وزیراعظم عمران خان نے 13 کروڑ افراد کے لئے آٹا، دال اور گھی پر 30 فیصد سبسڈی کا حامل 120 ارب روپے مالیت کا تاریخی ریلیف پیکج پیش کر دیا، مہنگائی پر قابو پانے کے لئے کوشاں ہیں، اقتصادی اشاریئے درست سمت گامزن ہیں، قوم سے خطاب

 
0
119

اسلام آباد 03 نومبر 2021 (ٹی این ایس): وزیراعظم عمران خان نے ملک کے 13 کروڑ افراد کے لئے آٹا، دال اور گھی پر 30 فیصد سبسڈی کا حامل 120 ارب روپے مالیت کا تاریخی ریلیف پیکج پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت مہنگائی پر قابو پانے کے لئے پوری کوشش کر رہی ہے، عالمی سطح پر مہنگائی میں 50 فیصد کے مقابلے میں پاکستان میں یہ شرح صرف 9 فیصد ہے، اقتصادی اشاریئے درست سمت گامزن ہیں، مافیاز چوری کیا گیا پیسہ واپس لائیں وعدہ کرتا ہوں کہ مہنگائی میں 50 فیصد کمی کروں گا، کامیاب پاکستان پروگرام کے لئے 1400 ارب روپے مختص کئے جا رہے ہیں، ہر خاندان سے ایک فرد کو ہنر مند بنایا جائے گا، 60 لاکھ تعلیمی وظائف کے لئے 47 ارب روپے مختص کئے جا رہے ہیں، برآمدات، زراعت اور تعمیرات کے شعبے کو کورونا کے دوران بچایا گیا، میڈیا انصاف اور غیر جانبداری پر مبنی تعمیری تنقید کرے۔

بدھ کو قوم سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ فلاحی ریاست کی جانب قدم بڑھاتے ہوئے پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا فلاحی پروگرام عوام کے سامنے رکھ رہا ہوں، احساس کی ٹیم نے تین سال کی محنت سے اعداد و شمار جمع کر کے ملک کے ہر خاندان کے حالات سے آگاہی حاصل کی، یہ مشکل کام تھا، اب اس بنیاد پر اس فلاحی پروگرام کا اعلان کیا جا رہا ہے۔

وزیراعظم نے کہا کہ ہمیں ورثہ میں جو پاکستان ملا اس میں ملک کے معاشی حالات انتہائی خراب تھے، پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا خسارہ اور قرضہ ملا، زرمبادلہ کے ذخائر نہ ہونے کے برابر تھے اور قرض ادا کرنے کے لئے رقم نہ تھی، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور چین کا شکریہ ادا کرتے ہیں جنہوں نے تعاون کیا، مشکل حالات میں پاکستان کی مدد کی جس کی وجہ سے پاکستان ڈیفالٹ ہونے سے بچا، ڈالرز کی کمی کے باعث آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑا۔

وزیراعظم نے کہا کہ اپنی حکومت کے پہلے سال ہم اپنی معیشت کو مستحکم کرتے رہے پھر کورونا وبا آ گئی، اس سے جتنا نقصان ہوا، اتنا سو سال میں بھی نہیں ہوا، اس سے ساری دنیا متاثر ہوئی، غریب امیر تمام ممالک متاثر ہوئے تاہم غریب ممالک پر اس کا زیادہ اثر پڑا۔

انہوں نے کہا کہ اس مشکل مرحلہ میں این سی او سی کی ٹیم نے جس طرح اعداد و شمار پر مبنی فیصلے کئے، پاکستان کی معیشت کو بچانے میں اس کا بڑا کردار تھا۔ انہوں نے کہا کہ اس دوران ہمیں ایک خوف یہ تھا کہ اگر حالات بد تر ہوتے گئے تو بھارت کی طرح ہسپتالوں میں ہمیں جگہ میسر نہیں ہو گی جبکہ لاک ڈائون سے معیشت کی تباہی کا خوف تھا، پاکستان نے اس صورتحال میں درمیانہ راستہ نکالا جس میں این سی او سی کا بڑا کردار تھا۔

