اسلام آباد(ٹی این ایس)16 سال بعد حضرت بری امامؒ عرس میں دنیا بھر سے زائرین کی شرکت

 
0
165

حضرت شاہ عبدالطیف المعروف بری امام سرکار کے سالانہ عرس کی تین روزہ تقریبات دارالحکومت اسلام آباد میں اختتام پذیر ہوگئیں۔
عرس تقریبات کا باقاعدہ آغازپندرہ اگست کوسابق وزیرخزانہ اسحاق ڈار کے مزار پر چادر پوشی سے ہوا ,
مزار کمیٹی کے چیئر مین اسحاق ڈار ۔راجہ سرفراز سمیت دیگرنے مزار شریف کوغسل دیا تھا ،
عرس مبارک 17اگست تک جاری رہا۔جس میں زائرین نے دنیا بھر سے شرکت کی۔
خیال رہے کہ حضرت شاہ عبدالطیف کاظمی المعروف بری امام سرکار کے سالانہ عرس کی تین روزہ تقریبات کا آغاز16 سال کے وقفہ کے بعد ہواتھا،عرس کی تقریبات کا آغاز سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے مزار شریف پر چادر پوشی کے بعد کیا،تین روزہ عرس کی تقریبات 17 اگست تک جاری رہیں، جس میں ملک بھر سے آئے نعت خواں،قاری قرآن اور قوال ہدیہ عقیدت پیش کیا،
پندرہ اگست کو محفل نعت، سولہ اگست کو محفل سماع اور سترہ اگست کو اختتامی تقریب میں دعا کی گئی تھی،
عرس کے باعث سیکورٹی کے انتہائی غیر معمولی انتظامات کیے گئے تھے,۔سیکورٹی خدشات کے پیش نظر عرس کے قریب قائم قائداعظم یونیورسٹی کو بھی بند رکھاگیا تھا ,
خیال رہے کہ 16 سال کے وقفہ کے بعد حضرت بری امامؒ کا عرس مبارک منعقد کرانے کافیصلہ کیا گیا تھا یہ فیصلہ سابق وفاقی وزیرخزانہ محمداسحاق ڈارکی زیرصدارت مزارحضرت بری امام کمپلیکس کی ترقی اورانتظام وانصرام کیلئے قائم کمیٹی کے اجلاس میں کیا گیا تھا۔اجلاس میں طارق باجوہ،طارق محمودپاشا، جنرل (ر)افضل جنجوعہ، گوہرزاہد ملک، چیئرمین سی ڈی اے، ڈپٹی کمشنراسلام آباد اوردیگرافسران نے شرکت کی تھی۔اجلاس میں حضرت بری امامؒ کا عرس مبارک 15 اور16 اگست کومنعقد کرانے کافیصلہ کیاگیا تھا حضرت بری امامؒ کا عرس مبارک 16 سال کے وقفہ کے بعد ہورہا ہے۔ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا تھا کہ حضرت بری امامؒ کا عرس مبارک اب ہرسال باقاعدہ بنیادوں پرمنعقد کیا جائے گا۔
یاد رہے کہ اس سے پہلے31 جولائی 2023 کو سابق وزیر اعظم شہباز شریف نے حضرت بری امام مزارکی ڈویلپمنٹ اور انتظامی امور پر قائم کمیٹی کی تشکیل نو کی منظوری دی تھی ۔ نوٹیفکیشن کے مطابق سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار کو حضرت بری امام انتظامی کمیٹی کا چیئرمین مقرر کیا گیا تھا جبکہ پرائیویٹ ممبران میں طارق باجوہ،طارق محمودپاشا، جنرل (ر)افضل جنجوعہ، گوہرزاہد ملک، چیئرمین سی ڈی اے، ڈپٹی کمشنراسلام آباد سمیت دیگر شامل ہیں۔حضرت بری امام مزارکی ڈیولپمنٹ اور انتظامی امور پر قائم کمیٹی کی تشکیل نوکے بعد وزارت داخلہ نے انتظامی کمیٹی کی تشکیل نو کا نوٹیفکیشن جاری کیا تھا، جس میں بتایا گیا کہ اسحاق ڈار حضرت بری امام انتظامی کمیٹی کے چیئرمین مقرر کردیئے گئے ہیں۔
