اسلام آبادر(ٹی این ایس)جس سہانی گھڑی چمکا طیبہ کا چاند

 
0
112

ماہ ربیع الاول امت مسلمہ کے لیے خاص اہمیت کا حامل مہینہ ہے کیونکہ اس مہینے نبی آخرالزماں ﷺ کی دنیا میں تشریف آوری ہوئی، جو انسان کامل، ہادی عالم اور وجہ تخلیق کائنات ہیں،ربیع الاول امت مسلمہ کے لیے کلیدی اہمیت کا حامل مہینہ ہے،اگر بات اسلامی تاریخ کی کی جائے تو ربیع الاول کا پورا مہینہ ہی جشن کا مہینہ سمجھا جاتا ہے۔ اس ماہ مبارک میں ہی حضورانور سرور کونین حضرت محمدﷺ کو دنیا کو اندھیروں سے نکالنے کیلئے بھیجا گیا۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پوری دنیا کے لئے نمونہ بن کر آئے، وہ ہر شعبے میں اس اوج کمال پر فائز ہیں کہ ان جیسا کوئی تھا اور نہ ہی آئندہ آئے گا۔
جشنِ عید میلاد النبی خوشی کا ایک اسلامی تہوار ہے جو مسلمان ہر سال اپنے نبی محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ولادت کی مناسبت سے مناتے ہیں۔ یہ ربیع الاول کے مہینہ میں آتا ہے جو اسلامی تقویم کے لحاظ سے تیسرا مہینہ ہے۔ ویسے تو میلاد النبی اور محافلِ نعت کا انعقاد پورا سال ہی جاری رہتی ہیں، لیکن خاص ماہِ ربیع الاول میں عید میلاد النبی کا تہوار پوری مذہبی عقیدت اور احترام سے منایا جاتا ہے۔ یکم ربیع الاول سے ہی مساجد اور دیگر مقامات پر میلاد النبی اور نعت خوانی مدحِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی محافل شروع ہو جاتی ہیں جن علماے کرام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت، آپ کی ذات مبارکہ اور سیرت طیبہ کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالتے ہیں۔ اسی طرح مختلف شعرا اور ثنا خوانِ رسول آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میں نعتیہ گلہائے عقیدت اور درود و سلام پیش کرتے ہیں۔ 12 ربیع الاول کو کئی اسلامی ممالک میں سرکاری طور پر عام تعطیل ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ بنگلہ دیش، انڈیا، پاکستان، افغانستان، امریکا، برطانیہ، کینیڈا، کوریا، جاپان اور دیگر غیر اسلامی ممالک میں بھی مسلمان کثرت سے میلادالنبی اور نعت خوانی کی محافل منعقد کرتے ہیں۔قرآن کی روشنی میں ارشاد باری تعالٰی ہوا، ( اور انہیں اللہ کے دن یاد دلاؤ ) ۔ ( ابراہیم ، 5 ) امام المفسرین سیدنا عبد اللہ بن عباس ( رضی اللہ عنہما ) کے نزدیک ایام اللہ سے مراد وہ دن ہیں۔ جن میں رب تعالٰی کی کسی نعمت کا نزول ہوا ہو ۔ان ایام میں سب سے بڑی نعمت کے دن سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت و معراج کے دن ہیں ، ان کی یا د قائم کرنا بھی اس آیت کے حکم میں داخل ہے)۔ (تفسیر خزائن العرفان)۔حضرت آمنہ رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں ، ( جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت ہوئی تو ساتھ ہی ایسا نور نکلا جس سے مشرق سے مغرب تک ساری کائنات روشن ہوگئی ) ۔ مسلمان تو عید میلاد صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشی میں اپنے گھروں ا ور مساجد پر چراغاں کرتے ہیں ، خالق کائنات نے نہ صرف سا ر ی کائنات میں چراغاں کیا بلکہ آسمان کے ستاروں کو فانوس اور قمقمے بنا کر زمین کے قریب کردیا ۔

حضرت عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ کی والدہ فرماتی ہیں ، ( جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت ہوئی میں خانہ کعبہ کے پاس تھی ، میں نے دیکھا کہ خانہ کعبہ نور سے روشن ہوگیا ۔ اور ستارے زمین کے اتنے قریب آگئے کہ مجھے یہ گمان ہوا کہ کہیں وہ مجھ پر گر نہ پڑیں )۔