وزیراعظم نے کہا کہ ہمیں فخر ہے کہ پاکستان کی جانب سے بہترین طریقے سے اس مرحلے پر نکلنے پر عالمی سطح پر ہمارا اعتراف کیا گیا، عالمی بینک، عالمی ادارہ صحت اور ورلڈ اکنامک فورم نے پاکستان کی مثال دی، اکنامک میگزین نے بہترین طریقے سے حالات معمول پر لانے والا تیسرا ملک پاکستان کو قرار دیا۔

انہوں نے کہا کہ امریکہ نے لاک ڈائون سے معیشت کو نکالنے کے لئے چار ہزار ارب ڈالر کا پیکج دیا جبکہ پاکستان نے اس کے مقابلے میں صرف 8 ارب ڈالر لگائے۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں خوف تھا کہ اگر لاک ڈائون کیا گیا تو اس سے بیروزگاری میں اضافہ ہو گا اور غربت بڑھے گی، ہم اسی لئے لاک ڈائون سے ڈرتے رہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ ہم نے کورونا وبا کے دوران زراعت، تعمیرات، برآمدات کو خاص طور پر بچایا جس کی وجہ سے چاول کی پیداوار میں 13.6 فیصد، مکئی 8 فیصد، گنا 22 فیصد، گندم 8 فیصد اور کاٹن کی پیداوار میں 81 فیصد اضافہ ہوا جس سے زراعت کے کاشتکاروں کو 1100 ارب روپے اضافی ملے، کسانوں کے حالات اچھے ہوئے۔

ملک میں ٹریکٹر اور موٹرسائیکل کی ریکارڈ سیل ہوئی، یوریا کی سیل 23 فیصد بڑھی۔ وزیراعظم نے کہا کہ اگر کسان خوشحال ہو گا تو اس سے ملکی پیداوار بڑھے گی اور خوشحالی آئے گی۔

وزیراعظم نے تعمیرات کے شعبے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس شعبے میں اس وقت 600 ارب روپے کے منصوبے چل رہے ہیں، صنعت کے شعبہ میں لارج سکیل مینوفیکچرنگ میں 13 فیصد اضافہ ہوا جس سے روزگار بڑھا، انجینئرنگ کے شعبہ میں 350 ارب روپے کا منافع ہوا، ٹیکسٹائل کے شعبہ میں 163 فیصد، گاڑیاں 138 فیصد، سیمنٹ 113 فیصد اور آئل اور گیس میں 75 فیصد اضافہ ہوا۔

انہوں نے کہا کہ ملک میں بجلی کی کھپت میں 13 فیصد اضافہ ہوا جبکہ ٹیکس محصولات میں 37 فیصد اضافہ ہوا، ہمارے معاشی اشاریئے درست سمت میں جا رہے ہیں، آئی ٹی کے شعبہ میں گزشتہ سال 47 فیصد جبکہ اس سال 75 فیصد اضافہ ہوا، وزیراعظم نے اعتراف کیا کہ مہنگائی کا مسئلہ ہے۔ اپوزیشن کا کام تنقید کرنا ہے، تنقید سے معاشرے کا فائدہ ہوتا ہے۔

انہوں نے میڈیا سے کہا کہ وہ توازن لائے اور یہ دیکھے کہ ملک میں جو مہنگائی ہو رہی ہے اس کی وجہ عالمی سطح پر قیمتوں میں اضافہ ہے، بلوم برگ کی رپورٹ کے مطابق دنیا میں ایک سال میں اشیائے خورد و نوش کی قیمتوں میں 50 فیصد اضافہ ہوا جبکہ پاکستان میں یہ اضافہ 9 فیصد رہا، ترکی جیسے ملک میں مہنگائی کی شرح 19 فیصد بڑھی جبکہ اس کی کرنسی 33 فیصد گری، امریکہ کے اندر 2006ء کے بعد سب سے زیادہ مہنگائی ہوئی، چین میں پروڈیوسر پرائس انڈیکس میں 26 سال میں پہلی بار اتنا اضافہ ہوا، جرمنی میں 50 سالوں میں سب سے زیادہ مہنگائی ہوئی۔

