جنرل پرویز مشرف گود سے گور تک | سابق فوجی صدر جنرل (ر) پرویز مشرف دبئی میں طویل علالت کے بعد وفات پا گئے

 
0
176

سابق فوجی صدر جنرل (ر) پرویز مشرف دبئی میں طویل علالت کے بعد وفات پا گئے ہیں۔ وہ دبئی کے امریکن نیشنل ہسپتال میں زیرِ علاج تھے۔ پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقاتِ عامہ (آئی ایس پی آر) نے بھی مسلح افواج کی جانب سے پرویز مشرف کی وفات پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔ پاکستان کی فوج کے جوائنٹ چیفس آف آرمی اسٹاف کمیٹی اور سروسز چیفس نے جنرل (ر) پرویز مشرف کی وفات پر دلی تعزیت کا اظہار کیا ہے۔ پرویز مشرف تقریباً نو سال (1999-2008) تک آرمی چیف رہے، وہ 2001 میں پاکستان کے 10ویں صدر بنے اور 2008 کے اوائل تک اس عہدے پر فائز رہے۔ سنہ 1999 میں فوجی بغاوت کے بعد اقتدار میں آنے والے پرویز مشرف 2016 میں علاج کی غرض سے ضمانت حاصل کرنے کے بعد سے متحدہ عرب امارات میں مقیم تھے۔گذشتہ برس جون کے مہینے میں پرویز مشرف کے اہلخانہ نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ پرویز مشرف ’خرابی صحت کے اس مرحلے میں ہیں جہاں صحت یابی ممکن نہیں اور ان کے اعضا کام کرنا چھوڑ رہے ہیں۔


پرویز مشرف کے گھر والوں کی جانب سے جاری بیان میں ان کی زندگی میں آسانی کے لیے دعا کی اپیل بھی کی گئی تھی۔انکے اہلخانہ کے مطابق سابق فوجی صدر ایمیلوئیڈوسس نامی بیماری میں مبتلا تھے۔ اس بیماری میں جسم میں پروٹین کے مالیکیول ناکارہ ہو جاتے ہیں اور مریض کے اعضائے رئیسہ متاثر ہوتے ہیں۔ اکثر افراد میں اس بیماری کے بعد ایمیلوئیڈ پروٹین گردے میں بننا شروع ہوجاتے ہیں جس سے کڈنی فیلیئر کا خطرہ ہوتا ہے۔ ایمیلوئیڈ پروٹین اگر دل میں بننا شروع ہوجائیں تو اس سے پٹھے سخت ہوسکتے ہیں اور جسم میں خون کی گردش متاثر ہوتی ہے۔ این ایچ ایس کے مطابق ایمیلوئیڈوسس کا کوئی علاج نہیں اور ان پروٹینز کو براہ راست نکالا نہیں جا سکتا مگر ایسے طبی طریقے موجود ہیں جن میں علامات کا علاج کیا جاتا ہے یا ان پروٹینز کو جسم میں بڑھنے سے روکا جاتا ہے۔اکستان کے اب تک کے آخری فوجی آمر پرویز مشرف کی قسمت گذشتہ دو دہائیوں میں اُتار چڑھاؤ کی شکار رہی۔ سنہ 1999 میں ملک میں اقتدار پر قابض ہونے کے بعد کے ان پر متعدد قاتلانہ حملے ہوئے مگر وہ اُن میں بچ نکلے۔ وہ مغربی دنیا اور اسلامی عسکریت پسندوں کے درمیان ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ میں صف اول میں کھڑے تھے۔بعدازاں ان پرغیرقانونی طور پر آئین کو معطل کرنے اور ایمرجنسی نافذ کرنے کا الزام عائد کیا گیا۔ اُن کے اقتدار کے عروج کے 20 برس بعد اُن کی غیر موجودگی میں عدالت نے انھیں آئین سے بغاوت کے جرم میں سزائے موت سُنائی تھی۔رویز مشرف 11 اگست 1943 کو دِلی کے اردو بولنے والے گھرانے میں پیدا ہوئے۔ 