پاکستان عالمی توجہ کا مرکز…..اسلام آباد آج سے او آئی سی کے 48ویں وزرائے خارجہ اجلاس کامیزبان

 
0
114

اسلام آباد 21 مارچ 2022 (ٹی این ایس): اسلام آباد آج سےاسلامی تعاون تنظیم ( او آئی سی) کے 48ویں وزرائے خارجہ کونسل اجلاس کی میزبانی کرر ہاہے۔ او آئی سی کے وزرائے خارجہ کونسل کے 48 ویں اجلاس کی میزبانی کرنا پاکستان کیلئے بڑے اعزاز کی بات ہے۔ او آئی سی اجلاس کاعنوان ’’اتحاد‘‘ ہے۔ وزارتی کانفرنس کا موضوع ‘اتحاد، انصاف اور ترقی کے لیے شراکت داری ہے,یہ اجلاس 75ویں یوم پاکستان کے موقع پر منعقد ہو رہا ہے ۔او آئی سی کے رکن اور مبصر ممالک کے وزرائے خارجہ اور اعلیٰ شخصیات اوآئی سی وزرائے خارجہ کی کونسل اجلاس کے اجلاس میں شرکت کر رہے ہیں۔ وہ بطور مہمان اعزاز 23 مارچ 2022 کو یوم پاکستان پریڈ کا بھی مشاہدہ کریں گے,۔عوامی جمہوریہ چین کے سٹیٹ کونسلر اور وزیر خارجہ وانگ یی مہمان خصوصی کے طور پر شرکت کریں گے۔ او آئی سی ممالک کے اعلیٰ حکام، اقوام متحدہ سسٹم کے سینئر نمائندے، عرب لیگ اور خلیج تعاون کونسل سمیت علاقائی اور بین الاقوامی تنظیمیں بھی شرکت کریں گی۔او آئی سی کی وزرائے خارجہ کونسل کا پہلا غیر معمولی اجلاس بھی اسلام آباد میں جنوری 1980 میں منعقد ہوا تھا جس میں افغانستان کی صورت حال پر غور کیا گیا۔ پاکستان میں او آئی سی کا اس طرح کا دوسرا اجلاس 2007 میں ہوا تھا تنظیم تعاون اسلامی OIC ایک بین‌الاقوامی تنظیم ہے جس میں مشرق وسطی، شمالی، مغربی اورجنوبی افریقا، وسط ایشیا، یورپ، جنوب مشرقی ایشیا اور برصغیر اور جنوبی امریکا کے 57 مسلم اکثریتی ممالک شامل ہیں۔ او آئی سی دنیا بھر کے 1.2 ارب مسلمانوں کے مفادات کے تحفظ کے لیے کام کرتی ہے او آئی سی 21 اگست 1969ء کو مسجد اقصی پر یہودی حملے کے ردعمل کےطور پر 25 ستمبر 1969ء کو مراکش کے شہر رباط میں او آئی سی کا قیام عمل میں آیا۔ سال میں ایک مرتبہ فیصلوں پر عملدرآمد کی صورتحال اور غور کے لیے وزرائے خارجہ کا اجلاس طلب کیا جاتا ہے۔ طالبان کے افغانستان میں برسر اقتدار آنے کے بعد ملک کی تشویشناک صورتحال اور سنگین انسانی بحران کے خدشے کے باعث پاکستان کی کوششوں سے سعودی عرب کی دعوت پر او آئی سی وزرائے خارجہ کا غیر معمولی اجلاس 19 دسمبر 2021 کو پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں ہوا۔ او آئی سی کا مستقل دفتر سعودی عرب کے شہر جدہ میں قائم ہے۔ اس وقت او آئی سی کے سیکرٹری ایاد بن امین مدنی ہیں جن کا تعلق سعودی عرب سے ہے۔ وہ 31 جنوری 2014ء سے اس عہدے پر فائز ہیں۔ اسلام آباد اجلاس میں 100 سے زاید قراردادیں پیش کی جائیں گی جبکہ اجلاس میں مسئلہ کشمیر و فلسطین پر خصوصی طور پر قراردادیں منظور ہونے کی توقع ہے اور اسلامو فوبیا پر بھی قرارداد منظور کی جائے گی۔اجلاس کے دوران افغانستان میں خانہ جنگی اور انسانی المیہ سے بچنے کےلئے اقدامات پر بھی بات کی جائے گا۔او آئی سی کی سائیڈ لائنز پر او آئی سی کشمیر کانٹیکٹ گروپ کا اجلاس بھی منعقد ہو گا جبکہ اجلاس میں او آئی سی کشمیر کانٹیکٹ گروپ کے مقبوضہ کشمیر پر مشاہدات کی رپورٹ بھی پیش کی جائے گی۔ وزیراعظم عمران خان آج 22 مارچ 2022 کو افتتاحی اجلاس سے کلیدی خطاب کریں گے۔وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی وزرائے خارجہ کونسل اجلاس کی صدارت کریں گے۔وزرائے خارجہ کونسل کے اجلاس میں زیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی وزرائے خارجہ کونسل اجلاس کی صدارت کریں گے۔وزرائے خارجہ کونسل کے اجلاس میں سیاسی، سیکورٹی، سماجی اور اقتصادی میدانوں میں مسلم دنیا کے سامنے مواقع اور چیلنجوں کے پس منظر کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ وزرائے خارجہ کونسل کے اجلاس میں عالمی اور علاقائی منظرنامے کے جائزے کے علاوہ فلسطین اور جموں و کشمیر کے لوگوں کے ساتھ دیرینہ یکجہتی اور حمایت کی توثیق کی جائے گی .بڑھتے ہوئے اسلامو فوبیا سے نمٹنے کے عزم کا اعادہ؛ اور ایس ڈی جیز کے حوالے سے پیش رفت میں موسمیاتی تبدیلی، ویکسین کی عدم مساوات اور کٹاؤ کے اثرات کا مقابلہ کرنے کی حکمت عملی پر تبادلہ خیال ہوگا۔وزرائے خارجہ کونسل کے اجلاس میں ہندوستان کے غیر قانونی طور پر مقبوضہ جموں و کشمیر میں سنگین انسانی حقوق اور انسانی صورتحال کا جائزہ لیا جائے گا۔جموں و کشمیر پر او آئی سی رابطہ گروپ کا وزارتی اجلاس بھی سائیڈ لائن پر ہوگا۔وزارتی اجلاس میں افغانستان میں انسانی صورتحال سے نمٹنے کے لیے دسمبر 2021 میں اسلام آباد میں منعقد ہونے والے اسلامی تعاون تنظیم ( او آئی سی) وزرائے خارجہ کونسل کے 17ویں غیر معمولی اجلاس میں کیے گئے فیصلوں کا جائزہ لیا جائے گا۔اسلام آباد وزارتی اجلاس امن و سلامتی سمیت وسیع تر مسائل پر 100 سے زائد قراردادوں پر غور اور منظور کرے گا۔ جن میں اقتصادی ترقی، ثقافتی اور سائنسی تعاون، اور انسانی، قانونی، انتظامی اور مالی معاملات شامل ہیں۔ بانی رکن کے طور پرپاکستان او آئی سی کا پرجوش حامی رہا ہے۔ پاکستان نے اتحاد اور یکجہتی کے رشتوں کو مضبوط کرنے، بین الاقوامی قانون کے اصولوں کے احترام کو برقرار رکھنے اور اقتصادی، سائنسی اور ثقافتی شراکت داری کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔پاکستان کی طرف سے ا س وزرائے خارجہ کونسل اجلاس کی میزبانی تنظیم کے قیام کے بعد سے اعلیٰ سطحی او آئی سی سربراہی اجلاس اور وزارتی اجلاس منعقد کرنے کی ایک پائیدار روایت کی نمائندگی کرتی ہے۔ یہ مسلم بھائی چارے کے رشتے کو فروغ دینے اور تعاون پر مبنی شراکت داری کو فروغ دینے کے لیے پاکستان کے عوام کے مستقل عزم کی بھی عکاسی کرتا ہےمسلم علما اور مدبرین کی جانب سے عالمی اسلامی تنظیم کے تصور پر دہائیوں تک جاری والے غوروخوض کے بعد اس کی بنیاد 1969 میں ایک چارٹر کے ذریعے رکھی گئی اور اس تنظیم کا صدر مقام سعودی عرب کے شہر جدہ میں قائم ہے۔

