اسلام آباد(ٹی این ایس) نگران وزیراعظم خطرناک سرحدی صورتحال میں انتخابات کےلیے پرعزم

 
0
162

نگران وزیراعظم خطرناک سرحدی صورت حال میں بھی انتخابات کے حوالے سے پرعزم ہیں, پاکستان کے نگراں وزیرِ اعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا ہے کہ امن و امان اور سرحدی صورتِ حال کے باعث سرِ دست عام انتخابات کے التوا کا امکان دکھائی نہیں دیتا۔ انہوں نے کہا کہ اگرچہ پاکستان کو مغربی اور مشرقی محاذ پر خطرات کا سامنا ہے لیکن یقین ہے کہ بیک وقت سرحدی خطرات پر بھی قابو پا لیں گےنگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ کا کہنا ہے کہ مشرقی اور مغربی سرحد میں صورت حال خطرناک ضرور ہے لیکن اس کی وجہ سے انتخابات میں تاخیر کا امکان نہیں ہے۔ امریکی نشریاتی ادارے کو دیئے گئے انٹرویو میں انتخابات کے حوالے سے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ اسی قیاس آرائیاں نہیں ہیں کہ نگران حکومت کو مداخلت کرکے اس کو ختم کرنا چاہے، بنیادی طور پر آئینی اور قانونی لحاظ سے یہ الیکشن کمیشن کا کام ہے اور ہمیں یقین ہے وہ اپنے کام کو انتہائی ایمان داری سے سرانجام دینے جا رہے ہیں۔ الیکشن کمیشن اس عمل کا آغاز کر چکے ہیں، جس میں دو تین آئینی تقاضے ہیں وہ پورے کر رہے ہیں، شاید حلقہ بندیوں کے حوالے سے ہیں اور جلد ہی وہ خود دن کا تعین بھی کردیں گے اور اس کا اعلان بہت جلد ہوگا اور اس کا قانونی اختیار ان کے پاس ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ انتخابات کے عمل کی معاونت کے سلسلے میں ہماری حکومت کئی اقدامات کرچکی ہے، اس کے لیے تشہیر کم ہونے کا ایک پہلو ہوسکتا ہے لیکن قطعاً ایسی کوئی بات نہیں ہے کہ انتخابات کی معاونت کے حوالے نگران حکومت روزانہ کی بنیاد پر الیکشن کمیشن کی ضروریات پوری کر رہی ہے اور جہاں ان کو تعاون درکار ہوتا ہے ہم بھرپور تعاون کرتے ہیں۔ نگران وزیراعظم سے سوال کیا گیا کہ اگر سپریم کورٹ کی جانب سے 90 روز میں انتخابات کا حکم دیا گیا تو حکومت کو اعتراض ہوگا تو انہوں نے کہا کہ حکومت کا اعتراض نہیں بنتا، اگر نگران حکومت کا مینڈیٹ نہیں ہے بلکہ یہ الیکشن کمیشن کا مینڈیٹ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ نگراں حکومت معاونت کرے گی اور ہمارا مالی وسائل یا سیکیورٹی فراہم کرنے کا کردار مکمل تیاری اور نیک نیتی کے ساتھ نظر آئے گا اور ہم الیکشن کمیشن کو کو مکمل تعاون کریں گے۔ نگران وزیراعظم سے سوال کیا گیا کہ مغربی اور مشرقی سرحدیں غیر محفوظ ہوتی جارہی ہیں تو اس کی وجہ سے انتخابات میں تاخیر تو نہیں ہوگی، جس پر انہوں نے کہا کہ سردست مجھے ایسا کوئی امکان نظر نہیں آتا۔ اگرچہ مغربی اور مشرقی محاذ پر ایسی خطرناک صورت حال ضرور ہے جہاں ہماری سیکیورٹی خطرات اور جوابی ردعمل کی ضرورت بڑھ رہی ہے لیکن ہمیں یقین ہے کہ ہم بیک وقت اس پر بھی قابو پالیں گے اور انتخابی عمل بھی مکمل کرالیں گے۔ نگرا ن وزیراعظم کا کہنا تھا کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے حل نہ ہونے والے ایجنڈے میں مسئلہ جموں و کشمیر سب سے پرانا تنازع ہے اور بھارت کے غیر قانونی طور پر زیرقبضہ مقبوضہ جموں و کشمیر کا مسئلہ پاکستان تمام عالمی اور علاقائی فورمز پر اٹھاتا رہے گا, پاکستان تمام دستیاب کثیرالجہتی اور علاقائی فورمز پر مسئلہ کشمیر کا دفاع اور وکالت کرتا رہے گا۔ مقبوضہ جموں وکشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی جس انداز میں ہو رہی ہے اس سے کشمیر کو ایک بڑی جیل کی صورت حال کا سامنا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ پوری آبادی کو ایک قید خانے میں تبدیل کردیا گیا ہے اور لوگوں کی آواز دبائی جا رہی ہے۔
پاکستان میں اظہار رائے پر پابندی کے حوالےس ے سوال پر انہوں نے کہا کہ ملک میں اظہار رائے کی آزادی ہے، عمران خان سمیت ہر کسی کا نام لیا جاسکتا ہے اور نشر کیا جاسکتا ہے، اس حوالے سے ہمارے اشاریے خطے میں بہت بہتر ہیں، ملک میں میڈیا کو آزادی ہے، میڈیا حکومت، اس کے اداروں یا معاشی امورکے حوالے سے کسی بھی مسئلے پر آواز اٹھا سکتا ہے۔ ان سے سوال کیا گیا کہ چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کے خلاف مقدمات سے یہ تاثر ابھرتا ہے کہ ان کو سیاسی عمل سے باہر رکھنے کی کوشش ہو رہی ہے تو ان کا کہنا تھا کہ یہ تاثر اگر جا رہا ہے تو یہ درست تاثر نہیں ہے اور امید بھی یہ کرتا ہوں کہ عدالتی عمل شفاف ہو تاکہ ان کے پیروکار اور دوسرے مبصرین سب کو یہ نظر آئے کسی کو سیاست سے دور کرنے کا عمل نہیں ہے بلکہ قانون اپنی راہ لینا چاہتا ہے۔ قانون اپنی راہ لے، اس کا اطلاق میری ذات پر بھی ہونا چاہیے اور باقی لوگوں پر بھی ہونا چاہیے۔
انوارالحق کاکڑ نے نگران حکومت کو اسٹیبلشمنٹ کا سویلین چہرے کا تاثر قرار دینے پر کہا کہ یہ تاثر ہر حکومت کے حوالے سے آتا ہے، یہ نیا تاثر نہیں ہے، عمران خان کی حکومت 2018 میں بنی تو سلیکٹڈ حکومت کا الزام اسی بنیاد پر لگایا جاتا تھا اور جب پی ڈی ایم کی حکومت آئی تو ان پر بھی یہی تاثر تھا اور اس سے قبل بھی اسی طرح کے الزامات لگائے گئے۔ پاکستان کے مخصوص سیاسی حالات میں اس قسم کے تاثرات ابھرتے ہیں اور جب حکومت آتی ہے، پھر نئی چہرے اور نئی قیادت پر تسلسل کے ساتھ یہ تاثر قائم رہتا ہے، اس کی اتنی اہمیت نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ نگراں حکومت آئینی عمل کا تسلسل ہے، آئینی مینڈیٹ رکھنے والے قومی اسمبلی میں قائد ایوان اور قائد حزب اختلاف نے نامزد کیا تھا اور یہ نگران حکومت اسی پیداوار ہے۔ پاکستان خطے اور افغانستان میں پائیدار امن کے لیے اپنا کردار ادا کر رہا ہے اور تمام متعلقہ فورمز پر طالبان اور عالمی برادری کے ساتھ بات چیت کر رہا ہے۔ طالبان نے دوحہ معاہدے کے تحت عہد کیا تھا کہ افغان سرزمین کو کسی ملک کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال نہیں ہونے دیا جائے گا۔ نگراں حکومت غیر قانونی تجارت سمیت افغان ٹرانزٹ کے مسائل پر توجہ دے رہی ہے، ہمارے تجارتی تعلقات نہ صرف افغانستان بلکہ تمام وسطی ایشیائی ممالک کے ساتھ بھی بہتر ہو رہے ہیں۔ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے خلاف افغانستان کے اندر سرجیکل یا ڈرون حملے سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ پاکستان کے پاس اپنے دفاع کا حق ہے، ہم اپنی سرزمین اور اپنے لوگوں کی حفاظت کے لیے جہاں جہاں ضروری سمجھیں گے کہ ہمیں کارروائی کرنی چاہیے تو ہم ضرور کریں گے، خطرے کے پیش نظر جب وہ ضرورت ہمارے سامنے آئی گی تو ہم اس وقت مناسب فیصلے کریں گے۔ افغانستان میں امریکا اور نیٹو کی طرف سے چھوڑے گئے اسلحے کے دہشت گرد تنظیموں کے ہاتھ میں آنے سے متعلق ان کے بیان کا مقصد امریکا یا کسی دوسرے ملک پر کوئی الزام لگانا نہیں تھا، اس حوالہ سے جو تاثر دیا گیا ہے وہ درست نہیں ہے پاکستان کی سفارتی تنہائی کے تاثر کو رد کرتے ہوئےان کا کہنا تھا کہ ” میں اس تاثر کا قائل نہیں ہوں اور نہ ہی اس زاویے سے دیکھ رہا ہوں میرے خیال میں بین الاقوامی سطح پر انتظامات ہیں، بلاکس، بڑی طاقتوں یا ان کے ساتھ جڑی ہوئی درمیانی طاقتوں کے بہت سارے جگہوں میں مشترکہ مفادات ہوتے ہیں تو قریب آتے ہیں اور اختلاف ہوتا ہے تو دور ہوجاتے ہیں”۔
نگران وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ جی سی سی کی ہائیڈروکاربن کی بڑی برآمدات ہیں تو کیا وہ چین کی ڈیڑھ ارب کی آبادی کو چھوڑ دیں گے اور ایک نئے بلاک جس کا خیالی تصور پیش کیا جا رہا ہے اس کے ساتھ جڑ جائیں گے تو میرے خیال میں ایسا نہیں ہے۔ امریکا سے تعلقات کے حوالے سے کہا کہ خطے میں پاکستان کے تعلقات کے اپنے تقاضے ہیں اور انہی تقاضوں کے تحت پاکستان کے رشتے استوار ہوں گے اور اس کے ساتھ ساتھ 7 دہائیوں سے مغرب کے ساتھ تاریخی تعلقات ہیں وہ آنے والی دہائیوں میں بھی برقرار رہیں گے ۔ افغانستان میں امریکا اور نیٹو کی طرف سے چھوڑے گئے اسلحے کے دہشت گرد تنظیموں کے ہاتھ میں آنے سے متعلق ان کے بیان کا مقصد امریکا یا کسی دوسرے ملک پر کوئی الزام لگانا نہیں تھا، اس حوالہ سے جو تاثر دیا گیا ہے وہ درست نہیں ہے پاکستان کی سفارتی تنہائی کے تاثر کو رد کرتے ہوئےان کا کہنا تھا کہ ” میں اس تاثر کا قائل نہیں ہوں اور نہ ہی اس زاویے سے دیکھ رہا ہوں میرے خیال میں بین الاقوامی سطح پر انتظامات ہیں، بلاکس، بڑی طاقتوں یا ان کے ساتھ جڑی ہوئی درمیانی طاقتوں کے بہت سارے جگہوں میں مشترکہ مفادات ہوتے ہیں تو قریب آتے ہیں اور اختلاف ہوتا ہے تو دور ہوجاتے ہیں”۔
