اسلام آباد(ٹی این ایس) : وفاقی وزیر اطلاعات کا اتحادی جماعتوں کی مشاورت سے قومی اسمبلی کی تحلیل کاعندیہ

 
0
120

وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب کا کہنا ہے کہ قومی اسمبلی کی تحلیل کی تاریخ پر ابھی فیصلہ نہیں ہوا ہے۔ قومی اسمبلی کی تحلیل کے حوالے سے رپورٹس کی تردید کرتے ہوئے وزیر اطلاعات نے قومی اسمبلی اس کی 12 اگست کو پوری ہونے والی مدت سے چار روز قبل یعنی 8 اگست کو تحلیل کیے جانے کے فیصلے سے متعلق ردعمل میں کہا کہ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) اور اتحادی جماعتوں کی مشاورت سے قومی اسمبلی کی تحلیل کی تاریخ کا فیصلہ ہوگا۔ان کا کہنا تھا کہ قومی اسمبلی کی تحلیل کی تاریخ کے فیصلے کا باضابطہ اعلان کیا جائے گا۔
واضح رہے کہ موجودہ اسمبلی کی مدت 12 اگست کو مکمل ہوگی۔ اس سے قبل میڈیا میں اتحادی حکومت کے رہنماؤں کے عام انتخابات کے حوالے سے متضاد رپورٹس آئی تھیں، پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) سے تعلق رکھنے والے وفاقی وزیر تجارت نوید قمر نے حال ہی میں کہا تھا کہ قومی اسمبلی 8 اگست تک تحلیل ہونی چاہیے تاکہ الیکشن کمیشن کو نومبر میں انتخابات کے لیے مناسب وقت ملے گا۔دوسری جانب پی پی پی سے ہی تعلق رکھنے والے کابینہ کے دوسرے رکن نے دعویٰ کیا تھا کہ قومی اسمبلی کی تحلیل کے لیے تاریخ کے حوالے سے کوئی فیصلہ نہیں ہوا اور نوید قمر کا بیان ان کا ذاتی خیال اور تجویز تھی۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) سے تعلق رکھنے والے کابینہ کے اہم رکن نے بتایا تھا کہ قومی اسمبلی تحلیل کرنے کے لیے تاریخ کا فیصلہ جلد ہی اتحادیوں سے مشاورت کے بعد کیا جائے گا۔ وفاقی وزیر نے کہا تھا کہ یہ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ اور حکومتی اتحادیوں کا مشترکہ فیصلہ ہوگا۔ خیال رہے کہ قانون کے مطابق عام انتخابات اگر منتخب حکومت اپنی مدت پوری کرتی ہے تو اس کے 60 دن کے اندر ہونے چاہئیں اور اگر اسمبلی قبل از وقت تحلیل کردی جاتی ہے تو پھر اسمبلی کی تحلیل کے 90 روز کے اندر انتخابات ہونے چاہئیں۔ وزیراعظم شہباز شریف نے دو روز قبل کہا تھا کہ وہ اگلے ماہ اسمبلی کی مدت کی تکمیل سے قبل اقتدار نگران حکومت کے حوالے کریں گے۔ سیالکوٹ میں گورنمنٹ کالج ویمن یونیورسٹی میں لیپ ٹاپ تقسیم کرنے کی تقریب سے خطاب میں انہوں نے کہا تھا کہ حکومت اگلے ماہ اپنی مدت پوری کرے گی لیکن ہم مدت کی تکمیل سے قبل حکومت چھوڑ دیں گے اور ایک نگران حکومت آئے گی۔یہ یاد رہے کہ سیالکوٹ ویمن یونیورسٹی میں لیپ ٹاپ تقسیم کرنے کی تقریب سے خطاب میں شہباز شریف نے مدت سے پہلے اسمبلی توڑنے کا اشارہ دیا تھا اور کہا تھا کہ نگراں حکومت 90 دن کےلیے آئے گی۔قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں آنے والے عام انتخابات کی تاریخ کا اعلان الیکشن کمیشن کرے گا۔

