ملٹری ڈپلومیسی…سپہ سالار جنرل قمر جاوید باجوہ کا کامیاب دورہ چین

 
0
189

اندر کی بات ؛کالم نگار؛اصغرعلی مبارک

اسلام آباد 14 جون 2022 (ٹی این ایس): پاک چین اسٹریٹجک پارٹنرشپ پہاڑوں سے اونچی، سمندر سے گہری، شہد سے میٹھی، ملٹری ڈپلومیسی اور ملٹری ٹو ملٹری تعاون ہمیشہ بلندیوں کو چھوتا رہا ہے۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے دور میں فوجی سفارتکاری کا تصور سامنے آیا اسی سلسلے کو مزید آگے بڑھانےکیلئے پاکستان کی تینوں مسلح افواج کے ایک اعلی سطحی وفد نےسپہ سالار جنرل قمر جاوید باجوہ کی قیادت میں چین کا دورہ کیاآرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ ملک کے لیے ہر مشکل وقت میں مرد بحران ثابت ہوئے ہیں۔ امن کا زمانہ ہو یا جنگ کا ہمیشہ آگے بڑھ کر قائدانہ کردار ادا کیا۔ ان کےدور میں پاکستان نے کئی اہم سنگ میل عبور کیے ۔ موجود ہ سیاسی بحران میں بھی تمام نظریں ان کی جانب رہیں ۔ انہوں نے نہایت دانشمندی سے قوم کی کشتی کو پار لگایا۔ جس سے ملک ایک بڑے بحران سے بچ گیا۔
آرمی چیف جنرل قمر جاوید واحد فوجی رہنما ہیں جنہوں نے چینی صدر کی دعوت پر چین کا دورہ کیا۔آرمی چیف نے صرف ایک دن کا دورہ کیا، یہ دورہ پاک چین جوائنٹ ملٹری کوآپریشن کمیٹی کا حصہ ہے جس کی ایک اعلی کمیٹی فوجی تعاون میں اعلی ترین ادارہ ہے اپیکس کمیٹی کے ارکان آرمی چیف اور وائس چیئرمین سینٹرل ملٹری کمیشن ممبران ہیں، ذیلی کمیٹیوں میں جوائنٹ کوپ ملٹری امور مشترکہ تعاون فوجی ساز و سامان اور تربیت شامل ہے ، چین کی جانب سے وفد کی قیادت چین کے سینٹرل ملٹری کمیشن کے وائس چیئرمین جنرل ژانگ یوشیا نے کی.دونوں ممالک کے درمیان دفاعی تعاون پر اطمینان کا اظہار کیاگیا.پاکستان اور چین نے مشکل وقت میں باہمی دلچسپی کے امور پر نقطہ نظر کا باقاعدہ تبادلہ جاری رکھنے پر اتفاق کیا۔جنرل قمر جاوید باجوہ نے 29 نومبر 2016 کو پاک فوج کے 16ویں سربراہ کی ذمہ داری سنبھالی، جیسے جیسے وقت گزرتا گیا، دنیا باجوہ ڈاکٹرائن کی قائل ہوتی چلی گئی۔ بطور سپہ سالار قمر جاوید باجوہ نے امن کی مکمل بحالی کو مشن بنایا، ناقابل تسخیر ملکی دفاع کا بیڑہ بھی اٹھایا۔ چیلنج بہت بڑے تھے لیکن آرمی چیف نے انتہائی خندہ پیشانی سے قبول کئے، متاثر کن اقدامات سے اپنی الگ پہچان بنائی۔جنرل باجوہ نے دہشتگردوں کا بیانیہ ناکام بنانے کیلئے موثر حکمت عملی اپنائی، آرمی چیف کی ہدایت پر ملک بھر میں دہشت گردی سے نمٹنے کیلئے حتمی آپریشن ردالفساد شروع کیاگیا۔ سپہ سالار کی قیادت میں نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد اور ملک بھر میں خفیہ معلومات کی بنیاد پر آپریشنز سے دہشت گردی کے ہر قسم کے نیٹ ورک ختم کر دیئے گئے۔