یاد رہے کہ سید عبد اللطیف کاظمی قادری المعروف امام بری کا تعلق قادریہ سلسلہ سے ہے آپ بری امام ,امام البر ,خشکی کے امام کے لقب سے مشہور ہیں , بری بادشاہ،بری سلطان اور امام بری کے القاب آپ کو دیے گئے ہیں, آپ کا دربار پاکستان کے دار الحکومت اسلام آباد کے نواحی گاؤں نور پورشاہاں میں واقع ہے اس سے پہلے یہ جگہ چور پور کہلاتی تھی, سید عبد اللطیف کاظمی قادری ( 1617ء) اور (1026ھ) میں چکوال کے ایک گاؤں کرسال میں پیدا ہوئے یہ شاہجہان کا عہد حکومت تھا سید عبد الطیف کاظمی قادری کے والد سید سخی محمود شاہ کاظمی اپنے پورے خاندان سمیت ہجرت کر کے با غ کلاں آ گئے جو اب آبپارہ کے نام سے مشہور ہےسید عبد اللطیف کاظمی قادری غورغشی اٹک گئے جہاں پر دو سال قیام کے دوران آپ نے فقہ، حدیث، منطق، ریاضی اور علم طب کے متعلق سیکھا کیوں کہ اس دور میں غورغشی ,ضلع اٹک علم کا مرکز جانا جاتا تھا,سید جمال اللہ حیات المیر جو غوث اعظم کے پوتے تھے جو حسن ابدال میں مقیم تھے انکا سلسلہ قادریہ تھا جب تک سخی حیات المیر حیات رہے یہ ان کی صحبت میں رہےضلع ہزارہ کے ایک معزز خاندان کے سردار سید نور محمد کی صاحبزادی بی بی دامن خاتون سے شادی ہوئی ایک بچی پیدا ہوئی جو بہت چھوٹی عمر میں فوت ہو گئیں اس کے بعد آپکی کی زوجہ بھی وفات پا گئیں دوبارہ آپ نے شادی نہ کی, امام بری اسلام آباد کے سرپرست ولی ہیں۔


سید عبد اللطیف کاظمی کے والد کا نام سید سخی محمود شاہ کاظمی ہے سید سخی محمود شاہ کاظمی کا دربار اسلام آباد میں آبپارہ کے مقام پر واقع ہے,شاہ لطیف بری بن محمود شاہ بن سید احمد یا حامد بن بودلا شاہ بن اسکندربن عباس بن عبد الغنی بن سید حسین بن سید آدم بن علی شیر بن عبد الکریم بن وجیہ الدین بن محمد ولی بن محمد ثانی الغازی بن رضا دین بن صدر الدین بن محمد احمد ثابق بن ابو القاسم بن پیر بربریاں بن سلطان عبد الرحمن بن اسحاق ثانی بن موسیٰ اول بن محمد عالم بن قاسم عبد اللہ بن محمد اول بن اسحاق بن موسیٰ کاظم آپ کا نسب کا ذکر سید قمر عباس اعرجی ہمدانی نے اپنی کتاب مدرک الطالب فی نسب آل ابی طالب میں کیا ہے آپ حسینیال مشہدی موسوی سید ہیں,سید عبد الطیف کاظمی قادری نے بہت سے علاقوں کا دورہ کیا جن میں کشمیر، بدخشاں، بخارا، مشہد، بغداد اور دمشق شامل ہیں