برطانوی حکومت جموں و کشمیر میں قابض بھارتی فوج کی طرف سے انسانی حقوق کی وحشیانہ انداز میں خلاف ورزیاں رکوانے میں مدد کرے، بھارتی ہائی کمشنر کے برطانو ی پارلیمنٹ میں داخلے پر پابندی عائد کی جائے، برطانوی ارکا ن پارلیمنٹ

 
0
191

لندن ۔24ستمبر (ٹی این ایس):برطانوی پارلیمنٹ کے ارکان نے اپنی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ خاموش رہنے کی روش ترک کر کے بھارت کے غیر قانونی زیر تسلط جموں و کشمیر میں قابض بھارتی فوج کی طرف سے انسانی حقوق کی وحشیانہ انداز میں خلاف ورزیاں رکوانے میں مدد کرے اور برطانیہ میں تعینات بھارتی ہائی کمشنر کے برطانو ی پارلیمنٹ میں داخلے پر پابندی عائد کی جائے، جنرل اسمبلی کے اجلاس سے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے خطاب کے موقع پر ان سے اقوام متحدہ کے کنونشز کی خلاف ورزیوں اور بھارت کے زیر تسلط جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر سوال کیا جانا چاہیے ۔

لیبر پارٹی کے بریڈ فورڈ سے تعلق رکھنے والے رکن پارلیمنٹ عمران حسین نے برطانوی پارلیمنٹ میں بھارت کے غیر قانونی زیر تسلط جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کے موضوع پر مباحثے کے دوران اپنے پرجوش خطاب میں برطانوی حکومت سے پرزور مطالبہ کیا کہ وہ جبر کا شکار لوگوں کے حقوق کے لئے اٹھ کھڑی ہو اور خطے میں موجود تنازعات کو دوطرفہ بات چیت سے حل کرنے پر زور دے۔ انہوں نے جموں و کشمیر میں مظالم پر بھارت کوتنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ برطانیہ اور دیگر ممالک اس صورتحال پر خاموش رہنے کی روش ترک کریں۔

انہوں نے کہا کہ 70سال سے زیادہ عرصے سے کشمیر کے بیٹوں اور بیٹیوں کو ظلم و ستم، جبر اورانتہائی وحشیانہ ناانصافیوں کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ 70سال سے زیادہ عرصے سے وہ اس قابض بھارتی فوج کے ہاتھوں بے رحمی سے مارے جا رہے ہیں یا معذور ہو رہے ہیں جس کو بدنام زمانہ آرمد فورسز (سپیشل پاورز) ایکٹ کے تحت قانونی کارروائیوں سے استثنا حاصل ہے۔ 70سال سے زیادہ عرصے سے ان کے حقوق پامال کئے جا رہے ہیں، ان کی آزادیاں چھینی جا رہی ہیں اور ان کو حق خود ارادیت دینے سے انکار کیا جارہا ہے۔

برطانوی رکن پارلیمنٹ نے اس بات پر زور دیا کہ انسانی حقوق اور حق خود ارادیت بین الاقوامی ایشوز ہیں، ہم بار بار ان ایشوز کو اٹھاتے ہیں اس کے باوجود قابض بھارتی فوج کشمیریوں کے حقوق کی ہولناک اور وحشیانہ انداز میں پامالی جاری رکھے ہوئے ہے۔ اگر برطانیہ اور دیگر عالمی برادری اس صورتحال پر بدستور خاموشی اختیار کئے رکھتی ہے اور اقوام متحدہ کی قرار دادوں پر عملدرآمد کرانے سے انکاری رہتی ہے اور انتہا پسند مودی حکومت عالمی برادری کو نظر انداز کرنے کی روش جاری رکھتی ہے اور کشمیریوں کی جد و جہد کو دبانے کا عمل جاری رکھتا ہے تو پھر یہاں برطانوی پارلیمنٹ میں اس پر بات کرنے کا کیا مقصد باقی رہ جاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ وقت آگیا ہے کہ برطانوی حکومت اور بین الاقوامی برادری اس سلسلہ میں ٹھوس اور حقیقی اقدامات پر زور دے اور ان کا بھر پور مطالبہ کرے۔ انہوں نے اپنے کشمیری نژاد برطانوی ہونے پر فخر کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ کشمیری عالمی برادری سے اپنے حقوق کی بھیک نہیں مانگ رہے، وہ بین الاقوامی برادری کے سامنے سرتسلیم خم نہ کریں بلکہ متحدہو کر حق خود ارادیت اور اپنی قسمت کا خود فیصلہ کرنے کا حق طلب کریں ۔

