پی آئی اے کو غیرفعال بنانے میں حکومت کا کردار مشکوک

 
0
488

اسلام آباد فروری 9(ٹی این ایس)بیرونی ممالک میں پی آئی اے(پاکستان انٹرنیشنل ائیرلائنز) کے دفاتر میں مروّجہ بیوروکریٹک طریقہ کار کی وجہ سے نیشنل فلیگ بیرئیر کو اربوں روپے کا خسارہ ہورہا ہے ۔ پاکستان سے جانے والے مسافروں کے لئے بیرون ملک سے ٹکٹ بک کروانا ضابطہ سرکار کے مطابق ممکن نہیں ہے۔جس کی وجہ سے سعودی عرب سمیت کئی ممالک میں پاکستانیوں نے نجی یا غیرملکی ائیرلائینز کا رخ کرنا شروع کردیا ہے ۔ گذشتہ دنوں سعودی عرب میں ایک نجی کمپنی میں ملازمت کرنے والے پاکستانی شہری طاہر مصطفی کو اس وقت ریاض میں واقع پی آئی اے کے سرکاری دفتر کے حکام نے ششدر کرکے رکھ دیا جب انھوں نے یہ کہتے ہوئے اس کے ٹکٹ بک کرانے سے انکار کیا،کہ انھیں پاکستان سے آنے والے افراد کے لئے ریاض یا سعودی عرب کے کسی اور شہر سے ٹکٹ بک کرانے کی اجازت نہیں ہے ۔

طاہر مصطفی ریاض میں پی آئی اے کے کاونٹر پر ماں اور بچوں سمیت آٹھ افراد کے لئے عمرے کی ٹکٹیں بک کرانے کی التجا کر رہے تھے۔ ان کے مطابق پی آئی اے کی جانب سے معذرت خوانہ رویّہ نہ صرف عجیب بلکہ افسوسناک اس لئے تھا کہ وہ پاکستانیوں کے لئے مشکلات کا باعث بننے کے علاوہ خود پہلے سے مقروض اور اربوں روپے کے خسارے کے شکار کارپوریشن کے لئے بھی براہ راست نقصان تھا ۔ آٹھ افراد کے ٹکٹوں کی کل قیمت تقریباً 20,000ریال (تقریباً562000 روپے)ہے، اور ظاہر ہے کہ یہ رقم پی آئی اے منٹوں کے حساب سے کھو رہا تھا۔اور یہی ہوا جب طاہر مصطفی کو نجی ائیرلائن کمپنی ائیر بلیو کے ٹکٹ بک کرانے پر مجبور کیا گیا۔بات صرف یہاں تک محدود نہیں ہے، اس وقت سعودی عرب میں لگ بھگ 20لاکھ پاکستانی ملازمت کی غرض سے رہائش پذیر ہیں اور اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ صرف سعودی عرب میں سرکاری کارپوریشن پی آئی اے اربوں روپے کے بزنس کا نقصان کر رہا ہے۔ یہ بزنس نقصان ایک ایسی صورتحال میں ہورہا ہے جب فائدہ پی آئی اے کی قیمت پر ائیر بلیو جیسی نجی کمپنیوں کو ہورہا ہے ۔پاکستان کی نجی ائیرلائنز کے مالکان کا اثرورسوخ حکومت اورحکومتی اداروں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔

ائیربلیو کا مالک اس وقت ملک کے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی ہیں۔اور یہی وجہ ہے کہ ملک کے عام شہری سے لے کر باشعور طبقہ پی آئی اے کے برسوں سے جاری زوال پذیری کو ایک سازش کی طرح دیکھ رہے ہیں اورحکومت کوبھی اس حوالے سے شک کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں۔اس بارے میں اسلام آباد کے ایک عام ٹیکسی ڈرائیور احمد سرفراز کا کہنا ہے ” حقیقت یہ ہے کہ حکومت نہیں چاہتی کہ پی آئی اے کی حالت سنوارے کیونکہ اس طرح کئی بااثر افراد کو نقصان ہوگاورنہ پی آئی اے کے مسائل کوئی معمہ نہیں ہے۔” حکام کے مطابق سال 2017تک پی آئی اے کے خسارے کا تخمینہ 45ارب روپے سے تجاوز کرچکا ہے۔ پی آئی اے کی طویل مدت سے جاری بدانتظامی تو اپنی جگہ لیکن بین الاقوامی ٹکٹنگ سہولیات سے کم از کم کارپوریشن کی آمدنی تو بڑھائی جاسکتی ہے اور مبصرین کابھی یہ کہنا ہے کہ یہ تبدیلی لانا مشکل نہیں ہے۔

حکام کے مطابق پی آئی اے میں ملک سے باہر کئی ممالک میں ٹکٹوں کی فراہمی میں حائل رکاوٹوں کی بڑی وجہ کارپوریشن کے اصول و ضوابط میں پائی جانے والی خامیاں ہیں جو کچھ تبدیلیوں اور قانون سازی کے ذریعے ختم کی جاسکتی ہیں۔ اس حوالے سے”ٹی این ایس”نے پی آئی اے کے ترجمان مشہود تاجور کے سرکاری موقف جاننے کے لئے ان سے بار بار ر ابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن موصوف موبائل فون پر جواب دینے سے گریزاں تھے۔ تاہم پارلیمنٹ میں پی آئی اے کی کارگردگی کو بہتر بنانے کے لئے قائم خصوصی کمیٹی (Committee on the Performance of PIA)کے رکن سینیٹر نعمان وزیر خٹک نے “ٹی این ایس”کو تصدیق کی کہ حکومت پارلیمنٹ کی تجاویز پر عملدرآمد کے لئے سنجیدہ نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا ،” اس مسئلے پر کمیٹی میں بحث ہوتی رہتی ہے لیکن حکومت ہماری تجاویز سنجیدگی سے نہیں لے رہی۔ پی آئی اے کے مسائل متعدد
ہیں مثلاً اس ادارے میں 16000سے زائد ملازمین ہیں اور طیاروں کی تعداد صرف 38ہے۔ طیاروں کی اتنی کم تعداد کے ساتھ ہم کیا بہتری لاسکتے ہیں؟ ہم نے Employer Builder Planلانے کی تجویز پیش کی تھی لیکن حکومت ابھی تک یہ پلان بھی نہیں لاسکی ہے۔ پی آئی اے کا ایک سنجیدہ مسئلہ بورڈ آف گورنرز کا ہے، اس میں کئی ایسے لوگ بیٹھے ہیں جن کا ہوابازی کے شعبے سے دور دور تک واسطہ نہیں ہے ۔وہ فضائی امور کا کوئی تجربہ نہیں رکھتے۔ بورڈ کے کئی ارکان اس لحاظ سے نااہل ہیں۔ پی آئی اے نے حال ہی میں سری لنکا سے طیارہ لیا تھا اور پھر دوبارہ واپس کردیا، اس طرح سے قومی خزانے کو 2.8ارب روپے کا نقصان ہوا۔ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کو چاہئے کہ وہ ایک آزاد اور خودمختار بورڈ آف گورنرز بنائے جنھیں ایوی ایشن کا بھی کوئی تجربہ ہو۔ہم نے ویلیو جنریٹڈ پالیسی کا بھی تجربہ کیا ہے جس میں دنیا کے دیگر ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کی فضائی سروسز سے موازنہ کیا گیا ، ہمارے ہاں دیگر ممالک کی بہ نسبت اخراجات اور مالی نقصان دونوں بہت زیادہ ہورہے ہیں۔ دیکھتے ہیں شاید پی آئی اے کے نئے سربراہ مشرف رسول ادارے میں کوئی بہتری لائیں۔ ”

