اسلام آباد (ٹی این ایس) :نواز شریف کی 14 اگست کو واپسی طے پا گئی ؟

 
0
51

نواز شریف 14 اگست کو واپس آرہے ہیں۔ نواز شریف کی واپسی طے پا گئی ہے ؟ نوازشریف سے زہادہ سخت حالات پاکستان کے لئےکسی نہیں کاٹے اور پردے کے پیچھے نوازشریف تمام عرصے میں پاکستان کے لئے سخت کوششیں اور مذاکرات کرتے رہے . کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ نواز شریف عید کے بعد متحدہ عرب امارات سے پاکستان کا سفر کریں گے مگرایسا ممکن نہیں ہوا. نواز شریف کو وزیر قانون نے پارلیمنٹ سے تاحیات نااہلی کو کالعدم قرار دینے کے بل کی روشنی میں عدالتی مقدمات کی صورتحال کے بارے میں بریفنگ دی تھی ۔
نواز شریف کو پاکستان واپسی کے بارے میں بتایا گیا کہ ان کی سزاؤں میں نرمی کے حوالے سے سب کچھ طے پا گیا ہےنواز شریف 14 اگست کو واپس آسکتے ہیں۔اس دوران سابق وزیراعظم نواز شریف نے متحدہ عرب امارات میں اہل خانہ کے ساتھ عید منائی ,نواز شریف کے ساتھ ان کی صاحبزادی مریم نواز اور خاندان کے دیگر افراد بھی شامل تھے، 28 جون کو محمد بن راشد اور نواز شریف کے زبیل پیلس میٹنگ کے میں ایک دوسرے کو عید کی مبارکباد دی، پاکستان کےانتخابات 2023 کے بعد اقتصادی روڈ میپ, متحدہ عرب امارات کی پاکستانی معیشت کو مستحکم کرنے میں مدد کےسلسلےمیں تبادلہ خیال ہوا نواز شریف کی شاہی خاندان کے افراد سے ملاقات کے بارے میں دبئی میڈیا آفس کے سرکاری ٹویٹر پر محمد بن النوائف نےنواز شریف کی شاہی خاندان کے افراد سے ملاقات کی تصویرسوشل میڈیا پرشیئرکرتےہوئے لکھا کہ ” متوقع وزیراعظم نواز شریف سے آئندہ انتخابات کے بعد اقتصادی روڈ میپ پر بات کرنے کے لیے محمد بن راشد سے ملاقات کے لیے ابھی زبیل پیلس پہنچے”۔ یہ ایک شاندار تقریب ہے۔ ذرائع کے مطابق پی ایم, این ایس ( وزیراعظم نواز شریف)14 اگست کو گھر ( پاکستان) واپس جا رہے ہیں، نواز شریف اپنے تین ہفتے کے وقفے کے بعد لندن واپس آ چکےہیں۔ نواز شریف تمام سیاسی جماعتوں، فوج، عدلیہ حتیٰ کہ پی ٹی آئی کے ساتھ بات چیت کے لیے تیار ہیں لیکن ناکامی کے خطرے کے پیش نظر مسلم لیگ (ن) کی جانب سے پہلا قدم اٹھائے جانے سے ہچکچا رہے ہیں۔ متحدہ عرب امارات میں مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی بڑی شخصیات کے درمیان ہونے والی ملاقاتوں کے نتیجے میں کئی معاملات پر اتفاق رائے ہو گیا ہے، جن میں نگراں سیٹ اَپ کے ناموں اور اگلے انتخابات میں دونوں جماعتوں کے جیتنے کی صورت میں اقتدار کی تقسیم کا فارمولا شامل ہے۔ رپورٹ کے مطابق مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف اور پیپلز پارٹی کے رہنما آصف علی زرداری سمیت دونوں جماعتوں کے سرکردہ رہنماؤں نے دیگر چیزوں کے علاوہ اگلے عام انتخابات کی تاریخ کا فیصلہ کرنے کے لیے ایک ہفتے کے دوران ایک سے زائد مرتبہ ملاقات کی۔ ملاقاتوں میں وزیر اعظم شہباز شریف، وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری، مسلم لیگ (ن) کی سینئر نائب صدر مریم نواز شریف اور وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے بھی شرکت کی۔ ملاقاتوں کے بعد آصف زرداری، وزیر اعظم شہباز شریف اور وزیر قانون پاکستان واپس آگئے جبکہ بلاول بھٹو زرداری ٹوکیو کے لیے روانہ ہو گئے، ملاقاتوں میں اگلے عام انتخابات کی تاریخ واحد مسئلہ نظر آیا جہاں دونوں جماعتوں کی رائے مختلف تھی۔ مسلم لیگ (ن) ملے جلے اشارے دے رہی ہے کہ انتخابات اکتوبر میں ہوں گے یا نہیں, لیکن پیپلز پارٹی نے واضح طور پر کہا ہے کہ وہ مقررہ وقت پر انتخابات چاہتی ہے۔ پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما اور وزیر اعظم کے معاون خصوصی قمر زمان کائرہ نے بتایا کہ پی پی پی کا بیانیہ یہ ہے کہ اگست میں موجودہ حکومت کی مدت پوری ہونے کے بعد اکتوبر میں انتخابات کرائے جائیں۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم کی جانب سے اس حوالے سے واضح بیان دینے کے بعد انتخابات کی تاریخ پر کوئی ابہام نہیں رہا۔ یاد رہے کہ وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا تھا کہ ان کی حکومت کی مدت اگلے ماہ ختم ہو جائے گی اور الیکشن کمیشن آف پاکستان انتخابات کی تاریخ دے گا۔ جو بھی الیکشن جیتے گا اسے عوام کی خدمت کرنی ہوگی اور ملک کو معاشی دلدل سے نکالنا ہوگا۔ انتخابات کی تاریخ کے بارے میں پیپلز پارٹی کی وضاحت کے پیچھے ایک وجہ یہ ہے کہ آصف زرداری اپنے بیٹے کو اگلا وزیر اعظم دیکھنے کے خواہشمند ہیں۔


پی پی پی کے ایک رہنما نے بتایا کہ آصف زرداری سے اگلے عام انتخابات کے لیے پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ پر بھی بات چیت کی توقع ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ یقینی طور پر یہ چاہیں گے کہ مسلم لیگ (ن) پنجاب کے کچھ حلقوں میں پی پی پی کے چند بڑے ناموں کی حمایت کرنے پر غور کرے، آصف زرداری اس کے بدلےنواز شریف کو کیا پیشکش کریں گے، یہ نہیں معلوم ہوسکا اس سے قبل ایک ذریعے نے بتایا کہ عمران خان کی پی ٹی آئی کا مستقبل بھی زیر بحث آئے گا اور آیا پارٹی کو اس عمل کو قانونی شکل دینے کے لیے الیکشن لڑنے کی اجازت دی جائے یا اسے الیکشن کے عمل سے باہر رکھا جائے۔
پیپلز پارٹی رہنما نے کہا کہ پی ٹی آئی کے خلاف حکمت عملی پر 9 مئی سے پہلے دونوں کے درمیان مکمل مفاہمت تھی لیکن اب جب کہ عمران خان آئندہ انتخابات سے اہم نہیں رہے، تو کم از کم پی ڈی ایم کے خیال میں دونوں فریقین مستقبل کے سیٹ اَپ میں بڑا حصہ پانے کے لیے اپنے اپنے پتوں پر قبضہ کرنے کے لیے احتیاط سے کھیل رہے ہیں۔ دبئی میڈیا آفس کے محمد بن النوائف کے ٹویٹ کے مطابق صدر پاکستان عارف علوی ریاض میں ایم بی ایس ذریعے عمران خان کے لیے کچھ ریلیف حاصل کرنے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں ”نہیں لگتا کہ وہ شاہی خاندان اس سے زیادہ حاصل کرسکیں ہیں” سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف لندن سے لاہور کے بجائے کسی دوسرے شہر کو آسکتے ہیں۔ ذرائع کے مطابق نواز شریف کی وطن واپسی کے سلسلے میں مسلم لیگ ن کی اعلیٰ قیادت نے ہدایات جاری کردی ہیں۔ نواز شریف کی وطن واپسی کے لیے کراچی، کوئٹہ، پشاور اور اسلام آباد کے نام زیر غور ہیں ۔ نواز شریف کی واپسی کے لیے پارٹی کے آئینی و قانونی ماہرین سے بھی رائے مانگی گئی جبکہ انکے وطن پہنچنے سے قبل عدالتی معاملات حل کیے جائینگے۔ قانونی معاملات حل ہونے پر نواز شریف کو ایئرپورٹ سے بڑی ریلی کی صورت میں لاہور یا اسلام آباد میں ان کی رہائشگاہ پہنچایا جائے گا۔ تا ہم وطن واپسی کا حتمی فیصلہ پارٹی رہنماوں سے مشاورت سے ہوگا اور وطن واپسی کی تاریخ کا اعلان نواز شریف خود لندن میں پریس کانفرنس میں کریں گے۔خیال رہے کہ قومی اسمبلی میں الیکشن ایکٹ 2017 میں ترمیم کے بِل کی منظوری کے بعد اسحاق ڈار نے قائد مسلم لیگ ن نواز شریف کو فون کیاتھا۔ اس موقع پر اسحاق ڈار کی طرف سے نواز شریف کو مبارکباد دی گئی۔ قومی اسمبلی کے اجلاس میں نااہلی کی مدت 5 سال کرنے کا بل کثرتِ رائے سے منظور کرلیا گیا تھا۔بل وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار کی طرف سے سپلیمنٹری ایجنڈے پر منظوری کیلئے پیش کیا گیا تھا۔الیکشن ایکٹ 2023 میں ترمیم کا بِل سینیٹ نے بھی کچھ روز قبل ہی منظور کیا تھا۔ بِل کے مطابق الیکشن کمیشن انتخابات کے شیڈول میں تبدیلی بھی کر سکے گا۔ یہ بھی ذہن میں رہے کہ بل کی منظوری سے سابق وزیراعظم نواز شریف اور جہانگیر ترین کیلئے اہلیت کی راہ ہموار ہوگئی ہے۔ بل وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار نے سپلیمنٹری ایجنڈے پر سینیٹ سے منظوری کے بعد ایوان میں پیش کیا تھا ۔ جسے قومی اسمبلی نے اتفاقِ رائے سے منظور کیا تھا.سینیٹ سے الیکشن ایکٹ کی اہلی اور نااہلی سے متعلق سیکشن 232 میں ترمیم کے تحت اہلیت اور نااہلی کا طریقہ کار اور مدت ایسی ہو جیسا آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 میں فراہم کی گئی ہے، جہاں آئین میں اس کے لیے کوئی طریقہ کار یا مدت نہیں وہاں اس ایکٹ کی دفعات لاگو ہوں گی۔سینیٹ سے منظور الیکشن ایکٹ میں ترمیم کا بل 2023ء منظوری کیلئے ایوان میں پیش کیا گیا۔قومی اسمبلی نے الیکشن ایکٹ میں ترمیم کا بل اتفاقِ رائے سے منظور کیاپیش کیے گئے بل میں آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت الیکشن ایکٹ میں ترمیم کی تجویز پیش کی گئی۔ الیکشن ایکٹ میں ترمیم کا بل 2023ء منظور کر لیا گیا۔ الیکشن ایکٹ میں ترمیم کے بعد آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہلی کی سزا 5 سال سے زیادہ نہیں ہوگی۔سپریم کورٹ نے 14 اپريل 2018 کو آرٹیکل 62 (1) (ایف) کے تحت نااہلی کی مدت کی تشریح کیس کا فیصلہ سنایا تھا، جس کے تحت آئین کی اس شق کے ذریعے نااہل قرار دیے گئے ارکانِ پارلیمنٹ تاحیات نااہل ہوگئےتھے.سابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس اعجاز الاحسن ،جسٹس سجاد علی شاہ اورجسٹس شیخ عظمت سعیدپر مشتمل 5 رکنی لارجر بینچ نے آرٹیکل 62 (1) (ایف) کے تحت نااہلی کی مدت کی تشریح کے لیے 13 درخواستوں کی سماعت کے بعد 14 فروری 2018 محفوظ کیا گیا فیصلہ سنایا تھا۔تاہم 14 اپريل 2018 کوعدالت میں سنائے گئے فیصلے میں بینچ کے ایک رکن جسٹس سجاد علی شاہ اسلام آباد سے باہرہونے کے باعث شریک نہیں ہوسکےتھے۔
عدالت میں موجودہ چیف جسٹس جسٹس عمر عطا بندیال نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہل قرار دیے گئے شخص کی نااہلی کی مدت تاحیات ہوگی اور وہ شخص عام انتخابات میں حصہ نہیں لے سکے گا۔اس فیصلے کے تحت سابق وزیر اعظم اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف اور پاکستان تحریک انصاف کے سابق سیکریٹری جنرل جہانگیر ترین کی نااہلی کی مدت کو تاحیات قرار دیا گیا تھا۔ فیصلے میں کہا گیا تھا کہ آرٹیکل کے تحت اراکین کا صادق اور آمین ہونا ضروری ہے، آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہلی تاحیات ہوگی اور جب تک سپریم کورٹ کا فیصلہ رہے گا نااہلیت بھی رہے گی۔ سپریم کورٹ کے فیصلے میں کہا گیا تھا کہ آرٹیکل 62 ون ایف کا اطلاق مسلم اور غیر مسلم دونوں پر ہوگا اور جب تک عدالتی ڈیکلیریشن موجود رہے گی، 62 ون ایف کے تحت نااہلی ہمیشہ برقرار رہے گی۔ فیصلے کے مطابق اخلاقی جرائم دھوکا دہی، اعتماد توڑنا، بے ایمانی بھی 62 ون ایف کے زمرے میں آتے ہیں۔
عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ امیدوار کا 62 ون ایف کی اہلیت پر پورا اترنا لازم ہے اور اس آرٹیکل میں نااہلی کی مدت کا تعین نہیں ہے اور آئین میں جہاں نااہلی کی مدت کا تعین نا ہو وہاں نااہلی تاحیات سمجھی جاتی ہے۔

سپریم کورٹ کی جانب سے دیے گئے فیصلے میں کہا گیا تھا کہ آئین کا آرٹیکل 62 ون ایف اسلامی اقدار کے مطابق ہے اور اس کی یہی ممکنہ تشریح بنتی ہے۔

فیصلے میں کہا گیا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کی اپنی حثیت ہے، جس کا مقصد پارلیمان میں دیانتدار، راست گو اور شفاف اراکین منتخب ہوں۔

عدالتی فیصلے کے مطابق 18 ویں ترمیم میں آرٹیکل 63 میں مدت کا تعین ہوا اور آرٹیکل 62 ون ایف میں نااہلی کی مدت کا تعین نہیں ہوا، آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہلی تاحیات ہوگی اورجب تک سپریم کورٹ کا فیصلہ رہے گا، نااہلیت بھی رہے گی۔