وزیراعظم نے کہا کہ امریکہ میں گیس 116 فیصد، یورپ 103 فیصد اضافہ ہوا تاہم پاکستان میں درآمد کی جانے والی گیس کی قیمتوں میں اضافہ ہوا۔ وزیراعظم نے کہا کہ کشتیوں اور بحری جہازوں سے جو سامان ٹرانسپورٹ ہو رہا تھا اس کی قیمتوں میں 350 فیصد اضافہ ہوا ہے، تیل کی قیمتیں تین ماہ میں 100 فیصد بڑھیں جبکہ ہم نے اس میں 33 فیصد اضافہ کیا۔

بھارت میں پٹرول کی قیمت 250 روپے، بنگلہ دیش میں 200 روپے جبکہ پاکستان میں 138 روپے فی لیٹر ہے، ہم نے لیوی اور ٹیکس کم کئے، عالمی سطح پر ہونے والی قیمتوں میں اضافے اور گزشتہ حکومتوں کی وجہ سے ہمیں اربوں روپے کا نقصان اٹھانا پڑا۔

وزیراعظم نے کہا کہ تیل درآمد کرنے والے ممالک میں پاکستان میں فی لیٹر قیمتیں سب سے کم ہیں، پٹرول کی قیمتیں بڑھانی پڑیں گی ورنہ ہمارا خسارہ بڑھے گا، محصولات میں کمی آئے گی۔ وزیراعظم نے کہا کہ دنیا کے مقابلے میں پاکستان میں آٹے کی قیمتیں آدھی ہیں، بھارت میں آٹا 83 روپے فی کلو، بنگلہ دیش میں 83 روپے فی کلو جبکہ پاکستان میں 60 روپے فی کلو ہے۔

انہوں نے کہا کہ دالوں کی قیمتیں بھی دنیا کے مقابلے میں کم ہیں، پام آئل کی دنیا میں قیمتیں دو گنا ہو گئی ہیں، اس کے باوجود ہم نے کوشش کی کہ کم سے کم دبائو عوام پر منتقل ہو ۔ وزیراعظم نے توقع ظاہر کی کہ موسم سرما کے بعد بہتری سے دنیا میں قیمتیں کم ہوں گی جس کا اثر پاکستان پر بھی ہو گا۔ وزیراعظم نے دو کروڑ خاندانوں کے لئے 120 ارب روپے کے تاریخی فلاحی پروگرام کا اعلان کیا جس سے 13 کروڑ افراد مستفید ہوں گے۔

وزیراعظم نے کہا کہ احساس پروگرام کے تحت 260 ارب روپے کے مختلف پروگرام چل رہے ہیں، کامیاب پاکستان پروگرام کے تحت 1400 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں جس کے تحت چالیس لاکھ خاندانوں کو گھروں کی تعمیر کے لئے بلا سود قرضے دیئے جائیں گے، کسانوں کو 5 لاکھ روپے تک بلا سود قرض ملے گا، شہری علاقوں میں کاروبار کے لئے قرض فراہم کیا جائے گا، ایک خاندان سے ایک فرد کو ہنرمندی کی تربیت دی جائے گی۔

وزیراعظم نے کہا کہ کامیاب جوان پروگرام کے تحت 22 ہزار کاروبار کے لئے 30 ارب روپے کا قرض دیا جا چکا ہے، 20 لاکھ لوگوں کو ہنرمندی کی تعلیم دے رہے ہیں، پاکستان کی تاریخ کے سب سے بڑے 60 لاکھ تعلیمی سکالرشپ پروگرام کے لئے 47 ارب روپے خرچ کئے جائیں گے، اس میں صوبے بھی شامل ہوں گے۔