نگران وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ جی سی سی کی ہائیڈروکاربن کی بڑی برآمدات ہیں تو کیا وہ چین کی ڈیڑھ ارب کی آبادی کو چھوڑ دیں گے اور ایک نئے بلاک جس کا خیالی تصور پیش کیا جا رہا ہے اس کے ساتھ جڑ جائیں گے تو میرے خیال میں ایسا نہیں ہے۔ امریکا سے تعلقات کے حوالے سے کہا کہ خطے میں پاکستان کے تعلقات کے اپنے تقاضے ہیں اور انہی تقاضوں کے تحت پاکستان کے رشتے استوار ہوں گے اور اس کے ساتھ ساتھ 7 دہائیوں سے مغرب کے ساتھ تاریخی تعلقات ہیں وہ آنے والی دہائیوں میں بھی برقرار رہیں گے ۔ خیال رہے کہ حکومت پاکستان وزارت قانون و انصاف وزیر قانون و انصاف کے اجلاس میں تمام وزراء قانون نے جمہوریت کے اصولوں کو برقرار رکھنے اور انتخابات کے شفاف انعقاد کو یقینی بنانے کی اہمیت پر زور دیااور کہا آئین کے مطابق عام انتخابات کا انعقاد اور انتخابات کی تاریخ کا اعلان الیکشن کمیشن آف پاکستان کا واحد اختیار ہے۔ اجلاس میں غیر ضروری مالی بوجھ سے بچنے کےلیے ، قومی اور چاروں صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ایک ہی دن ہونے چاہئیں۔الیکشن کمیشن آف پاکستان ایک آزاد آئینی ادارہ ہے۔ ریاست کے تمام اداروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ الیکشن کمیشن کی خودمختاری اور حلقہ بندیوں کی حد بندی اور انتخابی شیڈول کے تعین میں اس کے اختیار کا احترام کریں۔ وزارت قانون کے اعلامیے میں کہا گیا کہ اجلاس میں جمہوری طرزحکمرانی کے اصولوں کی پاسداری کرتے ہوئے پاکستان میں آزادانہ، منصفانہ اور شفاف انتخابات کو یقینی بنانے کے حکومتی عزم کو اجاگر کیا گیا۔وفاقی اور صوبائی حکومتیں جمہوری اور جامع انتخابی ماحول کو فروغ دینے کے لیے پرعزم ہیں۔خیال رہے کہ 9 اگست کو قومی اسمبلی تحلیل کرنے کے بعد سے الیکشن کمیشن نے اس معاملے پر خاموشی اختیار کرلی تھی لیکن صدر مملکت کے خط پر جواب میں کہا تھا کہ یہ اختیار الیکشن کمیشن کا ہے۔
اصولی طور پر اسمبلی تحلیل ہونے کے بعد عام انتخابات 90 دنوں کے اندر ہونے چاہئیں، تاہم، 2023 کی مردم شماری کے نتائج منظور کرنے کے سابق پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کی اتحادی حکومت کے فیصلے نے معاملات کو پیچیدہ بنا دیا ہے، اس فیصلے کی روشنی میں ای سی پی کی جانب سے حلقہ بندیوں کے شیڈول کا اعلان کیا گیا، جس سے رواں سال انتخابات کا امکان بظاہر معدوم ہوگیا ہے۔
اس کے بعد صدر مملکت نے چیف الیکشن کمشنر کو انتخابات کی تاریخ پر مشاورت کے لیے دعوت دیتے ہوئے کہا تھا کہ وہ آئین کے آرٹیکل 48 (5) کے مطابق قومی اسمبلی کے انتخابات کا انعقاد 90 دن کی مقررہ مدت میں لازمی ہونا چاہیے۔صدر کی طرف سے انتخابات کی تاریخ کے اجرا کی روشنی میں کیے گئے کسی بھی اقدام کو ’یک طرفہ صدارتی کارروائی‘ قرار نہیں دیا جانا چاہیے بلکہ ایک قانونی اور آئینی عمل کے طور پر دیکھنا چاہیے جس کا مقصد جمہوریت اور قانون کی حکمرانی کے اصولوں کو برقرار رکھنا ہے۔