“وزیراعظم صاحب ھم تھوڑا سا گھبرا لیں”

 
0
449

تحریر: اعجازعلی ساغر اسلام آباد
Twitter: @SAGHAR1214

تحریک انصاف کی حکومت کو پونے سال مکمل ھونے کو ہیں ان پونے تین سال میں عوام کو دن میں تارے دکھا دیے گئے مہنگائی,غربت اور بیروزگاری عروج پہ پہنچ گئی بیڈ گورننس کا یہ حال ہے کہ وفاقی وزراء اور مشیران کی بات ایک سترہ اٹھارہ گریڈ کا افسر نہیں مانتا,یہ واحد حکومت ہے جس میں کسی کو کسی کا ڈر نہیں ہے تمام ادارے تباہ ھوچکے ہیں اداروں کو پاؤں پر کھڑے کرنے کے وزیراعظم عمران خان کے تمام دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے 2018 کے الیکشن تک ہر زبان زد عام عمران خان عمران خان تھا لیکن آج کسی بھی مکتبہ فکر کو دیکھ لیں سب اس حکومت سے نجات کی دعائیں مانگتے نہیں تھکتے آخر کیا وجہ ہے کہ عمران خان سے اتنا پیار کرنیوالے ان سے نجات کی دعا مانگتے ہیں۔
اسکی اگر وجوہات دیکھی جائیں تو بہت سے محرکات سامنے آتے ہیں جن میں مہنگائی اور بیروزگاری سرفہرست ہے عمران خان نے حکومت سنبھالتے ہی عام آدمی کی زندگی بہتر بنانے پر زور دیا مگر وفاقی وزراء,مشیران اور بیوروکریسی جوکہ پچھلی حکومتوں کی عوامی مسائل میں عدم دلچسپی کی وجہ سے کام چور بن چکے تھے لہذا انہوں نے تحریک انصاف کی حکومت میں بھی عوام اور عوامی مسائل پہ توجہ نہیں دی وزراء اور مشیران میں سے اکثریت ان کی ہے جو پچھلی حکومتوں کا بھی حصہ رہ چکے ہیں لہذا ان کا مقصد وزارت اور اقتدار ہے نہ کے عوام اور عوامی مسائل یہ سب ملکر وزیراعظم کو سب اچھا ہے کی رپورٹ دیتے رہے ادھر دوسری طرف حالات دن بدن خراب سے خراب تر ھوتے چلے جارہے تھے عوام کا پارہ ہائی ھوتا جارہا تھا جسکو وزیراعظم عمران خان نے محسوس کرلیا اور انہوں نے چند مخلص دوستوں کی مشاورت سے براہ راست عوام سے ٹیلیفونک رابطے کا فیصلہ کرلیا۔
بذریعہ اشتہارات عوام کو آگاہ کیا گیا اور ایک مخصوص نمبر دیاگیا کہ وزیراعظم عوام کی ٹیلی فون کالز براہ راست لیں گے لہذا پہلی دفعہ ریکارڈڈ کالز لی گئیں جس میں عوام نے کھل کر بھڑاس نکالی جس سے عمران خان صاحب کو محسوس ھوا کہ ان اڑھائی پونے تین سال میں عوامی مسائل کی طرف اس طرح توجہ نہیں دی گئی جس کا انہوں نے قوم سے واعدہ کیا گیا لہذا وزیراعظم نے مسلسل قوم سے رابطے میں رہنے کا فیصلہ کرلیا انہوں نے کارکردگی نہ دکھانے والے وزراء اور افسران کو فارغ کرنے کا فیصلہ کیا وزراء اور بیوروکریسی کو بڑے پیمانے پر تبدیل کیا گیا اور وزیراعظم نے سختی سے کہا کہ عوام کو سہولیات دینا اس حکومت کی اولین ترجیح ہے۔
دوسری دفعہ عوام سے براہ راست کال لینے کا فیصلہ کیاگیا چونکہ پہلے ریکارڈڈ کالز لی گئیں جس پر اپوزیشن کی طرف سے کافی تنقید کی گئی لہذا اس بار براہ راست عوام کے سوالات لینے کا فیصلہ کیا گیا وزیراعظم عمران خان کے اس فیصلے کی تعریف کرنی ھوگی کہ انہوں نے عوام سے کارکردگی کے متعلق پوچھنے کا فیصلہ کیا گوکہ یہ فیصلہ بہت زیادہ رسکی تھا کیونکہ وہ حکومت جو پونے تین سال ڈلیور نہ کر پائی ھو اور پھر یکدم عوام میں آنے کا فیصلہ کرلے اس کیلئے ایسا فیصلہ کرنا آبیل مجھے مار کے مترادف ہے مگر خان صاحب نے ٹھان لیا تو مطلب ٹھان لیا وہ اس وقت تک چین سے نہ بیٹھتے جب تک اس کو پورا نہ کرلیتے۔