او آئی سی میں 57 ممالک شامل ہیں جن کی مجموعی آبادی دو ارب کے قریب ہے۔

او آئی سی اپنے رکن ممالک سمیت دنیا بھر کے مسلمانوں کو لاحق باعث تشویش مسائل حل کرنے کے لیے بین الاقوامی میکنزم بشمول اقوام متحدہ کا ہر خصوصی ادارہ، حکومتوں، اور سول سوسائٹی کی تنظیموں کی شراکت دار ہے۔

2005 میں او آئی سی نے دہشت گردی، اسلاموفوبیا، ناقص طرز حکمرانی، اور اقتصادی عدم مساوات سمیت مسائل سے نمٹنے کے لیے 10 سالہ منصوبے کی منظوری دی۔ او آئی سی بین الاقوامی طور پر انسانی امداد کے لیے بھی سرگرم ہے۔ تنظیم نے 2008 میں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امدادی تنظیموں کی سرگرمیوں کو مربوط کرنے کے لیے اسلامی تعاون کے انسانی امور کا محکمہ (آئی سی ایچ اے ڈی) قائم کیا۔ بعد ازاں او آئی سی نے 2011 میں صومالیہ میں تباہ کن قحط کے جواب میں 40 سے زیادہ اسلامی امدادی اور سول سوسائٹی کی دوسری تنظیموں کے ذریعے پورے ملک میں امدادی سامان کی فراہمی کا اہتمام کیا۔