اس سے پہلے صدر پاکستان الیکشن کی تاریخ کا اعلان کرتے تھے اور الیکشن کمیشن اس تاریخ کے مطابق انتخابی شیڈول بتاتا تھا۔ کسی غیر معمولی صورتحال کی صورت میں بات سمجھ آتی ہے آئین نے واضح طور پر بتا دیا ہے کہ 60 یا 90 دن تک الیکشن ہو جانے چاہیں۔ لیکن آئین بنانے والوں نے ایک گنجائش رکھی ہے۔ آرٹیکل 254 کے تحت جو وقت آئین میں درج ہے اگر اس کے مطابق کوئی کام نہ ہو اور بعد میں ہو تو وہ غیر قانونی نہیں ہو گا یہ خدشہ بھی پایا جا رہا ہے کہ اگر الیکشن کمیشن 60 یا 90 دنوں میں الیکشن کروانے میں ناکام رہا تو ایسی صورت میں کیا ہو گا؟اگر 90 دن میں الیکشن نہیں ہوتا اور اس کے بجائے کسی وجہ سے انتخابات 120 دنوں میں ہو جاتے ہیں تو یہ الیکشن غیرقانونی نہیں ہوگا,الیکشن کمیشن کے ممبران کی تقرری ایک مہینے کے اندر اندر ہونی چاہیے لیکن وہ ایک ایک سال بعد ہوئی ہے تو جو ہو گئی ہے وہ غیرقانونی نہیں قرار دی جاتی۔ پاکستان میں آنے والے عام انتخابات انعقاد کے بارے میں کافی ابہام پایا جاتا ہے۔ 2018 کے عام انتخابات کے نتیجے میں تشکیل پانے والی موجودہ قومی اسمبلی کی مدت 13 اگست 2018 سے شروع ہوئی تھی اور پانچ سال کی مقررہ مدت مکمل کرنے کے بعد یہ 12 اگست 2023 کی رات 12 بجے تحلیل ہو جائے گی۔ قومی اسمبلی کے علاوہ چار میں سے دو صوبائی اسمبلیوں کی قانونی مدت بھی اگست 2023 میں ختم ہو رہی ہے جس کے بعد آئین کے مطابق دو ماہ یعنی اکتوبر 2023 تک ملک میں ان اسمبلیوں کے لیے ارکان کا انتخاب ہونا لازم ہے۔اس مدت میں اضافہ اس صورت میں ضرور ممکن ہے کہ اسمبلیاں مدت پوری ہونے سے قبل تحلیل کر دی جائیں۔وزیر اعظم شہباز شریف نے حال ہی میں سیالکوٹ میں اپنی ایک تقریر میں کہا کہ ’آج ہماری حکومت ہے جو اگلے ماہ اپنی مدت مکمل کر لے گی اور مدت مکمل ہونے سے پہلے ہم انشااللہ جائیں گے اور نئی نگراں حکومت آئے گی۔‘اس اعلان کے بعد بھی ابہام ختم نہیں ہوئے بلکہ مزید سوالات نے جنم لیا ہے جیسے کہ اسمبلی تحلیل پہلے ہو یا بعد اس سے کیا فرق پڑے گا؟ پاکستان کے دو صوبوں پنجاب اور خیبر پختونخوا کی اسمبلیاں کافی عرصہ پہلے تحلیل ہو گئیں تھیں لیکن ان دو صوبوں میں تو ابھی تک الیکشن نہیں ہو سکے اور نگران سیٹ اپ قائم ہے اگر وفاق میں بھی الیکشن وقت پر نہ ہو سکے تو اس تناظر میں آئین کیا رہنمائی کرتا ہے؟اگر اسمبلیاں آئین کی بتائی گئی مدت پوری کر رہی ہیں تو اس دن کے بعد 60 دن کے اندر اندر الیکشن ہو جانے چاہیں اور اگر اسمبلی کو قبل از وقت تحلیل کر دیا جاتا ہے تو 90 دن کے اندر الیکشن ہوں گے۔ ’مثال کے طور پر اگر یکم جولائی کو اسمبلی کی مدت ختم ہو رہی ہے اور وہ 29 جون کو تحلیل ہو جاتی ہے تو 90 دن کے اندر الیکشن کروانا ہوں گے۔ اسمبلیوں کی تحلیل کی تاریخ کے بارے میں الیکشن کمیشن کو پہلے سے پتا ہوتا ہے اور اس کے لیے انھوں نے تیاری کر رکھی ہوتی ہے لیکن اگر ایک دم سے یہ فیصلہ سامنے آتا ہے کہ اسمبلیاں تحلیل ہو رہی ہیں ایسی صورتحال میں الیکشن کمیشن انتخابات کے لیے تیار نہیں ہوتا لہذٰا انھیں مزید وقت درکار ہوتا ہے۔ پرانی انتخابات کمیٹیوں میں بھی یہ بات زیر بحث آئی تھی کہ 60 دن اور 90 دن شاید انتخابات کی تیاری کے لیے ناکافی ہیں ایک یہ تجویز بھی دی گئی تھی کہ 120 دن کی مدت رکھنی چاہیے لیکن اس پر اتفاق نہیں ہو سکا۔ شاید اس پر دوبارہ غور کرنا چاہیے کہ الیکشن کروانے میں کتنا وقت چاہیے ہوتا ہے کیونکہ جتنا بڑا ہمارا ملک ہے یہاں ایک الیکشن نہیں ہوتا ایک دن میں ’قومی اور صوبائی حلقے ملا کر 800 یا 850 الیکشن ہوتے ہیں جس کے لیے تقریباً دس لاکھ کے قریب عملہ چاہیے ہوتا ہے یہ خدشہ بھی پایا جا رہا ہے کہ اگر الیکشن کمیشن 60 یا 90 دنوں میں الیکشن کروانے میں ناکام رہا تو ایسی صورت میں کیا ہو گا؟مسلم لیگ ن کے رہنماؤں کی جانب سے دیے گئے بیانات نے ملک میں سیاسی گہما گہمی کا آغاز کر دیا ہے اور یوں کئی ماہ کی غیریقینی صورتحال کے بعد اب بالآخر ملک میں عام انتخابات کے انعقاد کے بارے میں بات ہو رہی ہے۔وفاقی وزیر داخلہ اور پاکستان مسلم لیگ ن کے سینیئر رہنما رانا ثنااللہ نے کہا ہے کہ مسلم لیگ آئندہ انتخابات میں پنجاب میں کسی سیاسی جماعت سے اتحاد نہیں کرے گی بلکہ الیکشن میں قومی و صوبائی نشستوں کے لیے ہر حلقے میں اپنے امیدوار اتارے گی۔۔

واضح رہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان ایک خود مختار ادارہ ہے جو اسلامی جمہوریہ پاکستان میں آزاد اور غیر جانبدارانہ انتخابات منعقد کروانے کا ذمہ دار ہے۔ چیف الیکشن کمشنر اس ادارے کا سربراہ ہوتا ہے اورملک میں آزاد اور غیر جانبدارانہ انتخابات کے انعقاد کے علاوہ ہر امیدوار کی جانچ پڑتال کا بھی ذمہ دار ہوتا ہے۔
الیکشن کمیشن کا دستور کے مطابق فرض ہے کہ وہ عام انتخابات کا انتظام کرے اور اسے منعقد کروائے اور ایسے انتظامات کرے جو اس امر کے اطمینان کے لیے ضروری ہوں کہ انتخابات ایمانداری، حق اور انصاف کے ساتھ قانون کے مطابق منعقد ہوں اور یہ کہ بد عنوانیوں کا سدباب ہوسکے۔الیکشن کمیشن عام انتخابات اکتوبر میں کروانے کےلئے تیار ھے الیکشن کمیشن نے متفقہ طور پر فیصلہ کیا ہے کہ وہ 30 اپریل کو پنجاب اسمبلی کے انتخابات قانون اور آئین کے تحت بوجوہ کروانے سے قاصر ہے اور انہوں نے یہ انتخابات 8 اکتوبر 2023ء کو کروانے کا عندیہ دیا ہے۔
