اسلام آباد(ٹی این ایس) عام انتخابات اتفاق رائے ناگزیر

 
0
93

صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کی جانب سے چیف الیکشن کمشنر کے نام خط میں عام انتخابات کے لئے 6 نومبر 2023 کے تاریخ تجویز کرنے اور اس معاملے میں مزید رہنماء کے لئے چیف الیکشن کمشنر کو عدالت عظمی سے رجوع کرنے کا مشودہ دینے کے بعد ملک میں جاری جاری سیاسی رسہ کشی نہ صرف فیصلہ کن موڑ پر پہنچ گئی ہے بلکہ ایک نئی آئینی وقانونی لڑائی کی شکل بھی اختیار کر گئی ہے- صدر مملکت کے عام انتخابات کی تاریخ تجویز کرنے کے بعد اب دیکھنا یہ کہ معاملات کیا رخ اختیار کرتے ہیں اور جمہوری نظام کے تسلسل پر اس کے کیا اثرات مرتب ہوں گے-سب سے بڑھ کر یہ کہ کیا نگران وفاقی اور صوبائی حکومتیں اور الیکشن کمیشن اس کو خوش دلی سے قبول کرینگے تو اس کا جواب نفی میں ہے-
نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے صدر عارف علوی کی جانب سے الیکشن کمیشن کو خط میں انتخابات کے لئے 6 نومبر کی تاریخ تجویز کرنے پر کہا ہے کہ صدر نے الیکشن کی تاریخ تجویز کی ہے جبکہ انتخابات کی تاریخ کا اعلان الیکشن کمیشن کا اختیار ہے-مردم شماری کے بعد حلقہ بندیاں آئینی عمل کا حصہ ہیں تاہم الیکشن کمیشن اپنی تیاریوں کے بعد جلد کوئی تاریخ دے گا اگر تیاریوں کا عمل شیڈول کے مطابق چلتا رہا تو وسط جنوری سے آخر جنوری تک کوئی تاریخ عام انتخابات کے لئے مقرر کی جاسکتی ہے- نگران حکومت کا کام انتخابات میں الیکشن کمیشن کی معاونت کرنا ہے-
پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنماء رانا ثناء اللہ کا کہنا ہے کہ حلقہ بندیوں کا عمل شروع ہونے کے بعد صدر انتخابات کی تاریخ کا اعلان نہیں کرسکتے’ فروری کے پہلے ہفتے میں الیکشن ہوں گے- ترجمان جمعیت علماء اسلام کا کہنا ہے کہ صدر علوی کا یہ اقدام بدنیتی پر مبنی اور آئینی تقاضوں کے منافی ہے’ صدر علوی نے اختیارات سے تجاوز کرکے نیازی کو خوش کیا ہے’ آئین سے کھلواڑ نہ کریں- پاکستان تحریک انصاف کا کہنا ہے کہ صدر مملکت نے انتخابات کی تاریخ کے تعین کے حوالے سے آرٹیکل(5)48 کے تحت اپنا دستوری فریضہ سرانجام دیا’ صدر نے معاملہ سپریم کورٹ کو بھجوایا ہے پوری قوم کی نگاہیں اب سپریم کورٹ پر لگی ہیں-
وفاقی وزارت قانون وانصاف میںمنعقدہ وفاقی وصوبائی وزرائے قانون کے اجلاس کے جاری کردہ اعلامیہ میں تمام وزراء قانون نے جمہوریت کے اصولوں کو بر قرار رکھنے اور انتخابات کے شفاف انعقاد کو یقینی بنانے کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے اس پر اتفاق کیا ہے کہ آئین کو مجموری طور پر پڑھا جانا چاہیے اور آئین کی کسی بھی شق کو دیگر متعلقہ دفعات کو