“یہ پیسہ کس کی جیب میں جاتا ہے”

 
0
175

تحریر: اعجازعلی ساغر اسلام آباد
Twitter: @SAGHAR1214
بعض اوقات ھماری آنکھوں کے سامنے ھمیں لوٹا جارہا ھوتا ہے اور ھم اس سے باخبر ھوتے ہیں لیکن پھر بھی آواز نہیں اٹھاتے بس ﷲ سائیں کی گائے بنے چپ چاپ لٹتے رہتے ہیں آج کا میرا یہ کالم کچھ اسی قسم کے لٹنے پر مبنی ہے ھم میں شاید ہی کوئی ایسا شخص ھو جو روزانہ پٹرول نہ ڈلواتا ھو یا اس کا پٹرول اور ڈیزل سے واسطہ نہ پڑا ھو غریب سے غریب بھی دیہاڑی کا 100 سے 200 کا پٹرول پھونک جاتا ہے ھم اکثر ٹی وی میں بھی سنتے ہیں اور اخبارات میں بھی پڑھتے ہیں کہ آج پٹرول اور ڈیزل وغیرہ اتنے روپے اور اتنے پیسے کم یا زیادہ ھوگیا ہے مطلب آج کل اسلام آباد میں پٹرول ایک سو گیارہ روپے بیس پیسے (112.69) میں لٹر مل رہا ہے جبکہ ڈیزل بھی 113 روپے 99 پیسے ہے آپ نے کبھی غور کیا ہے کہ ھمارے ملک میں جو اس وقت سب سے چھوٹا سکہ ہے وہ ایک روپے کا ہے پھر یہ 69 پیسہ اور 99 پیسے کا نظام کیوں؟ جب سب سے چھوٹا سکہ ہی ایک روپے کا ہے تو یہ اعشاری نظام میں گڑ بڑ کیوں؟
ھم نے اپنے پچپن میں پیسوں(یعنی سب سے چھوٹا سکہ) کا نظام دیکھا ہے شاید ھم آخری نسل ہیں جنہوں نے پیسوں کا نظام دیکھا ہے ھم نے اپنے دور میں پانچ پیسے,دس پیسے,پچیس پیسے جسے ھماری پنجابی زبان میں چوانی کہا جاتا تھا اس کے بعد پچاس پیسے جسے اٹھنی یا اٹھانی کہا جاتا تھا اسکے بعد ایک روپیہ پھر دو روپے اور پھر پانچ روپے کا نوٹ ھوتا تھا یہ سب سے چھوٹے سکے اور نوٹ تھے اس کے بعد وقت بدلا اور ھمارے حکمرانوں کی ناقص پالیسیوں اور اللوں تللوں کی وجہ سے ھماری کرنسی گرتی چلی گئی اور پیسوں کا نظام ختم ھوگیا اور اسکی جگہ روپے نے لے لی یعنی سب سے چھوٹا سکہ ایک روپیہ رہ گیا ایک روپے دو روپے اور پانچ روپے کے نوٹ کی جگہ ایک روپے,دو روپے اور پانچ روپے کے سکوں نے لے لی جس کی موجودہ دور میں کوئی ٹافی بھی نہیں ملتی۔
میں اکثر کہتا ھوں کہ ھم دنیا کی سب سے منافق قوم ہیں ایک ریڑھی والے سے سودا سلف لیتے ھوئے ایک ایک پیسے کا حساب کرتے ہیں جبکہ کسی بڑے سیٹھ کی شاپ پر ہزاروں لاکھوں کی پرواہ نہیں کرتے۔
ہر روز پٹرول اور ڈیزل ڈلواتے وقت کتنے کتنے روپے ھم اس سیٹھ کی جیب میں ڈال آتے ہیں جبکہ ایک غریب دکاندار جو بیچارہ کئی افراد کا کفیل ھوتا ہے اور مجبوری میں دکان لگاتا ہے اسکو ایک دھیلا بھی چھوڑنے کو تیار نہیں ھوتے میں اکثر گھر کیلئے سودا سلف اور سبزی فروٹس خود خریدنے جاتا ھوں میرا اکثر سبزی منڈی جانا ھوتا ہے وہاں میں گاہکوں کو دکانداروں,سبزی اور پھل فروشوں سے بحث کرتے دیکھتا ھوں چند روپے بچانے کی خاطر اتنی بحث کرتے ہیں کہ ماتھے پہ پسینہ آجاتا ہے لیکن یہی لوگ اگر کسی سیٹھ کے شاپنگ مال یا کسی بڑی شاپ پر جاتے ہیں تو ہزاروں کی پرواہ نہیں کرتے اور ناک اونچی رکھنے کیلئے منہ مانگے دام چیزیں خرید کر آتے ہیں ھماری کرنسی ایشیاء میں مسلسل گراوٹ کا شکار ہے ھم سے آزادی حاصل کرنیوالے بنگلہ دیش کی کرنسی ھماری کرنسی سے تگڑی ھوچکی ہے وہ ملک ہر لحاظ سے ھم سے آگے جاچکا ہے جبکہ ھم ابھی بھی آزادی کیلئے جدوجہد کررہے ہیں اور یہ آزادی کس ملک سے نہیں بلکہ خود سے اور اس کرپٹ سسٹم سے ہے قائداعظم محمدعلی جناح رحمتہ ﷲ علیہ کے بعد جو بھی آیا ہے اس ملک کو یتیموں کے مال کی طرح لوٹا ہے سیاسی عدم استحکام اور دہشت گردی نے ملک کی جڑوں کو کھوکھلا کردیا بیرونی سرمایہ کاری رک گئی بزنس مین اس ملک میں انویسٹ کرنے کی بجائے بنگلہ دیش اور عرب ریاستوں میں مال لگانے لگے ہیں جس سے ملک کی اکانومی پر برا اثر پڑنے لگا ہے اور پاکستان کی معیشت بیٹھ گئی ہے ملک کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کیلئے سرمایہ کار کا اعتماد جیتنا ضروری ہے اور وہ سرمایہ کاری تب کرے گا جب اسے سازگار ماحول میسر آئے گا جب تک حکومت پاکستان بزنس مین کے کاروبار میں آسانیاں پیدا نہیں کرے گی تب تک وہ ایک روپیہ بھی یہاں انویسٹ نہیں کرے گا۔
وزیراعظم عمران خان,وفاقی وزیرخزانہ شوکت ترین اور وفاقی وزیر توانائی حماد اظہر کو قوم کو یہ جواب دینا ھوگا کہ یہ پیسہ کس کی جیب میں جاتا ہے یہ لوٹ مار کا نظام آخر کب ختم ھوگا؟
عمران خان صاحب آپ کرپشن فری پاکستان کا نعرہ لیکر اقتدار میں آئے ہیں آپ نے ہی اس کرپشن کو ختم کرنا ہے کیونکہ یہ وہ کرپشن ہے جس پر کوئی غور نہیں کرتا لیکن پیسہ پیسہ ملا کر ایک دن کی اربوں روپے بنتے ہیں کون ہے جس کی جیب میں یہ بھاری رقم روزانہ جارہی ہے امید ہے وزیراعظم صاحب آپ اس ملک کو حقیقی طور پر قائداعظم کا پاکستان بنائیں گے اور جس ریاست مدینہ کا خواب آپ نے دیکھا ہے اس کو عملی جامہ پہنائیں گے اور انصاف کا بول بالا ھوگا۔