ جب نظم لکھتے وہ منظر کشی کا عالم کمال کا ہوتا تھا، انہوں نے کہاکہ غزل کہنے میں ندا فاضلی کو یہ کمال حاصل تھا کہ وہ اس قدر سچائی سے کام لیتے کہ خود کو برہنہ کرلیتے۔انہوں نے کہاکہ ندا فاضلی کی غزلوں یا گیتوں کو کوئی یاد رکھے یا نہ رکھے مگر اُن کے دوحے کوئی فراموش نہیں کرسکتا۔ڈاکٹر جمال نقوی نے فارغ بخاری کی شخصیت پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہاکہ وہ ہر طرح کی تنگ نظری سے آزاد تھے مسائل میں رہ کر زندگی گزاری ’’سنگِ میل‘‘ رسالے کے ایڈیٹر بھی رہے۔ فارغ بخاری انسانیت سے محبت کرنے والے تھے اور اُن کی شاعری اور تحریکوں میں اس انسانیت کی جھلک نظر بھی آتی تھی۔ پروفیسر مجیب انوار حمیدی نے بچوں کے ممتاز ادیب مسعود احمد برکاتی کی شخصیت پر گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ وہ 1931ء میں پیدا ہوئے تھے انہیں بچپن ہی سے لکھنے کا شوق تھا ، ’’نونہال‘‘ رسالہ انہوں نے ایک عرصے تک شائع کیا جبکہ بچوں کے ادب کے لئے ایسی ایسی شاہکار کہانیاں اور کتابیں تحریر کیں جنہیں کئی نسلوں تک فراموش نہیں کیا جاسکے گا۔