سپر مارکیٹ کے ملکیت کے حوالہ سے  متنازعہ پلازہ سے بے دخل ہوئے 22دکانداروں اوران سے منسلک سینکڑوں اہل  خاندانوں کی سپریم کورٹ سے اپیل: دکانوں کو دوبارہ لیز پر دئے جانے کا مطالبہ

 
0
664

اسلام آباد،ستمبر03(ٹی این ایس): سپر مارکیٹ کے ملکیت کے حوالہ سے  متنازعہ پلازہ سے بے دخل ہونے والے 22دکانداروں اوران سے منسلک سینکڑوں  اہل خاندانوں نے سپریم کورٹ آف پاکستان سے انسانی ہمدردری کی بناء پر اپیل کی ہے کہ انہیں بے روزگاری سے بچانے کیلئے سی ڈی اے کو حکم دیا جائے کہ وہ ان دکانوں کو انہی تاجروں کے نام پر دوبارہ لیز کردے.

نیشنل پریس کلب اسلام آباد میں صدر انجمن تاجران پاکستان محمد اجمل بلوچ نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ متاثرہ تاجر 1983-84سے ان دکانوں پر کاروبار کررہے تھے جو کہ انہوں نے اس وقت کے مارکیٹ نرخ کے مطابق مہنگی پگڑی ادا کرکے کرایہ پر حاصل کی تھیں ان دکانداروں کے مالک لالچ میں آکر رینٹ کنٹرول آرڈیننس کے تحت 30سال ان دوکانوں میں کاروبار کرنے والے  دوکانداروں کو بے دخل کردیا۔چونکہ تاجر طبقہ عدلیہ کا دل سے احترام کرتا ہے لہٰذا تمام دوکانداروں نے بلا چوں وچرا عدالت عالیہ کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے اپنی دوکانوں کی چابیاں عدالت میں جمع کروا دی۔انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ میں اس کیس کی سماعت کے دوران آشکار ہوا کہ یہ دوکانیں جس پلاٹ پر تعمیر ہوئی ہیں وہ درحقیقت سی ڈی اے کی جانب سے کمیونٹی مقاصد کیلئے مختص کیا گیا تھا اور اس پر سی ڈی اے ماسٹر پلان کے مطابق سوئمنگ پول بننا تھا جبکہ لیز ہولڈر کے دعویدار نے 1988میں سی ڈی سے محض ایک عبوری نقشہ پاس کروا رکھا تھا اور یوں مذکورہ لیز ہولڈر کے دعویدار نے سی ڈی اے کی ملی بھگت سے نا صرف مہنگے داموں پگڑی وصول کی بلکہ کرائے میں حد درجہ اضافہ کے لالچ میں پرانے دوکانداروں کو بے دخل کردیا جبکہ مالک مذکورہ پلازہ کی پہلی منزل پوری کی پوری پہلے سے ہی فروخت کر چکا ہے۔انہوں نے کہا کہ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ مذکورہ تاجروں میں سے سات تاجر اقلیتی ہندو برادری سے تعلق رکھتے ہیں جو اپنا گھر باہر چھوڑ کرچالیس سال قبل اسلام آباد منتقل ہوئے تھے اور یہاں انہوں نے سندھی دستکاری/ ہینڈی کرافٹ کی دکانیں کھولیں تا کہ تھر کے پسماندہ علاقہ کی دستکاری کو عالمی سطح پر فروغ دیا جا سکے۔انہوں نے مزید کہا کہ تھر او ر سندھ کی دستکاری/ ہینڈی کرافٹ کا سارا سامان دیہی علاقوں سے بنوا کر یہاں فروخت کیا جاتا اور دنیا بھر سے آئے ہوئے سیاح ملکی اور غیر ملکی سفارتکار یہاں آکر دستکار ی کے نادر نمونے خریدتے تھے جس سے سینکڑوں لوگوں کا روزگار وابسطہ تھا۔انہوں نے کہا کہ ان دوکانداروں کو بے دخل کرنے سے نہ صرف ان دوکانوں سے وابسطہ 150 خاندانوں کو فاقوں کی نوبت پیش آ رہی ہے بلکہ سینکڑوں دستکار سندھ میں بھی بے روز گار ہوجائینگے۔اس سپر مارکیٹ کوبین الاقوامی سیاحوں اور سفارتکاروں کی خریداری کا مرکز سمجھا جاتاہے اس حوالے سے ان تاجروں کا پاکستانی دستکاری کی مصنوعات بیرون ملک متعارف کرانے میں اہم کردار تھا۔اس انکشاف کے بعدکہ ان دوکانوں کی ملکیت کا دعویدار جعل سازی کے ذریعے مالک بنا ہواتھا تو سپریم کورٹ انسانی ہمدرد ی ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے متاثرہ تاجروں اوران سے منسلک سینکڑوں خاندانوں کی معاشی کفالت کیلئے سی ڈی اے کو ہدایت دے کہ یہ دوکانیں دوبارہ انہی دوکانداروں کے نام لیز کی جائیں۔صدر انجمن تاجران پاکستان اجمل بلوچ نے یہ بھی کہا کہ ہمیں سی ڈی اے پر کوئی اعتماد نہیں اور یہ سب سی ڈی اے کی ملی بھگت سے ہوا۔ہم عدالت سے استدعا کرتے ہیں کہ ان دوکانوں کی لیز متاثرہ دوکانداروں کے نام کی جائے یا عدالت جو بھی کرایہ مقرر کرے تمام متاثرہ دوکاندار وہ کرایہ مارکیٹ ریٹ کے مطابق دینے کیلئے تیار ہیں۔