فیصلے میں مزید کہا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 17 اے سے 62 ون ایف متاثرنہیں ہوتا جبکہ فیصلہ میں نصیرآباد سے (ن) لیگ کے امیدوار عبدالغفور لہڑی کی تاحیات نااہلی کیس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا کہ عبدالغفور لہڑی کیس میں جھوٹے بیان حلفی پرآرٹیکل 62 ون ایف کا اطلاق کیا گیا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ آرٹیکل 62 ون ایف کا 63 ون ایچ سے موازنہ نہیں ہوسکتا اور کسی شخص کے خلاف عدالتی حکم ہوکہ وہ صادق اورامین نہیں تو وہ رکن پارلیمان نہیں بن سکتا۔واضح رہے کہ عدالت کی جانب سے پانچوں ججز کے اس متفقہ فیصلے کو جسٹس عمر عطا بندیال نے تحریر کیا تھاجبکہ 60 صفحات پر مشتمل اس فیصلے میں جسٹس عظمت سعید کے 8 صفحات کا اضافی نوٹ بھی شامل کیا گیاتھا۔ اضافی نوٹ میں جسٹس عظمت سعید نے لکھا کہ انہیں فیصلے سے اتفاق لیکن اس کی وجوہات سے مکمل اتفاق نہیں ہے۔انہوں نے لکھا تھا کہ آرٹیکل 62 ون ایف کی بنیاد ہماری اسلامی اقدارہیں اورایسی شقوں کی تشریح انتہائی محتاط اندازمیں کرنی چاہیے ، ساتھ ہی انہوں نے اٹارنی جنرل کے موقف کو درست قراردیتے ہوئے کہا تھا کہ معاملہ پارلیمان کوطے کرنے سے متعلق اٹارنی جنرل کا موقف درست تھا جبکہ بعض وکلا کے مطابق تاحیات نااہلی ایک سخت فیصلہ ہوگا۔انہوں نے کہا تھاکہ یہ دلیل مجلس شوریٰ کے لیے زیادہ مناسب ہے کیوںکہ عدالت آئین کی تشریح کرسکتی ہے، اس میں ترمیم نہیں کرسکتی جبکہ عدالت ایک سے زائد مرتبہ کہہ چکی ہے کہ آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہلی دائمی ہوگی اور عدالتی فیصلے کی موجودگی تک متعلقہ شخص نااہل رہے گا۔ خیال رہے کہ 14 فروری 2018 کی سماعت کے دوران اٹارنی جنرل نے اپنے دلائل دیتے ہوئے کہا تھا کہ آئین میں نااہلی کی مدت کا تعین نہیں کیا اور عدالت کو ہر کیس میں نااہلی کی مدت کا علیحدہ علیحدہ تعین کرنا ہوگا۔یاد رہے کہ آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہلی کی مدت کی تشریح کی ضرورت اس وقت پیش آئی تھی، جب سابق وزیر اعظم نواز شریف اور سابق سیکریٹری جنرل تحریک انصاف جہانگیر ترین کی نااہلی کی مدت پر ایک بحث کا آغاز ہوا تھا۔28 جولائی 2017 کو سپریم کورٹ نے شریف خاندان کے خلاف پاناما لیکس کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے وزیراعظم نواز شریف کو نااہل قرار دیا تھاعدالت کی جانب سے پانچ رکنی لارجر بینچ کی جانب سے آئین کے آرٹیکل 62 (1) (ایف) کے تحت نواز شریف کو بطور وزیراعظم نااہل قرار دیا تھا۔
اس فیصلے کے بعد نواز شریف مسلم لیگ (ن) کی پارٹی صدارت سے بھی نااہل ہوگئے تھے، تاہم انہوں نے انتخابی اصلاحات ایکٹ میں ترمیم کے ذریعے خود کو دوبارہ (ن) لیگ کا صدر منتخب کرا لیا تھا۔تاہم 21 فروری 2018 کو عدالت عظمیٰ نے انتخابی اصلاحات ایکٹ کیس 2017 کے خلاف دائر درخواستوں کا فیصلہ سنایا تھا،جس کے نتیجے میں سابق وزیر اعظم نواز شریف مسلم لیگ (ن) کی صدارت کے لیے بھی نااہل ہوگئے تھے۔دوسری طرف جہانگیر ترین کی نااہلی کی بات کی جائے تو 15 دسمبر 2017 کو سپریم کورٹ نے غیر ملکی فنڈنگ کیس کے خلاف دائر درخواستوں پر فیصلہ سناتے ہوئے عمران خان کے خلاف ان کی پٹیشن کو خارج کردیا تھا جبکہ جہانگیر ترین کو آئین کے آرٹیکل 62 کے تحت نا اہل قرار دیا تھا۔سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ جہانگیر ترین صادق اور امین نہیں رہے اور عدالت عظمیٰ نے سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی) کو ان کے خلاف ان سائیڈ ٹریڈنگ سے متعلق کارروائی کرنے کی ہدایت کی تھی۔