8 اکتوبر ہماری تاریخ میں مار شل لا کے آغاز کی تاریخ ہے، 12 اکتوبر بھی مارشل لا کے نفاذ کی تاریخ رہی ہے۔8 اکتوبر ہماری تاریخ میں مار شل لا کے آغاز کی تاریخ ہے، 12 اکتوبر بھی مارشل لا کے نفاذ کی تاریخ رہی ہے۔5 اکتوبر ملکی تاریخ میں بدترین زلزلے کا دن تھا۔ 16 اکتوبر لیاقت علی خان کی شہادت کا دن ہے،10 اکتوبر پاکستان کی تاریخ کا سیاہ دن ھے 10 اکتوبر کو جی ایچ کیو راولپنڈی پر دھشت گردوں نے حملہ کیا تھا اس حملے کے بعد پاکستانی سکیورٹی فورسز نے بڑے پیمانے پر آپریشن کا اغاز کیا تھا جو دو دن جاری رہا۔ اس آپریشن میں فوج کے ایک بریگیڈیئر اور ایک لیفٹیننٹ کرنل اور دو کمانڈو سمیت گیارہ فوجی شہید اور آٹھ دھشت گردوں جہنم واصل ہوئے جبکہ ایک حملہ آوار کو زخمی حالت میں گرفتار کیا گیا ,پشاور کے آرمی پبلک سکول (اے پی ایس) میں 16 دسمبر 2014 کو حملہ آوروں نے گھس کر 144 بچوں کو شہید کیا
سقوط ڈھاکہ سانحہ مشرقی پاکستان 16 دسمبر 1971 ء کو علیحدہ ہوا جس کی وجہ سے پاکستان آبادی اور رقبے کے لحاظ سے ایک بڑی ریاست سے محروم ہو گیا اور بھی کئی واقعات اکتوبر میں وقوع پذیر ہوئے۔۔
قومی اسمبلی کی مدت 12 اگست کو پوری ہوگی اور پھرانتخابات کا انعقاد ہوگا، یہ 60 دن میں بھی ہوسکتا ہے تاہم عبوری حکومت صرف 90 دن کے لیے اقتدار سنبھالتی ہے اور اس کو 90 دن میں اقتدار منتقل کرنا ہوتا ہے۔
یہ عجیب اتفاق ہے کہ اگست سے اکتوبر تک ملک میں بڑی بڑی تبدیلیاں ہوں گی مثلاً صدر مملکت عارف علوی کی مدت صدارت 9 ستمبر کو ختم ہو جائے گی۔ ہمارے دستور کی دفعہ 44 کے تحت دستور کے تابع صدر اس دن سے جس دن وہ اپنا عہدہ سنبھالے گا 5 سال کی مدت تک اپنے عہدے پر فائز رہے گا مگر شرط یہ ہے کہ صدر اپنی معیاد ختم ہونے کے باوجود اپنے جانشین کے عہدہ سنبھالنے تک اس عہدے پر فائز رہے گا۔آئین کی دفعہ 41 (3) کے مطابق صدر ، قومی اسمبلی، سینیٹ اور صوبائی اسمبلیوں کے ارکان پر مشتمل انتخابی ادارہ کی طرف سے منتخب کیا جائے گا۔ ذیلی دفعہ 4 کے تحت صدر کے عہدے کے لیے انتخاب، عہدے پر فائز صدر کی معیاد ختم ہونے سے زیادہ سے زیادہ 60 دن اور کم از کم 30 دن قبل کروایا جائے گا مگر شرط یہ ہے کہ اگر یہ انتخاب مذکورہ بالا مدت کے اندر اس لیے نہ کروایا جاسکتا ہو کہ قومی اسمبلی توڑ دی گئی ہے تو یہ اسمبلی کے عام انتخابات کے 30 دن کے اندر کروایا جائے۔ ڈاکٹر عارف علوی کے عہدہ صدارت کی معیاد 9 ستمبر 2023ء کو ختم ہورہی ہے۔ ویسے تو آئین چیئرمین سینیٹ کو بھی قائم مقام صدر بنانے کا اختیار دیتا ہے مگر عارف علوی نئے صدر کے حلف تک بھی صدر رہ سکتے ہیں۔ یہ معاملہ بھی آئینی اور دلچسپ ہوگا۔