وزیراعظم عمران خان نے صحت کارڈ کے حوالے سے کہا کہ میری شروع سے یہ خواہش تھی کہ اگر مجھے موقع ملا تو ہر پاکستانی کے لئے ہیلتھ انشورنس فراہم کی جائے گی، اس وقت خیبرپختونخوا میں 100 فیصد خاندانوں کو یہ سہولت دی جا رہی ہے، اسلام آباد، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں یہ سہولت فراہم کی جا رہی ہے، پنجاب میں مارچ 2022ء تک ہر خاندان کو یہ سہولت میسر آ سکے گی جس سے 7 سے 10 لاکھ روپے تک کسی بھی ہسپتال میں مفت علاج کرایا جا سکے گا۔

وزیراعظم نے سندھ حکومت سے کہا کہ یہ پروگرام ایک بڑی نعمت ہے، اس کو سندھ میں بھی شروع کیا جائے۔ وزیراعظم نے صنعت کاروں سے کہا کہ وہ اپنے نفع میں مزدوروں کو بھی شامل کریں اور ان کی تنخواہوں میں اضافہ کریں۔

وزیراعظم نے احساس ٹیم کو مبارکباد دیتے ہوئے میڈیا سے اپیل کی کہ وہ قوم کو بتائے کہ مشکل وقت صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں ہے، ہم پر تو اللہ کا خاص کرم ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ اگر دو بڑے خاندان 30 سالوں سے جو پیسہ چوری کر کے بیرون ملک لے کر گئے ہیں اس میں سے آدھا بھی واپس لے آئیں تو ملک میں اشیائے خورد و نوش کی قیمتوں میں 50 فیصد کمی کر دوں گا۔

دریں اثناء وزیراعظم آفس کی طرف سے پیکج کے حوالے سے جاری تفصیلات کے مطابق قیمتوں میں حالیہ اضافے کے پیش نظر غریبوں کو ریلیف فراہم کرنے کے لیے اس پروگرام کا اعلان کیا گیا ہے۔

حال ہی میں مکمل ہونے والے احساس سروے کے ذریعے شناخت کیے گئے تقریباً 20 ملین خاندان اس پروگرام سے مستفید ہوں گے۔ مجموعی طور پر ملک بھر کے 13 کروڑ افراد اس پروگرام سے مستفید ہوں گے جو کہ آبادی کا 53 فیصد ہیں۔

گزشتہ روز وفاقی کابینہ نے اس پروگرام کو پورے پاکستان میں شروع کرنے کی منظوری دی تھی۔ اگرچہ بین الاقوامی منڈی میں قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے گھریلو اخراجات میں اضافہ ہوا ہے، تاہم افراط زر پر قابو پانا حکومت کی اہم پالیسی کا حصہ ہے۔ بتایا گیا کہ آٹا، دالوں، گھی/کھانے کے تیل کی خریداری پر 20 ملین خاندانوں میں سے ہر ایک کو 1000 روپے ماہانہ کی سبسڈی فراہم کی جائے گی۔

ان تینوں اشیاء کی خریداری پر 30 فیصد سبسڈی فی یونٹ دی جائے گی۔ ڈیجیٹل طریقہ کار کے ذریعے رعایت پر ضروری اشیاء کی خریداری کے لیے مالی مدد فراہم کی جا سکے گی۔ احساس نے نیشنل بینک آف پاکستان (این بی پی) کے ساتھ مل کر ڈیجیٹل طور پر فعال موبائل پوائنٹ آف سیل سسٹم تیار کیا ہے تاکہ ملک بھر میں این بی پی کے نامزد کردہ کریانہ اسٹورز کے نیٹ ورک کے ذریعے مستفید افراد کو خدمات فراہم کی جا سکیں۔

وفاقی حکومت اور تمام شریک وفاقی یونٹس65/ 35 کے تناسب سے مالی وسائل کا اشتراک کریں گے۔ پنجاب، خیبرپختونخوا، گلگت بلتستان اور آزاد جموں و کشمیر کی حکومتیں پہلے ہی اس پروگرام میں شرکت پر رضامند ہو چکی ہیں۔ دیگر وفاقی اکائیوں میں، سبسڈی کا وفاقی حصہ 350 روپے ہر اہل گھرانے کو دیا جائیگا۔