آئی الیون فور سبزی منڈی کو افغان مہاجرین نے یرغمال بنایا ہوا ہے مارکیٹ کمیٹی کی ملی بھگت سے مہاجر کیمپ سے منڈی کیسے پہنچے سوالیہ نشان؟

 
0
205

اسلام آباد 14 مارچ 2021 (ٹی این ایس): آئی الیون فور سبزی منڈی کو افغان مہاجرین نے یرغمال بنایا ہوا ہے مارکیٹ کمیٹی کی ملی بھگت سے مہاجر کیمپ سے منڈی کیسے پہنچے سوالیہ نشان؟ ان لوگوں کی پشت پناہی کو ن کر رہا ہے یہ منڈی میں بلکہ پورے اسلام آباد میں ان لوگوں نے قبضے کرکے آگے بھاری کرائے پر جگہ چڑھائی ہوئی ہے چیف کمشنر اسلام آباد،وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نوٹس لیں سبزی منڈی آڑھتی، تفصیلات کے مطابق آئی الیون فور سبزی منڈی کو افغان مہاجرین نے یرغمال بنایا ہوا ہے مارکیٹ کمیٹی کی ملی بھگت سے مہاجر کیمپ سے منڈی کیسے پہنچے سوالیہ نشان؟ ان لوگوں کی پشت پناہی کو ن کر رہا ہے یہ منڈی میں بلکہ پورے اسلام آباد میں ان لوگوں نے قبضے کرکے آگے بھاری کرائے پر جگہ چڑھائی ہوئی ہے،آئی الیون فور سبزی منڈی میں ماشہ خور وں کی 25سے 30دکانیں ہیں جن کا سائز 10 X 25ایک دکان کے اندر تین ماشہ خور آڑھتی بن کر بیٹھے ہوئے ہیں 20 X 90جن کی 19دکانیں آڑھتیوں کو الاٹ ہوئے ہیں ان مالکان کو کچھ سرکاری افسر پوچھتا تک نہیں مارکیٹ کمیٹی کی نا اہلی کی وجہ سے پانچ سالوں میں کوئی لائسنس نہ بنا سکے مارکیٹ کمیٹی کے افسران اگر چاہتے تو بغیر لائسنس کوئی بھی آڑھتی کام کررہا نہ ہوتا منڈی کے اندر یہ لوگ بغیر ٹیکس دیے کروڑوں روپے کمار ہے ہیں یا مارکیٹ کمیٹی کی کارکردگی سوالیہ نشان ہے؟

مارکیٹ کمیٹی کے افسران اور انسپکٹر صاحبان صرف مارکیٹ کمیٹی کے دفتروں تک موجود ہے منڈی کے اندر لا قانونیت بنی ہوئی ہے بڑی دکانوں کی آڑھتیوں کو جو عزت مارکیٹ کو دینی چاہیے تھی وہ نہ دی ماشہ خوروں کی دکانوں کے اندر تین آڑھتی بیٹھے ہوئے ہیں جنہوں نے ابھی تک لائسنس تک نہیں بنوائے مارکیٹ کمیٹی، دپٹی کمشنر اسلام آباد کے عملہ نے کبھی جو سبزی منڈی فروٹ منڈی کے اندر بیٹھے ہوئے لوگ ہیں ڈیٹا اکھٹا کرنے کی کبھی کوشش کی سوالیہ نشان ہے؟ 20 X 90کے دکانوں کے مالکان صرف دو لائسنس بنا نے کی اجازت دی گئی ہیں اور ماشہ خور کے دکانوں میں بیٹھے ہوئے جنہوں نے 10 X 25ماشہ خوروں نے تین تین لائسنس بنوائے ہوئے ہیں ان لوگوں کا پاکستان کے ساتھ کیا تعلق ہے جو کھاتے پاکستان کا ہے اور گالیاں بھی پاکستانیوں دیتے ہیں ان افغان مہاجرین کو مہاجر کیمپوں تک محدود کیا جائے تاکہ علاقہ جرائم سے پاک ہو سکے ان میں 95فیصد لوگ جرائم پیشہ لو گ ہے اگر ان کو افغانستان بدر کیا جائے تو پاکستان کے اندر امن آسکتا ہے اور پاکستان کے عوام پر سکون رہ سکتے ہیں ان میں اکثر افغانیوں نے پاکستان کے جعلی شناختی کارڈ نادرا کیساتھ مل کر بنوائے ہیں جو ابھی تک نادرا نے ان کو بلاک کرنے کی کوشش نہ کی ہے پاکستان کے عوام کیساتھ سراسر زیادتی ہے اور پاکستان ان افغان مہاجرین کی وجہ سے بد نام ہو رہا ہے چیف کمشنر اسلام آباد کو چاہیے اور مارکیٹ کمیٹی کے ایڈمنسٹریٹر کامران چیمہ کو چاہیے کہ انٹریرمنسٹر شیخ رشید احمد اور وزیر اعظم عمران خان کو چاہیے افغانستان کی حکومت کیساتھ پات چیت کرکے ان کو واپس افغانستان بدر کیا جائے اور وفاقی وزیر داخلہ کو چاہیے فوری طور پر منڈی کے آڑھتیوں کی پورا ڈیٹا اکھٹا کرکے اور ان افغان مہاجرین کا بھی ڈیٹا اکھٹا کرکے ان کو بھی مہاجر کیمپوں تک محدود کیا جائے اور منڈی کے آڑھتیوں کو وہ عزت دی جائے جو ان کا حق بنتا ہے۔