افغانستان سے متصل سرحد پر حفاظتی باڑ اورسرحدی قلعوں کی تعمیر سے دہشتگری کا خاتمہ ہوا، اس کے ساتھ ہی بحالی ترقیاتی منصوبوں کو بھی مکمل کیا گیا۔آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کا اپنے سپاہیوں کے ساتھ رویہ مشفقانہ رہا، بطور سپہ سالار وہ مسلسل کنٹرول لائن اور اگلے مورچوں کے دورے کرکے جوانوں کو اپنی موجودگی کا احساس دلاتے رہے ، مذہبی اور قومی تہوار ہو یا کوئی اور اہم موقع ، آرمی چیف عمومی طور پر جوانوں کے ساتھ اگلے مورچوں پر ہی نظر آئے۔آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے دور میں فوجی سفارتکاری کا تصور سامنے آیا ، ان کے غیرملکی دورے اور پاکستان آئے غیرملکی وفود سے ملاقاتوں ، خصوصاً افغان طالبان اور امریکا میں مذاکرات میں کردار سمجھنے میں مدد ملی۔ انہوں نے سعودی عرب، قطر سمیت مختلف ممالک سے تعلقات مزید بہتر بنائے۔ ریاض اور تہران سمیت مختلف مسلم ممالک کے درمیان فوجی تعاون پیدا کرنے کیلئے موجود رکاوٹیں دور کرنے کی کوششیں بھی جاری رکھیں ۔اسی سلسلے کو مزید آگے بڑھانےکیلئے پاکستان کے سپہ سالار جنرل قمر جاوید باجوہ نے چین کا اہم دورہ کیاچین نے مشکل وقت میں پاکستان کاساتھ دیاہے ۔چین کا دورے میں چینی فوج اور دیگر سرکاری محکموں کےسینئر اعلیٰ حکام سے وسیع پیمانے پر بات چیت ہوئی اور باہمی دلچسپی کے امور پر نقطہ نظر کا باقاعدہ تبادلہ جاری رکھنے پر اتفاق کیاگیا. آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ ملک کے لیے ہر مشکل وقت میں مرد بحران ثابت ہوئے ہیں سلامتی کے ساتھ معاشی صورتحال بہتر بنانے کیلئے بھی آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی خدمات تاریخ کا حصہ ہیں۔ معاشی حالت کی بہتری کیلئے انہیں قومی ترقیاتی کونسل کا حصہ بنایا گیا۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے حکومت کے معاشی ماہرین ، ملکی معروف کاروباری شخصیات اور تاجر برادری کی اہم شخصیات سے ملاقاتیں بھی کیں۔برطانیہ اور ایران بھی عالمی امن میں پاکستانی آرمی چیف کے کردار کے معترف ہیں۔ امن کا زمانہ ہو یا جنگ کا ہمیشہ آگے بڑھ کر قائدانہ کردار ادا کیا۔ ان کےدور میں پاکستان نے کئی اہم سنگ میل عبور کیے ۔ موجود ہ سیاسی بحران میں بھی تمام نظریں ان کی جانب رہیں ۔ انہوں نے نہایت دانشمندی سے قوم کی کشتی کو پار لگایا۔ جس سے ملک ایک بڑے بحران سے بچ گیا۔