جشنِ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعات کی تاریخی خوشی میں مسرت و شادمانی کا اظہار ہے اور یہ ایسا مبارک عمل ہے جس سے ابولہب جیسے کافر کو بھی فائدہ پہنچتا ہے۔ اگرابولہب جیسے کافر کو میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوشی میں ہر پیر کو عذاب میں تخفیف نصیب ہوسکتی ہے۔ تو اُس مومن مسلمان کی سعادت کا کیا ٹھکانا ہوگا جس کی زندگی میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوشیاں منانے میں بسر ہوتی ہو۔

حضور سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خود بھی اپنے یومِ ولادت کی تعظیم فرماتے اور اِس کائنات میں اپنے ظہور وجود پر سپاس گزار ہوتے ہوئے پیر کے دن روزہ رکھتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اپنے یوم ولادت کی تعظیم و تکریم فرماتے ہوئے تحدیثِ نعمت کا شکر بجا لانا حکم خداوندی تھا کیوں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کے وجودِ مسعود کے تصدق و توسل سے ہر وجود کو سعادت ملی ہے۔جشنِ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عمل مسلمانوں کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود و سلام جیسے اَہم فرائض کی رغبت دلاتا ہے اور قلب و نظر میں ذوق و شوق کی فضاء ہموار کرتا ہے، صلوۃ و سلام بذات خود شریعت میں بے پناہ نوازشات و برکات کا باعث ہے۔ اس لیے جمہور اُمت نے میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اِنعقاد مستحسن سمجھا۔

سیرتِ طیبہ کی اَہمیت اُجاگر کرنے اور جذبۂ محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فروغ کے لیے محفلِ میلاد کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ اِسی لیے جشنِ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں فضائل، شمائل، خصائل اور معجزاتِ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تذکرہ اور اُسوۂ حسنہ کا بیان ہوتا ہے۔

خیر البشر کی ذات اقدس اس کائنات کے لئے باعث رحمت تو ہے ہی لیکن انہیں ہر شعبے میں وہ معراج حاصل ہے، جس کی مثال ہی نہیں ملتی، عالم دین حضور پاک کی زندگی کا احاطہ کرنا تو انسان کے لئے شاید ممکن نہ ہو لیکن ہر شعبہ ہائے زندگی میں وہ عام انسان کے لئے بہترین عملی نمونہ نظر آئے۔

آپﷺ نے علم و نور کی ایسی شمعیں روشن کیں جس نے عرب جیسے علم و تہذیب سے عاری معاشرے میں جہالت کے اندھیروں کو ختم کر کے اسے دنیا کا تہذیب یافتہ معاشرہ بنا دیا، آپﷺ نے اپنی تعلیمات میں امن ،اخوت ،بھائی چارہ ،یکجہتی اور ایک دوسرے کو برداشت کا درس دیا۔

جہاں ایک طرف اس ماہ ہم آپﷺ کی ولادت کا جشن مناتے ہیں وہیں ہم پر لازم ہے کہ ہم آپ ﷺکی تعلیمات پر عمل کریں تبھی ہم آپﷺ سے محبت کا دعویٰ کرسکتے ہیں، آج کے اس پر فتن دور میں اگر ہم اپنے انفرادی اور اجتماعی مسائل کو بھول کر ملت اسلامیہ کے عظیم مفاد میں اکھٹے ہوجائیں اور آپﷺ کی تعلیمات کو اپنے لیے مشعل راہ بنالیں تو گھر کی دہلیز سے ریاست اور عالم اسلام کی مضبوطی تک تمام مسائل حل ہو جائیں گے۔ مصطفیٰ جانِ رحمت پہ لاکھوں سلام; شمعِ بزمِ ہدایت پہ لاکھوں سلام, جس سہانی گھڑی چمکا طیبہ کا چاند
اس دل افروز ساعت پہ لاکھوں سلام, جشن میلاد، پیغمبر اسلامؐ سے اظہار محبت کا ایک ذریعہ ہے جس کا حکم قرآن کریم نے دیا ہے۔ سورہ مائدہ کی آخری آیات جس کے مطابق عیسیٰ علیہ السلام نے اس دن کو جشن منایا جب آسمانی کھانا حواریوں پر نازل ہوا اور عیسائی اب بھی اس دن کو مناتے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ نبیؐ کی سالگرہ منائی جانی چاہیے کیونکہ انہوں نے دنیا کو بت پرستی اور جہالت سے بچایا اور اس نعمت کی حیثیت حواریوں کے آسمانی مائدہ سے زیادہ ہے۔