2018 میں اوآئی سی ممالک کا ترکی کے شہر استنبول میں اجلاس ہوا جس کا مقصد ہلال احمر اور ریڈ کراس کی قومی سوسائٹیوں کے درمیان نیٹ ورک قائم کا قیام تھا تاکہ انسانی مسائل کے حل سمیت تنظیم کے رکن ممالک میں انسانی مشکلات انتہائی موثر انداز میں کم کی جا سکیں۔ مسلم ممالک کے درمیان بعض اختلافات کے باوجود او آئی سی نے طویل المدت ترقیاتی منصوبوں سے متعلق اپنی سرگرمیوں اور امداد سمیت صحت، تعلیم اور زراعت کے شعبوں میں اقدامات کے ذریعے ان ملکوں کو متاثر کیا ہے۔

او آئی سی کا پہلا سربراہی اجلاس 1969 میں مقبوضہ بیت المقدس میں مسجد اقصیٰ کو نذر آتش کرنے پر مسلمانوں کے عالمی غصے کے بعد مراکش کے دارالحکومت رباط میں ہوا تاکہ اس واقعے کے نتائج کے حوالے سے فیصلے کیے جا سکیں۔

یہ رباط سمٹ ہی تھی جس نے ثابت کیا کہ یہ صرف عرب دنیا کا مسئلہ نہیں بلکہ عالم اسلام کا بھی مسئلہ ہے۔ رباط کانفرنس نے 1967 کی عرب اسرائیل جنگ میں عربوں کی شکست کے بعد ان کے حوصلے بلند کرنے میں مدد کی۔او آئی سی وزرائے خارجہ کا پہلا اجلاس 1970 میں جدہ میں ہوا جس میں تنظیم کے سیکرٹری جنرل کی سربراہی میں جدہ میں ایک مستقل سیکرٹریٹ قائم کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ ڈاکٹر یوسف احمد العثیمین 11ویں سیکرٹری جنرل ہیں جنہوں نے نومبر 2016 میں عہدہ سنبھالا۔
او آئی سی کی وزرائے خارجہ کونسل کا پہلا غیر معمولی اجلاس بھی اسلام آباد میں جنوری 1980 میں منعقد ہوا تھا جس میں افغانستان کی صورت حال پر غور کیا گیا۔ پاکستان میں او آئی سی کا اس طرح کا دوسرا اجلاس 2007 میں ہوا تھا۔اوآئی سی کے منشور میں رکن ممالک کے درمیان بھائی چارے اور یکجہتی کا فروغ اور استحکام دینا شامل ہے۔ مشترکہ مفادات کا تحفظ اور رکن ممالک کے جائز مقاصد کی حمایت اور عالم اسلام کو بالخصوص اور عالمی برادری کو درپیش چیلنجوں کے پیش نظر رکن ممالک کی کوششوں کو مربوط اور متحد کرنا بھی اس کے منشور کا حصہ ہےاو آئی سی حق خود ارادیت اور ملکی معاملات میں عدم مداخلت، ہر رکن ریاست کی خودمختاری، آزادی اور علاقائی سالمیت کا احترام اورمشترکہ مفادات کو محفوظ بنانے کے لیے عالمی سیاسی، اقتصادی اور سماجی فیصلہ سازی کے عمل میں رکن ممالک کی فعال شرکت کو یقینی بنانا بھی تنظیم کے مقاصد میں شامل ہے۔

او آئی سی اقوام متحدہ کے چارٹر اور بین الاقوامی قانون کے مطابق انسانی حقوق کے لیے حمایت کی تصدیق، بین الاسلامی اقتصادی اور تجارتی تعاون کو مضبوط کرنا، اقتصادی انضمام کو حاصل کرنے کے لیے جس کے نتیجے میں اسلامی مشترکہ منڈی قائم ہو، رکن ممالک میں پائیدار اور جامع انسانی ترقی اور اقتصادی بہبود کے حصول کے لیے سرگرم عمل ہے۔

تنظیم تعاون اسلامی اسلام کی حقیقی تصویر کے تحفظ اور تہذیبوں اور مذاہب کے درمیان مکالمے کی حوصلہ افزائی کے لیے کوشاں ہے۔ اس کے علاوہ مسلمان ملکوں میں سائنس اور ٹیکنالوجی کے فروغ اورترقی سمیت ان شعبوں میں رکن ممالک کے درمیان تحقیق اور تعاون کی حوصلہ افزائی لیے بھی سرگرم عمل ہے۔