نواز شریف کو نااہلی کیس میں عوامی نوٹس کے بعد عدالت کے سامنے پیش ہونا چاہیے۔قانونی ماہرین

 
0
548
اسلام آباد جنوری 31(ٹی این ایس) ماہر قانون کامران مرتضیٰ نے کہا ہے کہ سابق وزیراعظم نواز شریف کو آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہلی کے معاملے پر جاری ہونے والے عوامی نوٹس کے بعد عدالت کے سامنے پیش ہونا چاہیے۔نجی ٹی وی کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کامران مرتضیٰ نے کہاکہ اگرچہ نواز شریف کو سپریم کورٹ سے اب تک ریلف حاصل نہیں ہوا، مگر انہیں اس معاملے میں دلچسپی لینی چاہیے تھی۔انہوں نے کہا کہ بطور ایک وکیل میں سمجھتا ہوں کہ نواز شریف عدالت میں آکر دلائل پیش کریں تاکہ اس معاملے پر پیدا ہونے والی جو الجھن ہے وہ دور ہوسکے۔
انہوں نے کہا کہ فیصلہ کسی کے حق میں آئے یا مخالفت میں، لیکن سپریم کورٹ ملک کی سب سے بڑی عدالت ہے، لہذا اس کا احترام ہر ایک کی اولین ذمہ داری ہے۔ آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت سابق وزیراعظم کی نااہلی سے متعلق بات کرتے ہوئے کامران مرتضیٰ نے کہا کہ آئین کی اس شق میں نااہلی کی مدت واضح نہیں کی گئی اور یہی ایک وجہ ہے جس سے مختلف آراءسامنے آرہی ہیں، تاہم پاناما لیکس کے فیصلے کو دیکھ کر لگتا یہی ہے کہ یہ نااہلی تاحیات نہیں، بلکہ صرف کسی ایک الیکشن تک کے لیے ہے۔اس سوال پر کہ اگر ایک شخص کسی غلط بیانی کی وجہ سے صادق اور امین نہیں رہا ہو تو کیا ممکن ہے کہ معافی کے بعد اسے دوبارہ سے عوامی نمائندہ بننے کی اجازت مل سکتی ہے؟ انہوں نے کہا کہ معافی کا راستہ ہر وقت کھلا رہتا ہے، کیونکہ اسے مذہب نے بند کیا ہے اور نہ ہی کوئی دستور ایسا کرنے سے روکتا ہے۔انہوں نے کہا کہ نااہلی کوئی سزا نہیں، بلکہ صرف ایک مدت ہے، لہذا وہ مدت مکمل ہونے کے بعد متاثرہ شخص پر سے تمام گزشتہ الزامات ختم ہوجاتے ہیں۔
پروگرام میں موجود اسلام آباد بار ایسوسی ایشن کے صدر عارف چوہدری نے کہا کہ ان کے خیال میں عدالت اس معاملے پر جو بھی فیصلہ دے گی وہ تاحیات نااہلی ہی ہوگی۔انہوں نے کہا کہ عدالت پہلے بھی پاناما فیصلے کے بعد اس بات کا کئی پہلوﺅں سے جائزہ لے چکی ہے، لہذا وہ اس بات سے اتفاق نہیں کرتے کہ یہ اناہلی کسی ایک الیکشن تک کے لیے ہے۔نواز شریف کی عدالت میں عدم پیشی پر عارف چوہدری نے کہا کہ سابق وزیراعظم نے جلسوں اور ریلیوں میں خود عدلیہ سے متعلق اپنے ایک منفی تاثر کو جنم دے دیا اور اس کے باعث اب کوئی بھی شخص انہیں عدالت جانے کا مشورہ بھی نہیں دے سکتا اور نہ ہی ان کی جماعت میں مستقبل کے حوالے سے کوئی قانونی مشاورت ہورہی ہے، بلکہ وہ اب بھی خود کو اہل تصور کرتے ہیں۔