تجاویز پر عملدرآمد اور اصلاحات کی بجائے پی آئی اے نے بڑے آمدنی والے ملک امریکہ کو براہ راست پروازوں کی سروس ختم کردی ہے۔ جس سے فائدہ ملکی نجی کمپنیوں کے علاوہ غیر ملکی کمپنیوں کو بھی ہونے لگا ہے۔ لیکن نقصان اگر ہورہا ہے تو سرکاری کارپوریشن کا۔
حکومت کی بے حسی تو ایک جانب پی آئی اے میں بدعنوانی اپنے عروج پر ہے جس کے لئے نہ تو کوئی فکرمند دکھائی دے رہا ہے اور نہ ہی کوئی اقدام اٹھایا جارہا ہے۔ ماسوا ئے ان سرسری ہدایات کے جو عوام کو سنہرے خواب دکھانے کے لئے جاری کئے جاتے ہیں۔2012میں ایک غیر ملکی کمپنی MS-LUFTHANSA SYSTEM کے ساتھ ا نجینئرنگ اور آئی ٹی کے شعبوں میں 60ملین روپے کی مالیّت کے معاہدوں میں کرپشن کے الزامات سامنے آنے کے بعد گذشتہ پانچ سال سے جاری تحقیقات کا ابھی تک کوئی سرا نظر نہیں آرہا ہے۔ بدانتظامی اوربدعنوانی کے بے شمار واقعات کی وجہ سے پی آئی اے اس وقت 340بلین سے زائد روپے کا مقروض ہے اور یہ قرضے تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔

معروف ماہر معاشیات اور NUSTیونیورسٹی میں سوشل سائنسز کے ڈین اشفاق حسن خان نے اس صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے “ٹی این ایس “کو بتایا ” میرے خیال میں کسی سطح پر یہ فیصلہ ہوچکا ہے کہ پی آئی اے کو ختم کیا جائے، ورنہ اگر بہتری لانی ہوتی تو ہمیں بہت ساری کوششیں نظر آتی۔ میرے علم میں تو پچھلی دو حکومتوں نے اس سلسلے میں کوئی کوشش نہیں کی ہے، بلکہ ادارے میں بہتری لانے کی بجائے ہر جماعت نے سیاسی بنیادوں پر اپنے لوگوں کو بھرتی کیا ہوا ہے۔ حکومت کی جانب سے بہتری کے لئے کوئی کوششیں نظر نہیں آرہیں۔جب کوئی پالیسی موجود نہ ہو، سیاسی بنیادوں پر لوگوں کو نوکریاں دی جارہی ہوں ،سرمایہ کاری نہ ہورہی ہو اور طیارے کم لیکن ملازمین کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہو تو وہ ادارہ کیسے چلے گا؟”ٹی این ایس کے اس سوال پر کہ پھر کیا آپ کے خیال میں حکومت پی آئی اے کی نجکاری (Privatization) کرنے کا فیصلہ کرچکی ہے؟ان کا کہنا تھا “نجکاری اب کوئی نہیں کرسکے گا۔

