سعودی عرب ‘ ایران جنگ دنیا کی معیشت کی تباہی کے مترادف ہو گی. سعودی ولی عہد

 
0
413

واشنگٹن ستمبر 30 (ٹی این ایس): سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان نے خبردار کیا ہے کہ سعودی تیل تنصیبات پر حالیہ حملوں کے بعد اگر دنیا مل کر ایران سے منسلک خطرات کا مقابلہ نہیں کرتی تو تیل کی قیمتوں میں ناقابل ِ یقین حد تک اضافہ ہو سکتا ہے. یہ بات انہوں نے امریکی نشریاتی ادارے سی بی ایس سے انٹرویو میں کہی. ولی عہدمحمد بن سلمان نے سخت الفاظ میں ایران کو تنقید کا نشانہ بنایا اور سعودی تیل تنصیبات پر ڈرون حملوں کو حماقت قرار دیتے ہوئے کہا کہ میرے نزدیک یہ حماقت تھی‘ ان کا کوئی سٹرٹیجک مقصد نہیں تھا کوئی احمق ہی دنیا کی 5 فیصد تیل سپلائی پر حملہ کرے گا ان کا مقصد صرف اپنے آپ کو احمق ثابت کرنا ہے اور وہ انہوں نے کیا.
انہوں نے کہا کہ وہ امریکی وزیرِ خارجہ مائیک پومپیو کے اس بیان سے متفق ہیں جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ایران نے جو کیا ہے وہ ایک جنگی اقدام ہے. تاہم ایران کے خلاف جوابی کارروائی کے حوالے سے محمد بن سلمان نے کہا کہ سعودی عرب کی ایران کے ساتھ جنگ دنیا کی معیشت کی تباہی کے مترادف ہو گی انہوں نے کہا کہ تیل تنصیبات پر حملوں کا سیاسی حل چاہتے ہیں.
انہوں نے اپنے انٹرویو میں جمال خاشقجی کی ہلاکت میں براہِ راست ملوث ہونے سے ایک مرتبہ پھر انکار کیا تاہم ان کا کہنا تھا کہ وہ بطور سعودی حکومت کا اہم ترین حصہ ہونے کی وجہ سے اس قتل کی مکمل ذمہ داری قبول کرتے ہیں. ایران کے بارے میں بات کرتے ہوئے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے کہا کہ اگر دنیا ایران کو روکنے کے لیے مضبوط اور جامع اقدامات نہیں لیتی تو اس طرح کے مزید حملوں سے تیل کی سپلائی تعطل کا شکار ہو سکتی ہے اور تیل کی قیمتوں میں ناقبل یقین حد تک اضافہ ہو سکتا ہے ایسا اضافہ جو ہم نے اپنی زندگیوں میں کبھی نہیں دیکھا.
سعودی عرب میں بقیق اور خریص کے علاقوں میں سعودی تیل کمپنی ”آرامکو“ کی تنصیبات پر ہونے والے حملوں میں دنیا میں تیل صاف کرنے کا سب سے بڑا کارخانہ بھی متاثر ہوا تھا. یمن میں ایران کے حمایت یافتہ حوثی باغیوں نے ان حملوں کی ذمہ داری قبول کی تھی‘ دوسری جانب سعودی عرب اور امریکہ نے ان حملوں کی ذمہ داری ایران پر عائد کی تھی جبکہ ایران نے ان حملوں میں ملوث ہونے کے الزامات کی تردید کی تھی.
اپنے انٹرویو میں سعودی ولی عہد نے اس بات سے انکار کیا کہ انہوں نے ایک سال قبل سعودی حکام کو صحافی جمال خاشقجی کو قتل کرنے کا حکم دیا تھا‘تاہم انہوں نے کہا کہ وہ بطور رہنما اس قتل کی مکمل ذمہ داری قبول کرتے ہیں. جمال خاشقجی کو گذشتہ سال اکتوبر میں سعودی قونصل خانے میں قتل کر دیا گیا تھا تاہم محمد بن سلمان کا دعویٰ ہے کہ وہ اس آپریشن سے مکمل طور پر لاعلم تھے.
انہوں نے کہا کہ یہ ایک سنگین جرم تھا میں خاص طور پر سعودی عرب کے ایک رہنما ہونے کی حیثیت سے اس کی مکمل ذمہ داری قبول کرتا ہوں کیونکہ اس جرم کا ارتکاب ان افراد نے کیا جو سعودی حکومت کے لیے کام کرتے تھے. محمد بن سلمان نے وعدہ کیا کہ اس حوالے سے تفتیش عہدوں کو بالائے طاق رکھ کر کی جائے گی تاہم خیال رہے کہ اس حوالے سے اب تک ان کے پرانے ساتھی ال قحطانی کو شامل تفتیش نہیں کیا گیا.
انہوں نے کہا کہ جب کسی سعودی شہری کے خلاف سرکاری حکام کی جانب سے جرم کا ارتکاب کیا جاتا ہے تو بطور رہنما مجھے ذمہ داری قبول کرنی چاہیے یہ ایک غلطی تھی اور مجھے اس حوالے سے ہر ممکن اقدامات اٹھانے ہوں گے تاکہ مستقبل میں ایسی صورتحال سے بچا جا سکے. محمد بن سلمان نے کہا کہ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ مجھے معلوم ہونا چاہیے کہ سعودی حکومت کے لیے کام کرنے والے 30 لاکھ افراد روزانہ کیا کرتے ہیں؟ یہ ناممکن ہے کہ میں30 لاکھ لوگ روزانہ سعودی حکومت کے ولی عہد کو رپورٹس بھیجیں گے.
انہوں نے کہا کہ اگر سی آئی اے اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ میں نے ذاتی طور پر خاشقجی کو نشانہ بنایا تھا تو ان شواہد کو سامنے لانا چاہیے‘انہوں نے کہا کہ میں امید کرتا ہوں کہ ایسی کوئی بھی معلومات سامنے لائی جائیں گی اگر ایسی کوئی معلومات ہیں جو مجھے مورد الزام ٹھہراتی ہیں تو انھیں سامنے لانا چاہیے. انہوں نے کہاکہ کوئی بھی صحافی وحشیانہ طور پر قتل کیے جانے کا حقدار نہیں ہے‘ہمیں کسی صحافی سے کوئی خطرہ نہیں ہے سعودی عرب کو خطرہ سعودی صحافیوں کے ساتھ کیے جانے والے اقدامات سے ہے یہ سنگین جرم جو سعودی قونصل خانے میں کیا گیا.
سعودی ولی عہد نے انسانی حقوق کے حوالے سے اپنے ریکارڈ کا دفاع کیا اور خواتین کے حقوق کے کارکنوں کو حراست میں لیے جانے کے حوالے سے ایک سوال میں کہا کہ وہ ذاتی طور پر اس حوالے تشدد کے الزامات کی تفیش کریں گے.