عالم اہل سنت یوسف قرضاوی نے آیات قرآنی سے استدلال کرتے ہوئے کہا ہے کہ جشن میلاد النبیؐ منانا جائز ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ میلاد النبی اور دیگر اسلامی تقریبات کے لئے جشن کا انعقاد درحقیقت ان نعمتوں کی یاد دہانی ہے جو خدا نے مسلمانوں کو عطا کی ہیں اور یہ یاد دہانی نہ صرف بدعت اور حرام نہیں ہے بلکہ مطلوب بھی ہے۔ ایک سنی عالم طاہر القادری کے مطابق کسی بھی جائز کام کو انجام دینے میں جو شریعت میں منع نہیں ہے اور معاشرے کی ثقافت بن چکا ہے اور اس کا مقصد بھی اس موقع پر پیغمبر اسلامؐ کی ولادت کی خوشی کا اظہار کرنا تو کوئی حرج نہیں ہے۔ ایک روایت کے مطابق جو کتاب اقبال الاعمال میں نقل ہوئی ہے کہ پیغمبر اکرمؐ کی ولادت کے دن روزہ رکھنے کا ثواب ایک سال کے روزے کے برابر ہے۔ اسی طرح شیعہ علما صدقہ دینے، مقامات مقدسہ کی زیارت، نیک اعمال کی انجام دہی، مؤمنین کو مسرور کرنے و ۔۔۔۔۔ کو اس دن مستحب سمجھتے ہیں۔ شیعہ روایات میں میلاد النبیؐ کے دن ایک خاص نماز وارد ہوئی ہے۔ اہل سنت نے اس دن پیغمبر اسلام (ص) کے بارے میں تقاریر، قرآن کی تلاوت، سلامتی، تحائف دینے اور اس دن پیغمبر اسلامؐ کے اعزاز میں غریبوں کو کھانا کھلانے کی تاکید کی ہے۔
پیغمبر اکرمؐ کی روز ولادت کے سلسلہ میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ شیعوں کے درمیان معروف تاریخ 17 ربیع الاول اور اہل سنت کے درمیان 12 ربیع الاول ہے۔ ان دو تاریخ کے درمیان فاصلہ کا نام ہفتہ وحدت کہا جاتا ہے۔ پیغمبر اکرمؐ کی ولادت شعب ابی طالب کے ایک گھر میں ہوئی۔ عالم شافعی محمد بن عمر بَحرَق متوفی 930 ہجری قمری کے مطابق اطراف مکہ کے لوگ میلاد پیغمبرؐ کے دن ان کے مکان ولادت پر آتے، ذکر و دعا کرتے اور اس مقام کو متبرک شمار کرتے تھے۔ گیارہویں صدی ہجری کے محدث علامہ مجلسی نقل کرتے ہیں کہ ان کے زمانے میں مکہ میں اس نام کی ایک جگہ تھی جہاں لوگ زیارت کرنے کے لئے آتے تھے یہ مکان حکومت آل سعود کے زمانے تک باقی تھی۔ انہوں نے اسے مذہب وہابیت کے عقائد کی ترویج اور انبیا و صالحین سے توسل سے ممانعت کی وجہ سے مسمار اور تباہ کر دیاپیغمبرِ اسلام کی ولادت کے متعلق تاریخ کی کتابوں میں بہت کچھ لکھا گیا ہے، جن میں سب سے مشترکہ چیز یہ ہے کہ آپ پیر کے روز پیدا ہوئے تھے، کیونکہ جب آپ سے پوچھا گیا کہ آپ پیر کو روزہ کیوں رکھتے ہیں تو انھوں نے کہا کہ ’یہ میری ولادت کا دن ہے۔‘