پاک فوج کے سربراہ نے جب چین کا دورہ کیا تو وہاں بھی انہیں گارڈ آف آنر دیا گیا، آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے دور میں فوجی سفارتکاری کا تصورسےپاکستان نے ہمیشہ دوستی کا پیغام دیا جس کا بڑاثبوت کرتارپور راہداری ہے ، دوستی کا یہ راستہ کھولنے میں بھی جنرل قمر جاوید باجوہ کا کردار کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ ان کی خصوصی دلچسپی کی وجہ سے منصوبے پر کام 10 ماہ کی مختصر ترین مدت میں مکمل ہوا۔بحالی امن کے حوالے سے سپہ سالار کے وژن کو ملکی سطح پر تو سراہا ہی گیا دیگر اقوام بھی اس کی گرویدہ ہیں، امریکا کی جانب سے دہشت گردی کے خاتمے میں آرمی چیف کے کردار کو سراہا گیا۔ پینٹاگون میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو گارڈ آف آنر پیش کیا اور اکیس توپوں کی سلامی دی گئی تھی ۔پاک چین اقتصادی راہداری منصوبہ گوادرسے کاشغرتک ون بیلٹ ون روڈکے چینی ویژن کاحصہ ہے۔اس کے تحت چین پاکستان میں 60/ارب ڈالرکی سرمایہ کاری کررہاہےموجودہ حالات میں جب امریکاسمیت چندمغربی ممالک نہ صرف سی پیک منصوبے بلکہ پاک چین تعلقات کے خلاف ہرزہ سرائی میں مصروف ہیں ایسے حالات میںآرمی چیف جنرل قمرباجوہ کے دورۂ چین کوخصوصی اہمیت حاصل ہےجب سے سی پیک پرعمل شروع ہواہے،بھارت اوربعض مغربی ممالک بشمول امریکااسے سبوتاژ کرنے کیلئے سرگرم ہوگئے ہیںخطے میں چین کے تعاون سے سی پیک پراجیکٹ جوایک عالمی گیم چینجر کی شکل اختیارکرنے جارہاہے،ماضی میں بھی تحریک انصاف کی حکومت میں اس منصوبے کے حوالے سے سوالات اٹھائے گئے تاہم چینی وزیر خارجہ کے پاکستانی دورے کے فوری بعدآرمی چیف جنرل قمرباجوہ نے دورۂ چین کیااور صاف الفاظ میں واضح کردیاکہ پاک چین اسٹریٹجک پارٹنرشپ پہاڑوں سے اونچی، سمندر سے گہری، شہد سے میٹھی، ملٹری ڈپلومیسی اور ملٹری ٹو ملٹری تعاون ہمیشہ بلندیوں کو چھوتا رہا ہےپاکستان اور چین نے مشترکہ مفادات کے تحفظ کے لیے رابطوں میں تسلسل سمیت تربیت، ٹیکنالوجی‘ انسداد دہشت گردی اورفوجی تعاون بڑھانے پر بھی اتفاق کیا ۔واضح رہےکہ سی پیک حکومت کی قومی ترجیح ہےجب سے سی پیک پرعمل شروع ہواہے،بھارت اوربعض مغربی ممالک بشمول امریکااسے سبوتاژ کرنے کیلئے سرگرم ہوگئے ہیں,مغرب نے ہمیشہ امریکہ کی قیادت میں ہماری معیشت کو دھچکا لگانے کی کوشش کی,چین جیسے ہمسایہ ملک سے معاشی تعاون کسی نعمتِ خداوندی سے کم نہیں,مسلح افواج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کی جانب سے اقتصادی راہداری کے منصوبہ کو پاکستان کا معاشی مستقبل قرار دیتے ہوئے اس امر کا اعلان کہ اس کی سکیورٹی پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا پاکستان بھر میں قومی اطمینان کا باعث رہا ہے ۔