گوادر سمارٹ سٹی کے بارے میں ماسٹر پلان چینی کمپنی 14 اگست کو پیش کریگی،فری زون کی ڈویلپمنٹ میں چین پاکستان و دیگر ممالک کی کمپنیاں بھی ٹینڈ ر میں حصہ لے سکتی ہیں

 
0
1033

فری زون میں 23 برس تک صنعتوں سے ٹیکس وصول نہیں کیا جائیگا، سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے سمندری معاملات کا اجلاس،ڈی جی گوادر پورٹ کی کمیٹی کو بریفنگ
اسلام آباد،جنوری02 (ٹی این ایس): سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے سمندری معاملات کے اجلاس میں انکشاف کیا گیا ہے کہ کراچی کا آلودہ اور مضر صحت پانی 50 کروڑ گیلن یومیہ سمندر میں شامل ہونے کی وجہ سے نہ صرف آبی حیات تباہ ہورہی ہے بلکہ انسانی صحت پر بھی مضر صحت اثرات سامنے آ رہے ہیں، کراچی میں 6 صنعتی اسٹیٹس ہیں جہاں 6 ہزار صنعتیں قائم ہیں جن کا زہریلا فضلہ نالوں کے ذریعے سمندرمیں شامل ہوتا ہے، اگست 2018ء کو گوادر سمارٹ سٹی کا ماسٹر پلان چین کی کمپنی فراہم کرے گی۔

منگل کو قائمہ کمیٹی کا اجلاس چیئرمین کمیٹی سینیٹر محمد علی سیف کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاؤس میں منعقد ہوا۔ اجلاس میں گوادر کی مقامی آبادی اور ماہی گیروں کی آباد کاری کے حوالے سے گوادر پورٹ اتھارٹی سے بریفنگ کے علاوہ عوامی عرضداشت کے معاملات، کراچی میں آلودہ پانی کو سمندر میں گرنے سے روکنے کے حوالے سے اٹھائے گئے اقدامات اور بابا اور بھیٹ جزیروں پر جیٹیزکی تعمیرات کے معاملات کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا۔ ڈی جی گوادر پورٹ نے قائمہ کمیٹی کو ماہی گیروں کی آباد کاری اور گوادر کی مقامی آبادی بارے تفصیلی بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ وزیراعظم پاکستان نے سی پیک کے معاہدے کے بعد گوادر سمارٹ سٹی تعمیر کرنے کی ہدایت کی تھی جو جدید ٹیکنالوجی پر مشتمل شہر ہوگا۔

اس کا ماسٹر پلان چین کی کمپنی 14 اگست2018 کو پیش کرے گی۔ قائمہ کمیٹی کو بتایا گیاکہ فری زون کی ڈویلپمنٹ میں چین پاکستان و دیگر ممالک کی کمپنیاں بھی ٹینڈ ر میں حصہ لے سکتی ہیں اور فری زون میں 23 برس تک صنعتوں سے ٹیکس وصول نہیں کیا جائے گا۔ سمندری معاملات کے سیکرٹری نے قائمہ کمیٹی کو بتایا کہ گوادر پورٹ کے انتظامی معاملات پہلے سنگا پور کی کمپنی دیکھتی تھی اب چین کی کمپنی دیکھ رہی ہے۔ گوادر بندرگاہ پر مقامی آبادی کو کام کی ترجیح دی جائے گی اس حوالے سے ہنر مندی کی تربیت کیلئے دو ادارے قائم کر دیئے گئے ہیں جہاں تین طرح کے ڈپلومے کرائے جارہے ہیں۔ سی پیک ٹریننگ سینٹر کے قیام کی چینی حکومت نے منظوری دے دی ہے جو پورٹ قاسم اتھارٹی کے کنٹرول میں ہوگا۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ گوادر کی موجودہ آبادی 1.38 لاکھ ہے اور آبادی میں اضافہ 6 فیصد سالانہ ہے۔