آپ حج کی غرض سے مکہ مکر مہ بھی گئے اورمدینہ منورہ بھی گئے تقریباً 25 سال کی عمر میں واپس تشریف لائےسید عبد الطیف کاظمی قادری نے نور پور شاہاں میں قیام کے دوران اسلام کی تعلیمات کے ذریعے لا تعداد ہندوؤں کے دلوں میں اسلام کی شمع کو روشن کیا آپ کی کئی چلہ گاہیں ہیں جن میں نیلاں بھوتو، گنگڑ نور پور کے غار میں چلہ کشی کی مرشد نے چلہ کشی کے بعد آکر نکالا اور فرمایا امام البر ہو جو بعد میں بری امام ہو گیا, شاہ عبد الطیف کا وصال 1117ھ بمطابق 1706ء میں نور پور شاہاں اسلام آباد میں ہواآپ کا مزار اسلام آباد کے نواحی گاؤں نور پور شاہاں میں واقع ہے جہاں ہر سال لاکھوں عقیدت مند حاضری دیتے ہیں۔ مزار اورنگزیب عالمگیر نے اپنے دور حکومت میں تیار کروایا,سید عبد اللطیف کاظمی قادری بچپن میں مویشی چرایا کرتے تھے ایک بار آپ مویشی چرانے لے کر گئے,
آپ نے مویشیوں کو کھلا چھوڑ دیا کھ مویشی چر لیں اور خود درخت کے نیچے آرام کرنے لگے, آپ کے مویشی چرتے ہوئے کھیتوں میں گھس گئے اور فصل کو نقصان پہنچایا,
آپ مویشی لے کرواپس آ گئے اتنے میں کھیت کا مالک بھی آ پہنچا اس نے عبد اللطیف کاظمی کے والد صاحب کو شکایت لگائی کہ آپ کے مویشیوں نے فصل تباہ کر دی ہے اور چشم دید گواہ بھی موجود ہیں جنھوں نے خود مویشیوں کو کھیت میں گھس کر فصل کو تباہ کرتے دیکھا,
اس پرسید عبد اللطیف کاظمی قادری نے جواب دیا کہ فصل کو کسی نے تباہ نہیں کیا فصل بالکل ٹھیک ہے یہ سن کر کھیت کا مالک نے آپ کے والد صاحب سے کہا کہ آپ خود جا کر کھیتوں کی حالت دیکھیں جب آپ کے والد صاحب کھیتوں میں پہنچے تو وہاں کا نظارہ کچھ اور تھا کھیت لہلہا رہے تھے اور فصلیں بھی بالکل ٹھیک تھیں یہ نظارہ دیکھ کہ کھیت کا مالک حیران رہ گیا کہ اس نے جب دیکھا اس وقت کھیتوں کی حالت اور تھی اور اب اور ہے کھیت کا مالک اپنی بات پر پشیمان ہوا اور معافی مانگ کر واپس چلا گیا اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ آ پ پیدائشی اللہ کے ولی ہیں,
سید عبد اللطیف کاظمی قادری ایک بار پتھر پر بیٹھے اللہ کا ذکر کر رہے تھے کہ اس علاقے سے بادشاہ وقت اورنگزیب عالمگیر کا اپنی فوج کے ساتھ گذر ہوا رات ہونے کی وجہ سے اورنگزیب عالمگیر نے فوج کو پڑاؤ کا حکم دیا اور لنگر کی تیاری کا بھی حکم دیا جب لنگر تیار ہوا تواورنگزیب عالمگیر نے حکم دیا کہ تمام علاقے کی عوام کو بھی کھانے میں شرکت کی دعوت دی جائے حکم کے مطابق لوگ کھانے کے لیے آ گئے اور کھانا شروع کر دیا اس اثنا میں چند سپاہی اورنگزیب عالمگیر کے پاس حاضر ہوئے اور شکایت لگاتے ہوئے کہا