مولانا فضل الرحمٰن کے دھرنےسے متعلق سابق وزیراعظم کے چونکا دینے والے انکشافات سامنے آگئے، جانیے تفصیلات

 
0
278

اسلام آباد 10 جولائی 2020 (ٹی این ایس): مسلم لیگ ق کے صدر چودھری شجاعت حسین نے کہا ہے کہ مولانا فضل الرحمان جب دھرنے کیلئے اسلام آباد آئے تو اس وقت بھی کچھ لوگ دھرنے پر دھاوا بولنے کے حامی تھے لیکن عمران خان سے جا کر کوئی بات کرنے کو تیار نہیں تھا۔

پاکستان مسلم لیگ کے صدر و سابق وزیراعظم چودھری شجاعت حسین نے کہا ہے کہ ہم سب کو تاریخ سے سبق حاصل کرنا چاہئے اور واقعات سے اپنی اصلاح کرنی چاہئے۔

انہوں نے کہا کہ سابق وزیراعظم میاں نوازشریف نے ملیحہ لودھی کو بغاوت کے کیس میں گرفتار کرنے کا کہا جو اس وقت دی نیوز کی چیف ایگزیکٹو تھیں۔ اس پر میں نے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ اس اقدام سے صحافی برادری اور انٹرنیشنل کمیونٹی میں اچھا تاثر نہیں جائے گا۔

ملیحہ لودھی کی گرفتاری کی صورت میں نتائج اچھے نہیں ہوں گے، اسی دوران ایک صاحب نے مجھ سے کہا کہ آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں اور آپ افہام و تفہیم کا کردار ادا کریں۔ میں نے ان صاحب سے کہا کہ آپ بات کریں۔ جس پر انہوں نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ میرے میاں صاحب کے پاس جانے سے غلط تاثر پیدا ہوگا اور میاں صاحب یہ سوچیں گے کہ میں ملیحہ لودھی کی حمایت کیوں کر رہا ہوں۔

چودھری شجاعت حسین نے دوسرے واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ مولانا فضل الرحمن جب دھرنے کیلئے اسلام آباد آئے تو اس وقت بھی کچھ لوگ دھرنے پر دھاوا بولنے کے حامی تھے لیکن عمران خان سے جا کر کوئی بات کرنے کو تیار نہیں تھا۔

میں نے عمران خان سے ملاقات میں مشورہ دیا کہ اگر مار کٹائی شروع ہوگئی اور کوئی آدمی مر گیا توالزام لینے پر کوئی تیار نہیں ہو گا۔ البتہ آپ کو ہر چیز کا جواب دینا پڑے گا، جس پر فیصلہ موخر کر دیا گیا۔

چودھری شجاعت حسین نے مزید کہا کہ مولانا فضل الرحمن کے معاملے پر ہماری پارٹی پر جو الزام لگایا گیا۔ اس کے حوالے سے میں یہ کہنا چاہوں گا کہ حالات کے مطابق میری اور چودھری پرویزالٰہی کی باہمی سوچ پر عمل کرتے ہوئے معاملہ افہام و تفہیم سے حل ہوا۔ عام آدمی سوچ بھی نہیں سکتا کہ اس وقت حالات کیا ہوں گے جب پولیس اسلحہ سمیت سڑک کے ایک طرف کھڑی ہو اور دوسری طرف مدارس کے طلباء جو مولانا فضل الرحمن کے آرڈر کا انتظار کر رہے ہوں۔

اس موقع پر میں یہ ضرورکہوں گا کہ مولانا فضل الرحمن نے ان حالات میں بڑی دور اندیشی کا ثبوت دیا اور ہماری حکمت عملی سے پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا کہ مولوی صاحبان اور پولیس چند قدموں پر کھڑے تھے لیکن لڑائی نہیں ہوئی اور اس سارے واقعہ میں ایک گلاس تک نہیں ٹوٹا۔