چین کے وزیر خارجہ کے دورہ پاکستان کے دوران پاکستان نے سی پیک کو اپنی اولین ترجیح قرار دیتے ہوئے اس عزم کا اظہار کیا کہ سی پیک کے تحت منصوبوں کی رفتار اور بڑھائی جائے جبکہ چین کا کہنا تھا کہ سی پیک کو پاکستان کی ترقی اور ضروریات کے مطابق آگے لیکر چلیں گے مسلح افواج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کا یہ کہنا کہ سکیورٹی پر کمپرومائز نہیں ہوگا یہ ظاہر کرتا ہے کہ چین سے تعلقات ، سی پیک کے معاہدوں کا تعلق حکومتوں سے نہیں خود ریاست پاکستان سے ہے اور کوئی بھی اس پر اثر انداز نہیں ہو سکتا۔ پاکستان کی معاشی خرابی کی اصل ذمہ دار ہماری بری طرزِ حکمرانی اور مغرب کے معاشی پالیسی ساز ادارے ہیں۔ اس ملک کی معیشت کو ہمیشہ چین نے سہارا دیا اور مغرب نے ہمیشہ امریکہ کی قیادت میں ہماری معیشت کو دھچکا پہنچانے کی کوشش کی۔ ہمیں سمجھنا ہوگا کہ چین جیسے ہمسایہ ملک سے معاشی تعاون کسی نعمتِ خداوندی سے کم نہیں۔حکومت پاکستان کی جانب سے مختلف فورمز بشمول پارلیمنٹ کو بارہا سی پیک کی مالی خدوخال بتائی جا چکی ہیں، سی پیک کے تحت بجلی کے تمام منصوبے آئی پی پی موڈ میں ہیں یعنی یہ قرض یا گرانٹ نہیں بلکہ سرمایہ کاری ہے، اس کے علاوہ گوادر کے اکثر منصوبے گرانٹ یا بغیر سود قرض کے تحت مکمل کئے جارہے ہیں جبکہ شاہراہوں و ریل کے منصوبے آسان شرائط و 2 سے 2.5فیصد کی شرح پر حاصل کئے جانے والے قرض سے مکمل کئے جارہے ہیں ۔جن کی ادائیگی 20تا25سال میں کرنی ہوگی، یہ آسان ترین شرائط ہیں۔ایک دفعہ پھر واضح کیا جاتا ہے کہ سی پیک قومی نوعیت کا انتہائی شفاف منصوبہ ہے جس کی تمام تر معلومات سٹیک ہولڈرز اور عوام کیساتھ شئیر کئے جاتے ہیں، اس منصوبےپر سیاسی وابستگیوں سے ہٹ کر تمام تر صوبائی حکومتیں نہ صرف متحد ہیں بلکہ منصوبوں کی بروقت تکمیل کیلئے کوشاں ہیں تاکہ پاکستان اس بے مثال منصوبے سے پوری طرح استفادہ کرسکیں۔سی پیک کے تحت توانائی، شاہراہوں اور گوادر کے شعبے میں متعدد منصوبوں پر اس وقت کام جاری ہے، اگر ان منصوبوں میں ملازمتوں کی شرح کا جائزہ لیا جائے تو واضح ہوگا کہ یہاں 70سے 80 فیصد پاکستانی اور 20فیصد کے قریب چینی اہلکار کام کررہے ہیں، یہ تاثر بالکل غلط ہے کہ موجودہ کے علاوہ مستقبل کے منصوبوں میں چین کی لیبر یہاں منتقل کی جائے گی,پاکستان اور چین کے مابین صنعتی تعاون کے شعبے میں ہر صوبے و علاقے میں ایک ایک صنعتی زون قائم کرنے کا فیصلہ ہوا ہے ، ابھی تک تمام صوبوں و علاقوں کی تعاون سے 9 زونز کی نشاندہی ہو چکی ہیں، ان زونز میں کن شرائط و فارمولے کے تحت تعاون ہوگا اس پر پاکستان کے مختلف ادارے تمام سٹیک ہولڈرز کیساتھ مل کر منصوبہ بندی میں مصروف ہیں، تاہم یہ بات واضح ہے کہ ان زونز میں چین کےایسےسرمایہ کاروں کو دعوت دی جائے گی جو بڑے پیمانے پر مینوفکچرنگ کو فروغ دے سکیں، خام مال کی تیاری سے لیکر فنشنگ تک تمام مراحل یہیں مکمل کئے جائیں گے، اس وجہ سے یہاں ہزاروں لاکھوں پاکستانیوں کیلئے روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوں گے اور ملک کی بر آمدات میں بڑے پیمانے پر اضافہ ہوگا۔