اس وقت سیاسی صورتحال ہی ایسی ہے کہ کوئی حکومت ایسا کرنے کا خطرہ مول نہیں لے سکتی۔ پی آئی اے میں سیاسی مداخلت بہت زیادہ ہے اور تقریباً ہر بڑی جماعت نے اس میں اپنے اپنے لوگ بھرتی کئے ہوئے ہیں ، ان کے اب باقاعدہ یونینز بن گئے ہیں۔اس وجہ سے کوئی بھی جماعت اقتدار میں آکر نجکاری نہیں کرسکے گی۔ “پی آئی اے کے بڑھتے ہوئے قرضوں کے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ “قرضوں میں بے تحاشا اضافہ ہی اس بات کا ثبوت ہے کہ بنیادی طور پر بہتری لانے کی پالیسی موجود نہیں ہے۔ میرے خیال میں پاکستان کو جان بوجھ کر معاشی طور پر کمزور کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ بات مفادات کے ٹکراو”Conflict of Interests”کی بن گئی ہے۔ جب کاروباری لوگ سیاست میں آجاتے ہیں تو پھر یہی ہوتا ہے۔ہمارے ارباب اقتدار کو تسلیم کرلینا چاہئے کہ سیاست اور کاروبار اکٹھے نہیں چل سکتے، اس صورت میں مفادات کے ٹکراو کی صورتحال پیدا ہوجاتی ہے۔ “متعدد حکومتوں میں وزیراعظم کے مشیر اور دیگر اہم معاشی ذمہ داریاں نبھانے والے معروف ماہر معاشیات اور تجزیہ کار ثاقب شیرانی نے “ٹی این ایس” سے بات کرتے ہوئے کہا “پی آئی اے کی نجکاری کا حل اس وقت تک صرف کاغذوں تک محدود ہے جب تک یہ عمل شفافیت کے ساتھ سرانجام نہ دیا جائے اور اسے مطلوبہ تجربہ کے حامل شخص کو فروخت نہ کیاجائے۔ بڑا سوال تو یہ ہے کہ ریاست آخر کیوں اپنے ادارے منافع بخش اور موثر طریقے سے نہیں چلاسکتی؟ حالانکہ یہ 30برس قبل یہ صلاحیت رکھتی تھی۔”


کسٹمر اورینٹڈ پی آئی اے کے مختلف شعبوں کو غیرموثر بنادیا گیا ہے۔ ایسی صورتحال میں صارفین کا غیرمطمئن ہونا اورفضائی سفر کے لئے متبادل نجی ائیرلائنز کی طرف ان کا رجحان ایک منطقی عمل ہے۔ حال ہی میں پی آئی اے کی ایک پرواز میں سعودی عرب سے اسلام آباد کا سفر کرنے والے ایک مسافر اسد علی نے اپنے سفر کا روداد سناتے ہوئے “ٹی این ایس”کو بتایا “بدقسمتی سے پی آئی اے کامعیار بہت گر گیا ہے، اس کی پروازوں میں وقت کی پابندی کا خیال نہیں رکھا جاتا۔ مجھے چند ماہ قبل سعودی عرب سے اسلام آباد کا سفر کرنا تھا۔ میری پرواز کا شیڈول سعودی عرب سے پشاور اور وہاں سے اسلام آباد تھا۔ ہماری پرواز سعودی عرب سے تین گھنٹے دیر سے نکلی۔ پرواز کو پشاور میں ایک گھنٹہ سٹے کرکے اسلام آباد کے لئے اڑان بھرنا تھا لیکن پشاور پہنچ کر یہاں بھی ہمیں ایک گھنٹے کی بجائے لگ بھگ تین گھنٹے تک انتظار کرنا پڑا۔” اسد علی کے مطابق” ہمارے ساتھ طیارے میں کچھ مسافر اپنے گھر میں فوتگی پر جارہے تھے جنھیں دیر سے گھر پہنچنے کا احتمال پیدا ہوا،جس کی وجہ سے ان کی طیارے کے عملے سے تلخ کلامی بھی ہوگئی۔ “اسد علی نے مزید بتایا “سفر کے دوران طیارے کے عملے کا مسافروں کے ساتھ رویّہ بھی غیرشائستہ تھا۔ ہمارے ساتھ کچھ غیر ملکی مسافر بھی سفر کر رہے تھے اور عملے کی تقریباً ساری توجہ ان پر مرکوز رہی۔ عملے کے ارکان ہمیں اور ان مسافروں کو بالکل الگ الگ انداز سے ڈیل کر رہے تھے۔ یہاں تک کہ ہمیں کھانا بھی باسی فراہم کیا گیا۔ پی آئی اے کی پروازوں میں بنیادی سہولیات کا بھی فقدان ہے۔ ”

