اپنے دفتر میں لیپ ٹاپ پر اپنی فیملی کی تفصیلات ٹائپ کرتے ہوئے دو بچوں کے والد محمد ثاقب خاصے پرجوش دکھائی دے رہے تھے کیونکہ پاکستان میں پہلی بار مردم شماری کے لیے ڈیجیٹل طریقہ کار کا استعمال کیا جا رہا ہے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق اس طریقے سے اندارج کے لیے گزشتہ ہفتے اسلام آباد میں ایک تقریب کے دوران ایک پورٹل کا آغاز کیا گیا تھا۔
اختیاری سیلف رجسٹریشن کے بعد یکم مارچ سے ٹیبلٹس اور موبائل استعمال کرنے والے ایک لاکھ 20 ہزار سے زائد شمارکنندگان کی جانب سے ایک ماہ تک تفصیلات کا ذخیرہ کیا جائے گا۔ اس کے منتظمین کا کہنا ہے کہ اس سے عمل مزید درست، شفاف اور قابل اعتبار ہو جائے گا۔
امریکہ سے لے کر ایسٹونیا تک دنیا کے کئی ممالک میں آبادی کے حوالے سے اعدادوشمار ڈیجیٹل طور پر جمع کیے جاتے ہیں جس سے اخراجات میں بھی کمی ہوتی ہے اور غلطیوں کا احتمال بھی کم ہوتا ہے۔
پاکستان کی پارلیمان میں نشستوں کے ساتھ ساتھ بنیادی خدمات جیسے سکولوں، ہسپتالوں کے لیے فنڈز کی فراہمی آبادی کے اعدادوشمار پر ہی کی جاتی ہے تاہم کچھ گروپس کی جانب سے پچھلے اعدادوشمار پر شکوک کا اظہار کرتے ہوئے بعض الزامات بھی لگائے جاتے رہے ہیں۔
انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ اس ڈیجیٹل گنتی میں ان تمام گروپس کو بھی شمار کیا جائے جن کو پچھلی بار چھوڑ دیا گیا تھا یا پھر جن کی درست گنتی نہیں ہوئی تھی جیسے خواجہ سرا اور اقلیتیں۔














