ای او بی آئی کیس ؛توہین عدالت کرنے والے ملزمان کی تفصیلات طلب

 
0
124

اسلام آباد 22 جون 2022 (ٹی این ایس): سپریم کورٹ نے ای او بی آئی کیس میں توہین عدالت کرنے والے ملزمان کی تفصیلات طلب کرلیں ،چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیا ل کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی،
نیب سے ملزمان کی فہرست اور ٹرائل کی تفصیلات بھی طلب کرلیں،جسٹس یحییٰ خان آفریدی نے ریمارکس دیے کہ عدالت کو دی گئی رپورٹ میں ملزمان کی مکمل فہرست شامل نہیں ،جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ نیب ریفرنس کی کیا صورتحال ہے ،تقرریاں تو 2009 سے شروع ہوئی تھیں،وکیل اعتزاز احسن نے کہا کہ خورشید شاہ 2011 میں وزیر بنے ۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ 2010 کا کیس زیر التواء ہے ۔اگر توہین عدالت ہوئی ہے تو ذمہ داری ڈالنی ہے ،عدالتی حکم کے برعکس تقرریاں تو ہوئی ہیں ،دیکھنا ہے کس نے عدالتی حکم کی خلاف ورزی کی ،سب کے خلاف کاروائی کرنے کی بجائے صرف ذمہ داروں کے خلاف ہی کاروائی کرنا چاہتے ہیں ،نیب تفصیلی طور پر رپورٹ دے کس ملزم کا کیا کردار ہے ،ایسا حکم دیں کہ ٹرائل بھی نہ رکے اور توہین عدالت کرنے والوں کے خلاف کاروائی بھی چلے ۔
چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیا نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ نے جنوری 2011 میں ای او بی آئی میں بھرتیاں روکنے کا حکم دیا، سپریم کورٹ کے حکم کے بعد ستمبر 2011 سے مئی 2012 کے درمیان ای او بی آئی میں خلاف ضابطہ بھرتیاں کی گئیں، سپریم کورٹ کے حکم کے بعد جن افراد نے بھرتیوں پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی ان کا نام نیب رپورٹ میں موجود ہے، سید خورشید شاہ کا نام بھی ای او بی آئی میں غیر قانونی بھرتیوں پر اثر انداز ہونے والے افراد میں نیب رپورٹ میں شامل ہے۔وکیل اعتزاز احسن نے کہا کہ خورشید شاہ اس وقت وزیر نہیں تھے جب یہ بھرتیاں ہوئیں، نیب کیس میں توہین عدالت کیسے ہو سکتی ہے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم صرف نیب سے ذمہ داران کی رپورٹ طلب کر رہے ہیں، خورشید شاہ کے وکیل اعتزاز احسن نے کہا کہ خورشید شاہ کا اس سے تعلق نہیں، ان کے سر پر توہین عدالت کی تلوار کیوں لٹک رہی ہے، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جلد بازی میں کوئی فیصلہ نہیں کرنا چاہتے ایک ماہ انتظار کر لیں، نیب کو تفصیلات جمع کرانے کا آخری موقع دے رہے ہیں، یہ کیس اس دور کا ہے جب ایکٹوزم اپنے عروج پر تھا، اب وہ دور نہیں رہا، ہر فیصلہ قانون کے مطابق ہو گا، کیس کی سماعت ایک ماہ کے لیے ملتوی کر دی گئی۔