غالباً نگران وزیراعظم منصب پر فائز ہوں گے اور ان کی تعیناتی بظاہر وزیراعظم شہباز شریف اور اپوزیشن لیڈر راجا ریاض ہی کریں گے
مگر کون جانے پی ٹی آئی کسی طور پر واپس قومی اسمبلی میں آکر اپوزیشن کا کر دار ادا کرے جس کی بظاہر قانونی جنگ کے علاوہ کوئی دوسری راہ نہیں۔
عدالتوں نے مستعفی ارکان کی نشستوں پر ہونے والے انتخابات کے انعقاد کو روک رکھا ہے مگر ابھی مذاکرات اور عدالتوں کے دروازے مکمل بند نہیں ہوئے۔دوسری جانب حکمران جماعتیں اعلیٰ عدالتوں پر معترض ہیں۔ اس بارے میں زیادہ گفتگو کا امکان ہے اور پارلیمنٹ میں کی گئی تقریروں پر سوال نہیں اٹھایا جاسکتا اور قانون سازی پارلیمنٹ نے ہی کرنی ہوتی ہے چاہے عدالت عظمیٰ اس کو رد کردے۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال بھی 16 ستمبر 2023ء کو ریٹائر ہورہے ہیں،اس سے سپریم کورٹ کی ہیت ترکیبی میں تبدیلی تو لازمی آئے گی، نئے بینچ بنیں گے، محترم قاضی فائز عیسیٰ چیف جسٹس بن جائیں گے حالانکہ عارف علوی تو ان کو عدلیہ کے نظام سے ہی نکالنا چاہتے تھے اور یہ شدید خواہش عمران خان کی بھی تھی۔ انہوں نے صدر کو مشورہ دیا تھا اور صدر نے ریفرنس آرٹیکل 209 کے تحت سپریم جوڈیشل کونسل کو بھیج دیا تھا۔ قاضی فائز عیسیٰ کے بارے میں سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں کوئی نئی حکمت عملی بھی حکمرانوں کی جانب سے سامنے آسکتی ہے۔ اب سب نظریں نگران سیٹ اپ کی طرف لگی ہوئی ہیں کہ کب باہمی مشاورت سے نگرانوں کا نام آتا ہے راقم الحروف راولپنڈی کے حلقوں این اے 54راولپنڈی این اے 60راولپنڈی این اے 61 راولپنڈی کینٹ این اے62 سے سال 2000 سے قومی انتخابات میں عملی طور پر حصہ لےچکا ھے جبکہ راقم الحروف کے والد ڈاکٹر مبارک علی قومی و صوبائی اسمبلی کے علاوہ بلدیاتی انتخابات میں حصہ لےچکے ہیں علاوہ ازیں حقیقی بھائی ایڈوکیٹ عظمت علی مبارک حلقہ این اے 62راولپنڈی سے پاکستان عوامی لیگ کے نامزد امیدوار قومی اسمبلی اور ھمشیرگان ایڈوکیٹ ھائی کورٹ مس عظمی مبارک ایڈوکیٹ نامزد امیدوار حلقہ این اے 61راولپنڈی کینٹ اور مس طاہرہ بانو مبارک ایڈوکیٹ ھائی کورٹ راولپنڈی کے حلقہ این اے 60 سے قومی انتخابات میں عملی طور پر حصہ لےچکے ہیں اور مشاہدے میں آیا ھے اب ووٹروں کو عدم تحفظ کا اندیشہ ہے کیونکہ آئندہ انتخابات اکتوبر میں کروانے کی صورت میں امن و امان کا مسئلہ درپیش رہے گاوزیر اعظم شہباز شریف نے حال ہی میں سیالکوٹ میں اپنی ایک تقریر میں کہا کہ ’آج ہماری حکومت ہے جو اگلے ماہ اپنی مدت مکمل کر لے گی اور مدت مکمل ہونے سے پہلے ہم انشااللہ جائیں گے اور نئی نگراں حکومت آئے گی۔‘اس اعلان کے بعد بھی ابہام ختم نہیں ہوئے بلکہ مزید سوالات نے جنم لیا ہے جیسے کہ اسمبلی تحلیل پہلے ہو یا بعد اس سے کیا فرق پڑے گا؟ پاکستان کے دو صوبوں پنجاب اور خیبر پختونخوا کی اسمبلیاں کافی عرصہ پہلے تحلیل ہو گئیں تھیں لیکن ان دو صوبوں میں تو ابھی تک الیکشن نہیں ہو سکے اور نگران سیٹ اپ قائم ہے اگر وفاق میں بھی الیکشن وقت پر نہ ہو سکے تو اس تناظر میں آئین کیا رہنمائی کرتا ہے؟اگر اسمبلیاں آئین کی بتائی گئی مدت پوری کر رہی ہیں تو اس دن کے بعد 60 دن کے اندر اندر الیکشن ہو جانے چاہیں اور اگر اسمبلی کو قبل از وقت تحلیل کر دیا جاتا ہے تو 90 دن کے اندر الیکشن ہوں گے۔ ’مثال کے طور پر اگر یکم جولائی کو اسمبلی کی مدت ختم ہو رہی ہے اور وہ 29 جون کو تحلیل ہو جاتی ہے تو 90 دن کے اندر الیکشن کروانا ہوں گے۔ اسمبلیوں کی تحلیل کی تاریخ کے بارے میں الیکشن کمیشن کو پہلے سے پتا ہوتا ہے اور اس کے لیے انھوں نے تیاری کر رکھی ہوتی ہے لیکن اگر ایک دم سے یہ فیصلہ سامنے آتا ہے کہ اسمبلیاں تحلیل ہو رہی ہیں ایسی صورتحال میں الیکشن کمیشن انتخابات کے لیے تیار نہیں ہوتا لہذٰا انھیں مزید وقت درکار ہوتا ہے۔ پرانی انتخابات کمیٹیوں میں بھی یہ بات زیر بحث آئی تھی کہ 60 دن اور 90 دن شاید انتخابات کی تیاری کے لیے ناکافی ہیں ایک یہ تجویز بھی دی گئی تھی کہ 120 دن کی مدت رکھنی چاہیے لیکن اس پر اتفاق نہیں ہو سکا۔ شاید اس پر دوبارہ غور کرنا چاہیے کہ الیکشن کروانے میں کتنا وقت چاہیے ہوتا ہے کیونکہ جتنا بڑا ہمارا ملک ہے یہاں ایک الیکشن نہیں ہوتا ایک دن میں ’قومی اور صوبائی حلقے ملا کر 800 یا 850 الیکشن ہوتے ہیں جس کے لیے تقریباً دس لاکھ کے قریب عملہ چاہیے ہوتا ہے یہ خدشہ بھی پایا جا رہا ہے کہ اگر الیکشن کمیشن 60 یا 90 دنوں میں الیکشن کروانے میں ناکام رہا تو ایسی صورت میں کیا ہو گا؟مسلم لیگ ن کے رہنماؤں کی جانب سے دیے گئے بیانات نے ملک میں سیاسی گہما گہمی کا آغاز کر دیا ہے اور یوں کئی ماہ کی غیریقینی صورتحال کے بعد اب بالآخر ملک میں عام انتخابات کے انعقاد کے بارے میں بات ہو رہی ہے۔وفاقی وزیر داخلہ اور پاکستان مسلم لیگ ن کے سینیئر رہنما رانا ثنااللہ نے کہا ہے کہ مسلم لیگ آئندہ انتخابات میں پنجاب میں کسی سیاسی جماعت سے اتحاد نہیں کرے گی بلکہ الیکشن میں قومی و صوبائی نشستوں کے لیے ہر حلقے میں اپنے امیدوار اتارے گی۔۔

آئندہ انتخابات کے لیے اپنی جماعت کی انتخابی مہم کے حوالے سے جمعے کو پریس کانفرنس کرتے ہوئے انھوں نے پنجاب میں کسی بھی سیاسی جماعت کے ساتھ ممکنہ اتحاد کے امکان کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ’پنجاب میں کسی سے انتخابی اتحاد نہیں کریں گے اور عام انتخابات میں صوبے کے ہر حلقے میں شیر کا نشان موجود ہو گا۔‘