لیبر پارٹی سے تعلق رکھنے والے رکن پارلیمنٹ طاہر علی نے کہا کہ جموں و کشمیر میں فوجی قبضے کی وجہ سے برطانیہ میں تعینات بھارتی ہائی کمشنر کے برطانوی پارلیمنت میں داخلے پر پابندی عائد کی جائے۔ انہوں نے کہا کہ مسئلہ کشمیر پر برطانوی حکومت کا ایکشن اس لئے بھی ضروری ہے کہ یہ اسی کی طرف سے 1947 میں پیدا کئے گئے تنازعات کی ایک مثال ہے۔انہوں نے کہا کہ رواں سال فروری میں اولڈہم ایسٹ اور سیڈل ورتھ سے برطانوی رکن پارلیمنٹ ڈیبی ابراہامز کو یہ کہتے ہوئے بھارت سے ڈی پورٹ کر دیا گیا تھا کہ کشمیریوں سے ہمدردی رکھنے والے برطانوی ارکان پارلیمنٹ اور بھارتی سیاستدانوں کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی مبصرین کو جموں و کشمیر جانے کی اجازت نہیں۔

رواں ماہ کے آغاز میں برطانیہ میں چین کے سفیر کو آل پارٹی پارلیمنٹری گروپ آن چائنا پر اجلاس میں شرکت کے لئے برطانوی پارلیمنٹ میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی گئی۔یہ اقدام چین کی طرف سے برطانوی پارلیمنٹ کے بعض ارکان پر سفری پابندیاں عائد کرنے پر سپیکر اور لارڈ سپیکر کے احتجاج کے باعث اٹھایا گیا۔انہوں نے کہا کہ اسی اصول کے تحت برطانیہ میں تعینات بھارتی ہائی کمشنر پر بھی برطانوی پارلیمنٹ میں داخل ہو نے پر پابندی لگائی جائے۔ چونکہ بھارتی ہائی کمشنر پر ابھی تک ایسی کوئی پابندی نہیں لگائی گئی اس لئے ایسا لگتا ہے کہ ہم چین کے خلاف جو اقدام اٹھانے کے لئے تیار ہیں بھارت کے خلاف وہ اقدام کرنے کو تیار نہیں۔ یہ واضح طور پر دہرا معیار ہے اور میں اس لئے بھارتی ہائی کمشنر کے برطانوی پارلیمنٹ میں داخلے پر پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کر رہا ہوں کہ کشمیر میں بھارتی فوجی قبضہ بدستور برقرار ہے۔

آل پارٹیز پارلیمنٹری گروپ آن کشمیر کی چیئر پرسن ڈیبی ابراہامز نے بھارت کے زیر تسلط جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی مذمت کی۔ انہوں نے آزاد کشمیر کے دوروں میں ہمیشہ سہولت فراہم کرنےپر پاکستانی حکومت کی تعریف کی اور کہا کہ بھارت نے اپنے زیر تسلط کشمیر تک کبھی رسائی نہیں دی۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ صحافیوں کو بھی بھارت کے زیرتسلط کشمیر میں جانے کی اجازت نہیں ۔

اس موقع پر برطانوی پارلیمنٹ کئے متعدد ارکان نے بتایا کہ برطانیہ میں پاکستان کے ہائی کمشنر معظم احمد خان نے انہیں بھارت کے زیر تسلط جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر ایک ڈوزیئر ارسال کیا ہے جو نہایت چشم کشا ہے۔

برطانوی رکن پارلیمنٹ سارہ اوون نے کہا کہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرنے والے ہیں۔ اس موقع پر ان سے اقوام متحدہ کے کنونشز کی خلاف ورزیوں اور بھارت کے زیر تسلط جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر سوال کیا جانا چاہیے ۔

برطانوی پالیمنٹ کی رکن یاسمین قریشی نے کہا کہ کشمیریوں کی طویل جدو جہد کئی عشروں پر محیط ہے، وہاں صورتحال پریشان کن ہے۔ ہم انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کو نظر انداز نہیں کر سکتے۔ انہوں نے کہا کہ چونکہ یہ تنازعہ نوآبادیاتی دور کی باقیات میں سے ہے اس لئے اس کا حل ہماری ذمہ داری ہے ۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ دو سال کے دوران بھارت کے زیر تسلط جموں و کشمیر میں ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو دستاویزی شکل دی گئی ہے۔ وہاں چھاپے اور گرفتاریاں روزہ مرہ زندگی کی حقیقت ہیں، تشدد اور جبر جاری و ساری ہے۔

