مدارس اسلامی تہذیب کا اہم حصہ ہیں، ان سے بڑے بڑے سائنسدان پیدا ہوئے،احسن اقبال

 
0
411

اسلام آباد جنوری 30(ٹی این ایس) وفاقی وزیرداخلہ پروفیسر احسن اقبال نے کہا ہے کہ مدارس اسلامی تہذیب کا اہم حصہ ہیں، ان سے بڑے بڑے سائنسدان پیدا ہوئے، 1979ء سے مدارس کا کردار تبدیل ہوا اورکمیونزم کے خلاف جہاد کیلئے مدارس کو استعمال کیا گیا، امریکی یونیورسٹیوں نے افغان پناہ گزینوں کے بچوں کو سوویت یونین سے لڑائی کیلئے عسکریت پسند بنایا لیکن جنگ ختم ہونے کے بعد امریکہ اور یورپ نے خود ٹرافیاں لیں اور ہمیں مسائل سے نمٹنے کیلئے چھوڑ دیا۔داعش مدارس کی پیداوار نہیں، امریکہ اور یورپ سے تعلیم یافتہ نوجوان شام میں لڑ رہے ہیں، ناانصافی اور امتیاز برتنے سے مسائل پیدا ہوتے ہیں، دنیا امن کیلئے کشمیر ، فلسطین اور برما جیسے مسائل اسی طرح حل کرے جس طرح مشرقی تیمور اور جنوبی سوڈان کا مسئلہ حل کیا۔

وہ منگل کو یہاں مقامی ہوٹل میں ’’افغانستان اور پاکستان میں مدارس کا کردار‘‘ کے موضوع پر سٹڈی رپورٹ کی افتتاحی تقریب سے خطاب کر رہے تھے جس کا اہتمام سینٹر فار ریسرچ اینڈ سکیورٹی سٹڈیز نے کیا تھا۔تقریب سے وزیراعطم کے مشیر قومی سلامتی ناصر خان جنجوعہ، ڈنمارک کے سفیر اور دیگر نے بھی خطاب کیا۔ وزیر داخلہ نے سٹڈی کے انعقاد پر سی آر ایس ایس کو مبارکباد دی اور کہا کہ مدارس کی تاریخ بہت پرانی ہے اور یہ اسلامی تہذیب کا اہم حصہ ہیں۔ مدارس نے فزکس، ریاضی، کمیسٹری اور الجبرا کے علوم میں بڑے بڑے نام پیدا کئے۔ مدرسہ ہی ہر قسم کی تعلیم کا مرکز تھا، نوآبادیاتی دور میں مذہبی اور دنیاوی تعلیم کی تفریق پیدا ہوئی۔1979ء سے مدارس کا کردار تبدیل ہوا اور ان کا کردار کمیونزم کے خلاف جہاد کیلئے افرادی قوت پیدا کرنا ہوگیا۔ صرف مدرسہ کو بنیاد پرست نہیں بنایا گیا بلکہ امریکی یونیورسٹیوں نے افغان پناہ گزینوں کے بچوں کو بھی بنیاد پرست اور عسکریت پسند بنایا لیکن جنگ ختم ہوتے ہی سب نکل گئے، یورپ اور امریکہ نے یہ جنگ جیتنے پر ٹرافیاں لیں اور اپنے معاملات حل کرلئے۔پاکستانی قوم کی قیمت پر یہ جنگ لڑی گئی لیکن اور پاکستان کو صورتحال سے نمٹنے کیلئے تنہا چھوڑ دیا گیا ، یورپ اور امریکہ ان مسائل کے ذمہ دار ہیں جن کا ہم شکار ہیں۔ اب ان کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ مسائل سے نمٹنے میں تعاون کریں۔

