تحریک عدم اعتماد کی ناکامی کی صورت میں قبل از وقت انتخابات ہوں گے؟

 
0
185

(..اندر کی بات..کالم…. اصغر علی مبارک)
ملک میں قبل از وقت انتخابات کی بازگشت سنا ئی دے ر ہی ہے تحریک عدم اعتماد کی ناکامی کی صورت میں قبل از وقت انتخابات ہوں گے عین ممکن ہے کہ وزیراعظم عمران خان کی اپوزیشن کو دیئے جانے والاسرپرائز بھی قبل از وقت انتخابات کا اعلان ہو بہر حال یہ طے ہے کہ وزیر اعظم عمران خا ن اب قبل از وقت انتخابا ت کے لیے تیا ر ہیں اور اپو زیشن کو حیران کر نے کے لئے ٹائمنگ کا اختیا ر اپنے پا س رکھنا چاہتے ہیں۔ دو بہت اہم دستا ویزات پروزیر اعظم نے صدر مملکت کے آٹوگراف حا صل کر لئے ہیں اور یہ دستاویز وہ استعما ل کر نا جاتنے ہیںحکو مت اور اپوزیشن دونو ں ما رچ ،ما رچ کھیل رہے ہیں۔ 74سال میں ہم نے کچھ بہتر نہیں کیا حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف کو حزب اختلاف کی تحریک عدم اعتماد کا سامنا ہے۔ تحریک عدم اعتماد کی وجہ سے موجودہ سیاسی صورت حال بہت سے سوالات کو جنم دے رہی ہے تحریک عدم اعتماد کی کامیابی یا ناکامی دونوں صورتوں میں پاکستان تحریک انصاف کی سیاست پر اثر پڑے گا۔’اس وقت حزب اختلاف اور تحریک انصاف کے درمیان جو مقابلہ ہو رہا ہے اس کا عوامی مسائل سے ہمیں کوئی تعلق نظر نہیں آتا کیونکہ اگر عوامی مسائل حل کرنے ہوتے تو حزب اختلاف کوئی متبادل حل دیتی۔ان کا مقصد عمران خان کو ہٹانا ہے اور اگر ایسا نہیں ہوتا تب بھی ان کا جھگڑا چلے گا اور اگر عمران خان عہدے سے ہٹا بھی دیے جاتے ہیں تب عمران خان جھگڑا کریں گے۔ سیاست اسی طرح چلے گی جبکہ عوام کے مسائل اپنی جگہ جوں کے توں قائم رہیں گے۔’تیل کی قیمتیں عالمی منڈی میں بڑ ھ رہی ہیں ہما ری سٹاک ایکسچینج گر رہی ہے مگر کسی کو رتی برابر پروا ہ نہیں۔ہما ری سیاست لو گو ں کی خدمت کا ذریعہ نہیں بلکہ کا روبا ر ہے اور اسی لیے ہر دو چار سالوں کے بعد “لوٹوں”کی دوکا نیں اور “گھوڑوں”کے اصطبل کھل جاتے ہیں ۔2018 کے عام انتخابات میں تحریک انصاف نے ماضی کے برعکس اپنی نشستوں کی تعداد میں تو خاطرخوا اضافہ کیا تھا لیکن حکومت بنانے کے لیے درکار سادہ اکثریت حاصل نہ ہونے کی وجہ سے اسے دیگر جماعتوں کے ساتھ مل کر اتحادی حکومت بنانی پڑی تھی۔ ان اتحادی جماعتوں میں متحدہ قومی موومنٹ پاکستان، گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس، بلوچستان عوامی پارٹی، پاکستان مسلم لیگ ق اور آزاد ارکان قومی اسمبلی شامل تھے۔موجودہ سیاسی صورت حال میں جو اشارے مل رہے ہیں، یوں لگتا ہے کہ یہ اتحادی اور وہ الیکٹیبلز جو ماضی میں اپنا مختلف سیاسی جماعتوں کے پلیٹ فارم کو استعمال کرتے ہوئے پی ٹی آئی میں آئے تھے وہ واپسی کا سوچ رہے ہیں۔تحریک عدم اعتماد کے تناظر میں آنے والے دن ان اتحادیوں کی حکمران جماعت کو حمایت اور پی ٹی آئی کے اپنے اراکین کی وفاداری کی آزمائش ہے۔تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کی صورت میں پی ٹی آئی کے لیے اپنی موجودہ حیثیت کو برقرار رکھنا مشکل ہو جائے گا۔ تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کی صورت میں وزیر اعظم عمران خان اور ان کی سیاسی جماعت کا کوئی مستقبل نہیں ہوگا۔’وہ دوبارہ جولائی 2011 کی پوزیشن پر واپس چلے جائیں گے۔ ان کی جیب میں جو ہیرے موتی یا اثاثے ڈالے گئے تھے وہ بھی ان کے ہاتھ سے واپس چلے جائیں گے تحریک عدم اعتماد منظور ہونے کی صورت میں عمران خان یا ان کی سیاسی جماعت تحریک انصاف کا کوئی مستقبل نہیں ۔ کم و بیش یہی مستقبل ہوگا جو 2008 کے بعد ہم نے مسلم لیگ ق کا دیکھا تھا‘۔ تحریک عدم اعتماد ناکام ہو جاتی ہے تو وزیر اعظم عمران خان کی سیاسی مشکلات ختم نہیں ہوں گی بلکہ کہنا یہ چاہیے کہ صحیح معنوں میں ان کا آغاز ہو جائے گا۔’جہاں تک حزب اختلاف کا تعلق ہے تو اس کے لیے ناکامی کا سوال اس لیے نہیں کیونکہ پاکستان میں موجودہ حزب اختلاف جمہوریت پسندوں کا استعارہ ہے’تحریک عدم اعتماد ناکام ہو یا کامیاب پاکستان میں دونوں صورتوں میں ایک دوسرے کے خلاف تنازع اور مخالفت کی صورت حال کا ماحول قائم رہے گا۔ اور اگر یہ کامیاب بھی ہو جاتے ہیں تب بھی حزب اختلاف ان کے لیے کوئی نہ کوئی مسئلہ کھڑا رکھے گی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عوام عمران خان کو اقتدار میں اس لئے لےکر آئے تھےکہ ملک میں کرپشن کا خاتمہ ہو اور ملک لوٹنے والوں کا محاسبہ ممکن ہوسکے مگر تقریباساڑھے تین سال اپوزیشن نے حکومت کوایک دن بھی ٹکنے نہ دیا اور پھر متحدہ اپوزیشن کے گرینڈ الائنس نے تحریک عدم اعتماد لاکر باقی رہی سہی کسرپوری کردی حکومت کےاتحادیوں سمیت منحرف اور ناراض ارکان کا الزام ہے کہ موجودہ دور حکومت نےکرپشن کی تمام حددیں پارکردی ہیں.قارئین محترم پاکستان تحریک انصاف کے قیام کے بعد راقم الحروف کو وزیر اعظم عمران خان کے میڈیاکوارڈینیٹر کی حثیت سے خدمات کااعزاز حاصل رہا ہے سال 2002 کے عام انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف نے بائیکاٹ کیا تو راولپنڈی کینٹ حلقہ این اے 54 سے الیکشن میں بطور آزاد امیدوار حصہ لیاسال 2008 کے انتخابات میں عین الیکشن سے قبل مولانا فضل الرحمان نے ایم ایم اے کا ٹکٹ دے کر حمایت کا اعلان کیا,سال 2013 کے انتخابات میں مجلس وحدت المسلمین ایم ڈبلیوایم کے ٹکٹ پر راولپنڈی کینٹ حلقہ این اے 54 سےالیکشن میں حصہ لیا, راقم الحروف اصغرعلی مبارک نے سال 2018 کے حلقہ این اے 62 کے قومی اسمبلی انتخابات میں موجودہ وزیرداخلہ شیخ رشید کے خلاف پاکستان عوامی لیگ کےٹکٹ پر حصہ لیاجبکہ 2018 کے ضمنی انتخابات میں شیخ رشید کے بھتیجے شیخ راشد شفیق کے خلاف قومی اسمبلی کا الیکشن لڑاعمران خان کی سربراہی میں پاکستان تحریک انصاف نے ایک سیاسی جماعت کے طور پر 25 اپریل 1996ء کو قائم ہوئی۔ 