الگ کرکے نہیں پڑھنا چاہیے’ آئین کے مطابق عام انتخابات کا انعقاد اور انتخابات کی تاریخ کا اعلان الیکشن کمیشن آف پاکستان کا واحد اختیار ہے’ الیکشن کمیشن ایک آزاد آئینی ادارہ ہے ریاست کے تمام اداروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ الیکشن کمیشن کی خود مختاری اور حلقہ بندیوں کی حد بندی اور انتخابی شیڈول کے تعین میں اس کے اختیار کار کا احترام کریں-
ملک کو بحرانوں سے نکالنے کے لئے جس برد باری’ برداشت’ تحمل اور دانش مندی کی ضرورت ہے اس کی معمولی سی جھلک بھی زمین پر نظر نہیں آرہی جس کی وجہ سے معاملات سلجھنے کی بجائے دن بدن ابتر ہوتے جارہے ہیں-ملک میں جاری انائوں کی جنگ نے سیاسی وآئینی بحران کو مزید شدید تر کردیا ہے-ریاست کے سٹیک ہولڈرز کے درمیان مفادات کا ٹکرائو بہت بڑھ چکا ہے اور وہ ایک دوسرے کو کچلنے اور نیچا دکھانے کے راستے پر گامزن ہیں-
آئین پاکستان کے مطابق صوبائی اسمبلی اگر اپنی آئینی مدت مکمل ہونے سے پہلے تحلیل کر دی جائے تو 90 روز کے اندر وہاں نئے انتخابات ہونا لازم ہیں-آر ٹیکل(5)48 کی شرائط کے مطابق قومی اسمبلی کے انتخابات اس کی تحلیل کے89ویں روز یعنی6نومبر2023کو ہونے چاہئیںلیکن انتخابات کی تاریخ کے حوالے سے الیکشن کمیشن اور صدر مملکت کے اختیارات میں ابہام ملکی سیاست کے لئے الجھائو کا سبب بنا ہوا ہے-
عام انتخابات کے انعقاد کی تاریخ کے معاملے میں پیدا ہونے والی پیچیدگیوں کی بڑی وجہ انا کی جنگ ہے اور کوئی بھی فریق اپنے موقف سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہر کوئی آئین وقانون کی اپنے اپنے انداز میں تشریح کر رہا ہے- آئین کو مجموری طور پر پڑھنے کے بجائے اس کی کسی بھی شق کو دیگر متعلقہ دفعات سے الگ کرکے اپنے اپنے مقصد کے لئے استعمال کیا جارہا ہے جس کی وجہ سے معاملات دن بدن الجھتے جارہے ہیں-
پاکستان کے داخلی’ علاقائی ‘ معاشی اور خارجی حالات اقتدار کے تمام سٹیک ہولڈرز سے ایک مضبوط سیاسی’ معاشی اور انتظامی نظام کی جانب بڑھنے کا تقاضا کر رہے ہیں اور اس کے لئے ہمیں ایک مضبوط سیاسی نظام یا سیاسی حکومت درکار ہے-کمزور سیاسی ومعاشی نظام ہمیں کوئی مثبت نتائج نہ پہلے دے سکا ہے اور نہ آئندہ دے سکے گا- ملکی سیاست میں عدم اعتماد’ محاذ آرائی’ مہم جوئی’ ٹکرائو ‘ سیاسی دشمنی یا سیاسی کشیدگی کا ماحول قومی مفاد کو بری طرح متاثر کر رہا ہے-
