اسلام آباد(ٹی این ایس)غزہ پر اسرائیلی جارحیت کے 40 روز مکمل

 
0
59

.اسرائیل نے غزہ کا مکمل محاصرہ کر رکھا ہے، اسرائیلی حملوں میں غزہ پٹی میں اب تک جاں بحق افراد کی تعداد 11 ہزار 240 ہوگئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق 7 اکتوبر سے جاری حملوں میں اب تک 4 ہزار 630 بچے اور 3 ہزار 130 خواتین بھی جاں بحق ہوگئی ہیں۔ 23 لاکھ افراد کو پانی، کھانے اور ایندھن کی فراہمی معطل جبکہ مواصلاتی نظام منقطع ہے، غزہ میں 50 فیصد گھر تباہ ہو گئے۔
غزہ پر اسرائیلی جارحیت کے چالیس روزمکمل ہو چکے ہیں اس دوران اقوام متحدہ اور او آئی سی کا کردار انتہائی شرمناک رہا ہے مغربی اتحادیوں نے اسرائیل کی جانب سے غزہ پر بمباری کی مکمل حمایت کی ہے جبکہ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی تنظیم نے اسرائیلی جارحیت کی مذمت کی ہے۔حتیٰ کہ او آئی سی کی جانب سےاسرائیل کا سفارتی اور اقتصادی طور پر بائیکاٹ نہیں کیاجا سکا عرب ممالک کو اپنا مفادعزیز ہےفلسطینی ہلال احمر نے کہا ہے کہ القدس ہسپتال کے اطراف میں اس وقت بھی شدید فائرنگ ہو رہی ہے جہاں اسرائیلی فوج کی گاڑیاں بھی موجود ہیں۔
ہلال احمر نے بتایا کہ ہمارا عملہ مریضوں اور زخمیوں کے ساتھ پھنسا ہوا ہے اور ہسپتال میں بجلی، پانی اور کھانا ختم ہوگیا ہے۔عالمی ادارہ صحت نے کہا ہے کہ غزہ کے الشفا ہسپتال سے مریضوں کو دوسری جگہ منتقل کرنا ناممکن کام بن گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق جنیوا میں اسرائیلی مشن کو عالمی ادارہ صحت، اقوام متحدہ کے امدادی ادارے (او سی ایچ اے) اور بین الاقوامی کمیٹی برائے ہلال احمر کی جانب سے شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا، جہاں ان پر غزہ میں مہینے سے جاری بمباری، بے گناہ لوگوں اور ہسپتالوں کو نشانہ بنانے پر تنقید کی گئی۔دوسری جانب عالمی ادارہ صحت نے کہا کہ انتہائی نازک حالت کا سامنا کرنے والے مریضوں کی منتقلی مزید خرابی کا باعث بن سکتی ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے ترجمان مارگریٹ ہیرس نے جینیوا میں صحافیوں کو بتایا کہ ہماری جانب سے مریضوں کی منتقلی ناممکن کہنے کی پہلی وجہ یہ ہے کہ ہسپتال میں موجود افراد انتہائی تشویش ناک حالت میں اور بیمار ہیں تو انہیں وہاں سے منتقل کرنا ناممکن کام ہے۔غزہ میں ہزاروں خواتین اپنی جان خطرے میں ڈالتے ہوئےآپریشن کے عمل سے گزر پر بچوں کو جنم دے رہی ہیں۔اقوام متحدہ کا ادارہ برائے فلسطینی مہاجرین نے کہا ہے کہ غزہ میں ٹیلی کمیونیکیشن کمپنیوں کے پاس ڈیٹا سینٹرز اور کنیکشن سائٹس چلانے کے لیے اگلے 48 گھنٹوں میں ایندھن ختم ہونے کا خدشہ ہے۔عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے کہا ہے کہ ایندھن کی قلت، حملوں اور عدم تحفظ کی وجہ سے غزہ میں 36 میں سے 22 ہسپتال غیر فعال ہیں، یہ تعداد 50 فیصد سے زائد بنتی ہے۔ جاری بیان کے مطابق 14 ہسپتال فعال ہیں تاہم ان میں اہم نوعیت کی سرجریز اور انتہائی نگہداشت یونٹ میں سروسز فراہم کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے، کیونکہ سپلائز ناکافی ہیں۔اقوام متحدہ کے اسکولوں میں پناہ لینے والے غزہ کے باسیوں کو اب ایک نئی پریشانی کا سامنا ہے جب کہ شدید بارشوں کی وجہ سے ان کے خیمے زیر آب آنے لگے ہیں۔ جنوبی غزہ کے شہر رفح میں اقوام متحدہ کے کیمپ میں موجود شخص نے فوری امداد کا مطالبہ کیا جب کہ لوگ پہلے ہی خوراک، پانی، بجلی اور دیگر ضروریات زندگی کی کمی کا شکار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر ہمارے بچے جنگ سے نہ بھی مریں تو وہ سردی اور بھوک سے مر جائیں گے۔اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام کے ایڈمنسٹریٹر نے کہا ہے کہ غزہ میں اقوام متحدہ کےکمپاؤنڈ کو خالی کرنے کے 48 گھنٹے سے بھی کم عرصے میں دوسری بار گولہ باری کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ انہوں نے سوشل میڈیا پر جاری اپنے ایک بیان میں کہا کہ میں اقوام متحدہ کے مراکز کو نشانہ بنانے کی مذمت کرتا ہوں۔
کینیڈا کی وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ وہ اقوام متحدہ کے اس اعلان سے سخت پریشان ہیں کہ ایندھن کی قلت کے باعث فلسطینی شہریوں کے لیے امداد ختم ہونے کے خطرے سے دوچار ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ قابل قبول نہیں ہے، شہریوں کو تحفظ فراہم کیا جانا چاہیے ، وافر خوراک، ایندھن اور پانی کی غزہ میں فراہم ہونی چاہیے تاکہ وہاں کے باسیوں کی زندگیاں بچانے کا کام جاری رکھا جاسکے۔ انہوں نے غزہ میں قید تمام یرغمالیوں کی رہائی کا بھی مطالبہ کیا، انہوں نے مزید کہا کہ 346 کینیڈین محصور انکلیو چھوڑ کر مصر میں داخل ہو گئے ہیں۔ جنوبی غزہ میں خان یونس پر اسرائیل کے فضائی حملوں میں بچوں سمیت 10 افراد جاں بحق ہو گئے۔ اسرائیلی جنگی طیاروں کے خان یونس شہر کے مشرقی حصے میں الآغا اور ابو جمیزہ خاندان کی رہائش گاہوں کو نشانہ بنایا گیا جس میں متعدد افراد زخمی ہو گئے۔ رپورٹ کے مطابق شدید زخمیوں کا ناصر ہسپتال میں علاج کیا جا رہا ہے لیکن طبی سامان اور وینٹی لیٹرز کی کمی کی وجہ سے ڈاکٹرز کو متاثرین کے علاج میں مشکلات درپیش ہیں۔اقوام متحدہ کے مہاجرین کے ادارے یو این آر ڈبلیو اے کے سربراہ نے کہا ہے کہ اسرائیلی فوج نے جنوبی غزہ میں اس کی 60 مراکز کو نشانہ بنایا ہے جو مجموعی سہولیات کا 70 فیصد ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیلی فورسز نے گزشتہ روز 3 اطراف سے ہمارے مراکز کو نشانہ بنایا۔


اسرائیل فوج کی جانب سے غزہ کی پٹی پر وحشیانہ بمباری کا سلسلہ جاری ہے۔ 7 اکتوبر سے اس جنگی جرائم پر مبنی بمباری سے شہید ہونے والے فلسطینیوں کی تعداد 11 ہزار 500 ہوگئی۔ اسرائیلی بمباری سے 29 ہزار سے زائد فلسطینی زخمی ہوئے ہیں۔دوسری جانب جنوبی لبنان سے اسرائیلی علاقوں پر ٹینک شکن میزائلوں سےحملہ کیا گیا۔عرب میڈیا کے مطابق جنوبی لبنان سے داغے گئے متعدد میزائل کفر شوبا ڈسٹرکٹ کے علاقے رویسات العلم میں گرے۔ اسرائیلی فورسز نے جنوبی لبنان کے سرحدی ٹاؤنز مرکبا اور حولا پر جوابی بمباری کی۔ دریں اثنا مقبوضہ مغربی کنارے میں اسرائیلی فورسز کی کارروائیاں جاری ہیں۔ حماس سے وابستہ افراد اور گروہوں پر امریکا اور برطانیہ نے مزید پابندیاں عائد کر دیں۔ امریکی محکمہ خزانہ نے 7 اکتوبر کے بعد تیسری بار حماس پر پابندیاں لگائیں۔ امریکی محکمہ خزانہ نے کہا کہ پابندیوں میں حماس اور اسلامی جہاد کی مدد کرنے والے میکینزم کو نشانہ بنایا ہے۔ غزہ میں اسرائیلی بمباری سے در بدر فلسطینیوں کے لیے آسمان سے برستی بوندیں بھی امتحان بن گئیں۔ بارش کا پانی پناہ کےلیے بنائے گئے خیموں میں داخل ہو گیا۔ اقوام متحدہ کی 150 عمارتوں میں 7 لاکھ بے گھر فلسطینی پناہ لیے ہوئے ہیں، اقوام متحدہ امدادی ایجنسی نے بارشوں سے کیمپوں میں متعدی بیماریاں پھیلنے کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔ہیومن رائٹس واچ (ایچ آر ڈبلیو) کا کہنا ہے کہ غزہ کے اسپتالوں پر اسرائیلی حملوں کی تحقیقات بطور جنگی جرائم ہونی چاہیے۔ ایچ آر ڈبلیو نے کہا کہ اسرائیلی فوجی غزہ میں طبی سہولتیں، طبی کارکنان اور ٹرانسپورٹ پرحملے کر رہے ہیں۔ ہیومن رائٹس واچ کا کہنا ہے کہ اسرائیلی فوجی غزہ کے صحت کے نظام کو مزید تباہ کر رہے ہیں۔ عرب میڈیا کا کہنا ہے کہ ہیومن رائٹس واچ نے بین الاقوامی فوجداری عدالت سے اسرائیلی جرائم کی تحقیقات اور آزاد بین الاقوامی کمیشن آف انکوائری بنانے پر زور دیا ہے۔علاوہ ازیں کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ غزہ میں 7 اکتوبر سے اب تک کم از کم 42 صحافی جاں بحق ہو چکے ہیں۔ سی پی جے کا کہنا ہے کہ غزہ میں 7 اکتوبر سے اب تک 9 صحافی زخمی، 3 لاپتہ اور 13 گرفتار کیے جا چکے ہیں۔ کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹ کا یہ بھی کہنا ہے کہ خطے کے صحافی اس تنازع کو کور کرنے کے لیے بڑی قربانیاں دے رہے ہیں۔یورپین دارالحکومت برسلز میں تعینات OIC ممالک کے سفیروں نے یورپین یونین سمیت بین الاقوامی دنیا سے مطالبہ کیا ہے کہ غزہ کے لوگوں کو اسرائیلی جارحیت سے بچانے کیلئے انہیں بین الاقوامی تحفظ فراہم کیا جائے اور اسرائیل کو مکمل جنگ بندی پر مجبور کرتے ہوئے اسے جنگی جرائم کا مجرم قرار دیا جائے۔ ان خیالات کا اظہار پاکستان سمیت اسلامی ممالک سے تعلق رکھنے والے 20 سفیروں نے برسلز پریس کلب میں فلسطینی عوام کے خلاف اسرائیل کی مسلسل جارحیت کے تسلسل پر اجتماعی پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔اس موقع پر ان تمام سفیروں کی جانب سے جاری کردہ مشترکہ اعلامیے میں فلسطینی عوام کے خلاف اسرائیل کی مسلسل غیر قانونی اور وحشیانہ جارحیت پر شدید ردعمل ظاہر کرتے ہوئے اسرائیل کے اس مؤقف کو رد کیا گیا کہ یہ کارروائی وہ اپنے حق دفاع میں کر رہا ہے۔ اعلامیے کے مطابق برسلز میں مقیم او آئی سی کے رکن ممالک اس غیر قانونی اور غیر انسانی اسرائیلی جارحیت کو فوری طور پر روکنے کے لیے 18 اکتوبر 2023 کو منعقد ہونے والے او آئی سی وزرائے خارجہ کی غیر معمولی ایگزیکٹو کمیٹی کے اجلاس کے ذریعے کی گئی کال کا اعادہ کرتے ہیں۔ فلسطینیوں پر اسرائیل کی دن رات انتھک بمباری کے نتیجے میں اب تک تقریباً 10,000 فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے ہیں اور 26,000 سے زائد شہری زخمی ہو چکے ہیں، جب کہ دونوں طرح کے اعداد و شمار میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ اس حوالے سے سفیروں نے واضح کیا کہ کسی بھی بہانے معصوم شہریوں کو نشانہ بنانا بین الاقوامی اصولوں کے خلاف ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 10ویں خصوصی اجلاس کے اختتام پر فلسطینی عوام کے خلاف غیر انسانی اسرائیلی جارحیت کے خاتمے کے لیے جاری کردہ کال کا اعادہ کرتے ہیں۔ او آئی سی گروپ کی جانب سے خصوصی اجلاس کے دوران اپنے بیان میں اس بات پر زور دیا گیا تھا کہ فوری طور پر جنگ بندی کی ضرورت ہے۔ او آئی سی کے رکن ممالک کے سفیروں نے اقوام متحدہ کے اداروں اور خاص طور پر غزہ کی پٹی میں انسانی امداد، خاص طور پر خوراک، پانی، ایندھن، بجلی، طبی ضروریات اور غیر غذائی ہنگامی اشیاء کی فوری، محفوظ اور پائیدار فراہمی کی فوری ضرورت پر زور دیا۔ اقوام متحدہ کی ریلیف اینڈ ورک ایجنسی برائے فلسطینی پناہ گزین (UNRWA)۔ او آئی سی کے رکن ممالک کے سفیروں نے فلسطینی آبادی کو، جن کی اکثریت پہلے ہی غزہ کی پٹی سے پناہ گزینوں پر مشتمل ہے، کو پرتشدد اور زبردستی بے گھر کرنے یا اسرائیلی قبضے سے پیدا ہونے والے بحران کو ہمسایہ ممالک میں منتقل کرنے کی کسی بھی کوشش کو واضح طور پر مسترد کرنے کا اعادہ کیا۔ اس موقع پر برسلز میں تعینات او آئی سی کے سفیروں نے اسرائیلی وزیر کے نسل پرستانہ تبصروں کی مذمت کی جس میں غزہ کی پٹی پر ایٹمی بمباری کا مطالبہ کیا گیا اور اس گھناؤنی تقریر کو دہشت گرد نسل پرستانہ نظریے کی توسیع کے طور پر دیکھا گیا۔ او آئی سی کے رکن ممالک کے سفیروں نے فلسطینی عوام کو بین الاقوامی انسانی حقوق کے معیارات کے مطابق بین الاقوامی تحفظ فراہم کرنے کی ضرورت پر زور دیا جیسا کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 13 جون 2018 کی قرارداد ES-10/20 میں بھی بارہا وکالت کی ہے اور ساتویں غیرمعمولی اسلامی سربراہی اجلاس کے حتمی اعلامیے کے مطابق، قابض افواج اور انتہا پسندوں کے جاری حملوں سے معصوم جانوں کی حفاظت کے لیے ایک بین الاقوامی حفاظتی فورس بھیج کر نو آبادیاتی آبادکاری ختم کی جائے۔ او آئی سی کے سفیروں نے یورپی یونین کے اداروں (کونسل، کمیشن، یورپی ایکسٹرنل ایکشن سروس، یورپی پارلیمنٹ) اور یورپی یونین کے حکام سے ملاقات بھی کی ہے۔ اس موقع پر اسلامی ممالک کے سفیروں نے پریس کانفرنس اور اپنے مشترکہ اعلامیے میں مزید مطالبہ کیا کہ ای یو کے رکن ممالک فوری طور پر فلسطینی شہریوں پر اسرائیل کے وحشیانہ فوجی حملوں کو روکنے اور اپنے مقبوضہ علاقوں میں فلسطینی عوام کے خلاف اسرائیل کی طرف سے شروع کی گئی نسل کشی کو روکنے کے لیے فوری طور پر مشترکہ کوششوں میں مشغول ہوں۔ او آئی سی کے رکن ممالک کے سفیروں نے یورپی یونین سے مطالبہ کیا کہ وہ فوری طور پر اس حوالے سے تمام ضروری کوششیں کرے، مزید جو مطالبات رکھے گئے ان میں کہا گیا کہ اسرائیل کو فوری اور مکمل جنگ بندی کا پابند بنایاجائے، اسرائیلی جارحیت کو ختم کروایا جائے- یہ بھی مطالبہ کیا گیا ہے کہ اس کے استثنیٰ کو ختم کرتے ہوئے اسرائیل کو اس کے جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کے لیے جوابدہ ٹھہرایا جائے بشمول اس وحشیانہ جارحیت اور غزہ کی پٹی پر اس کی 16 سال سے زائد غیر قانونی ناکہ بندی کے، جبکہ فلسطینی عوام کو بین الاقوامی تحفظ فراہم کیا جائے۔ سفیروں نے مطالبہ کیا کہ انسانی ہمدردی کی راہداریوں کو کھولیں تاکہ خوراک، پانی، ایندھن، ادویات اور دیگر زندگی بچانے والی ضروریات کی تمام ضروری سپلائیز کو تیزی سے محفوظ اور بلاتعطل پہنچایا جا سکے تاکہ امداد غزہ کی شہری آبادی تک بغیر کسی تاخیر کے پہنچ سکے۔ او آئی سی کے رکن ممالک کے سفیروں نے القدس الشریف کے ساتھ 1967 کی سرحدوں کی بنیاد پر اور یروشلم کو اس کےدارالحکومت کے طور پر متعلقہ اقوام متحدہ کی قراردادوں اور عرب امن اقدام کے مطابق فلسطینی عوام کے حق خودارادیت، خودمختاری اور فلسطینی ریاست کی آزادی کے ناقابل تنسیخ جائز حقوق کو برقرار رکھنے کے لیے اپنی حمایت کا اعادہ کیا۔