ہمارا سیاسی ماحول اخلاقی گراوٹ کا شکار ہو گیا ہے، ہمیں سوچنا ہے کہ ملک کو کیسے بحران سے نکالیں، مولانا فضل الرحمن

 
0
419

اسلام آباد اگست 3(ٹی این ایس) ۔ : جمعیت علماء اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ملک میں ایک نئی فضاء بنائی جا رہی ہے کہ آمریت جمہوریت سے بہتر ہے، ملک میں صاف ستھری اور سنجیدہ سیاست ہونی چاہئے، ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے کی سیاست کا خاتمہ ہونا چاہئے، جمعیت علماء اسلام ملک کے آئین، پارلیمنٹ اور جمہوریت کے ساتھ کھڑی ہے، ہمیں اپنے آنے والے مستقبل کے بارے میںسوچنا ہے، ہمارا سیاسی ماحول اخلاقی گراوٹ کا شکار ہو گیا ہے، ہمیں سوچنا ہے کہ ملک کو کیسے بحران سے نکالیں، یورپ اور امریکہ میں ایک پڑوسی ملک دوسرے پڑوسی کو غلام یا فتح کرنے کی کوشش نہیں کر رہا، ملک میں وحدت چاہئے، ہمیں بحرانوں کا شکار بنایا جا رہا ہے۔

وہ جمعرات کو  اسلام آباد میں گفتگو کر رہے تھے۔ مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ ہم ایک نئے دور کی طرف جا رہے ہیں، ایک دوسرے کو چور کہنے سے کونسا سیاسی کلچر تخلیق ہو رہا ہے، عوام کے منتخب نمائندے ایک دوسرے کو چور کہہ رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان میںآج بھی غیر ملکی فوج موجود ہے، دنیا نے کہا کہ امریکہ جس الزام پر عراق میںگیا وہاں ایسا کچھ نہیں۔ مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ پانامہ سے مسئلہ اڑا پاکستان کی پوری سیاست پانامہ کی نذر ہو گئی۔

انہوں نے کہا کہ جنرل مشرف کے زمانے میں نیب بنا تو سب سے پہلے یہ سوال کیا کہ اس کا حساب دیا جائے، آج کل پاکستان میں کرپشن کا ہنگامہ ہے، یہ چور ہے وہ چور ہے، سیاستدان خود اکیلا کرپشن نہیں کر سکتا، خزانہ نہیں لوٹ سکتا، دنیا کو مجبور کیا جا رہا ہے کہ عرب دنیا میں اسرائیل کی بالادستی کو ماننا ہے۔ انہوں نے کہا کہ چین کی اقتصادی پالیسی کے فروغ کیلئے زینے بنیں گے تو آپ نشانے پر آئیں گے اور نشانہ بنیں گے، چین ایک نئے اقتصادی وژن کے ساتھ متعارف ہو رہا ہے، اسلامی دنیا میں ایک دوسرے کو فتح کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ مشرف دور میں سب سے زیادہ ریکوری فوج سے ہوئی، اس کے بعد بیورو کریسی اور پھر سیاستدانوں سے ریکوری ہوئی، کوئی سیاستدان کوئی بیورو کریٹ اسٹیبلشمنٹ کے ماحول بنائے بغیر کرپشن نہیں کر سکتا۔ انہوں نے کہا کہ ہم ایک نئے دور کی طرف جا رہے ہیںِ۔ مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ جس الزام پر امریکہ عراق گیا وہ غلط ثابت ہوا، عراق میں کوئی کیمیائی ہتھیار نہیں تھا، غیر ملکی طاقتوں کی نظر سی پیک پر بھی ہے، آج جو کچھ نظر آ رہا ہے بظاہر وہ اندرونی لگتا ہے لیکن ہو بیرونی سازش کے تحت رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ایران سے تعلقات کا مسئلہ ہو تو سیاسی آدمی سیاسی لب و لہجہ میں بات کرتا ہے، ہمیں اپنے آنے والے مستقبل کے بارے میںسوچنا ہے، ہمارا سیاسی ماحول اخلاقی گراوٹ کا شکار ہو گیا ہے، ہمیں سوچنا ہے کہ ملک کو کیسے بحران سے نکالیں، یورپ اور امریکہ میں ایک پڑوسی ملک دوسرے پڑوسی کو غلام یا فتح کرنے کی کوشش نہیں کر رہا، ملک میں وحدت چاہئے، ہمیں بحرانوں کا شکار بنایا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جمعیت علماء اسلام ملک کے آئین، پارلیمنٹ اور جمہوریت کے ساتھ کھڑی ہے، چند روز سے میڈیا پر جس قسم کے مباحثے چل رہے ہیں وہ قابل غور ہیں، بہت سے لوگوں سے پیسے واپس لئے گئے بتایا جائے کس سے کتنے پیسے لئے گئے، کوئی ادارہ اب یہ نہ سوچے طاقت کے زور پر سب کچھ منوا لیا جائے گا، ہم جس دور میں ہیں ہمارے پاس غلطی کی گنجائش نہیں، یہ سب خود بخود نہیں ہو رہا اس کی آبیاری بین الاقوامی سطح پر ہو رہی ہے، کوئی مالیاتی کرپشن کی بات کر رہا ہے، کوئی اخلاقی کرپشن کی بات کر رہا ہے، جن سیاستدانوں سے عوام نالاں ہیں انہیں وہ خود اقتدار میں لائے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ جنرل مشرف نے آج نئی جنگ شروع کر دی ہے، وہ اس قوم کو ایک قوم نہیں ہونے دیتے، کیا ایک دوسرے کو تحفظات کی نظر سے دیکھتے رہیں، ایک دوسرے کی عزتیں اچھالنے کی کوشش نہ کریں، ہم ایک دوسرے کو عریاں کرنے کی کوشش میں ہیں، کسی کی عزت و ناموس سے کھیلنا اب عیب کی بات نہیں، افغانستان اور عراق کی طرح خلفشار کا آغاز سیاسی عدم استحکام سے ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ جتنے طاقتور دفتر ہیں ہر طاقتور دفتر نے ایک وزیراعظم کو گرایا ہے، ایک نئی فضاء بنائی جا رہی ہے کہ آمریت جمہوریت سے بہتر ہے، ملک میں صاف ستھری اور سنجیدہ سیاست ہونی چاہئے، کسی آپ کو جبراً مسلمان نہیں بنا سکتے، قوموں کی آزادی کی بات کریں، آزادی بنیادی حق ہے، کشمیری لڑ رہا ہے تو اپنے اس بنیادی حق کیلئے لڑ رہا ہے، عقیدہ اور حیاء چھین لی جائے تو قوم آزاد نہیں رہ سکتی، بھارت خطہ میں ایک مشتعل ماحول پیدا کرنا چاہتا ہے۔