وزیر داخلہ نے کہا کہ طالبان کا ابھرنا ایک مذہبی ہی نہیں سیاسی معاملہ تھا ۔ طالبان کے بعد القائدہ اور اب داعش وجود میں آگئی ہے۔داعش مدارس کی پیداوار نہیں بلکہ ماڈرن یونیورسٹیوں سے تعلیم یافتہ لوگ اس میں شامل ہوئے ہیں۔ امریکہ اور یورپ کے نوجوان شام میں لڑ رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ انتہا پسندی اور بنیاد پرستی ناانصافی اور تعصب و امتیاز سے جنم لیتی ہیِ۔ احسن اقبال نے کہا کہ لوگوں میں مایوسی پیدا ہوگی، انہیں انصاف نہیں ملے گا اور ان سے امتیاز برتا جائے گا تو وہ تشدد کی طرف جائیں گے۔انہوں نے کہا کہ انتہا پسند مسلمانوں کے تنازعات کا فائدہ اٹھا رہے ہیں، کشمیر کے مسلمان اپنے حق کیلئے لڑ رہے ہیں، مغربی دنیا مسلمانوں کے مسائل کی ذمہ دار ہے، فلسطین، کشمیر، برما کا مسئلہ بھی اسی طرح حل کرنا چاہئے جس طرح مشرقی تیمور اور جنوبی سوڈان کا مسئلہ حل کیا گیا۔ مسلمانوں کے مسائل پر بھی توجہ دی جائے، اگر یہ کسی اور مذہب کے لوگوں کے معاملات ہوتے تو آسمان سر پر اٹھا دیا جاتا لیکن کسی نے ان مسائل کا نوٹس نہیں لیا جب مسلمانوں کی سنی نہیں جائے گی تو ان میں مایوسی اور انتہا پسندی پیدا ہوگی ۔

وزیر داخلہ نے کہا کہ مدرسہ اصلاحات پر کام کیا جارہا ہے۔ مدارس نے اس میں بہت دلچسپی لی ہے۔ خطے میں امن واستحکام کیلئے ہمیں لارجر پولیٹکل ایشوز کو دیکھنا ہوگا، ان کو حل کئے بغیر امن قائم نہیں ہوسکتا۔ آج خطے کو جن مسائل کا سامنا ہے ان کا حل مل کر ہی نکالا جاسکتا ہے۔ نوجوانوں کی بحالی اور ان کو ڈی ریڈیکلائز کرنے کیلئے بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے، اس سلسلے میں عالمی برادری کو تعاون کرنا چاہئے تا کہ ان نوجوانوں کو قومی دھارے میں لایا جاسکے اور ان کو اکنامک سکلز سے آراستہ کیا جاسکے۔قبل ازیں مشیر قومی سلامتی ناصر خان جنجوعہ نے کہا کہ مدارس نے مذہبی تعلیم کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ رسول کریمؐ کے بعد ہم سب نظام ربّی کے داعی ہیں اور مدارس میں اس کی تعلیم دی جاتی ہے، کیا ہم دین کے تقاضے بھول جائیں اور خطے میں خلفشار کی نظر سے ہی ہر معاملے کو دیکھیں۔

انہوں نے کہا کہ جہاد کو سوویت یونین کے خلاف درست سمجھا گیا۔بعدازاں اس کا منفی تاثر پیدا کیا گیا۔ ناصر خان جنجوعہ نے کہا کہ 5 سے 16 سال کی عمر کے 5 کروڑ 12 لاکھ بچوں میں سے 2 کروڑ 85 لاکھ سکولوں میں ہیں جبکہ 2 کروڑ 26 لاکھ بچے سکول نہیں جاتے۔ اس طرح 22 فیصد سکولوں میں نہیں ہیں، جو سکول جاتے ہیں ان میں سے بھی 30 فیصد ہی انٹرمیڈیٹ کر پاتے ہیں۔ ملک میں 38 ہزار مدارس ہیں جن میں 35 لاکھ بچے تعلیم حاصل کر رہے ہیں، ہمیں دیکھنا ہے کہ کیا یہ بچے قومی تعمیر وترقی میں کردار ادا کر پاتے ہیں، ان بچوں پر حکومت خرچ نہیں کرتی۔ہر سال 46 لاکھ بچے پیدا ہوتے ہیں، ان کیلئے وسائل مہیا کرنے کی ضرورت ہے، کچھ لوگ مدارس کے بچوں کو اچھی نظر سے نہیں دیکھتے اور بھول جاتے ہیں کہ مدارس غریب والدین کا سہارا ہیں، صرف مدارس نہیں ہر جگہ اصلاحات کی ضرورت ہے۔ کالجوں، یونیورسٹیوں میں بھی اصلاحات کی ضرورت ہے۔ مدرسہ اصلاحات کے حوالے سے کافی کام ہوا ہے۔ ان کو قانونی شکل دینے کے عمل میں ہیں۔ مدارس کے بچوں کو بھی جدید نصاب پڑھایا جائے گا۔ میں نے مدارس کے لوگوں کو بہت روشن پایا ہے۔ ان کو بھی وہی مواقع میسر ہوں گے جو دوسرے بچوں کو حاصل ہیں۔ نظام ربّی کی تعلیم کو اس نظر سے دیکھنا چاہئے جو اس کا حق ہے۔ انہوں نے کہا کہ خطے میں طویل جنگ کی وجہ سے ہمیں نقصان اٹھانا پڑا ہے، ہم اپنے مسائل حل کریں گے۔