بھارتی سپریم کورٹ کے چارججز کی چیف جسٹس کے خلاف پریس کانفرنس

 
0
690

نئی دہلی جنوری 12(ٹی این ایس)بھارتی سپریم کورٹ کے چار حاضر سروس ججوں نے ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کی انتظامیہ اور چیف جسٹس پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ انڈین سپریم کورٹ کے انتظامی اموردرست نہیں ہیں جو ملک میں جمہوریت کے لیے بہت بڑا خطرہ ہے،دوسری جانب بھارتی حکومت نے اسے عدلیہ کا اندرونی معاملہ قراردیتے ہوئے مداخلت نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے

،بھارتی ٹی وی کے مطابق دارالحکومت نئی دہلی میں جمعہ کو پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ان چاروں ججوں نے خبردار کیا کہ بھارتی سپریم کورٹ کے انتظامی معاملات ٹھیک نہیں ہیں اور اگر اس قومی ادارے کی ساکھ اور نظم و نسق کے مستقل تحفظ کو یقینی نہ بنایا گیا تو ملک میں جمہوریت بھی زندہ نہیں رہے گی۔انہوں نے کہاکہ مخصوص مقدمات جونیئر ججز کو دیئے جارہے ہیں جو کہ عدالتی اصولوں کی بدترین خلاف ورزی ہے،اس موقع پر انہوں نے وہ خط بھی میڈیا کے سامنے پیش کیا جوانہوں نے چیف جسٹس کے نام تحریرکیا تھا اوراس میں اپنے مطالبات ان کو پیش کیئے تھے،

بھارت کی جمہوری تاریخ میں جمعہ 12 جنوری کے روز پہلی بار ایسا ہوا کہ سپریم کورٹ کے متعدد حاضر سروس ججوں نے مل کر نئی دہلی میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کیا جس سے یہ بات کھل کر سامنے آ گئی کہ عدالت عظمیٰ کے کئی سینئر ججوں اور چیف جسٹس آف انڈیا دیپک مشرا کے مابین نہ صرف شدید اختلافات پائے جاتے ہیں بلکہ اس شدت میں اضافہ بھی ہوتا جا رہا ہے۔اس پریس کانفرنس سے قبل عدالت عظمیٰ کے جسٹس جاستی چیلامیشور نے بتایاکہ چیف جسٹس نے ہمارے لیے اس کے سوا اور کوئی راستہ چھوڑا ہی نہیں کہ ہم ان حقائق کو عوام کے پاس لے کر جائیں کہ ملکی سپریم کورٹ میں کیا کچھ ہو رہا ہے۔

ان ججوں نے یہ بھی کہا کہ وہ چیف جسٹس مشرا کی طرف سے کی جانے والی تقسیم کار سے بھی اتفاق نہیں کرتے۔جسٹس چیلامیشور اور ان کے تین ساتھی ججوں نے کہا کہ وہ اس بارے میں جلد ہی اپنی تشویش کا تحریری اظہار ایک مشترکہ خط میں بھی کریں گے جو عوامی سطح پر جاری کیا جائے گا۔ بھارتی چیف جسٹس دیپک مشرا سے انتہائی حد تک نالاں ان چار ججوں میں جسٹس چیلامیشور کے علاوہ جسٹس رنجن گوگوئی، ایس مدن لوکْور اور جسٹس کوریان جوزف شامل ہیں،دوسری جانب بھارتی حکومت کے ایک ترجمان نے اپنے ردعمل میں کہاکہ یہ عدلیہ کا اندرونی معاملہ ہے اورحکومت اس معاملے میں مداخلت نہیں کرے گی۔