کمیٹی کو بتایا گیا کہ اولڈ ٹاؤن ایک ہزار ایکڑ پر مشتمل ہے سٹرکیں بہت تنگ ہیں۔ آبادی کو دوسری جگہ منتقل کرنے کیلئے 2004 میں منصوبہ بنایا گیا تھا جس کی لاگت ساڑھے سات ارب روپے تھی مگر اس پر عملدرآمد نہ ہوسکا، اب ایک کمیٹی ایڈیشنل چیف سیکرٹری بلوچستان کی سربراہی میں تشکیل دی گئی ہے جس کا ایک اجلاس بھی ہوچکا ہے۔چار جگہوں کی نشاندہی کر دی گئی ہے۔ اولڈ سٹی میں 7 ہزار 119 گھر ہیں متبادل جگہ 2.5 ہزار ایکڑ دی جائے گی۔سربندر آئیڈیل اور قریب ترین مقام ہے اور موجودہ دور کے مطابق اس پر 60 ارب روپے خرچ ہوں گے۔ جس پر چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ مقامی پارلیمنٹیرین کو بھی فیصلہ سازی میں شامل کیا جائے اور کوئی ایسا فیصلہ نہ کیا جائے جو مقامی آبادی کو قبول نہ ہو۔ چیئرمین و اراکین کمیٹی نے کہا کہ جب تک گوادر میں پانی کے مسئلے کو حل نہیں کیا جائے گا معاملات میں بہتری نہیں آئے گی۔ سینیٹر میر کبیر احمد محمد شاہی نے کہا کہ سی پیک منصوبے پر گوادر کے پانی کا مسئلہ کالا دھبہ بنتا جارہا ہے اس کو پہلے حل کیا جائے۔ جس پر کمیٹی کو بتایا گیا کہ چین کے ساتھ ایک معاہدہ کیا گیا ہے جس کے تحت دوسال میں 5 ملین گیلن پانی شہر کو ملے گا ابھی 2 لاکھ گیلن پانی فراہم کرنے کے منصوبے کا افتتاح ہوچکا ہے اور ایک اور منصوبے کے تحت جون 2018 میں 10 لاکھ گیلن پانی شہر کو ملے گا۔ نئے ڈیم سوڑ اور شادی کور بن رہے ہیں یہ تین ارب کا منصوبہ ہے ان کے لئے 1450 ملین روپے فوری درکار ہیں، کمیٹی اس کیلئے تعاون کرے۔

رکن کمیٹی سینیٹر نسیمہ احسان نے کہا کہ گوادر کی بہت تشہیر کی گئی ہے، کاروباری حضرات مقامی آبادی کو سہانے خواب دکھا کر ان کی زمین اونے پونے داموں خرید لیتے ہیں مقامی آبادی اور گوادر میں کوئی تبدیلی نہیں آئی، پانی کا ایک ٹینکر 18 ہزار روپے میں ملتا ہے۔ بلوچستان کے عوام کے حق ملکیت کو سلب نہ کیا جائے۔ چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ ڈیم اور دیگر منصوبہ جات کیلئے جن لوگوں سے زمین حاصل کی گئی ہے ان کے معاوضے فوری طور پر ادا کیے جائیں اور آغاز حقوق بلوچستان کے تحت بھی جو ان کا حق بنتا ہے وہ ادا کیاجائے۔

وزیر مملکت سمندری معاملات چوہدری جعفر اقبال نے آگاہ کیا کہ گوادر میں حالات بدل رہے ہیں، بڑی ڈویلپمنٹ ہو چکی ہے اور لوگ کراچی کی بجائے گوادر میں علاج کراتے ہیں، سٹرکیں بن چکی ہیں، ماہی گیروں کو اچھا معاوضہ ملتا ہے اور کوئی غیر ملکی یہاں ماہی گیری نہیں کر سکتا۔ قائمہ کمیٹی کو بتایا گیا کہ کراچی کا آلودہ مضر صحت 50 کروڑ گیلن پانی روزانہ سمندر میں شامل ہورہا ہے آلودہ پانی میں صنعتوں کا زہریلا ماداہ اور گٹروں کا پانی بھی شامل ہوتا ہے جو آبی حیات اور سمندری پودوں کو تباہ کر رہا ہے۔ کراچی کے لوگوں میں جلد اور سانس کی بیماریوں میں اضافہ ہورہا ہے۔ تین سیوریج پلانٹس ہیں جو نان فنکشنل ہیں۔آبی آلودگی کو دور کرنے کیلئے 39 ارب روپے درکار ہونگے صوبائی اور وفاقی حکومت ملکر آدھے آدھے خرچ کریں گی۔ اقوام متحدہ کی ایک کمپنی نے یہاں کا سروے کیا تھا جس نے تنبیہ کی ہے کہ آلودہ اور زہریلے پانی سے آبی حیات و پودے تباہ ہو رہے ہیں اور اگر سونامی آیا تو کراچی تباہ ہو جائے گا۔