1947 کی تقسیمِ ہند کے بعد ان کے والدین ہجرت کر کے پاکستان آ گئے۔سنہ 1964 میں انھوں نے پاکستان فوج میں کمشین حاصل کیا اور ایک لمبی ملازمت کے بعد سنہ 1998 میں نواز شریف کے دور حکومت میں انھیں چیف آف آرمی سٹاف تعینات کیا گیا۔ تاہم اگلے ہی سال، 1999، انھوں نے ملک میں منتخب حکومت کا تختہ الٹ دیا۔نواز شریف نے پرویز مشرف کو نسبتاً سینیئر جنرلز پر فوقیت دیتے ہوئے فوج کی کمان سونپی تھی۔نواز شریف کی مقبولیت بھی اس وقت زوال پذیر ہو رہی تھی جس کی وجہ ملک میں جاری معاشی بحران، متنازع اصلاحات اور کشمیر کا بحران تھا۔ اسی دور میں کارگل جنگ لڑی گئی ،کارگل کا معاملہ دونوں کے تعلقات کی خرابی کی بڑی وجہ بنا۔ کارگل جنگ کنٹرول لائن پر ہونے والی ایک محدود جنگ تھی جو پاکستان اورانڈیا کے درمیان میں 1999ء میں لڑی گئی۔ کارگل جنگ مئی سے جولائی 1999 کے درمیان لائن آف کنٹرول کے ساتھ انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر کے علاقے کارگل کی برفانی چوٹیوں پر لڑی گئی۔ انڈیا میں سے ’آپریشن وجے‘ کا نام دیا گیا جبکہ پاکستان میں سے ’آپریشن کوہ پیما‘ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔اس جنگ میں ہونے والی ہلاکتوں کے درست اعدادوشمار میسر نہیں تاہم انڈیا میں پانچ سو سے زیادہ فوجیوں کی ہلاکت کی بات کی جاتی ہےلیکن حقائق اسکے برعکس نظر آتے ہیں راقم الحروف نے اس جنگ کے بعد انڈیا کا دورہ کیا اور صوبہ بہار کے ہر چوک ،شاہراہ ،چوراہے پر اک سنتری باوردی کو مرنے والے بھارتی فوجی کی باقیات گن ،ٹوپی /ہیلمٹ گن عزازات کی حفاظت پر موجود پایا ہلاکتوں کی تعداد کہیں ہزاروںمیں تھی ۔ جبکہ پاکستان نے اس معرکے میں شہید دو فوجیوں کو اعلیٰ ترین فوجی اعزاز ‘نشان حیدر’ سے بھی نوازا۔


اس جنگ میں واضح کامیابی کسی ملک کو نہ مل سکی۔جب یہ تنازعہ پیش آیا تو پاکستان مسلم لیگ نون کی حکومت تھی ،جب نواز شریف نے جنرل مشرف کو تبدیل کرنا چاہا تو انھوں نے انتہائی ہوشیاری سے اپنی فوجی طاقت کے بل پر اقتدار پر قبضہ کر لیا۔
ان کے اقتدار کا پانسہ اس وقت بدلا جب 11 ستمبر 2001 کو امریکہ کے ٹوئن ٹاورز پر شدت پسندوں نے حملے کیے جن میں سینکڑوں افراد ہلاک اور زخمی ہوئے اور مشرف حکومت نے اس ’جنگ‘ میں امریکہ کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا۔گیارہ ستمبر کے حملوں کے بعد امریکی صدر جارج ڈبلیو بش کی ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ میں ان کا ساتھ دینے کا مطلب اُن تمام جنگجوؤں سے تصادم تھا جو القاعدہ اور طالبان کے حامی تھے جن سے تعلق کا الزام پاکستانی فوج پر طویل عرصے سے لگتا چلا آ رہا تھا۔پرویز مشرف پر نیٹو اور افغان حکومت کی جانب سے مسلسل الزام عائد کیا جاتا رہا کہ وہ القاعدہ اور طالبان کے ہمدرد جنگجوؤں کی فاٹا کے راستے افغانستان میں نقل و حمل کو روکنے کی کوشش نہیں کر رہے۔