31 اکتوبر 2011ء کو لاہور میں ایک عظیم جلسہ کرنے کے بعد، یہ جماعت ملکی سیاست میں ایک تیسری طاقت بن کر سامنے ابھر آئی۔ انتخابی مہم میں اس جماعت کا زیادہ تررجحان پنجاب کے حلقوں پر رہا اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے براہ راست مقابلے پر آ کھڑی ہوئی۔ خیبر پختونخوا میں نسبتاً اس جماعت کا اثر کافی عیاں تھا؛ تاہم، بلوچستان اور سندھ کی سیاست میں یہ جماعت زیادہ طاقتور نہ پائی گئی۔ پاکستان تحریک انصاف نے 2008ء کے انتخابات کا بائیکاٹ کیا۔ 2013ء کے انتخابات میں اس جماعت کا نعرہ ”تبدیلی“ کا رہا اور عمران خان اس تبدیلی کو ”سونامی“ سے تشبیہ دیتے رہے۔ عمران خان کے مطابق یہ تبدیلی خاندانی اور موروثی سیاست کے خلاف تھی۔پاکستان کی سیاست برطانوی سیاست پر مبنی ہے اور جمہوری پارلیمانی نظام کے ویسٹ منسٹر ماڈل کی پیروی کرتی ہے۔ عالمگیر بالغ متادکار کے تحت اراکین کو ووٹوں کی اکثریت پر منتخب کیا جاتا ہے جہاں ہر نمائندہ ایک انتخابی ضلع کی نمائندگی کرتا ہے؛ اِن انتخابی اضلاع کو پارلیمانی حلقے بھی کہا جاتا ہے۔ آئین کے مطابق، خواتین اور مذہبی اقلیتوں کے لیے 70 نشستیں مخصوص کی جاتی ہیں۔ اِن نشستیں کو سیاسی جماعتوں کے لیے اِن کی متناسب نمائندگی کے مطابق مختص کیا جاتا ہے۔پاکستان میں انتخابات کی دوران میں کسی بھی سیاسی جماعت کو اکثریت حاصل کرنا ضروری ہوتا ہے۔ اکثریت کے لیے کسی ایک جماعت کو قومی اسمبلی میں 172 نشستیں یعنی کل نشستیں کا 51 فیصد حاصل کرنا ضروری ہوتا ہے۔ اگر یہ ممکن نہ ہو سکے تو پارلیمان کا موازنہ متردد ہو جاتا ہے اور سیاسی نمائندگان کو اتحادوں کا سہارا لینا پڑ جاتا ہے 3 نومبر 2007ء کو صدر پرویز مشرف نے ملک بھر میں ہنگامی حالت نافذ کر دی۔ صدر مشرف نے ملک کا آئین بھی معطل کردیا میڈیا پر بھی پابندی عائد کر دی۔ انتخابات ابتدائی طور پر غیر معینہ مدت تک ملتوی کر ديئے گئے۔8 نومبر 2007ء کو مشرف نے اعلان کیا کہ آئندہ انتخابات کی تاریخ 15 فروری 2008ء ہو گی۔ بعد از، انتخابات کی تاریخ کبھی 9 جنوری 2008ء،تو کبھی بدل کر 8 جنوری 2008ءکر دی گئی۔ بینظیر بھٹو کے قتل کے بعد، الیکشن کمیشن کے ایک اجلاس میں یہ طے کیا کہ 8 جنوری 2008ء کو انتخابات ممکن نہیں اور یہ یقینی طور پر 18 فروری 2008ء کو ہی ہوں گےاس طرح یادرہےکہ پاکستان میں 9ویں عام انتخابات کا انعقاد 18 فروری 2008ء کو ہوامشرف دور حکومت سال 2008 کے عام انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف نے بائیکاٹ کیا اس دوران پاکستان کے صدارتی انتخابات 2008ء 6 ستمبر کو منعقد ہوےنئے صدر کا انتخاب سابق صدر پرویز مشرف کے 18 اگست 2008ء کو استعفی کے بعد آئین میں دی گئی ہدایات کے عین مطابق کیاپاکستان پیپلز پارٹی نے متفقہ طور پر 22 اگست کو آصف علی زرداری کو اپنا امیدوار برائے صدر مقرر کر دیا۔