قائد اعظم سے وزیراعظم عمران خان تک فلسطین کے ساتھ پرعزم

 
0
284

اندر کی بات ۔ :اصغرعلی مبارک…. ۔کالم نگار
۔قائد اعظم سے وزیراعظم عمران خان تک کےعزم’ کا اعادہ ‘فلسطینیوں کے ساتھ تھے” فلسطینیوں کے ساتھ ہیں” فلسطینیوں کے ساتھ رہیں گے۔”پاکستان نے قبلہ اول آزادی تک اسرائیل کو تسلیم کرنے کے ہر عالمی دباو کو مسترد کیا پاکستان ترکی سوڈان کی سفارتی اورلبنان حماس ایران کی عملی کاوشوں سے اگیارہ روز سے جاری خون ریزی کا خاتمہ ہوا اسرائیل اور حماس کے درمیان علی الصبح جنگ بندی ہوگئی 11 روز سے جاری جھڑپوں کے نتیجے میں غزہ کی پٹی میں شدید تباہی جبکہ اسرائیل میں زندگی متاثر ہوئی۔غزہ کی وزارت صحت کے مطابق ان 11 روز کے دوران اسرائیل کی جانب سے غزہ میں کی گئی بمباری کے نتیجے میں 65 بچوں سمیت 232 فلسطینی جاں بحق ہوئے جن میں جنگجو بھی شامل تھے جبکہ 1900 کے قریب زخمی ہوئے۔حماس حکام کے مطابق اسرئیلی حملوں کے نتیجے میں عمارتیں ملبے کے ڈھیر میں تبدیل ہونے کی وجہ سے ایک لاکھ 20 ہزار افراد در بدر ہوئے۔اس دوران پاکستان کےوزیر اعظم عمران خان اور فلسطینی صدر محمود عباسی کے درمیان ٹیلی فونک رابطہ ہوا جس میں وزیراعظم کی جانب سے فلسطینی عوام کے حقوق اور ان کی جائز جدوجہد کے لیے پاکستان کی مستقل حمایت کے عزم کا اعادہ کیا وزیر اعظم عمران خان نے صدر محمود عباس سے فلسطین کی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا اور مسجد اقصیٰ میں بے گناہ نمازیوں پر حملوں اور غزہ میں اسرائیلی فضائی حملوں کی شدید مذمت کی جس کے نتیجے میں بچوں سمیت متعدد شہری جاں بحق اور سیکڑوں زخمی ہوئےخیال رہےکہ بین الاقوامی سطح پر 10 مئی سے جاری خون خرابے کو روکنے کے لیے دباؤ کے بعد اس جنگ بندی کے لیے مصر نے مذاکرات کیے تھے جس میں غزہ کا دوسرا طاقتور عسکری گروہ اسلامی جہاد بھی شامل تھا۔اسرائیل اور حماس کے درمیان علی الصبح جنگ بندی ہوگئی جس نے 11 روز سے جاری جھڑپوں کا خاتمہ کیا جن کے نتیجے میں غزہ کی پٹی میں شدید تباہی جبکہ اسرائیل میں زندگی متاثر ہوئی۔غزہ کی وزارت صحت کے مطابق ان 11 روز کے دوران اسرائیل کی جانب سے غزہ میں کی گئی بمباری کے نتیجے میں 65 بچوں سمیت 232 فلسطینی شہید جبکہ 1900 کے قریب زخمی ہوئے۔حماس حکام کے مطابق اسرائیلی حملوں کے نتیجے میں عمارتیں ملبے کے ڈھیر میں تبدیل ہونے کی وجہ سے ایک لاکھ 20 ہزار افراد در بدر ہوئے۔دوسری جانب حماس کے راکٹس کے نتیجے میں اسرائیل میں ایک فوجی اور 2 بچوں سمیت 12 افراد ہلاک ہوئے جن میں ایک بھارتی اور 2 تھائی لینڈ کے شہری شامل تھے۔ جنگ بندی شروع ہونے کے بعد غزہ کی سڑکوں پر جشن منایا گیا، جس میں کاروں کے ہارن بجائے اور ہوائی فائر بھی کیے گئے جبکہ مقبوضہ مغربی کنارے پر ہجوم سڑکوں پر نکل آیا۔حماس کے سینئر رہنما خلیل الحیا نے مذکورہ اعلان کے بعد سڑکوں پر جمع ہزاروں فلسطینیوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ “یہ فتح کی خوشی ہے”۔ لڑائی کی وجہ سے غزہ میں فلسطینی عید الفطر کا تہوار نہیں مناسکے تھے چنانچہ گزشتہ روز جمعے کے روز غزہ میں عید کی ملتوی تقریبات منعقد ہوئیں۔ادھر جنگ بندی کا پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے خیر مقدم کیا، شاہ محمود قریشی نے گزشتہ روز اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے جنگ بندی کا مطالبہ اور اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل پر اسرائیل کے غزہ پر حملے رکوانے کے لیے زور دیا تھا۔امریکی صدر جو بائیڈن نے بھی سمجھوتے کا خیر مقدم کیا اور کہا کہ ‘مجھے یقین ہے کہ ہمارے پاس ترقی کرنے کا حقیقی موقع ہے اور میں اس کے لیے کام کرنے کے لیے پرعزم ہوں’ ساتھ ہی انہوں نے سمجھوتے کے لیے مصر کی کوششوں کو بھی سراہا۔اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتین یاہو کے دفتر سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا کہ سیکیورٹی کابینہ نے تمام سیکیورٹی حکام کی جانب سے مصر کے غیر مشروط باہمی جنگ بندی کے منصوبے کو قبول کرنے کی سفارشات کی منظوری دے دی ہے۔دوسری جانب حماس اور اسلامی جہاد نے بھی اپنے بیانات میں جنگ بندی کی تصدیق کی۔ اسلام آباد میں قائم فلسطینی سفارتخانے کے حکام نے کہا کہ پاکستانی حکومت نے ہمیشہ ان کے مقصد کی حمایت کی ہے۔ فلسطین کے ساتھ پاکستانیوں کی محبت کی وجہ سے ہی اسرائیلی اور پاکستانی تعلقات کبھی قائم نہیں ہوسکے۔وزیراعظم عمران خان کے سخت ردعمل دینے پر شکریہ ادا کیا اور ان تمام سیاسی جماعتوں، میڈیا اور سول سوسائٹی سمیت پاکستانیوں کی تعریف کی جنہوں نے فلسطین کے ساتھ کسی بھی طرح سے اظہار یکجہتی کی۔فلسطینی ریاست نے اسرائیل سے متعلق ‘سخت ردعمل’ دینے اور فلسطینی مقاصد کی حمایت کرنے پر وزیراعظم عمران سے تشکر کا اظہار کیا ۔اسلام آباد میں فلسطین کے سفارتخانے کے بیان میں بھی فلسطین کے خلاف اسرائیلی جارحیت کی مذمت کرنے پر حکومت کا شکریہ ادا کیا گیا۔اعلامیے میں کہا گیا کہ ‘فلسطینی پاکستان کو اپنا دوسرا گھر اور پاکستانیوں کا اپنا عزیز بھائی سمجھتے ہیں جنہوں نے ہمیشہ دنیا کے ہر فورم پر فلسطین کی حمایت کی’۔ پاکستان کا مؤقف بالکل واضح ہے کہ ہم اسرائیل کو کبھی تسلیم نہیں کر سکتے جب تک فلسطینیوں کو ان کا حق نہیں ملتا۔”اسرائیل کے بارے میں پاکستان کا موقف واضح ہے۔ قائداعظم نے کہا تھا کہ جب تک فلسطینیوں کو اُنکے بنیادی حقوق اور علیحدہ ریاست نہیں ملتی، تب تک پاکستان اسرائیل کو تسلیم نہیں کرسکتا۔” وزیراعظم عمران خان نے پہلے بھی ایک بیان کہا تھا کہ اگر ہم اسرائیل کو تسلیم کرلیں تو مقبوضہ کشمیر کو بھی چھوڑ دینا ہوگا کیونکہ دونوں کا معاملہ یکساں ہے یہ حقیقت ہے کہ مسئلہ فلسطین ہو یا مسئلہ کشمیر یہ واضح ہوگیا ہےکہ اقوام متحدہ اور اوآئی سی کا کردار واجبی ساہے۔ زبانی جمع خرچ کرنے کے سوا ان اداروں نے طویل عرصے سے کچھ نہیں کیا قیام پاکستان کے بعد سے قطع نظر اس کے کہ حکومت کا تعلق کس جماعت سے رہا ہو ہر حکومت نے فلسطینی مسلمانوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا۔ اگرچہ یہ حقیقت بھی اپنی جگہ ہے کہ پاکستان کے عوام کے جذبات اس سلسلے میں شدید ترین رہے اور حکومتوں کے لیے ان جذبات کی بعینہ ترجمانی ہر دور میں ہو سکی ہے۔ لیکن یہ اپنی جگہ سچ ہے کہ کسی بھی حکومت نے تمام تر دباؤ کے باوجود اسرائیل کی ناجائز ریاست کو آج تک تسلیم نہیں کیا اور پاکستان کا ایک ایک شہری آج بھی اسرائیل کو ناجائز ریاست سمجھتا ہے۔یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ پاکستان کے اندر پوری قوم جن امور پر سیسہ پلائی دیوار ہے ان میں سے ایک مسئلہ فلسطین اور قبلہ اول کی یہودی تسلط سے آزادی ہے۔ یہ اصول اہل پاکستان کے جذبات کی ترجمانی ہیں ۔ پاکستانی قوم کی روایت بھی اور بانیان پاکستان کا ورثہ بھی۔ اس لیے اس سے پیچھے ہٹنے کا سوچنا بھی محال ہے۔ پاکستانیوں کے دل فلسطینی بھائیوں کے ساتھ دھڑکتے ہیں۔ اپنے اس امتیاز پر اہل پاکستان بجا طور پر فخر کر سکتے ہیں کہ ان کا یہ جذبہ شبنم کی طرح پاک اور فولاد کی طرح مضبوط ہے۔ اہل پاکستان کے اس واضح، دوٹوک اور اٹل موقف کی وجہ سے ناجائز اسرائیلی ریاست پاکستان کو اپنا دشمن قرار دیتی ہے اور بانی پاکستان نے فلسطین اور اسرائیل کی ناجائز ریاست کے سلسلے میں قوم کو جو پیغام دیا ھےکہ ھم ”فلسطینیوں کے ساتھ تھے” فلسطینیوں کے ساتھ ہیں” فلسطینیوں کے ساتھ رہیں گے۔”پاکستان نے قبلہ اول آزادی تک اسرائیل کو تسلیم کرنے کے ہر عالمی دباو کو مسترد کیا بھلا ہو شوشل میڈیا کا جس نے اس بار 11 روز سے جاری جنگ میں اسرائیل کا اصل چہرہ دیکھا کرکے دنیا بھرکےانسانی حقوق کے علمبرداروں کو متحرک کیا اور درحقیقت صحیح معنوں میں جب عوام سڑکوں پہ نکلتے ہیں تو حکومتوں پر دباؤ پڑتا ہے۔ وزرا میں ہلچل مچتی ہے، مشیران سر جوڑ کر بیٹھتے ہیں۔ پولیس کو سکیورٹی دینی پڑتی ہے، میڈیا کو بھی چاہتے نہ چاہتے ہوئے کوریج دینی پڑتی ہے اور ایسا اس بار دنیا بھر میں ہوا ۔جس کے نتیجے میں اسرائیل دہشت گرد ملک بھی گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہو گیا حالانکہ امریکہ نے سلامتی کونسل کے اجلاس میں فلسطین کے حوالے سے اسرائیلی جارحیت کی قرارداد کو ویٹو کر دیا جس اجلاس کی صدارت کرنے والے ملک چین نے سخت لہجے میں دنیا کو بتایا کہ چین پاکستان کے موقف کی تائید جاری رکھے گا پاکستان میں قومی اسمبلی کے اجلاس میں اور دیگر اعلی سطح پر بھی اس کردار کو سراہا گیا اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ جنگ کسی بھی مسئلے کا حل نہیں ہے۔ ویسے بھی ان بیچارے کشمیریوں اور فلسطینوں کے لیے کون سا کوئی جنگ لڑنے کو تیار نظر آیا اب تک مشاہدہ میں بات سامنے آئی ہے کہ کشمیری مجاہدین ہوں یا پھر فلسطینی انہوں نے اپنی مدد آپ کے تحت تمام تر نامساعد حالات میں بھی اپنے سے کئی گنا زیادہ طاقتور دشمن کوناکوں چنےچبوائے۔اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ پاکستان کا کردار اس حوالے سے ھمیشہ مثبت رہا وزیراعظم عمران خان کی سیاسی بصیرت بہت عمدہ رہی بروقت فیصلوں کے لئے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے ترکی سوڈان فلسطین کے وزرائے خارجہ کے تعاون سے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں فلسطینی عوام کے مسائل دنیا کے سامنے رکھے اور حل کیلئے باقاعدہ پلان بتایا قائداعظم محمد علی جناح کے ویژن کی روشنی میں وزیر اعظم عمران خان نے خارجہ پالیسی وضع کررکھی ھے۔ دنیاجانتی ھےکہ وطن عزیز پاکستان کے بانیان خصوصاً بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح اور مصور پاکستان علامہ محمد اقبال کے ویژن کی بدولت برصغیر کے مسلمانوں کو آزادی نصیب ہوئی۔ دونوں بزرگ شخصیات صرف برصغیر ہی نہیں دنیا بھر کے مسلمانوں اور اسلام کو درپیش چیلنجوں پر نظر رکھتی تھیں اور ان کی اس دور میں عالمی ایشوز کے بارے میں جو رائے سامنے آئی وہ آج بھی بعینہ حق اور سچ ثابت ہو رہی ہے۔ضروری ہے کہ ہم اہل پاکستان عمومی زندگی اور پاکستان کی داخلی پالیسیوں کے حوالے سے ان بانیان کی سوچ اور اپروچ کو اپنے لیے ایک لائحہ عمل کے طور پر دیکھتے ہیں۔ اسی طرح خارجہ معاملات کے بارے میں بھی ان کے ویژن اور خیالات اہل پاکستان کے لیے قول فیصل کی حیثیت رکھتے ہیں۔حکیم الامت علامہ اقبال نے اپنے انتقال سے صرف ایک سال پہلے ایک برطانوی رہنما کو فلسطینی مسلمانوں کے حق میں خط لکھا اور برطانوی حکومت پر زور دیا کہ عربوں سے ناانصافی نہ کی جائے۔ علامہ اقبال کا یہ خط اعلان بالفور کے بعد فلسطین پر صہیونی قبضے کی کوششوں اور وہاں پر ایک ناجائز اسرائیلی ریاست کے قیام سے پیدا شدہ صورت حال کے حوالے سے تھا۔
علامہ اقبال فرماتے ہیں: ’میں بدستور علیل ہوں، اس لیے تفصیل سے آپ کو نہیں لکھ سکتا کہ رائل کمیشن کی رپورٹ نے میرے دل پر کیسا چرکا لگایا ہے۔ نہ یہ بتانے پر قادر ہوں کہ اس رپورٹ سے ہندوستان کے مسلمان بالخصوص اور پورے ایشیا کے مسلمان بالعموم کس قدر رنج والم کا شکار ہوئے ہیں اور ان کے غم وغصے کے جذبات آئندہ دنوں کیا رنگ اختیار کر سکتے ہیں۔ لیگ آف نیشنز کو چاہیے کہ بیک آواز ہو کر اس ظلم اور طغیان کے خلاف احتجاج بلند کرے اور برطانوی باشندگان کو سمجھائے کہ عربوں سے ناانصافی نہ کریں بلکہ ان وعدوں کو ایفا کریں جو گذشتہ جنگ عظیم کے دوران برطانیہ کے حکمرانوں نے برطانوی عوام کے نام عربوں سے کیے تھے۔ حقیقی طاقت کے نشے سے سرشار ہو انسان اپنے حواس کھو بیٹھتا ہے تو تباہی سے ہمکنار ہونے میں کوئی شبہ باقی نہیں رہتا۔‘مجلس قانون ساز سے 1933 میں اپنے خطاب میں علامہ اقبال نے کہا کہ ’ہمیں اپنے دوسرے ہم مذہب مسلمانوں سے ہمدردی کے جذبات واحساسات درپیش ہیں۔ ہم یہ محسوس کرتے ہیں کہ برطانوی حکومت فلسطین اور وزیرستان میں جو پالیسی اختیار کر رہی ہے وہ سراسر ناانصافی اور ظلم ہے۔‘ علامہ اقبال کے ان خیالات سے عرب بھائیوں کے ساتھ ہمدردی کے جذبے کا اظہار ہی نہیں بلکہ ان کے ساتھ مکمل یکجہتی کا بھی اظہار ہوتا ہے۔ پون صدی قبل حکیم الامت اپنی مومنانہ بصیرت کی بنیاد پر جو دیکھ رہے تھے وہ آج عملاً نظر آ رہا ہے اور مسئلہ فلسطین سے پورا عالم اسلام متاثر ہو رہا ہے۔