صوبائی حکومت نے وفاقی حکومت سے معاملہ اٹھایا ہے۔ جس پر چیئرمین کمیٹی نے آئندہ اجلاس میں میئر کراچی ، سیکرٹری لوکل گورنمنٹ ، سیکرٹری انڈسٹری کو معاملات کا مزید جائزہ لینے کیلئے طلب کر لیا۔ چیئرمین کراچی پورٹ ٹرسٹ نے قائمہ کمیٹی کو بتایا کہ سمندری آلودگی کی وجہ سے کے پی ٹی کو صفائی کے حوالے سالانہ پانچ سو ملین اضافی خرچ کرنا پڑتے ہیں۔انہوں نے تجویز دی کہ ترکی کے شہر استنبول میں بھی یہی مسئلہ درپیش تھا موجودہ ترک صدر اس وقت میئر استنبول تھے انہوں نے منصوبہ بنایا تھا اس کو ماڈل بنا کر منصوبہ بنایا جائے۔ قائمہ کمیٹی نے سید تواب شاہ کی عوامی عرضداشت کا بھی تفصیل سے جائزہ لیا۔ سیکرٹری پورٹ قاسم اتھارٹی محمد ثاقب نے قائمہ کمیٹی کو معاملے پر تفصیلی بریفنگ دی۔

کمیٹی کو بتایا گیا کہ ڈک ورکرز سکیم 1973 میں متعارف کرائی گئی۔ جہاں کراچی پورٹ ٹرسٹ پر ایک کمپنی کے ذریعے مزدور ہائیر کئے گئے۔ انہوں نے کہا کہ قاسم پورٹ اتھارٹی پر مینول کام نہیں ہوتا اور نہ ہی اس سکیم کا اطلاق قاسم پورٹ اتھارٹی پر ہوتا ہے۔جبکہ مزدوروں کا موقف تھا کہ انہیں قاسم پورٹ اتھارٹی پر مزدوری دی جائے۔ جس پر اراکین کمیٹی نے کہا کہ انسانیت کی بنیاد پر مزدوروں کا خیال رکھا جائے اور ان کوترجیح دی جائے۔ چیئرمین کمیٹی نے اس حوالے سے سندھ ہائیکورٹ کے فیصلہ اور ہائیکورٹ کی طرف سے قائم کمیشن کی رپورٹ آئندہ اجلاس میں طلب کر لی تاکہ معاملے کا تفصیلی جائزہ لیا جا سکے۔

کمیٹی اجلاس کو بریفنگ دینے کے بعد سیکرٹری محمد ثاقب کو اچانک دل کا دورہ پڑا جس کی خبر فوری طور پر چیئرمین سینیٹ میاں رضاربانی کو دی گئی چیئرمین سینیٹ نے فوری طور پر کمیٹی اجلاس میں پہنچ کر اپنی ذاتی گاڑی اور سکواڈ کے ہمراہ محمد ثاقب کو اسلام آباد کے قریب ترین نجی ہسپتال میں منتقل کرایا تاہم وہ جانبر نہ ہو سکے۔ اجلاس میں سینیٹرز محمد داؤد خان اچکزئی ، نسیمہ احسان ، کلثوم پروین ، میر کبیر احمد محمد شاہی اور مختار احمد دھامرا کے علاوہ وزیر مملکت سمندری معاملات چوہدری جعفر اقبال ، سیکرٹری سمندری امور ، چیئرمین کے پی ٹی ،سیکرٹری قاسم پورٹ اتھارٹی و دیگر حکام نے شرکت کی۔