یاد رہے کہ 28اکتوبر2017کو نیویارک سے لاہور آنے والی پی آئی اے کی ایک پرواز دو میّتیں نیویارک میں چھوڑ کر ان کے ساتھ آنے والے مسافروں کو لاہور لے آیا تھا۔ طیارے کی لینڈنگ کے بعد جب مسافروں نے جہاز کے عملے سے ان میّتوں کے بارے میں استفسار کیا تو پتہ چلا کہ انھیں نیویارک کے فضائی اڈے پر ہی چھوڑا گیا ہے۔ مسافر اور لاہور ائیرپورٹ پر منتظر مرنے والوں کے لواحقین یہ جواب سن کر ششدر رہ گئے۔ 26فروری2017 کو کراچی سے مدینہ جانے والی پی آئی اے کی ایک پرواز میں 7مسافروں کو طیارے میں کھڑے ہوکر سفر کرنا پڑا تھا کیونکہ انھیں ٹکٹیں ملنے کے باوجود نشستیں نہیں ملی تھیں۔7اکتوبر2017کو پی آئی اے کے ایک پائلٹ کو لندن جانے والی پرواز آپریٹ کرنے کے دوران مبینہ طور پر سونے کی وجہ سے معطل کردیا گیا تھا۔

اس قسم کے واقعات کی وجہ سے پی آئی اے کا نرم تشخص (سافٹ امیج) متاثر ہوا ہے۔ اس نمائندے پر اندرون و بیرون ملک فضائی سفر کرنے والے کئی مسافروں سے گفتگو کے دوران انکشاف ہوا کہ اکثر افراد جنھوں نے کبھی پی آئی اے سے سفر بھی نہیں کیا وہ بھی آمدورفت کے لئے اسے پہلا آپشن نہیں رکھتے۔ ان مسافروں نے “ٹی این ایس” کو تقریباً لگے بندھے ایک ہی انداز میں بتایا کہ وہ آئے روز پی آئی اے کی بدانتظامی کی خبروں کی وجہ سے ہمیشہ دیگر فضائی کمپنیوں کو ترجیح دیتے ہیں اور سفر کے لئے پی آئی اے کی جانب رخ کرنا گوارا نہیں کرتے۔ کاروبار کے سلسلے میں اسلام آباد اور کراچی کے درمیان قلیل وقفوں سے سفر کرنے والے نیاز خان کا کہنا ہے کہ “میں آئے روز پی آئی اے کی بدانتظامی اور گوناگوں مسائل کے بارے میں سنتا رہتا ہوں۔ میں بھلا کیوں اس کی سروس استعمال کروں؟ میں نجی کمپنیوں کی پروازوں میں ہی سفر کرنے کو ترجیح دیتا ہوں۔ ان کے طیارے بھی بہتر حالت میں ہوتے ہیں اور کسی قسم کی شکایت کا موقع بھی فراہم نہیں کرتے۔” تقریباًاسی قسم کے خیالات کا اظہار دیگر افراد نے بھی کیا۔ پی آئی اے کے طیاروں میں فنی خرابی کے اکثر واقعات اور حادثات کی وجہ سے بھی اس کا نرم تشخص کافی متاثر ہوا ہے ۔یاد رہے کہ معروف نعت خواں جنید جمشید بھی7دسمبر 2016 کو حویلیاں میں پیش آنے والے طیارہ کریش حادثے میں جاں بحق ہوگئے تھے۔اس واقعے میں پی آئی اے کی پرواز اے ٹی آر42میں سوار تمام 48مسافر ہلاک ہوئے تھے۔

ایک طرف حکام بالا کی لاپرواہی اور کبھی ملک کی شان سمجھی جانے والی قومی ائیرلائنز کی دگردوں صورتحال اور دوسری جانب نجی ائیرلائنز کے بڑھتے ہوئے منافعوں کو دیکھ کر کئی سوال پیدا ہوتے ہیں۔ ایک ایسے وقت میں جب پاکستان کے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی اپنی ائیرلائینز ائیر بلیو اور دیگر بارسوخ افراد کے ادارے دن دوگنی رات چوگنی ترقی کررہے ہیں تو آخرپی آئی اے کی حالت بہتر کیوں نہیں ہوسکتی؟