پاکستان تحریک انصاف کے راہنما عمران خان نے آصف علی زرداری پر بدعنوانی کے الزامات لگاتے ہوئے ان کی بطور صدارتی امیدوار تقرری کو رد کر دیا۔ مسلم لیگ (ق) نے متفقہ طور پر 26 اگست 2008ء کو سید مشاہد حسین سید کو متفقہ امیدوار نامزد کیا۔مسلم لیگ (ن) نے 25 اگست 2008ء کو حکومتی اتحاد سے علیحدگی اختیار کر لی اور جسٹس (ر) سعید الزماں صدیقی کو متفقہ طور پر صدارتی امیدوار مقرر کر دیا,آصف علی زرداری بھاری اکثریت سے پاکستان کے نئے صدر منتخب ہو ئے۔ چیف الیکشن کمشنر نے نتائج کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ آصف علی زرداری نے دونوں ایوانوں کے کل 426 ووٹوں میں سے 281، سندھ اسمبلی کے 65 ووٹوں میں سے 62، سرحد اسمبلی میں 56 اور بلوچستان اسمبلی میں 59 ووٹ حاصل کیے۔ 2013ء کے انتخابات میں اس جماعت کا نعرہ ”تبدیلی“ کا رہا اور عمران خان اس تبدیلی کو ”سونامی“ سے تشبیہ دیتے رہے۔ عمران خان کے مطابق یہ تبدیلی خاندانی اور موروثی سیاست کے خلاف تھی۔اپاکستان کے عام انتخابات 2013ء قومی اسمبلی کے چودہویں انتخابات تھے۔ پاکستانی حکومت کے اعلان کے مطابق، انتخابات کی تاریخ 11 مئی 2013ء رکھی گئی تھی۔ تاریخ کبھی 7 مئی، تو کبھی 15 مئی کی بھی بتائی گئی تھی۔ یہ انتخابات پاکستان پیپلز پارٹی کی تیسری منتخب حکومت کے اختتام کی نشان دہی کرتے ہیں اور چنانچہ اِس اعتبار سے یہ پاکستان کی وہ پہلی حکومت ٹھہری جس نے اپنی کُل جمہوری مُدّت پوری کی۔ پاکستان پیپلز پارٹی نے اس انتخاب کے لیے پاکستان مسلم لیگ (ق) سے اتحاد کیا؛ جبکہ قدامت پسند سوچ کی حامل پاکستان مسلم لیگ (ن) نے پاکستان مسلم لیگ (ف) اور سنی تحریک سے اتحاد کا اظہار کیا۔ عمران خان کی قیادت میں پاکستان تحریک انصاف نے جماعت اسلامی اور بہاولپور قومی عوامی پارٹی سے اتحاد کیاتھا 2013ء کے انتخابات میں نواز شریف کی قیادت والی پاکستان مسلم لیگ 342 نششتوں میں سے 166 نشستیں حاصل کر کے سب سے بڑی جماعت بن کر ابھری۔ حالانکہ اکثریت ثابت کرنے کے لیے یہ تعداد کافی نہیں تھی تاہم متعدد آزاد امیدواروں نے نواز شریف کو حمایت دے کر پاکستان کی قیادت سونپ دی.انتخابات سےعمران خان کی قیادت میں پاکستان تحریک انصاف کو محض 35 نشستوں پر اکتفا کرنا پڑا اور اس طرح قومی اسمبلی میں یہ تیسرے نمبر پر بڑی پارٹی بنی۔ تحریک انصاف نے خیبر پختونخوا میں اتحادی حکومت بھی بنائی.۔قومی سطح پر پاکستان میں مجلس شوریٰ کا انتخاب کیا جاتا ہے۔ پاکستان کی پارلیمان عام انتخاب کے ذریعہ قائم شدہ ایوان زیریں جبکہ صوبائی ایوانوں کے ارکان کے ذریعہ ایوان بالا کا انتخاب کیا جاتا ہے۔ پاکستان کے وزیر اعظم ایوان زیریں میں منتخب کیا جاتا ہے جبکہ صدر کا انتخاب الیکٹورل کالج کے ذریعہ کیا جاتا ہے۔ قومی اسمبلی پاکستان کے 342 ارکان دو طریقوں سے منتخب ہوتے ہیں؛ 272 ارکان حلقوں سے منتخب ہو کر آتے ہیں۔ 60 نشستیں خواتین کے لیے مخصوص اور 10 نشستیں اقلیتوں کے لیے مخصوص ہیں۔ ایک جماعت کو اکثریت ثابت کرنے کے لیے 137 نششتوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ تاہم، یہ تناسب نمبر ووٹ کاسٹ کی بجائے جیتنے والی نشستوں کی تعداد پر مبنی ہے۔ایک جماعت کو جیتنے کے لیے 137 نشستیں درکار ہیں۔2018ء عام انتخابات ان نششتوں پر ہوئے جنہیں خانہ و مردم شماری پاکستان 2017ء میں متعارف کر وایا گیا۔ 5 مارچ 2018ء کو جاری نوٹیفکیشن کے مطابق وفاقی دار الحکومت اسلام آباد میں تین نششتیں ہیں، پنجاب میں 141، سندھ میں 61، خیبر پختونخوا میں 39، بلوچستان میں 16 اور وفاقی انتظامی قبائلی علاقوں میں 12 نششتیں ہیں۔قومی اسمبلی پاکستان کی تشکیل کے لیے 10.6 کڑوڑ لوگ اپنے حق رائے دہی کا استعمال کیاپاکستان میں عام انتخابات یا الیکشن 25 جولائی، 2018ء کو منعقد ہوئے۔ جس میں قومی اسمبلی کی کل 272 نشستوں میں سے 270 نشستوں پر عام انتخابات ہوئے زیادہ تر کا خیال تھا کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) دوسرے نمبر پر ہو گی جبکہ پاکستان تحریک انصاف واضح برتری حاصل کرے گی۔ پاکستان تحریک انصاف نے قومی اسمبلی کی 116 سیٹیں لے کر پاکستان مسلم لیگ ن کو 64 نشستوں پر محدود کیا اور پاکستان تحریک انصاف وفاق خیبر اور پنجاب میں حکومت بنانے میں کامیاب ہو گئی۔ عدلیہ، فوج اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کی نگرانی میں ہونے والے انتخابات ہو جانے کے بعد حسب روایت ہارنے والی جماعتیں اسے مشکوک بتا رہی ہیں اور الزام ہے کہ قبل از انتخابات دھاندلی کی گئی تاکہ انتخابات کے نتائج پاکستان تحریک انصاف کے حق میں اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کی مخالفت میں آئے۔ جس کو الیکشن کمیشن نے مسترد کیا ہے کہ عام انتخابات میں کوئی دھاندلی نہیں ہوئی,غیر سرکاری و غیر حتمی نتائج کے مطابق عمران خان کی جماعت پی ٹی آئی کی واضح برتری دکھائی دی، جبکہ مخالف جماعتوں کا خیال ہے کہ بڑی سطح پر دھاندلی ہوئی تاہم، الیکشن کمیشن پاکستان نے تمام سیاسی جماعتوں کے الزامات مسترد کر دیے۔اپنے 26 سالہ تحریک انصاف کے سفر میں ایسی مقبولیت پہلے کبھی نہیں دیکھی جو عمران خان کی آج ہے: وزیراعظم عمران خان اپنی سیاسی جدوجہد کو کرپشن کے خلاف جنگ قرار دیتے ہیں لیکن حکومت میں آنے کے بعد ہی عالمی ادارے نے ملک میں کرپشن میں اضافے کے اشاریے دیے۔ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل مختلف عالمی اداروں سے حاصل کردہ ڈیٹا اور عمومی تاثر کی بنیاد پر رپورٹ تیار کرتی ہے۔