کتابیں پڑھ کر کوئی نقاد نہیں بن سکتااس کے لئے خود ایک اچھا تخلیق کار ہونا بھی ضروری ہے۔ پاکستانی وبھارتی ادباء، شعراء ونقاد کا ’’اردو تنقید ایک جائزہ‘‘ کے موضوع پر اجلاس سے خطاب

 
0
397

کراچی،دسمبر 25 (ٹی این ایس):پاکستان اور بھارت کے معروف ادباء، شعراء اور نقادوں نے کہا ہے کہ ایک اچھے نقاد کے لئے خود ایک اچھا تخلیق کار ہونا بھی ضروری ہے۔ تنقید کرنے والا صرف کتابیں پڑھ کر نقاد نہیں بن سکتا اس کے لئے اُسے ادب سے بھی واقف ہونا ضروری ہے ۔ آج کی تنقید آج کی تخلیق سے وہ رشتے نہیں بنا پا رہی جو بنانا چاہئے۔ تنقید تخلیق کی طرح سماجی عمل ہے کوئی بھی لفظ فکر کے مربوط یا غیر مربوط نظام کے بغیر اپنا وجود نہیں رکھتا۔
یہ معاشرے کے صحت مند ہونے کی دلیل ہے کہ لوگ جیتے جاگتے ادب سے زیادہ دلچسپی رکھیں۔ یہ بات پیر کی صبح آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی میں منعقدہ دسویں عالمی اُردو کانفرنس کے آخری دن ’’اُردو تنقید ایک جائزہ‘‘ کے موضوع پر اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے بھارت کے معروف ادیب وشاعر اور کئی کتابوں کے مصنف شمیم حنفی اور قاضی افضال حسین سمیت انوار احمد، ڈاکٹر علی احمد فاطمی، نجیبہ عارف اور سرور جاوید نے اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہی۔ شمیم حنفی نے صدارتی خطاب میں کہاکہ وہی تنقید اچھی اور بامقصد ہوتی ہے جو تخلیقی لوگوں نے لکھی ہو ، جدیدیت کے تصور نے بھی بڑے نقاد پیدا کئے ہیں، ادب میں اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو قائم رکھنا ضروری ہوتا ہے۔ انہوں نے کہاکہ ادب اپنے عقائد کے اظہار کے لئے نہیں ہوتا اور تہذیبیں کبھی ایک رُخ پر سفر نہیں کرتیں بلکہ تہذیبیں دن کے اُجالے کی طرح دھیرے دھیرے پھیلتی ہیں اچانک مسلط نہیں کی جاتیں، انہوں نے کہاکہ یہ بات سچ ہے کہ ہم نے مغربی تجربات سے فائدہ اٹھایا ہے لیکن یہ بات اس سے بھی زیادہ اہم ہے کہ ہمیں اپنی روایات کو بھی نہیں بھولنا چاہئے جبکہ ہمارے ہاں کثرت سے مغربی لکھاریوں کا ذکر ملتا ہے انہوں نے کہاکہ ہم تنگ نظر ہوتے جارہے ہیں ہمیں اپنی روایت پر بھی نظر رکھنی چاہئے۔ تعصبات نے ادب ،تہذیب اور زندگی کو بہت نقصان پہنچایا ہے ۔ قاضی افضال حسین نے کہاکہ پوری دُنیا کو زبان کی اصلاحت پر بھی بیان کیا جاسکتا ہے۔ طرزِ وجود کی بنیادی شکل کو ہم نے پڑھا ہی نہیں اور اگر پڑھا ہے تو اسے سمجھا نہیں انہوں نے کہاکہ شعر جو شاعر نے بیان کئے ہوتے ہیں کہ ضروری نہیں کہ پڑھنے والا اُس سے بہتر معنی بیان نہ کرسکے۔ انہوں نے کہاکہ زبان کے کردار کی اہمیت بہت زیادہ ہوتی ہے تبدیلی آتی نہیں بلکہ لائی جاتی ہے۔ ہماری حیثیت ادب میں تقریباً کنزیومر کی ہے۔ انوار احمد نے کہاکہ عموماً یہ بحث سننے میں آتی ہے کہ تخلیق مقدم ہے یا تنقید تو میں یہ کہوں گا کہ تخلیق ہی ہر حال میں مقدم ہے۔ تنقید کے تین منصب ہیں جن میں پہلا اصولِ تنقید، دوسرا عملِ تنقیداور تیسر نقدِ تنقیدہے۔ انہوں نے کہاکہ ہم مغرب سے اس لئے متاثر ہورہے ہیں وہاں علم پروڈیوس ہورہا ہے اور مستقل تحقیقی کام ہورہاہے۔ہمارے زمانے میں اُردو کے حوالے سے علم صرف اتنا تھا کہ ہم اپنے الفاظوں کے تلفظ کو درست طریقے سے ادا کرلیں۔ معاشرے میں جمہوریت ہویا نہ ہو زبان پر جمہور کا سکہ چلتا ہے۔انہوں نے کہاکہ آسان سے آسان تر گفتگو اور بات کرنی چاہئے۔ ڈاکٹر علی احمد فاطمی نے کہاکہ ممتاز مفتی ،سجادظہیر اور دیگر کی کتابوں میں تنقید کا وسیع تناظر نظر آئے گا،جب تک تنقید سچائی کے ساتھ نہ ہو اُس کا اثر نہیں ہوگا۔ ترقی پسند تنقید کا جمالیات سے رشتہ نہیں ٹوٹا ہے تنقید میں نئی نئی بحث شامل ہوئی ہیں ، حسن عسکری اور کلیم الدین احمد نے ان بحث پر بات بھی کی ہے۔ انہوں نے کہاکہ آج کی تنقید آج کے تخلیق کار سے وہ رشتے نہیں بناپارہی جو بنانے چاہئیں۔ نئی تحریر اور نئی تہذیب پر ہمیشہ گفتگوکرنے کی ضرورت ہوتی ہے تنقید ایک محاسباتی عمل ہے جس سے فکر اور قوتِ آگاہی میں فائدہ ہوتا ہے۔ انہوں نے کہاکہ اُردو تنقید میں اپنی صنفی قوت میں اضافہ کیا ہے۔ انہوں نے اس یقین کا اظہار کیا کہ تنقید کا شاندار ماضی کروٹ لے گا۔ نجیبہ عارف نے اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہاکہ تہذیب کامسئلہ کسی ایک طبقے تک نہیں یہ ہر فرد کا براہِ راست مسئلہ ہے تہذیب ہم میں سے ہر ایک کی اجتماعی اور انفرادی شناخت کا معاملہ ہے۔ تہذیب محض کسی سماج کے خاص گروہ پر مشتمل نہیں ہوتی بلکہ یہ آدرشوں کامجموعہ ہوتی ہے انہوں نے کہاکہ تہذیب تین اشیاء کا مجموعہ ہے جن میں تمدن ، تاریخ اور ثقافت شامل ہیں۔ تہذیب کی سمت متعین کرنا ہمارے اختیار میں نہیں ہوتا صرف تاریخ ہی تہذیب نہیں ہوتی مگر یہ تہذیب کا حصہ ضرور ہوتی ہے انہوں نے کہاکہ زندہ قومیں اپنے تہذیبی ارتقاء کاراستہ نہیں چھوڑتیں۔ تہذیب کا سفر ہمیشہ ارتقائی ہوتا ہے فوراً تبدیلی نہیں لائی جاسکتی۔ سرورجاوید نے اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہاکہ جب تنقید روبۂ زوال ہوتی ہے تو ادب کی دیگر اصناف بھی زوال پذیر ہوتی ہیں۔ ترقی پسند ادب اب روبۂ زوال ہے ترقی پسند ادیب کم نظر آتے ہیں جدیدیت پسند زیادہ نظر آتے ہیں جبکہ تنقید اپنے منصب سے ہٹ گئی ہے انہوں نے کہاکہ ادبی رسائل کا حال دیکھا جائے تو وہ موصول ہونے والے ہر ادبی مواد کو من و عن شائع کردیتے ہیں اور معیار تک کا خیال نہیں رکھتے۔ انہوں نے کہاکہ یہ تنقید کا کام تھا کہ وہ بتائے کہ افسانہ کیا ہے، شاعری کیا ہے اور دیگر اصنافِ سخن کیا ہیں، انہوں نے کہاکہ اب یہ سب چیزیں سماج سے الگ ہورہی ہیں لگتا ہے کہ ادب کا سماج سے کوئی تعلق نہیں ہے۔