خیر اس بار بھی عوام نے خوب بھڑاس نکالی جہاں انہوں نے معاشی پالیسیوں کی تعریف کی وہیں بیڈ گورننس اور مہنگائی کا رونا بھی رویا۔
ایک گھریلو خاتون نے وزیراعظم کو کال کی اور کہا کہ وزیراعظم صاحب مہنگائی بہت بڑھ گئی ہے متوسط طبقے کیلئے گھر چلانا مشکل ھوگیا ہے ھم بچوں کی فیسیں ادا کریں یا گھر کا راشن پورا کریں اب جبکہ ڈالر کی قیمت نیچے آرہی ہے اور روپے کی پوزیشن مستحکم ھورہی ہے پاکستان کی معیشت بہتر ھورہی ہے ڈالر پاکستان آرہے ہیں لیکن اس کے باوجود مہنگائی کم ھونے کا نام نہیں لے رہی آپ اگر مہنگائی کنٹرول نہیں کرسکتے تو پھر آپ ھمیں تھوڑا سا گھبرانے کی اجازت دیدیں کیونکہ آپ اپنی ہر تقریر میں کہتے ہیں کہ میرے پاکستانیوں آپ نے گھبرانا نہیں ہے۔
وزیراعظم اور ان کی کابینہ کیلئے اس عورت اور تمام کالرز کی شکایات ہی ان کی کارکردگی کا سرٹیفیکیٹ ہے وزیراعظم عمران خان کو تمام چاپلوس وزراء,مشیران اور بیوروکریسی کے چنگل سے نکلنا ھوگا بقول وزیراعظم کے کہ انہیں آرمی چیف کی طرف سے 6 ماہ کا مزید وقت دیا گیا ہے کہ عوامی مسائل کی طرف توجہ دیں اور ملک سے غربت,بیروزگاری اور مہنگائی کا خاتمہ کریں ورنہ معاملات دوسری طرف چلے جائیں گے اس بات کا انکشاف وفاقی وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی فوادچوھدری نے ایک انٹرویو میں کیا۔
حکومت کو ایک طرف متحدہ اپوزیشن کا چیلنج درپیش ہے گوکہ اپوزیشن کی طاقت بٹ گئی ہے اپوزیشن اتحاد کی بڑی سیاسی جماعتیں پیپلزپارٹی اور ANP پی ڈی ایم سے بظاہر الگ ھوگئی ہیں جسکی وجہ سے اپوزیشن کی توجہ بٹ گئی ہے حکومت کو اس کا بہت فائدہ ملا ہے لیکن حکومت کو اپنے ہی رہنماء جہانگیر ترین سے خطرہ پیدا ھوگیا ہے کیونکہ شوگر اسکینڈل کیس میں ایف آئی اے نے جہانگیر ترین اور ان کے بیٹے علی ترین کیخلاف تحقیقات کا آغاز کردیا تھا اور دونوں باپ بیٹے کیخلاف مقدمہ درج کیاگیا۔
اس ساری صورتحال نے حالات کشیدہ کردیے کیونکہ 40 سے زائد ممبر قومی و صوبائی اسمبلیز اس وقت جہانگیر ترین کیساتھ ہیں اور وزیراعظم عمران خان کو الٹی میٹم دیا ہے اگر جہانگیر ترین کیخلاف مقدمات ختم نہ کیے گئے تو پھر وہ الگ بلاک بناکر تحریک انصاف کو خیرباد کہہ دیں گے۔
یہ صورتحال کسی بھی صورت حکومت کے حق میں بہتر نہیں ہے عمران خان جو کرپشن کیخلاف اعلان جنگ کرتے ھوئے اقتدار میں آئے مگر انہیں غیروں کیساتھ ساتھ اپنوں سے بھی مزاحمت کا سامنا رہا ہے اقتدار میں آتے ہی شاہ محمود قریشی,جہانگیر ترین,اسدعمر اور علیم خان کے درمیان رسہ کشی شروع ھوگئی اور ہر ایک دوسرے کو پارٹی سے نکلوانے پہ تل گیا جسکی وجہ سے پنجاب جیسا مضبوظ محاذ کمزور بزدار کے حوالے کرنا پڑگیا
تحریک انصاف اور عمران خان کو اتنا نقصان اپوزیشن نے نہیں پہنچایا جتنا اپنوں کی رسہ کشی اور کرپشن نے پہنچایا۔