ان دونوں شخصیات کی نااہلی کے بعد اس بحث کا آغاز ہوا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہل قرار دیے گئے ارکان اسمبلی کی نااہلی کی مدت کتنی ہوگی، جس کے بعد اس مدت کا تعین کرنے کے لیے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا 5 رکنی لارجر بینچ تشکیل دیا گیا تھا۔ نواز شریف کی جانب سے آرٹیکل ون ایف کے تحت نااہلی کی مدت کی تشریح کیس میں براہ راست عدالتی کارروائی کا حصہ نہ لینے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔یہ بھی یاد رہے کہ پاناما لیکس کے معاملے نے ملکی سیاست میں اُس وقت ہلچل مچائی تھی، جب 2016 اپریل میں بیرون ملک ٹیکس کے حوالے سے کام کرنے والی پاناما کی مشہور لا فرم موزیک فانسیکا کی افشا ہونے والی انتہائی خفیہ دستاویزات سے پاکستان سمیت دنیا کی کئی طاقت ور اور سیاسی شخصیات کے ‘آف شور’ مالی معاملات عیاں ہو گئے تھے۔
ان انکشافات میں جن شخصیات کے نام سامنے آئے تھے اس میں پاکستان کے سابق وزیر اعظم نواز شریف اور دیگر حکمران بھی شامل تھے۔پاناما لیکس کے انکشافات کے بعد اپوزیشن جماعت پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے وزیراعظم نواز شریف سے استعفیٰ کا مطالبہ کیا گیا تھا اور بعدازاں اس حوالے سے سپریم کورٹ سے رجوع کیا گیا تھا۔سپریم کورٹ نے ان درخواستوں پر سماعت کے لیے نواز شریف کے خلاف پاناما کیس کی مزید تحقیقات کے لیے فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی کے اعلیٰ افسر کی سربراہی میں مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) تشکیل دی تھی تھی۔
جے آئی ٹی نے 2 ماہ کی تحقیقات کے بعد 10 جولائی 2017 کو سپریم کورٹ میں اپنی حتمی رپورٹ جمع کروائی تھی، 10 جلدوں پر مشتمل اس رپورٹ میں وزیراعظم سمیت شریف خاندان پر کئی الزامات لگاتے ہوئے مختلف شواہد سامنے لائے گئے تھے۔
جس کے بعد جسٹس اعجاز افضل خان کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے لارجر بینچ نے پاناما عملدرآمد کیس کا فیصلہ سنایا تھا، جس میں نواز شریف کو نااہل قرار دیا گیا تھا۔ذرائع کا کہناہے کہ پاکستان میں 2024 کا سال شروع ہوگا تو پاکستان میں پہلی بارایک ایسی مثلث بننے جا رھی ھے جس کی تینوں سائیڈ برابر ھوں گی اوراسی طرح تینوں زاویئے بھی برابرھوں گے,نواز شریف پُرامید ہیں کہ اگر سپریم کورٹ میں اس سلسلے میں نظرثانی درخواست کامیاب ہوتی ہے تو انہیں الیکشن لڑنے کی اجازت مل جائے گی اور اس کے بعد انتخابات کی تاریخ کا اعلان کیا جائے گا ؟