کہ ایک شخص نے آپ کا حکم ماننے سے انکار کر دیا ہے یہ سن کر اورنگزیب عالمگیربولا کہ جاؤ اور دوبارہ انہیں ہمارا حکم سناؤ سپاہی چلے گئے اور تھوڑی دیر بعد جب لوٹے تو انہوں نے دوبارہ وہی جواب دیا جسے سن کر اورنگزیب عالمگیر نے سپاہیوں سے کہا کہ ہم خود جا کر اس شخص کو ملنا چاہتے ہی جب اورنگزیب عالمگیر، سید عبد اللطیف کاظمی قادری کے پاس پہنچا تو تحکمانا انداز میں سید عبد الطیف کاظمی قادری سے مخاطب ہوا ”کیا وہ تم ہی ہوجس نے ہمارا حکم ماننے سے انکار کیا“سید عبد اللطیف کاظمی قادری نے جواب دیا ”’ہاں وہ میں ہی ہوں“اس پر اورنگزیب عالمگیر بولا ”کیا تم نہیں جانتے کہ ہم بادشاہ وقت ہیں اور تم ہماری جاگیر میں موجود ہو“سید عبد اللطیف کاظمی قادری نے جواب دیا ”تم جو بھی ہو جاگیر صرف اللہ کی ہے اور اگر تمھیں جاگیر دیکھنے کا بہت شوق ہے تو ہمارے ساتھ اس پتھر پر بیٹھو ‘“ جب اورنگزیب عالمگیر بیٹھا تو اسے اپنے چاروں طرف ہیرے جواہرات سے بنا دربار نظر آیا اور وہ پتھر جس پرسید عبد اللطیف کاظمی قادری بیٹھے تھے وہ ایک بہت خوبصورت تخت کی صورت میں نظر آیا “ تواورنگزیب عالمگیر سید عبد اللطیف کاظمی قادری سے بولا”مجھے معاف کیجئے گامیں آپ کو نہیں پہچان پا یا تھا اس لیے آپ سے گستاخی کر بیٹھا تھا “یہ سن کرسید عبد اللطیف کاظمی قادری رحمۃ اللہ علیہ نے اورنگزیب عالمگیر کو معاف کیا اوراس کے حق میں دعا بھی فرمائی ,,حضرت بری امام کی طرف بہت سی کرامات منسوب ہیں,’’مراجعت کے بعد عبادت اور ریاضت میں بہت زیادہ انہماک رہنے لگا۔ ایک روز گھر سے بغیر اطلاع نکلے اور باغ کلاں سے تین میل دور’’ کہاہوت ‘‘ نامی گائوں سے باہر ایک غار میں جا بیٹھے۔ قریب ہی گھنے جنگل میں چوروں اور سینہ زوروں کا بسیرا تھا۔وہ کشمیر سے آنے جانے والے قافلوں کو لوٹتے اور مار دھاڑ کر نے کے بعدجنگل میں چھپ جاتے تھے۔ اسی رعایت سے ’’کہاہوت‘‘ کو ’’چور پور‘‘ بھی کہا جاتا تھا۔ کئی برس غار کے اندر ذکر و فکر میں گزرے۔ تب ایک مرد حق آگاہ وہاں آیا۔ یہ حضرت سخی حیات المیرؒ تھے۔ ان سے حضرت شاہ لطیف ؒ نے سلسلہ قادریہ میں بیعت کی اور عرفان کی تعلیم پاکر اپنا سفر جاری رکھا۔ روشنی جب پھیلتی ہے تو اندھیرے خود و بخود چھٹ جاتے ہیں۔ آ پؒ نے سب سے پہلے انہی پشتینی چوروں ڈاکوئوں کو تلقین فرمائی اور راہ راست پر لے آئے۔ اسی رعایت سے چور پور کا نام ’’نور پور‘‘ ہو گیا‘‘۔
آپ کا لقب حضرت بری امام ؒ کیوں مشہور ہوا، اس سلسلے میں ملک محمد اشرف کی کتاب ’’فیضان بری امام ؒ میں بیان کردہ یہ روایت قابل غور ہے کہ نالے میں چلہ کشی کے دوران ان کے مرشد حضرت سخی حیات المیر ؒ وہاں تشریف لائے اور فرمایا