عمران خان صاحب اور تحریک انصاف کے پاس آخری موقع ہے ڈلیور کرکے تو شاید دوبارہ اقتدار مل جائے لیکن اگر یہی صورتحال رہی تو عمران خان اور تحریک انصاف کا یہ آخری دور ھوگا کیونکہ جو آگاہی عمران خان نے قوم کو دی وہ اس کا استعمال عمران خان پر بھی کرے گی اب بھی وقت ہے باقی ماندہ ٹائم کو عوامی مسائل حل کرنے,غربت,مہنگائی اور بیروزگاری ختم کرنے میں صرف کیا جائے عمران خان صاحب خواب غفلت سے جاگیں آپ کے وزراء اور مشیران پرانی روش پر ہیں اور نئے نئے وزیر طاقت اور اقتدار کے نشے میں ایسے کھوئے اور سوئے ہیں کہ ان کو کابینہ سے نکالیں گے تو ان کو عقل آئے گی اگر جہانگیر ترین شوگر اسکینڈل میں ملوث ہیں تو گھبرانے کی ضرورت نہیں ان کو سخت سے سخت سزا دیں اس بات کی پرواہ نہ کریں کہ ان کیساتھ کون کھڑا ہے آپ اسٹینڈ کرجائیں اور اگر وہ سچے ہیں تو اپنی صفوں میں وہ سانپ تلاش کریں جس نے آپ کو آپ کے دیرینہ دوست اور پارٹی کے محسن کیخلاف لاکھڑا کیا۔
وزیراعظم صاحب اس ملک کا سب سے بڑا مسئلہ کرپشن ہے جس میں ایک نائب قاصد سے لیکر وزراء تک ملوث ہیں مطلب چھوٹے بڑے سب ملوث ہیں آپ جب تک ان کو سزائیں نہیں دیں گے تب تک حقیقی تبدیلی نہیں لاسکتے۔ آپ ھمیشہ چائینہ کی طرز حکومت کو فالو کرتے ہیں اور ان کی تعریف کرتے ہیں آپ کو بھی وہی طرز حکومت اپنانا ھوگا اور کرپشن میں ملوث ہر چھوٹے بڑے کو لٹکانا ھوگا۔ اس ملک میں عدالتوں کا نظام تقریباً تباہ ھوچکا ہے تبھی بقول آپ کے کرپٹ مافیا آزاد ہے اور انہیں کوئی ڈر فکر نہیں ہے پورے سسٹم کو بدلنے کی ضرورت ہے آپ کے پاس وقت کم ہے آپ کو اب محض 6 ماہ کی مہلت ملی ہے بجائے ہتھیار ڈالنے کے آپ ڈنڈا اٹھا لو جو بھی کرپشن کرے اسے نشان عبرت بنادو اگر اس ملک کو صحیح ڈگر پر لانا ہے تو بلاامتیاز احتساب عمل میں لانا ضروری ہے روز اول سے ہی جس ادارے کی طرف آپ کی توجہ مبذول کروانے کی کوشش کی جارہی ہے وہ ہے بیوروکریسی آپ اپنے ستر سالہ نظام پر نظر دوڑائیں جتنا نقصان اس ملک کو کرپٹ بیوروکریس نے پہنچایا ہے اتنا شاید ہی کسی نے پہنچایا ھو یہی وجہ ہے کہ آپ کو پنجاب اور وفاق میں بیوروکریسی میں بار بار تبدیلی کرنا پڑی جس کا سلسلہ ابھی تک جاری ہے وزیراعظم صاحب سیاستدانوں کو سزا دینے کیساتھ ساتھ کرپٹ بیوروکریسی کو سزائیں دینا ھوں گی آپ کے پونے تین سالہ دور حکومت میں آپ کو اس بیوروکریسی نے ماموں بنائے رکھا اور سب اچھا ہے کی رپورٹ دی حالانکہ کون سا ایسا ادارہ ہے جو کرپشن سے پاک ہے۔
سب کچھ آپ کے سامنے ہے اگر آپ نے ہمت باندھی اور کرپٹ مافیا کو سزائیں دیں تو یہ ملک صحیح ڈگر پہ چلا جائے گا اور جس پاکستان کا خواب آپ نے دیکھا ہے اسکی تکمیل ھوگی ورنہ یہ مافیا جو اس ملک کی جڑیں کھوکھلی کرچکا ہے اسے کھا جائے گا۔
اس ملک میں روز اول سے ہی اقتدار سنبھالنے والوں سے بھی اس قوم کی اپیل ہے کہ خدارا اب تجربات کی بس کریں اور ملک میں روس اور چین جیسا شفاف صدارتی نظام لانے کی کوشش کریں تاکہ لااللہ کے نظریے پر وجود میں آنیوالا واحد ایٹمی اسلامی ملک دنیا کیلئے بطور رول ماڈل ثابت ھو صدارتی نظام ہی اس ملک کی ضرورت ہے لہذا خدارا اس ملک کو ان چوروں اور ڈاکوؤں سے بچاتے ھوئے صدارتی نظام رائج کیا جائے اور ملک میں حقیقی تبدیلی کی ابتداء کی جائے۔