اُن کے ریکارڈ کے بارے میں کئی سوالات اس وقت سر اٹھانے لگے جب سنہ 2011 میں اسامہ بن لادن پاکستان میں پائے گئے جہاں وہ پاکستان ملٹری اکیڈمی کے قریبی علاقے میں برسوں سے رہائش پذیر تھے اور مشرف برسوں سے انکار کرتے رہے تھے کہ انھیں اس کے بارے میں علم تھا۔جنرل مشرف کا دور اقتدار عدلیہ کے ساتھ اُن کی کھینچا تانی سے بھی بھرپور رہا جس میں اُن کے فوجی سربراہ رہتے ہوئے صدر کے عہدے پر قائم رہنے کی خواہش کا تنازع بھی شامل تھا۔ سنہ 2007 میں انھوں نے اس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو معزول کر دیا جس کی وجہ سے ملک بھر میں مظاہرے پھوٹ پڑے۔
اس کے چند مہنیوں بعد انھوں نے اسلام آباد میں لال مسجد اور اس سے ملحق مدرسے کے خونی محاصرے کا حکم دے ڈالا جس کے نتیجے میں 100 سے زائد افراد مارے گئے۔اس واقعے کے ردِعمل میں پاکستانی طالبان کی تخلیق ہوئی اور پاکستان میں شدت پسندی کا ایک نیا دور شروع ہوا جس میں آئندہ آنے والے برسوں میں ہزاروں عام شہری اور سکیورٹی فورسز کے اہلکار مارے گئے۔ 2007 میں نواز شریف جلا وطنی ختم کر کے واپس پاکستان لوٹے تو یہ مشرف دور کے خاتمے کا آغاز تھا۔ سابق فوجی جنرل نے اپنا دور اقتدار بڑھانے کے لیے ملک میں ایمرجنسی نافذ کر دی لیکن فروری 2008 میں ان کی حمایت یافتہ جماعت پارلیمانی انتخابات ہار گئی۔ چھ ماہ بعد انھوں نے مواخذے سے بچنے کے لیے استعفی دے دیا اور ملک چھوڑ کر چلے گئے۔اپنے دور اقتدار میں پرویز مشرف نے انڈیا کے ساتھ تعلقات میں بہتری کی بھی کوشش کی اور اسی سلسلے میں لائن آف کنٹرول پر فائربندی کا معاہدہ بھی طے پایا اور ایک وقت ایسا تھا جب مسئلہ کشمیر بھی حل ہونے کے قریب پہنچ چکا تھا تاہم اس وقت تک مشرف ملک میں سیاسی طور پر غیرمستحکم ہو چکے تھے۔ مارچ 2013 میں وہ ڈرامائی انداز میں پاکستان لوٹے تاکہ انتخابات میں حصہ لیں لیکن ان کی واپسی گرفتاری پر منتج ہوئی۔انھیں انتخاب لڑنے سے روک دیا گیا اور ان کی جماعت آل پاکستان مسلم لیگ توقع کے مطابق انتخابات میں بُری طرح پِٹ گئی۔ 2007 میں آئین معطل کرنے کے فیصلے پر غداری کا مقدمہ قائم کیا گیا۔اس لیے حکومت نے سابق حکمران کا مقدمہ سننے کے لیے ایک خصوصی عدالت قائم کی۔خصوصی عدالت میں یہ مقدمہ پانچ برس تک زیر التوا رہا مگر پھر بالآخر تین ججوں پر مشتمل خصوصی عدالت نے ایک حیران کُن فیصلہ سُنایا جس میں مشرف کو غداری کا مرتکب قرار دیتے ہوئے سزائے موت سنائی گئی۔ مگر لاہور ہائیکورٹ نے سنہ 2020 میں اُس خصوصی عدالت کی تشکیل کو ہی ’غیر آئینی‘ قرار دے دیا جس نے مشرف کو موت کی سزا سنائی تھی۔ لاہور ہائیکورٹ نے خصوصی عدالت کو غیرآئینی قرار دیتے ہوئے مشرف مخالف فیصلہ معطل کر دیا تھا۔ کئی برسوں مسلسل زیرعلاج رہنے کے بعد پرویز مشرف گزشتہ روز اپنی بیماری کے ہاتھوں زندگی کی جنگ ہار گئے۔


