چڑیوں کا عالمی دن 20 مارچ ۔۔اللہ نہ کرے چڑیاں ہم سے روٹھ جائیں

 
0
306

تحریر؛اصغرعلی مبارک

اسلام آباد 20 مارچ 2022 (ٹی این ایس): دنیا بھر میں 20 مارچ کو چڑیوں کے عالمی دن کے طور پر منایاجاتاھے چڑیا، دنیا کے سارے براعظموں میں پائے جاتے ہیں۔ ہاں ان کی اقسام مختلف ہیں۔ برصغیر میں چڑیا ایک عام پرندہ ہے، جسے گھریلو چڑیا بھی کہتے ہیں، جس سے ہرکس و ناکس واقف ہے۔اکثر لوگوں کو کہتے سنا ہے کہ بچپن میں گھر کے صحن میں جس طرح چڑیاں آیا کرتی تھیں اب نظر نہیں آتیں۔ تقریباً دو دہائی قبل گھروں کے صحن، بالکنی، چھتوں اور گلیوں کے علاوہ بجلی کے کھمبوں اور تاروں پر بھی چڑیوں کی بیٹھک لگی ہوتی تھی۔ پھر آخر کیا ہوا کہ یہ مناظر غائب ہی ہو گئے؟عالمی یوم چڑیا کا مقصد گھریلو چڑیا اور ان کے شہری ماحول پر اثرات کا شعور اجاگر کرنا ہے۔ چڑیا ایک خوبصورت پرندہ ہے پاکستان بھر کے دیہاتی علاقوں میں علی الصبح چڑیوں چہچہاہٹ ایک عجیب سماں پیدا کرتی ہے جبکہ کچے گھروں میں گھونسلوں میں چڑیا اور اس کے بچے خوبصورتی کا باعث بنتی یں۔بڑھتی ہوئی ماحولیاتی آلودگی،فصلوں پر زہریلی ادویات کے چھڑکائواور کچے گھروں کی جگہ پکے مکانات کی تعمیر سے چڑیوں کے گھونسلے بھی ختم ہو گئے جبکہ ادویات کے چھڑکائو اور شہری علاقوں میں موبائل فون ٹاورز سے نکلنے والی مہلک شعاعوں سے بھی چڑیوں کی نسل تیزی سے ختم ہو رہی ہے۔اس دن کے منانے کا مقصد دنیا بھر میں گھروں کی خوبصورتی کا باعث بننے والی چڑیوںکی تیزی سے معدوم ہوتی نسل کو بچانے کیلئے عوامی شعور اجاگر کرنا ہے۔

دنیا بھر میں چڑیوں کا عالمی دن پہلی مرتبہ 20مارچ 2010ء کو منایا گیا جس کا مقصد تیزی سے ختم ہوتی ہوئی چڑیوں کی نسل کو بچانے کیلئے غور و خوض کرنا ہے۔ اس دن کی مناسبت سے دنیا بھر میں گھریلو چڑیوں کے بارے میں عوام میں شعور اجاگر کرنے کے لیے مختلف تقاریب کا انعقاد، اخبارات میں اس دن کی اہمیت پر مضامین اور چڑیا ایوارڈ دیے جاتے ہیں۔۔اللہ نہ کرے کہ ایک دن ہم سے چڑیاں روٹھ جائیں۔۔چڑیا کے گھونسلے سے جونہی کوئی بچہ (بوٹ) نیچے گرتا تو اس کی ماں ایک دم شور مچانا شروع کر دیتی۔ بعض مرتبہ انڈے نیچے گرتے اور ٹوٹ جاتے۔ بعض اوقات بچہ اس قدر چھوٹا ہوتا کہ گرتے ہی دم توڑ دیتا اور سیاہ چیونٹیوں کا جھرمٹ اس پر ٹوٹ پڑتا۔ لیکن کچھ بچے ایسے ہوتے تھے جو بچ جاتے تھے۔ ان کے چھوٹے چھوٹے پر نکل چکے ہوتے تھے لیکن بیچارے اڑ نہیں سکتے تھے۔ ہمیں پتا تھا کہ یہ نیچے رہا تو بلی کھا جائے گی۔ ہمارے گھر میں لکڑی کی ایک سیڑھی ہوتی تھی۔ ہم اس تھرتھراتی ہوئی باریک باریک ٹانگوں اور چھوٹی سی پیلی جونچ والے بچے کو پکڑتے اور اسے دوبارہ اس کے گھونسلے میں رکھ دیتے۔بعض مرتبہ تو یہ خوف سے اپنی مکمل طاقت کے ساتھ انگلی کا ماس چونچ سے پکڑ لیتا یا پھر پنچے کے باریک لیکن تیز ناخنوں سے نشان ڈال دیتا۔ یہ منظر ہمیں تواتر سے دیکھنے کو ملتا تھا۔ ہمارے کچے صحن کے بائیں جانب واقع یہ کمرہ نما برآمدہ چڑیوں کے گھونسلوں سے بھرا پڑا تھا۔ ہم اس بڑے برآمدے کے لیے پنجابی کا لفظ “ٹارا” استعمال کرتے تھے۔……………اب تو چپ چاپ شام چلی آتی ھے اصغر ۔۔۔۔
پہلے توچارسو چڑیوں کےشور ہوا کرتےتھے۔۔