پاکستان کے رویے میں کوئی واضح تبدیلی نہیں آئی‘ امریکی اہلکار

 
0
312

واشنگٹن مارچ 6 (ٹی این ایس)ایک اعلیٰ امریکی اہلکار نے کہا ہے کہ کابل میں منعقدہ بین الاقوامی امن اجلاس کے بعدہم نے پاکستان کے رویے میں ابھی تک کوئی فیصلہ کْن یا واضح تبدیلی نہیں دیکھی۔ تاہم بقول اہلکارہم یقینی طور پر اْن معاملات پر پاکستان کے ساتھ رابطے میں ہیں جہاں ہم سمجھتے ہیں کہ وہ طالبان کی سوچ کی تبدیلی میں کوئی کارگر کردار ادا کر سکتا ہے۔اْنھوں نے یہ واشنگٹن میں دی گئی ایک بیک گراؤنڈ بریفنگ کے دوران ذرائع ابلاغ کے سوالوں کے جواب میں کہی۔ جب اْن سے پوچھاگیا کہ آیا ایسے میں جب امریکہ نے پاکستان کی امداد منجمد کردی ہے، معاملہ جب افغانستان کا ہو تو کیا پاکستان کے رویے میں کوئی تبدیلی دیکھی گئی ہے؟اہلکار نے بتایا کہ ہم حکومتِ پاکستان کے ساتھ تعلق کی ابتدا کے مرحلے میں ہیں۔ ابھی اعلیٰ سطحی تبادلوں کا سلسلہ ہوگا۔ جس ضمن میں پاکستان کی سکریٹری خارجہ، (تہمینہ) جنجوعہ منگل کو واشنگٹن میں ملاقاتیں کرنے والی ہیں۔اْنھوں نے کہا کہ ہم پاکستان سے دور نہیں ہو رہے ہیں۔ ہمارے فوجی اور سولین چینلز دونوں کی جانب سے انتہائی زوردار مکالمہ ہونے والا ہے، آیا ہم کس طرح سے مل کر کام کرسکتے ہیں۔ افغانستان کے استحکام میں مدد دینے کے حوالے سے پاکستان ایک اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔اس سوال پر کہ کابل میں منعقدہ بین الاقوامی امن اجلاس میں پاکستان کا کیا کردار رہا،
اعلیٰ امریکی اہل کار نے کہا کہ ’’امن عمل میں پاکستان کا انتہائی اہم کردار ہے۔بقول اہلکار’ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستان مذاکرات کے لیے سہولت کاری کی فراہمی میں یقینی طور پر مدد دے سکتا ہے اور ایسے اقدام اٹھا سکتا ہے جس کے نتیجے میں دباؤ ڈالا جاسکے اور طالبان کی حوصلہ افزائی ہو کہ وہ سیاسی مذاکرات کے ذریعے تصفیے کی جانب قدم اٹھائیں اور پاکستان کے ساتھ ہمارا رابطہ اس لیے ہے کہ ہم کس طرح سے مل کر کام کرسکتے ہیں کہ ہم پاکستان کی جائز تشویش پر دھیان دینے اور بات چیت کے عمل کے ذریعے افغانستان کے استحکام کو کس طرح فروغ دے سکتے ہیں۔اْنھوں نے کہا ظاہر ہے کہ پاکستانی حکام نے کئی ایک معاملات کی نشاندہی کی ہے چاہے ’بارڈر منیجمنٹ ہو، مہاجرین کا معاملہ ہو یا دہشت گردی جو افغانستان کے ایسے مقامات سے سامنے آتی ہے جہاں حکمرانی کا فقدان ہے، جو اْن کی تشویش کے اہم معاملے ہیں۔اس سلسلے میں اعلیٰ امریکی اہلکار نے مزید کہا کہ ہم اس سے اتفاق کریں گے کہ مفاہمتی عمل کے دوران ضرورت اس بات کی ہوگی کہ اِن تمام معاملوں کو حل کیا جائے۔