سپریم کورٹ نے موبائل کارڈ ز پر کئی اقسام کی ٹیکس وصولی کو غیر قانونی قرار اور مختلف ممالک میں کال ریٹ کا تقابلی جائزہ چارٹ بھی پیش کرنے کا حکم دیا

 
0
383

اسلام آباد، مئی 08 (ٹی این ایس):  سپریم کورٹ نے موبائل کارڈ ز پر کئی اقسام کے ٹیکس کے ذریعہ پیسہ ہتھیانے کو غیر قانونی طریقہ قرار دے دیاہے۔ چیف جسٹس آف پاکستان ثاقب نثار  نے استفسار کیا وزیرخزانہ بتائیں، سیلز اور ودہولڈنگ ٹیکس کس قانون کے تحت وصول کیا جارہا ہے؟عدالت نے مختلف ممالک میں کال ریٹ کا تقابلی جائزہ چارٹ بھی پیش کرنے کا حکم دے دیا ہے۔

تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کمپنیوں کی جانب سے موبائل کارڈرز پر زائد وصولیوں کیس کی سماعت کی، دورانِ سماعت اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ 100 روپے کے موبائل کارڈ پر موبائل کمپنیاں 19.5 فیصد سیلز ٹیکس وصول کرتی ہیں، دس فیصدسروس چارجز،12.5 فیصد ودہولڈنگ ٹیکس لیاجاتا ہے جس پر چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے تعجب کا اظہار کرتے ہوئے کہ موبائل کارڈ پرسیل ٹیکس کیسےلگا دیا، ودہولڈنگ ٹیکس کیسے وصول کیا جارہا ہے ؟ کیا استحصال نہیں جو شخص ٹیکس دینے کا اہل نہیں اس سے ودہولڈنگ ٹیکس لیا جاتا ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ وزیر خزانہ کو بلائیں، 14 کروڑ صارفین سے روزانہ ٹیکس کس کھاتےمیں لیاجاتاہے؟ ہمیں قانون بتائیں سیلزٹیکس کیوں لیاجارہاہے؟ ودہولڈنگ وہی شخص دے گا، جو ٹیکس دینے کا اہل ہوگا، کروڑعوام سے ودہولڈنگ کیسے لیا جا رہا ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ پیسے ہتھیانے کا یہ غیر قانونی طریقہ ہے، جسٹس عمرعطا بندیال کا کہنا تھا کی موبائل صارفین سے 42فیصد ٹیکس وصول کیا جارہا ہے، جس پر وکیل نے بتایا کہ وفاق میں 17 فیصد، صوبوں میں19فیصد ٹیکس وصول کیا جارہا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ودہولڈنگ ٹیکس کی وضاحت کی جائے، جسٹس اعجازالاحسن نے سوال کیا کہ سروس چارجزکیوں لیے جاتے ہیں، جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ سروس چارجز کا جواب کمپنیاں دے سکتی ہیں، حکومت اور ڈپلومیٹس سے ودہولڈنگ ٹیکس نہیں لیا جاتا۔ جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس میں کہا کہ صوبے 19.5فیصد کس قانون کےتحت سیل ٹیکس لے رہے ہیں، صوبے وضاحت کریں وہ19.5فیصدسیل ٹیکس کیوں لے رہے ہیں۔چیف جسٹس نے مختلف ممالک میں کال ریٹ کا تقابلی جائزہ چارٹ پیش کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ وفاق، ایف بی آراور صوبے کو ایک ہفتے میں جواب جمع کرانے کی ہدایت کردی۔