ایچ آر سی پی کے زیر اہتمام سیلاب متاثرین کی بحالی کے حوالے سے سیمینار کا انعقاد

 
0
83

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان، گلگت بلتستان کے زیر اہتمام گلگت کے ایک مقامی ہوٹل میں سیلاب سے متاثرہ افرد کی بحالی نو کے عنوان سے سیمنار کا انعقاد کیا گیا جس میں سیلاب متاثرین کے نمائندے، سیاسی و سماجی رہنماوں کے علاوہ حکومتی اداروں کی نمائندوں کی شرکت کی۔ سیمینار میں وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان کے مشیر صابرحسین شیفرڈ نے خصوصی شرکت کی۔

سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے ایچ آر سی پی گلگت بلتستان کے کوارڈنیٹر اسرار الدین اسرا ر نے کہا کہ انسانی حقوق کی تنظیم ایچ آر سی پی نے گلگت بلتستان میں 1988سے کام کا باقاعدہ آغاز کردیا تھا جو وقتا فوقتا گلگت بلتستان کے اند ر انسانی حقوق کے حوالے سے کام کرتی ہے، ہمارا بنیادی مقصد گلگت بلتستان میں انسانی حقوق کا تحفظ ہے، حالیہ سیلاب کی وجہ سے گلگت بلتستا ن میں انسانی جانوں کا ضیا ع کے علاوہ سینکڑوں لوگ بے گھر ہوچکے ہیں،جو کہ ایک بنیادی انسانی مسئلہ ہے جس سے بچاو کے لیے ہم نے حکومتی و نجی اداروں کو آج اس سیمینار میں مدعو کیا ہے۔
سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے روندو سیلاب و زلزلہ متاثرین کے نمائندوں فدا حسین نے کہا کہ روندو میں اب تک زلزلہ زدگان کی بحالی ممکن نہیں ہوسکی جس کی وجہ سے ہزاروں لوگ دردر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں، ہمارے مسائل حل نہیں ہوئے جس کی وجہ سے ہم نے احتجاج کا اعلا ن کیا ہے، حکومت کو چاہئے کہ وہ متاثرین کے مسائل حل کرے۔

سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے تانگیر میں سیلاب متاثرین کے حوالے سے بات کرتے ہوئے سماجی ایکٹیوسٹ ارشد جگنو نے کہا کہ حالیہ سیلاب سے داریل تانگیر کا علاقہ بڑا متاثر ہوا۔ درجنوں گھرانے مکمل تباہ ہوگئے اور متاثرین اس وقت رشتہ داروں کے گھروں میں رہنے پر مجبور ہیں، بچوں کے سکول کا مسئلہ ہے، کھانے پینے کے اشیاء میسر نہیں، ایسے میں حکومتی اداروں کی طرف سے امداد نہ ہونے کے برابر ہے تاہم کچھ نجی اداروں کی طرف سے جو ریلیف ہمیں ملا تھا وہ عوام تک پہنچادیا ہے لیکن ناکافی ہے۔
یاسین کے سیلاب متاثرین کے حوالے سے بات کرتے ہوئے سیاسی و سماجی ایکٹیوسٹ شیر نادر شاہی نے کہ حالیہ سیلاب نے پورے گلگت بلتستان کی طرح یاسین کے علاقے درکوت، املست، تھیلتی،اور برکولتی میں تباہی مچادی جس سے کئی گھرانے تباہ اور پورے یاسین میں نوے فیصد فصل تباہ ہوگیا، دوسری طرف حکومت کی طرف سے گندم کوٹے میں بھی کٹوتی کی گئی جس سے غذائی بحران کا خدشہ ہے، حکومت متاثرین کی بحالی میں ناکام ہوچکی اور عوام مشکلات کے شکار ہیں، انفراسٹریکچر بالخصوص واٹر چینلز کی بحالی نہ ہونے کی صورت میں مستقبل میں عوامی زمینیں بنجر ہوجائیں گے۔
سیلاب متاثرین کے حوالے سے بات کرتے ہوئے سماجی ایکٹیوسٹ عنایت بیگ نے کہا کہ سیلاب کے دوران سب سے زیادہ متاثر بچے اور خواتین ہوتی ہیں، جو ذہنی اور جسمانی طور پر مسائل کے شکار ہوجاتے ہیں متاثرہ خواتین کی ذہنی نشوونما کے لیے حکومت کو اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔
سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے الخدمت فاونڈیشن جی بی کے زمہ دار طاہر رانا نے کہا کہ الخدمت فاونڈیشن گلگت بلتستان کے مختلف سیلاب زدہ علاقوں میں جا کر عوام میں ریلیف بالخصوص کھانے پینے کے اشیاء خوردنوش تقسیم کیاگیا اس کے علاوہ اے کے آرایس پی کے ساتھ مل کر گلگت بلتستان میں 200 گھر بنانے جارہے ہیں اور مقامی کاشتکار جو متاثرین میں شامل ہیں ان کے لئے کام کررہے ہیں۔