اس وقت سی پیک کے حوالے سے قومی اسمبلی اور سینیٹ کی پانچ قائمہ کیمیٹیاں کام کررہی ہیں اور وزارت منصوبہ بندی، ترقی و اصلاحات کی جانب سے ہر ہفتے ان کمیٹیوں کو سی پیک کے کسی نا کسی موضوع پر تفصیلات/بریفنگ دی جاتی ہیں، اب تک سی پیک کے ہر گوشے پر انہی کمیٹیوں کو آگاہ کیا جاتا رہا ہے، اس کے علاوہ سینٹ اور قومی اسمبلی کے وقفہ سوالات میں ہر روٹہ ڈے پر کوئی 30 سے 40فیصد سوالات سی پیک کے حوالے سے ہی زیر بحث لائے جاتے ہیں، سی پیک کی اپنی سرکاری ویب سائٹ پر ہر منصوبے کے حوالے سے تٖفصیلی معلومات درج ہیں،چین پاکستان اقتصادی راہداری دوطرفہ اقتصادی منصوبہ ہے ، اس کا کوئی فوجی مقصد نہیں۔ چین پاکستان اقتصادی راہداری سے پاکستان کو اپنی معیشت خصوصا توانائی اور بنیادی ڈھانچے کے شعبوں کو بہتر بنانے میں مدد ملی ہےواضح رہے امریکی میڈیا کی رپورٹ میں الزام لگایا گیاہے کہ سی پیک نہ صرف معیشت اور تجارت کا منصوبہ ہے بلکہ اس کے فوجی مقاصد بھی ہیں۔سی پیک کوئی فوجی منصوبہ نہیں بلکہ اقتصادی خوشحالی کا منصوبہ ہےاس کو تعصب کی نگاہ سے دیکھنے والے بھارت کو آج وہاں کی تھنک ٹینک کے لوگ یہ مشورہ دے رہے ہیں کہ ترقی کا بھارتی حکومت تعصب کو بالائے طاق رکھ کر منصوبے میں شامل ہو جائے۔ جلد ہی بھارت کو پتہ لگ جائے گا کہ سی پیک میں شمولیت کے بغیر اس کی ترقی کے لیے کوئی اور چارہ نہیں ہےیادرہے کہ بھارت کے دشمن رویے کے باوجود20دسمبر2016 ء کواس وقت پاکستان کے سدرن کمانڈرلیفٹیننٹ جنرل عامر ریاض نےکوئٹہ میں ایک تقریب سےخطاب میں انڈیا کو پیشکش کی تھی کہ وہ ایران اورافغانستان اورخطے کے دیگرممالک کی طرح سی پیک میں شامل ہواوردشمنی ختم کرے۔لیکن بھارت نے اپنی ازلی دشمنی کامظاہرہ کرتے ہوئے پاکستان اورچین کی اس فراخدلانہ پیشکش کاجواب بھی کہہ ٹھکرادیایادرہے کہ سی پیک چائنابیلٹ اورشاہراوں کے منصوبوں کی جانب ایک کھلی پیش قدمی ہے،یہ کسی بھی ملک کے خلاف نہیں ہے بلکہ مستقبل کی ترقی کیلئے مواقع فراہم کرنے کاایک بہترین منصوبہ ہے”اس امرمیں شک نہیں کہ یہ امیدیں صرف تصوراتی نہیں بلکہ حقائق پرمبنی ہیں۔سی پیک منصوبہ حقیقی معنوں میں پاکستان کیلئے گیم چینجرثابت ہوگا اورنہ صرف پاکستان بلکہ اس پورے خطے کامقدربدل کررکھ دے گا اورسی پیک کے اثرات پاکستان کے ساتھ دیگرملکوں پربھی پڑیں گے