اگر ماضی کے ضمنی انتخابات کے نتائج کا جائزہ لیں تو مسلم لیگ ن کو اپنے سخت سیاسی حریف پاکستان تحریک انصاف سے شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے اور حلقے کی سطح پر بھی اس کے ووٹ بینک میں گراوٹ دیکھی گئی ہے۔
مسلم لیگ ن کا انتخابی اتحاد نہ کرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ پارٹی کے اندر بھی ایک ایک حلقے کی سیٹ پر پانچ پانچ امیدوار تیار ہیں,
اس تمام صورتحال میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے اور دوست ممالک سے قرضہ لینے کے اقدام نے مسلم لیگ ن کو انتخابی اعتماد فراہم کیا ہے یا پھر یہ جماعت پی ٹی آئی اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان تناؤ کے بعد صوبے میں پیدا ہونے والے سیاسی خلا کا فائدہ حاصل کرنا چاہتی ہے؟ عوام یہ جانتی ہے کہ اتحادی حکومت نے وہ کام کیا ہے جو شاید کوئی اور سیاسی پارٹی نہ کر سکتی۔عوام کو اعتماد ہے کہ جب بھی مسلم لیگ ن حکومت میں آئی ہے تو ملک میں ترقی کا سفر شروع ہوا ہے۔‘ وہ کہتی ہیں کہ عوام کے اسی اعتماد کو آپ اگلے انتخابات میں ظاہر ہوتا دیکھیں گے۔مسلم لیگ ن کو لگتا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف پوری قوت سے میدان میں موجود نہیں ہو گی,جیسا کہ رانا ثنا اللہ نے یہ بات بھی کہی ہے کہ عمران خان کسی وقت بھی گرفتار ہو سکتے ہیں تو اگر ایسا ہوا تو مسلم لیگ ن کے لیے انتخابی میدان کشادہ ہو سکتا ہے۔ اسی وجہ سے مسلم لیگ ن نے ایسے اعلانات کرنے کو مناسب سمجھا جو یقیناً یہ قبل از وقت ہے۔پی ٹی آئی کے مؤثر افراد نے اپنی نئی جماعت بنا لی ہے۔ پی ٹی آئی کو اس وقت تنظیمی مشکلات درپیش ہیں اور پارٹی کو از سر نو تنظیم سازی کی ضرورت ہے ایسے میں اگر عمران خان جیل چلے جاتے ہیں تو ووٹر اور پارٹی کے درمیان رابطے کی کڑی کمزور پڑ سکتی ہے اور ایسی صورت میں مسلم لیگ ن کو فائدہ ملے گا۔پی ٹی آئی کے خلاف بھی ایک بیانیہ بنایا گیا ہے جس نے عوامی رائے کو متاثر کیا ہے اور اب ہمدردی سے زیادہ ایک خوف کے احساس نے جنم لیا ہے۔پی ٹی آئی کے خلاف کئی ماہ سے مسلسل کارروائی ہو رہی ہے اور وہ اس وقت دباؤ میں ہے جس سے ووٹر میں خوف اور غیر یقینی کی صورتحال پیدا ہوتی ہے اور وہ بد دل ہو کر اس عمل سے باہر ہو جاتی ہے جیسا سنہ 1997 میں پیپلز پارٹی کے ووٹر نے کیا تھا۔ملک میں غیر یقینی ختم کرنے سے مسلم لیگ ن کے اعتماد میں تو اضافہ ہوا ہے اور جیسے اب عسکری و سیاسی قیادت نے زراعت کے شعبے میں کام کرنے اور گرین پاکستان کے خواب دکھائے ہیں، اس سے انھیں یقین ہے کہ وہ اپنے ووٹر کو کچھ امید دلا سکیں گے۔