I-11/4سبزی منڈی اسلام آباد اے سی صدر نے اپنے عملہ کے ہمراہ اور پاکستان انوائرمنٹ پروٹیکشن کی ڈپٹی ڈائریکٹر سعدیہ منور نے اپنی عملہ کے ہمراہ جگہ جگہ چھاپے مارے ہیں عملہ نے کئی توڑیشاپنگ بیگ پکڑ کر ضبط کی ہے اور ہزاروں روپے جرمانہ وصول کیا گیا سبزی منڈی میں تین منزلہ عماراتیں کھڑی ہوئی ہے جن کے پاس کسی قسم کا سی ڈی اے کا ثبوت تک نہیں ہے اور نہ ہی سی ڈی اے کی طرف سے این او سیتک موجود نہیں ہے اہل علاقہ نے مطالبہ کیا ہے صرف یہ ایک اکیلی بلڈنگ نہیں اس کیساتھ ملحق کئی اور عماراتیں کھڑی کی ہوئی ہے ان کے ساتھ سی ڈی اے اور مارکیٹ کمیٹی نے اپنی اپنی انکھیں بند کی ہوئی ہے پیسہ ملنے کی وجہ سے یا کوئی اور؟ چیف کمشنر اسلام آباد کے حکم سے اے سی صدر ڈاکٹر ثانیہ حمید نے اور پاکستان انوائرمنٹ پروٹیکشن کی ڈپٹی ڈائریکٹر سعدیہ منور نے اپنے عملے کیساتھ اور اے سی صدر کیساتھ مل کر پورے سبزی منڈی کا دورہ کیا کئی دکانوں کے چیکنگ کے دوران شاپنگ بیگ پکڑے گئے ان پر بھہ ہزاروں روپے جرمانہ کیا گیا۔I-11/4فروٹ منڈی کے تاجروں نے کہا گورنمنٹ ہمارے ساتھ سوتیلی ماں جیسے سلوک کر رہی ہے شاپنگ بیگ انڈسٹری کیساتھ لاکھوں گھروں کے چھولہے جل رہے ہیں کاروبار پہلے بھی ٹھیک نہیں ہے اور مہنگائی کا دور ہے لوگ مہنگائی کی وجہ سے آٹا اور چینی کے چکروں میں پڑے ہوئے ہیں لوگ خودکشی کرنے پر مجبور ہے ان لوگوں نے بتایا کہ گورنمنٹ کو چاہیے ان شاپنگ بیگ کے متبادل کپڑے کے تھیلے مہیا کیا جائے تاکہ لوگوں کی جان شاپنگ بیگ سے چھوٹ جائے گورنمنٹ کو چاہیے کہ غریب انڈسٹری مالکان کو تھوڑی بہت رعایت دی جائے یا ٹائم دیا جائے تا کہ یہ اپنا اور اپنے بچوں کا باعزت طریقے سے پیٹ پال سکے۔