سیاسی’ معاشی’ انتظامی اور سیکورٹی جیسے مسائل کو بنیاد بنا کر ہم جہاں کھڑے ہیں اس سے باہر نکلنے کے لئے ہمیں موجودہ غیر معمولی حالات میں غیر معمولی اقدامات کرنے کی اشد ضرورت ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ سب کچھ کیسے ہوگا اور کون کرے گا؟-ریاست کی بنیادی کنجی یا کامیابی کا نکتہ اس کے داخلی استحکام کے ساتھ جڑا ہوتا ہے ۔ داخلی استحکام ہی عملی طور پر اسے علاقائی اور خارجی محاذ پر موجود مسائل سے نمٹنے کی حقیقی طاقت فراہم کرتا ہے – سیاسیات میں ایک عمومی تھیوری یہ دی جاتی ہے کہ جو بھی ریاست اپنے داخلی مسائل کے چیلنجز سے نمٹنے کی صلاحیت رکھتی ہے وہی اپنے خارجی مسائل سے نمٹ کر بہتری کا محفوظ راستہ تلاش کرنے کی بھی صلاحیت قائم کرسکتی ہے ۔
مسلسل انتشار اور افراتفری کے ماحول میں ملکی معیشت مسلسل زوال کا شکار ہے ہر پاکستانی کے ذہن میں یہ سوال گردش کر رہا ہے کہ اگر اس طرح کی سیاسی ہٹ دھرمی معمول بنی رہی تو کیا معیشت ٹھیک ہوجائے گی؟ بد قسمتی سے اس سوال کا کوئی حتمی جواب کسی کے پاس نہیں-عام انتخابات میں ایک دو ماہ کی تاخیر سے قیامت گزرے گی اور نہ کوئی سانحہ رونما ہوگا مگر آئین اور اخلاقیات کے تقاضے کچھ بھی ہوں پاکستانی سیاست میں اقتدار کے فوری حصول کی خاطر تمام منفی ہتھکنڈوں کو جائز سمجھا جاتا ہے اور یہی سب کچھ اس وقت بھی ہورہا ہے-
ملک میں اس وقت سیاست اور معیشت دو ہی بڑے مسئلے ہیں اور دونوں کی حالت انتہائی ابتر ہوتی جارہی ہے جب تک یہ دونوں مسائل حل نہیں ہوں گے ملک کی سمت درست نہیں ہوگی-
دنیا بھر میں جمہوری ممالک انتخابات کی مدت کا تعین بہت سوچ سمجھ کر اسی لئے مقرر کرتے ہیں کہ ایک مختصر وقت کی ہلچل کے بعد معاملات ٹھہرائو اور معمول کی طرف آجائیں۔ برطانیہ میں مختصر عرصے میں کئی وزرائے اعظم جمہوری طریقے سے تبدیل ہو گئے مگر قومی زندگی اور معیشت پر وہ دبائو نہیں آیا جو پاکستان میں ہر شہری محسوس کر رہا ہے۔ پاکستان جیسے ملک میں جہاں معیشت لاغری کی شکار نظر آتی ہے اس باب میں سب سے پہلے تو یہ امر پیش نظر رکھا جانا چاہئے کہ آئین متانت پر مبنی طرز زندگی کا چلن چاہتا ہے، اس سے کھلواڑنہیں کی جانی چاہئے۔ یہ بات ایسی صورت میں مزید اہم ہو جاتی ہے کہ ملک کو دہشت گردی کے عفریت کا سامنا ہے۔
ملک کو درپیش
موجودہ حالات میں ضرورت اس بات کی ہے کہ معاملات کو اعلی عدالتوں میں لے جانے کی بجائے تمام سیاسی جماعتیں عام انتخابات کے غیر جانبدارانہ اور شفاف انعقاد کو یقینی بنانے کے لئے مذاکرات کا راستہ اختیار کریں وگرنہ ضد’ ہٹ دھرمی اور میںنہ مانوں کے نتیجے میں ہونے والے انتخابات ملک میں جاری سیاسی عدم استحکام’ انتشار کو مزید بڑھاوا دینے کا سبب ثابت ہوں گے اور ملک وقوم دونوں ان کے نتیجے میں کسی نئے امتحان سے دوچار ہوسکتے ہیں- ملک میں نئے عام انتخابات کو تمام تر مسائل کا حل سمجھنے والوں کو1970کے انتخابات کو فراموش نہیں کرنا چاہیے کیونکہ آج بھی صورت حال کچھ اسی قسم کی ہے۔۔۔۔۔