ملک میں کرپشن کے خاتمے کا شور تو بہت ہوا لیکن کرپشن کے واقعات میں کمی نہیں آئی۔ ’پاکستان میں عام لوگوں کا جو کرپشن کے حوالے سے تاثر ہے،وزیر مملکت برائے پارلیمانی امورعلی محمد خان نے منحرف ارکان کے حوالے سے ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ چاہے کاروباری ہوں یا عام شہری ہوں عمومی تاثر یہی ہے کہ ہم نے شور بہت کیا لیکن کرپشن کے واقعات میں کمی نہیں آئی بلکہ اضافہ ہوا وزیراعظم عمران خان ہر عالمی فورم پر اس بات کا اظہار کرتے رہے ہیں کہ پاکستان میں ماضی کی حکومتیں کرپٹ رہی ہیں اوران کی کرپشن کے باعث ملک کی معیشت کو شدید نقصان پہنچا عالمی فورمز پر کرپشن کے الزامات نے کرپشن کے رجحان میں اضافے کا تاثر دیاتحریک انصاف کی حکومت کا سب سے بڑا ایجنڈا کرپشن کے خاتمے کا تھا لیکن اس حوالے سے کوئی تیاری نظر نہیں آئی۔ ’ملک کی معیشت بہتر نہیں ہوئی، بے روزگاری میں اضافہ ہوا اور بار بار تلخ انداز میں کہنا کہ کسی کو نہیں چھوڑوں گا اور بعض لوگ کہتے ہیں کہ خوف کی وجہ سے رشوت کے ریٹ میں اضافہ ہوا کیونکہ لوگ اب کہتے ہیں کہ پکڑا جاؤں گا بڑا رسک لینے کے لیے بڑی رقم چاہیے۔آئے روز ملک میں وزرا ایک دوسرے پر کرپشن کے الزامات لگا رہے ہوتے ہیں یہ بھی کرپشن کے تاثر کو جنم دیتی ہے۔ ‘وزیر مملکت برائے پارلیمانی امورعلی محمد خان کامنحرف ارکان کے حوالے سے کہنا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے کچھ منحرف ارکان نے پیسے پکڑے ہوں گے لیکن اکثریت ارکان ناراض ہیں۔خیال رہے کہ حکومت کی جانب سے منحرف ارکان پر پیسے لینے کا الزام لگایا گیا ہے جبکہ ارکان نے اس کی تردید کی ہےکرپشن پر نظر رکھنے والے عالمی ادارے ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں سال 2018 کے مقابلے میں 2019 میں کرپشن کے رجحان میں اضافہ ہوا ہے تاہم حکومت کی جانب سے عالمی ادارے کی رپورٹ کو جانبدارنہ اور بے بنیاد قرار دے کر مسترد کر دیاوفاقی وزیرِ داخلہ شیخ رشید احمد کا کہنا ہے کہ وزیرِ اعظم عمران خان کو سندھ میں گورنر راج کی تجویز دی، وہ انہوں نے مسترد کر دی، ایمرجنسی کی رائے دی وہ بھی انہوں نے مسترد کر دی، میری رائے ہے کہ مقبولیت کو دیکھتے ہوئے جلد انتخابات کرائے جائیں، میں نے قبل از وقت انتخابات کی تجویز عمران خان کو دی ہے ، خیال رہےکہ عدم اعتماد کے لیے حکومت نے طے کیا ہے کہ وہ اس روز اپنے ممبران کو ہاؤس سے غیر حاضر رکھے گی اور یہ اپوزیشن کا درد سر ہے کہ وہ 172 ووٹ پورے کرے خواہ تحریک وزیراعظم کے خلاف آئے یا سپیکر کے۔اس تحریک سے کسی کو فائدہ ہو یا نہ ہو۔ نقصان ملک کا ہورہا ہے لیکن ہماری سیاست اسی طرح سے 74 سال سے تنزلی کا سفر جاری رکھے ہوئے ہےپاکستان تحریک انصاف کےعمران خان کی یہ تبدیلی اسی خاندانی اور موروثی سیاست کے خلاف تھی…..