’’ اے لطیف! تمہاری عبادت وریاضت کی تکمیل ہوئی۔ اللہ نے تمہاری عبادت قبول کر لی ہے۔باہر آئو کہ آج یوم تبریک ہے۔ اب تم اس بحرو بر پر امام مقرر کردیئے گئے ہو‘‘۔ یہی وجہ ہے کہ انہیں بر امام ؒ امام بر کہا جاتا ہے جس کے معنی خشکی اور زمین کے امام ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ لوگوں نے آپ کو امام بری ؒ سرکار اور بری کہنا شروع کردیا۔
حضرت بری امام کی طرف بہت سی کرامات منسوب ہیں۔ ملک محمد اشرف نے لکھا ہے کہ ایک بار آپ خشک شیشم تلے عبادت میں مصروف تھے۔ گنگا جل کی یاترا کیلئے جاتے ہوئے کچھ ہندوئوں نے آپ ؒکو دیکھا تو قریب پہنچ کر رک گئے۔ انہوں نے اپنے سفر کی غرض و غایت بیان کی تو آپؒ نے فرمایا ’’ کسی دریا میں نہانے سے تو گناہ دھلنے سے رہے‘‘ نجات تو عبادت الٰہی اور اعمال صالح میں مضمر ہے‘‘۔
اس پر ایک پنڈت نے طعنہ زنی کی ’’ اگر آپ کی بات ٹھیک ہوتی تو آپ پر خدا کی رحمت کا کوئی نشان ظاہر ہوا ہوتا اور کچھ نہیں تو شیشم کے جس خشک درخت کے نیچے آپ عبادت کر رہے ہیں، وُہی ہرا ہو جاتا‘‘۔ روایت کے مطابق آپ مسکرائے اور فرمایا کہ یہ تو کوئی بڑی بات نہیں، وہ چاہے تو پل بھر میں یہ سب کچھ کر سکتا ہے۔ یہ کہتے ہی آپ نے درخت کی جانب دیکھا اور دعا کیلئے مجیب الدعوات کے آگے ہاتھ اٹھا دیئے۔ دیکھتے ہی دیکھتے مدت دراز کا سوکھا ہوا درخت سرسبز ہو گیا۔ کہا جاتا ہے کہ جب ہندوئوں نے یہ کرامت دیکھی تو اسی وقت اسلام قبول کر لیا۔سالانہ عرس کی تین روزہ تقریبات دارالحکومت اسلام آباد میں ملک کے مختلف علاقوں سے آئے ہوئے زائرین کا کہنا ہے کہ ہم لوگ صرف اور صرف امام بری مزار پر سلام پیش کرنے آئے ہیں۔ اب ہم مزار کے اندر جا کر دعا مانگتے ہیں اور سب سے اچھی بات یہ ہے کہ اب دربار کا نظم و نسق محکمہ اوقاف نے سنبھال لیا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ سب سے بڑی خوش آئند بات یہ ہے کہ یہاں ناجائز تجاوزات کا رش نہیں , ہم نے منتیں مانی , نذرونیاز کا سلسلہ کیا,مزار شریف پر دعا کی پھولوں کی چادریں چڑھائی ہیں اور اللہ کے ولی سے اپنی محبت کا اظہارکیا ۔
16 سال بعد مزارحضرت بری امامؒ عرس پرسکیورٹی کے بہترین انتظامات تھے مرد اور عورتیں علیحدہ علیحدہ راستوں سے مزار/دربار کے اندر داخل ہوتے رہے،عرس پر واک تھرو گیٹس اور میٹل ڈیٹیکٹر سے سرچنگ کی جاتی رہی پھرمزار/ دربار کے احاطے میں جانے دیا جاتا ۔زائرین کا کہنا ہے کہ16 سال بعدم زار حضرت بری امامؒ عرس پر بہترین انتظامات مقامی انتظامیہ کے شکرگزار ہیں,