G-11مرکز انجمن تاجران کے جنرل سیکرٹری سید قیصر عباس میڈیا کو انٹریو دیتے ہوئے کہا کہ G-11مرکز دکانداروں اور تجاویزات مافیا اور سی ڈی اے کا آپس میں معاملہ ہے ہمارا ان معاملات سے کوئی تعلق نہیں ہے آفتاب گجر صاحب ہمارے انجمن تاجران کے G-11مرکز کے صدر ہے اور اچھے آدمی ہے ہمارے بھائی ہے۔آٖفتاب گجر کے بھائی وقاص احمد گجر(مرحوم) سے میرا تعلق تھا میرے بہت اچھے دوست تھے مجھے اس مارکیٹ میں کام کرتے ہوئے عرصہ16/17سال ہو گئے کاروبار کرتے ہوئے، مرکز میں سی ڈی اے اور دیگر اداروں کے لوگ ہیاں پر آتے ہیں اور کھاتے پیتے ہیں ہمیں دکانداروں کے مسائل پر توجہ دینی چاہیے ہم دکانداروں کو سمھجا سکتے ہیں ہم کوئی کورٹ تو نہیں ہیاں پر پارکنگ کا مسلہ بہت زیادہ ہے تجاویزات کی وجہ سے پارکنگ کرنا بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے مجھے اپنی گاڑی پارک کرنے کے لیے جگہ نہیں ملتی کرونا کی وجہ کاروبار بہت متاثر ہوا ہے خاص کر بچوں کی تعلیم کا نقصان بہت زیادہ ہوا ہے حکومت کو بچوں کی تعلیم پر خصوصی توجہ دینی چاہیے ار خصوصا کرونا کی تیسری وار میں بچوں کے مستقبل کا خاص خیال رکھنا چاہیے ایس او پیزکے مطابق بچوں کی تعداد صبح اور شام کی شفٹ میں کرنی چاہیے سکول و کالج بند نہیں کرنے چاہیے بچوں کا پہلے بھی بہت زیادہ نقصان ہوا ہے بچے گھر میں بالکک نہیں پڑتے اور نہ ہی توجہ دیتے ہیں۔ کرونا میں سب لوگ مرکز سے چلے گئے تھے لیکن میں روزانہ کی بنیاد پر مرکز آیا کرتا تھا مجھ سے جتنا بھی ہوسکا غریب دوستوں کی مدد کی۔ ٹرفک بند ہونے کی صورت میں ان لوگوں کو ان کے گھروں میں پہنچایا لوگوں نے کرونا کے دوران اپنی اثاثہ جات اور جمع پونجی فروخت کرکے اپنے گھروں کا نظام چلایا لوگوں نے بہت مشکلات سے اپنے گھروں کے اخراجات پورے کیے پورے اسلام آباد کے مرکز میں کوئٹہ ریسٹورنٹ بہت زیادہ ہو گئے ہیں ان لوگوں کی وجہ سے دکان مالکان نے کرایہ بڑھادئیے یہ لوگ تیس ہزار والی دکان کو خالی کراکے مالکان کو ڈیڑھ لاکھ روپے اور بھاری ایڈوانس دیکر مالکان کو پابند کر دیا اور مالکان نے جو غریب کرایہ دار ہے ان کو کرایہ کی مد میں تنگ کرنا شروع کر دیا ہے ہوٹل مالکان اپنی حد سے تجاوز کر رہے ہیں وہ اپنی مرضی سے کر رہے ہیں ان میں ہمارا کوئی عمل دخل نہیں ہے یونین کوئی کورٹ نہیں دکانداروں کو سمجھا سکتے ہیں ان کے اوپر اپنی مرضی مسلط نہیں کر سکتے بازار کے راستے کھلے ہونگے تو خریدار مرکز میں خریداری کے لیے آئینگے۔ خاص کر خواتین کو گاڑی پارک کرنے کے لیے دشواری کا سامنا کرنا پڑتا یے تھانہ رمنہ پولیس ہمارے ساتھ تعاون کر رہی ہے پولیس کا گشت مرکز اور اردگرد میں ہونا چاہیے جرائم پیشہ افراد کسی وقت بھی اپنی کاروائیاں کر سکتے ہیں ان کا کوئی ٹائم ٹیبل نہیں ہوتا ڈی ایس پی ملک خالد اعوان بہت اچھے انسان، ملنسار شخصیت کے مالک ہے ایس ایچ او شپ کے دوران ان علاقوں میں ایس ایچ او تعینار رہے ہیں اچھے طریقے سے علاقے کی پہچان رکھتے ہیں۔