بینظیر انکم سپورٹ پروگرام میں اربوں  کی کرپشن کا انکشاف، ماروی میمن کی تعیناتی کے بعد اس پروگرام میں کرپشن عروج پر رہی، ادارے کی کارکردگی صرف  ویب سائٹ اور فائلوں کی حد تک ہی محدود

 
0
532

سمینارز اور پروگرامز  کے نام پرڈونرز کی آنکھوں میں دھول جھونکا جاتا رہا،انکی طرف پاکستان کے پسماندہ علاقوں کیلئے عطیہ کیئے گئے سامان میں خرد برد کی گئی

اصل ملازمین کے حقوق کا استحصال برسوں سے جاری، ماروی میمن کے والد کے ایماء  پر سندھ سے ڈیپوٹیشن پر ادارے میں لائے گئے اکثر  نااہل اور کم  تعلیم یافتہ افسران کی کارکردگی انتہائی مایوس کن

اسلام آباد، جولائی 17 (ٹی این ایس): اربوں روپے کی کرپشن بینظیر انکم سپورٹ پروگرام تباہی کے دہانے پر پہنچ گیا،بی آئی ایس پی میں تعینات افسران  کی کارکردگی صرف ادارے کی ویب سائٹ اور فائلوں کی حد تک ہی محدود رہ گئی پاکستان پیپلز پارٹی کے دور میں شروع ہونے والے پروگرامز وسیلہ حق،وسیلہ تعلیم،وسیلہ روزگار سمیت خواتین کے حقوق کیلئے خصوصی طور پر شروع کیا جانے والا پروگرام بھی کرپشن کی نظر ہو گیا۔ سابق چیئرپرسن بینظیر انکم سپورٹ پروگرام ماروی میمن کی تعیناتی کے بعد اس پروگرام میں کرپشن عروج پر رہی۔ ذرائع نے ٹی این ایس سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے اصل ملازمین کے حقوق کا استحصال برسوں سے جاری ہے گیارہ سال گزرنے کے باوجود آج تک اس ادارے میں سروس سٹیریکچر نہیں بنایا جا سکا جبکہ بی آئی ایس پی کے اصل ملازمین کو علاج معالجے کی بنیادی  سہولیات بھی دستیاب نہیں ہیں۔

دوسری جانب ڈیپوٹیشن پر ادارے میں لائے گئے اکثر افسران کی کارکردگی انتہائی مایوس کن ہونے کے باوجود ان افسران کے خلاف نہ تو کوئی قانونی کارروائی عمل میں لائی گئی اور نہ ہی انھیں دوبارہ اپنے اصل محکموں میں بھیجا گیا۔ڈیپوٹیشن پر لائے گئے اکثر افسران ایک سے زائد عہدےبھی رکھتے ہیں جبکہ وسیلہ حق،وسیلہ تعلیم سمیت دیگر پروگرامز میں تعینات ڈی جیز کی کارکردگی بھی نہ ہونے کے برابر ہے جبکہ یہ افسران ہر ماہ ادارے سے بھاری تنخواہیں بھی وصول کر رہے ہیں جبکہ اکثر افسران مطلوبہ تعلیمی اور تجربے کے معیار پر پورا نہ اترنے کے باوجود سالہہ سال سے ادارے میں موجود ہیں۔

ان ملازمین کو ڈیپوٹیشن پر ادارے میں لانے میں سابق چیئرپرسن ماروی میمن کے والد نثار میمن کے ملوث ہونے کا بھی انکشاف ہوا ہے جنکی ایما پر خصوصا سندھ سے تعلق رکھنے والے افسران کو بی آئی ایس پی لایا گیا جس کے عوض مبینہ طور پر بھاری رشوت بھی وصول گئی۔ دوسری جانب ڈونرز کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کیلئے بی آئی ایس پی کے آڈیٹوریم میں درجنوں سمینارز اور پروگرامز کا بھی انعقاد کیا گیا جن پر کروڑوں روپے کے اخراجات بھی کئے گئے۔