لوگوں کو اجتماع کی آزادی حاصل نہیں، پریس کو خاموش کرایا جا رہا ہے اور سول سوسائٹی کا گلا گھونٹا جاررہا ہے، نظام تعلیم اور معیشت کو بے دست و پا کیا جا رہاہے، ہزاروں کی تعداد میں لوگ قید اور نظر بند ہیں،گیسٹ ہائوسز کو حراستی مراکز بنا دیا گیا ہے، صحافت کو جرم قرار دیا گیا ہے اور سنسر شپ کو آئینی تحفظ دیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت کے زیر تسلط کشمیر میں اب بھی انٹرنیٹ شٹ ڈائون ہے جو کسی بھی جمہوری ملک میں سب سے زیادہ مدت سے جاری انٹر نیٹ شٹ ڈائون ہے۔

رکن پارلیمنٹ افضل خان نے کہا کہ مسئلہ کشمیر طویل ترین عرصہ سے حل طلب رہنے والا تنازعہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں، بھارتی کسانوں کا جاری احتجاج اور اقلیتوں کے ساتھ روا رکھا جانے والا سلوک یہ ثابت کر رہا ہے کہ بھارت میں امتیازی سلوک معمول بنتا جار ہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ برطانیہ کی تاریخی اور اخلاقی ذمہ داری ہے کہ وہ امن کے لئے ثالثی کرے اور بین الاقوامی قانون کے احترام کو یقینی بنائے۔

انہوں نے کہا کہ جموں و کشمیر میں اضافی بھارتی فوج کی تیعناتی اور کمیونیکیشن بلیک آئوٹ نے کشمیریوں کے مستقبل کو غیر یقینی اور تاریک بنا دیا ہے۔ یہ خدشات بھارت بھر میں بڑے پیمانے پر پائے جانے والے مسائل کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔پاپولزم کے فروغ نے چیک اینڈ بیلنس کو کم کر دیا ہے، اقتدار کی بھوکی انتظامیہ اور اختلاف رائے رکھنے والوں پر کریک ڈائون، اقلیتوں کے حقوق سے انکار اور اظہار رائے پر قدغنیں بھارت میں طویل عرصے سے جاری کسانوں کے احتجاج سے عیاں ہیں۔عیسائیوں اور دلتوں سمیت اقلیتوں پر مظالم، حقوق انسانی کے تحفظ کے لئے کام کرنے والی معروف بین الاقوامی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کے دفاتر کی بندش سب ایک مایوس کن تصویر پیش کر رہے ہیں۔

امتیازی سلوک کو قانونی تحفظ دے دیا گیا ہے۔بھارتی ریاست گجرات میں ”ڈسٹربڈ ایزیاز ایکٹ ” مسلمانوں کے خلاف امتیازی سلوک کا آلہ کار ہے ۔ بھارت کے زیر تسلط کشمیر میں احتجاج پر پابندی عائد ہے۔کشمیر وہ واحد ریاست ہے جہاں بھارت کی طرف سے ’’کرائوڈ کنٹرول گن ‘‘کا استعمال کیا جا رہا ہے جس کے نتیجہ میں شیر خوار بچوں سمیت 700کشمیریوں کی بینائی چھین لی گئی ہے۔ ایسے مسائل کی فہرست طویل ہے اور جیسا کہ ہیومن رائٹس نامی پارلیمنٹری گروپ نے کہا ہے بھارت ایک زوال پذیر جمہوریت ہے۔

برطانوی حکومت بھارت سے دوستی اورقریبی تعلقات کی باتیں کرتی ہے لیکن سچی دوستی کے لئے دیانت داری اور ذمہ داری درکار ہے۔ ماضی میں ایک کے بعد دوسری برطانوی حکومت یہ موقف اختیار کرتی رہی ہیں کہ کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ بھارت اور پاکستان کو کرنا ہے برطانیہ نے اس میں مداخلت کرنی ہے نہ اس کے حل کے لئے ثالثی کرنی ہے۔لیکن اب ہمیں اس سے آگے بڑھنا ہوگا اور اس کردار کو تسلیم کرنا ہوگا جو برطانیہ نے مسئلہ کشمیر میں ادا کیا ہے۔

اس مسئلہ کی جڑیں دونوں ممالک کے نوآبادیاتی دور کے ماضی میں پیوست ہیں جس نے پاکستان اور بھارت کے درمیان تقسیم کو پرتشدد بنانے میں سہولت دی اور کشمیریوں کی قسمت کے فیصلے کو ادھورا چھوڑ دیا ۔