کارگل کے ہیرو سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف تقریباً 9 سال (1999-2008) تک آرمی چیف رہے، وہ سابق وزیراعظم نواز شریف کی حکومت کا تختہ الٹ کر بر سر اقتدار آئے تھے، وہ 2001 میں پاکستان کے 10ویں صدر بنے اور 2008 کے اوائل تک اس عہدے پر فائز رہے۔ سابق ڈکٹیٹر پر مارچ 2014 میں 3 نومبر 2007 کو آئین معطل کرنے پر غداری کے مقدمے میں فرد جرم عائد کی گئی تھی۔17 دسمبر 2019 کو خصوصی عدالت نے پرویز مشرف کو سنگین غداری کیس میں سزائے موت سنائی۔
جنرل مشرف نے پاک فوج کو پروفیشنل اپروچ دیکر دنیا کی بہترین فوج بنانے میں اہم کردار ادا کیا
انکے سیںکڑوں سٹوڈنٹس آج بھی پاک فوج کے اہم عہدوں پر فائز ہیں انکے بغیر پاکستان کی عسکری و سیاسی تاریخ ادھوری رہے گی،
راقم الحروف سے متعدد بار ان سے ملاقاتیں ہوئیں انکے دورمیں پچاس سے زائد ٹی وی چینیلز کے لائسنسس کا اجراہ اقتدار کو نچلی سطح پر منتقلی ،بی اے پاس اسمبلی ،خواتین کے لیے قوانین،پاکستان بھر میں نئے جوڈیشل کمپلیکس کے قیام وغیرہ شامل ہیں ،صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کی وفات پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کیا ہے۔ایوانِ صدر کے پریس ونگ سے جاری تعزیتی بیان کے مطابق صدر مملکت نے سابق صدر کے ورثا سے اظہارِ تعزیت کی۔ صدر مملکت نے مرحوم صدر کے لیے دعائے مغفرت اور ورثا کے لیے صبر جمیل کی بھی دعا کی۔ وزیراعظم محمد شہبازشریف نے بھی پرویز مشرف کی وفات پر اظہار تعزیت کرتے ہوئے کہا کہ مرحوم کے اہل خانہ سے تعزیت اور ہمدردی کا اظہار کرتے ہیں۔چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے بھی سابق صدر کے انتقال پر گہرے دکھ کا اظہار کیا اور مرحوم کے خاندان سے اظہار تعزیت کیا۔ ٹوئٹر پر جاری اپنے بیان میں انہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ مرحوم کو اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے۔وزیراعظم نے مرحوم کی مغفرت اور اہل خانہ کے لیے صبرجمیل کی،جوائنٹ چیفس آف آرمی اسٹاف کمیٹی ساح شمشاد مرزا اور تمام سروسز چیفس نے جنرل (ر) پرویز مشرف کے انتقال پر دلی تعزیت کا اظہار کیا ہے۔


آئی ایس پی آر کی جانب سے جوائنٹ چیفس آف آرمی اسٹاف اور سروسز چیف کے حوالے سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ مرحوم کی مغفرت فرمائے اور ان کے لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے۔ سابق وزیر اعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الہیٰ نے سابق صدر و آرمی چیف جنرل پرویز مشرف کے انتقال پر گہرے دکھ اور رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اہل خانہ کے غم میں برابر کے شریک ہیں۔ٹوئٹر پر جاری اپنے بیان میں انہوں نے کہا کہ پاکستان آرمی اور ملک کے لیے ان کی خدمات کو فراموش نہیں کیا جا سکتا۔
الله رب العزت جنرل پرویز مشرف کی مغفرت فرماۓ ،آمین