حوالہ جات یہ بھی بتاتے ہیں کہ وہ ’ہاتھی کے سال‘ (عام الفیل) میں پیدا ہوئے تھے، یعنی 570 اور 571 عیسوی کے درمیان۔ اس کا یہ نام اس لیے پڑا تھا کہ اس سال یمن کے حکمران ابرہہ نے خانہ کعبہ کو تباہ کرنے کے لیے مکہ پر حملے کی کوشش کی تھی۔ اس حملے میں ہاتھیوں کا استعمال بھی کیا گیا تھا۔پیغمبرِ اسلام کے والد عبداللہ کی وفات ان کی پیدائش سے پہلے ہو گئی تھی اور ابھی وہ بہت چھوٹے تھے کہ ان کی والدہ آمنہ بنت وہاب کی بھی وفات ہو گئی۔ اُن کی پرورش پہلے ان کے دادا عبدالمطلب نے کی اور پھر دادا کی وفات کے بعد ان کی سرپرستی ان کے چچا ابو طالب نے کی۔

یہ بھی روایت ہے کہ عبدالمطلب نے ہی اپنے پوتے کا نام ’محمد‘ رکھا تھا اور اس وقت یہ نام عربوں میں عام نام نہیں تھا اور انھوں نے یہ نام ان کی تعریف کے حوالے سے رکھا تھا۔ ان کے دادا کی خواہش تھی کہ ان کے پوتے کی آسمانوں اور زمین پر تعریف کی جائے۔

مذہبی حوالہ جات سے پتہ چلتا ہے کہ اسلام کے ابتدائی برسوں میں پیغمبر اسلام کا یوم ولادت عام طور پر نہیں منایا جاتا تھا اور چوتھی صدی ہجری تک یہ کسی روایت میں تبدیل نہیں ہوا تھا۔

نبی کی ولادت کی سالگرہ کے جشن کا آغاز فاطمی خلیفہ ابو تميم معد المعزّ الدين اللہ سے منسوب کیا گیا ہے جب وہ 969 عیسوی میں مصر میں داخل ہوئے تھے۔ تاریخی حوالوں کے مطابق پیغمبرِ اسلام اور ان کے خاندان کے متعدد افراد کی ولادت کے دنوں کو منظم طریقے سے منانے کی تقریبات کا آغاز خلیفہ نے مصریوں کو اپنے قریب لانے کے لیے کیا تھا۔ یہ وہ عوامی تقریبات تھیں جن میں خوشی کا غلبہ رہتا تھا۔

حکومت کی تبدیلی اور مختلف اسلامی تنازعات کے بعد میلاد کا جشن بھی ماند پڑتا گیا، کبھی منایا جاتا اور کبھی نہیں۔ اور یہ سلسلہ جاری رہا، یہاں تک کہ محمد علی پاشا کے دور میں یہ ایک صوفی روایت میں بدل گیا۔صوفی سلسلے وہ اسلامی درسگاہیں ہیں جو پیغمبر اسلام کی سالگرہ اور دیگر اولیائے کرام کی پیدائش کے دنوں کے بارے میں سب سے متحرک نظر آتے ہیں۔ یہ تقریبات مصر میں طویل عرصے سے قائم روایات میں شامل ہیں، جہاں صوفی دھارے وسیع پیمانے پر پھیلے ہوئے ہیں، اور ان روایات کے اظہار کے مختلف طریقے ہیں جیسا کہ کسی چیز کو لے سے پڑھنا، ذکر کرنا اور جلوس نکالنا۔

مختلف صوفی سلسلے ہونے کے باوجود، وہ پیغمبرِ اسلام اور اولیائے اکرام کی تعریف و تعظیم کے طور پر اُن کی شفاعت مانگنے اور ان کا شکریہ ادا کرنے کے لیے ان کی پیدائش اور وفات کی یاد کو بہت اہمیت دیتے ہیں۔ دعا اور یاد میں خوشی اور اداسی کے جذبات کا اظہار روحانی سکون کی حالت تک پہنچنے کا ایک طریقہ ہے جو یہ سکون کے متلاشی چاہتے ہیں۔پاکستان میں عید میلادالنبی بھرپور طریقے سے منایا جاتا ہے گلی ، محلوں ، سرکاری عمارتوں اور مساجد کو برق قمقوں سے سجایا جاتا ہے جبکہ یوم ولادت مصطفے صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے سلسلہ میں روح پرور میلاد کی محافل کا بھی انعقاد کیا جاتا ہے