2015میں مہاجرین کی بڑی تعداد میں آمد کی وجہ سے جرمنی تقسیم ہوا،چانسلر میرکل 

 
0
332

برلن,, مارچ 22(ٹی این ایس) :جرمن چانسلر انجیلا میرکل نے اعتراف کیا ہے کہ 2015میں مہاجرین کی بڑی تعداد میں آمد کی وجہ سے جرمنی تقسیم ہوا تاہم ان کی چوتھی مدت اقتدار کے دوران ایسا دوبارہ نہیں ہو گا۔غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق میرکل نے چوتھی مرتبہ چانسلر کا عہدہ سنبھالنے کے بعد اپنے پہلے اہم پارلیمانی خطاب میں مہاجرین سے متعلق سخت موقف اختیار کرتے ہوئے اسلام کے بارے میں مثبت پیغام دیا۔ انہوں نے کہا کہ جرمنی تمام مسائل پر قابو پا سکتا ہے اورہم سب جرمن ہیں۔ جرمنی کی نومنتخب وسیع تر مخلوط حکومت کے قیام کے بعد میرکل نے اپنے اولین پارلیمانی خطاب میں نئی مدت کے لیے منصوبہ جات بیان کیے۔میرکل کا کہنا تھا کہ2015-16میں مہاجرین کی بڑی تعداد میں جرمنی آمد کی وجہ سے مسائل پیدا ہوئے تاہم جرمنی نے اس غیرمعمولی بحران پر قابو پا لیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس مخصوص وقت میں ایک ملین مہاجرین کو جرمنی آنے کی اجازت دینا دراصل ’ایک غیرمعمولی استثنا‘ تھا لیکن اب ایسا دوبارہ نہیں کیا جائے گا۔میرکل نے واضح کیا کہ جرمنی مستقبل میں بھی سیاسی پناہ کے متلاشی افراد کو قبول کرے گا لیکن ساتھ ہی ایسے تارکین وطن کی ملک بدری کا سلسلہ تیز کر دیا جائے گا، جن کی پناہ کی درخواستیں مسترد ہو چکی ہیں۔میرکل نے کہا کہ ترکی اور اٹلی سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن افراد نے دوسری عالمی جنگ کے بعد جرمنی کی تعمیر نو میں اہم کردار ادا کیا تھا اور اب ان کی نسلیں جرمنی کے مرکزی معاشرتی دھارے کا اہم حصہ ہیں۔انہوں نے جرمنی میں مقیم مسلمان کمیونٹی کو خوش آمدید قرار دیاکہ اس بارے میں سوال نہیں کیا جا سکتا کہ ہمارے ملک کے ارتقاء میں مسیحیت اور یہودیت نے اہم کردار ادا کیا تھا۔ تاہم یہ بھی اہم ہے کہ اس وقت جرمنی میں 4.5 ملین مسلمان بھی ہمارے ساتھ رہ رہے ہیں۔
ان کا مذہب اسلام بھی جرمنی کا حصہ بن چکا ہے۔ میرکل نے اس خطاب میں اپنی اقتصادی پالیسی کے خدوخال بھی واضح کیے۔ انہوں نے کئی سماجی مراعات کا اعلان بھی کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ان منصوبہ جات سے تمام شہریوں کو فائدہ ہو گا۔ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ جرمنی کا آئندہ چار سالہ بجٹ متوازن ہو گا، جس میں ملک میں بے روزگاری کی شرح کو مکمل ختم کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ اس موقع پر میرکل نے دہرایا کہ یورپی یونین میں مزید مضبوطی استحکام کا باعث ہے، اس لیے تمام ممالک کو اتحاد کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