ذرائع نے ٹی این ایس کو بتایا کہ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام ایک سیاسی پروگرام بن چکا ہے جہاں سروے سیاسی بنیادوں پر ہی کیا جاتا ہے جبکہ گزشتہ دو سال میں ہونے والے اکثر سرویز میں ایک مخصوص پارٹی کو جان بوجھ کر فائدہ پہنچایا گیا ہے بی آئی ایس پی میں مالی بے ضابطگیوں کی تحقیقات کے دوران یہ بھی انکشاف ہوا ہے کہ ڈونرز کی طرف پاکستان کے پسماندہ علاقوں کیلئے عطیہ کیئے گئے سامان جن میں سولر سسٹم،جنیریڑز،یو پی ایس انکی بیٹریز اور دیگر سامان میں بھی بڑے پیمانے پر خرد برد کی گئی ہے جبکہ بی آئی ایس پی کے مرکزی آفس سے گزشتہ ماہ بھی دو بڑے جنیریڑ چوری ہونے کا بھی انکشاف ہوا ہے جس میں ادارے کے ملازمین ہی ملوث پائے گئے تھے جن کے خلاف ہونے والی تحقیقات کو بھی پوشیدہ رکھا گیا ہے۔

بینظیر انکم سپورٹ پروگرام میں مالی بے ضابطگیوں پر سیکرٹری بی آئی ایس پی عمر حمید خان سے موقف جاننے کیلئے بارہا رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی لیکن انکے پروٹوکول آفیسر اور پرسنل اسٹنٹ نے انکی مصروفیات کا بہانہ بنا کر ملاقات کو ناممکن بنا دیا جبکہ سیکرٹری بی ایس پی کا اکثر سٹاف بھی ڈیپوٹیشنٹ ہی ہے جبکہ انکی منہ بولی بیٹی بھی ادارے کے اکثر معاملات میں اتھارٹی سمجھی جاتی ہیں  دوسری جانب بی آئی ایس پی کے میڈیا ونگ میں تعینات ڈی جی میڈیا سمیت اکثر سٹاف معلومات تک رسائی کے قانون پر عملدرآمد  کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے جبکہ ڈی جی ایڈمن ادارے کیلئے فنڈز کے اجراء کیلئے سمینارز اور دیگر اخراجات کی تفصیل دینے سے بھی گریزاں ہیں جبکہ ڈی جی ایچ آر نے ادارے میں خلاف قانون ڈیپوٹیشن پر لائے گئے افسران اور ملازمین  کی تفصیلات دینے سے بھی انکار کر دیا جبکہ  سابق ڈی جی ایڈمن شمیم گل درانی سنگین بے ضابطگیوں کے باوجود ادارے میں ڈیپوٹیشن پریڈ گزار کر واپس جا چکے ہیں دوسری جانب ڈی جی اکاؤنٹس بھی بیک وقت دو سے زائد عہدوں پر براجمان ہیں جنکے پاس ڈی جی آڈٹ کے ساتھ ساتھ ایک پروگرام کی بھی سربراہی ہے جبکہ دیگر افسران بھی ایک سے زائد عہدے رکھتے ہیں بی آئی ایس پی خط غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے والے افراد کو مالی امداد کیلئے بنایا جانے والا پروگرام ہے جسکا بجٹ ایک سو پندرہ بلین روپے تک پہنچ چکا ہے۔

اس پروگرام کے تحت پانچ اشاریہ چار ملین افراد کو مالی امداد پہنچائی جاتی ہے جبکہ ادارے کے ملک بھر میں چار سو تیئس کے قریب دفاتر بھی موجود ہیں جو کرائے کی عمارتوں میں قائم کئے گئے ہیں اور ماہانہ کروڑوں روپے کرائے کی مد میں خرچ کیئے جاتے ہیں جبکہ اس ادارے میں ڈیپوٹیشن ملازمین کی تعداد کو شامل کر لیا جائے تو ملازمین کی تعداد دو ہزار تین سو اکیاسی تک پہنچ جاتی ہے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے ڈونرز ورلڈ بینک،ایشین ڈویلپمنٹ بینک اور یو ایس ایڈ سمیت معروف مالیاتی ادارے شامل ہیں،سالہا سال سے جاری کرپشن نے اس ادارے کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے نیب اور ایف آئی اے کو ان عناصر کے خلاف بھرپور کارروائی کرنا ہو گی جو گزشتہ گیارہ سال سے غریبوں کی فلاح و بہبود کیلئے بننے والے پروگرام سے اربوں روپے لوٹ چکے ہیں۔