پنجاب میں ایک کانٹے کا مقابلہ ہو گا اور پی ٹی آئی پر موجود دباؤ کا فائدہ مسلم لیگ ن حاصل کرنے کی کوشش میں ہے واضح ہے کہ ’ملکی اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے پی ٹی آئی کے خلاف ہوا چل رہی ہے اور انتخابات کے ماحول میں جو رابطہ کاری اور میسیجنگ ہوتی ہے اس سے یقیناً عمران خان کے حریفوں خصوصاً مسلم لیگ کو فائدہ ہو گا۔پنجاب میں مسلم لیگ ن کا ہمیشہ سے حلقہ اثر رہا ہے جسے پی ٹی آئی نے کم کیا تھا لیکن اب یہ اس کو واپس لینے کی کوشش کرے گی,اس وقت انتخابات میں کافی وقت ہے اور ممکن ہے کہ سیاسی جماعتوں کی حکمت عملی میں کوئی تبدیلی آ جائے لیکن مسلم لیگ ن نے جو یہ فیصلہ کیا ہے ان کے لیے یہ ہی سب سے بہتر تھاگذشتہ چند برسوں کے دوران پنجاب کا ووٹ نواز کے حامیوں اور مخالفوں میں بٹا رہا ہے۔ مسلم لیگ ن کے خلاف ووٹ پی ٹی آئی کے پاس تھا۔ اب وہ ووٹ پی ٹی آئی کے پاس ہے یا نہیں اس کا فیصلہ اگلے انتخابات میں ہو گا لیکن پنجاب میں عمران خان کے علاوہ مسلم لیگ کے خلاف کوئی ایسا سیاسی رہنما نہیں تھا اور ہے جو انھیں چیلنج دے سکے۔اس وقت مسلم لیگ ن کو دو بڑے مسائل کا سامنا ہے۔ ایک مہنگائی کی وجہ سے ان کا ووٹر پہلے ہی ان سے نالاں ہے اور الیکشن کے دن اسے ووٹ کے لیے نکالنے میں انھیں محنت کرنا پڑے گی۔ دوسرا یہ کہ ماضی کے ضمنی انتخابات میں جب بھی مسلم لیگ ن کے کسی اور جماعت کے امیدوار کو ٹکٹ دیا تو انھیں تلخ تجربے سے گزرنا پڑا کیونکہ پارٹی کے ووٹر اور مقامی قیادت نے پارٹی کے فیصلے کو تسلیم نہیں کیا تھا,مسلم لیگ ن اس بات کی متحمل نہیں ہو سکتی کہ وہ کسی اور پارٹی کے ساتھ انتخابی اتحاد میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ کر لے اور بعد میں نقصان اٹھائیں۔ آئی ایم ایف معاہدے کے نتیجہ میں عوام کو کوئی بہت بڑا ریلیف نہیں ملا اور اس کی بڑی مثال معاہدے کے فوراً بعد بجلی کی قیمتوں میں اضافہ ہے۔خیال میں مسلم لیگ ن کی طرف آئی ایم ایف کے معاہدے سے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہو گا۔اس وقت اسٹیبلشمنٹ کا پی ٹی آئی کے حوالے سے رویہ سب کے سامنے ہیں اور اس سے مسلم لیگ کو کیا پیغام دیا گیا ہے اس پر کچھ کہنا مشکل ہے۔سب کی نظریں آنے والے عام انتخابات پر ہیں ,2018 کے عام انتخابات کے نتیجے میں تشکیل پانے والی موجودہ قومی اسمبلی کی مدت 13 اگست 2018 سے شروع ہوئی تھی اور پانچ سال کی مقررہ مدت مکمل کرنے کے بعد یہ 12 اگست 2023 کی رات 12 بجے تحلیل ہو جائے گی۔پاکستان کی قومی اسمبلی کے علاوہ چار میں سے دو صوبائی اسمبلیوں کی قانونی مدت بھی اگست 2023 میں ختم ہو رہی ہے جس کے بعد آئین کے مطابق دو ماہ یعنی اکتوبر 2023 تک ملک میں ان اسمبلیوں کے لیے ارکان کا انتخاب ہونا لازم ہے۔ اس مدت میں اضافہ اس صورت میں ضرور ممکن ہے کہ اسمبلیاں مدت پوری ہونے سے قبل تحلیل کر دی جائیں۔