برطانیہ کی طرف سے اعلان بالفور کے سامنے آنے کے ساتھ ہی اس معاملے میں قائد اعظم کی دلچسپی شروع ہوگئی اور انہوں نے فلسطین اور فلسطینی مسلمانوں کے مستقبل کو درپیش ہونے والے خطرات کو محسوس کر لیا۔ اس بارے میں پہلا ردعمل اعلان بالفور کے فوری بعد سامنے آیا۔ قائد اعظم محمد علی جناح کا کہنا تھا کہ ’میں برطانوی حکومت کو آگاہ کرنا چاہتا ہوں کہ مسئلہ فلسطین کو اگر منصفانہ اور آبرومندانہ طریقے سے حل نہ کیا گیا تو سلطنت برطانیہ کے لیے یہ تبدیلی کا نکتہ آغاز ہو گا۔ برطانیہ نے فسلطینی عربوں کی رائے عامہ کو طاقت وجبر سے کچلنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ ہم برصغیر کے مسلمان اس موڑ پر عرب موقف کے حامی ہیں اور ان کی منصفانہ جدوجہد میں ہم ان کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔ مجھے امید ہے کہ عرب مسلمان اپنے جائز حق کی جدوجہد میں ضرور کامیابی حاصل کریں گےمسلم لیگ کے سالانہ اجلاس منعقدہ لکھنو میں 15 اکتوبر 1937 کو قائد اعظم نے مسئلہ فلسطین کے حوالے سے برطانوی حکومت کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔’مسئلہ فلسطین کا تمام مسلمانوں پر گہرا اثر پڑا ہے۔ حکومت برطانیہ کی پالیسی رہی ہے کہ اس نے شروع سے لے کر اب تک مسلمانوں کو دھوکا دیا اور عربوں کی اعتبار کر لینے والی فطرت سے پورا پورا فائدہ اٹھایا ہے۔ برطانیہ نے عربوں کو مکمل آزادی دینے کے حوالے سے کیے گئے وعدے پورے نہیں کیے بلکہ ہوا یہ کہ برطانیہ نے جھوٹے وعدے کر کے خود فائدہ اٹھایا اور بدنام زمانہ اعلان بالفور کے ذریعے خود کو ان پر مسلط کر دیا اور یہودیوں کے لیے قومی وطن بنانے کی پالیسی بنانے کے بعد برطانیہ اب فلسطین کو دو حصوں میں تقسیم کرنا چاہتا ہے۔ رائل کمیشن کی سفارشات نے اس الم ناک داستان کا آخری باب لکھ دیا ہے۔ اگر یہ نافذ کر دیا گیا تو عربوں کی اپنے آزاد وطن کی تمناؤں اور آرزوؤں کا خون ہو جائے گا۔ اب ہمیں یہ کہا جا رہا ہے کہ اصل واقعات (زمینی حقائق) پر غور کریں لیکن سوال یہ ہے کہ یہ حالات پیدا کس نے کیے ۔۔۔ میں حکومت برطانیہ کو بتا دینا چاہتا ہوں کہ اگر اس نے مسئلہ فلسطین کا تدبر، جرات اور دلیری وانصاف کے ساتھ فیصلہ نہ کیا تو یہ برطانیہ کی تاریخ میں ایک تازہ انقلاب کا دروزہ کھول دے گا ۔۔ مسلمانان ہند عربوں کے اس منصفانہ اور جرات مند جہاد میں ان کی ہر ممکن مدد کریں گے۔‘”اسرائیل کے بارے میں ہمارا موقف واضح ہے۔ قائداعظم نے کہا کہ جب تک فلسطینیوں کو اُنکے بنیادی حقوق اور علیحدہ ریاست نہیں ملتی، تب تک پاکستان اسرائیل کو تسلیم نہیں کرسکتا۔”وزیر اعظم عمران خان نے گزشتہ برس ٹی وی پروگرام میں کہا کہ” قائد اعظم محمد علی جناح نے کہا تھا کہ فلسطینیوں کو حق ملے گا تو اسرائیل کو تسلیم کریں گے’۔اور یہ پاکستان کی سفارتی کاری زریں اصول بھی ہے اور اس موقف نہ تبدیلی آئی ہے اور نہ آئے گی ۔۔۔۔۔۔