آغاخان ایجنسی فار ہیبیٹیٹ (آکاہ) کے نمائندے پرویز نے کہا کہ گلگت بلتستان میں تمام اداروں نے اپنی بساط کے مطابق بہت اچھا کام کیاہم نے لوکل کونسلات اور ایل ایس اوز کے ذریعے سیلاب متاثرین کے لیے کام کیا۔ ہماری کوشش رہتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو ریلیف دیں۔ ہمارے ادارے نے سرینا ہوٹل کے اشتراک سے ایکسٹنڈ فوڈ پیکیج کا اعلان کیا ہے جو سیلاب زدگان میں تقسیم ہوگی۔ بہت سارے جگہوں میں ونٹرائزڈ تینٹس دیئے گئے ہیں اور جہاں فصلات کا نقصان ہوا ہے وہاں اے کے آر ایس پی کے تعاون سے فوڈ سیکورٹی کے لیے سروے ہوا ہے۔

ڈپٹی دائریکٹر گلگت بلتستان ڈیزاسٹر منیجمنٹ احسان نے کہا کہ جی بی ڈی ایم اے نے حالیہ سیلاب کے دوران پورے ڈسٹرکٹس میں کام کیا، اس حوالے سے ایک دم کام ممکن نہیں بلکہ پہلے ہی کام کرنے کی ضرورت ہے کہ کونسے ایریاز رسک میں میں ہیں پھر اس کے بعد ان ایریاز کو بچانے کے لئے کام کرنے کی ضرورت ہے،، ہمارے پاس پانچ سو سے زائد ونٹرائزڈ ٹینٹس موجود ہیں جن کی جہاں ضرورت ہوگی دیں گے۔

آخرمیں خطاب کرتے ہوئے وزیر اعلی ٰ گلگت بلتستان کے کورڈنیٹر صابر حسین شیفرڈ نے کہا کہ جہاں جہاں سیلاب نے متاثر کیا ہے ان کی سب سے پہلے ڈیٹا جمع کرنے کی ضرورت ہے، جب تک exact figureکا پتہ نہ چلے گا تب تک منصفانہ کام ناممکن ہوگا۔ انہوں نے مزید کہا کہ سیلاب سے متاثرہ علاقہ بوبر میں سب سے پہلے میں نے سروے کیا اور حالات سے وزیراعلیٰ کو آگاہ کیا جس کے بعد وزیر اعلیٰ نے دورہ کیاانہوں نے کہا کہ اگر نیت ٹھیک ہو اور ادارے ایمانداری سے کام کرنا چاہے تو مسائل حل ہونگے۔ اس کے علاوہ ہر علاقے میں سیاسی منتخب نمائندے ہیں جو اسمبلی میں آواز اٹھائے اور اپنے حلقے کی نمائندگی کرے۔