اسلام آباد(ٹی این ایس) وزیر اعظم پاکستان دنیامیں مظلوم فلسطینیوں کی توانا آواز

 
0
58

 پاکستان نے غزہ میں سلامتی کی سنگین صورتحال اور انسانی تباہی کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی توجہ دلانے کے لیے اقوام متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 99 کے تحت سیکریٹری جنرل کے فیصلے کا خیرمقدم کیا ہے اور یہ فیصلہ غزہ کی تباہ کن صورتحال کے بارے میں ان کے دانشمندانہ اندازے کو ظاہر کرتا ہے۔
وزیر اعظم پاکستان دنیا بھر میں مظلوم فلسطینیوں کی توانا آواز بن کر ابھرے ہیں اور دنیا کے تقریبا ہرعالمی فورم پر اسرائیلی فوج کے مظالم کو اجاگر کرتےہوئے بھرپور انداز میں غزہ کے مظلوم عوام کی وکالت کررہےہیں اس بار انہوں نے کوپ 28 کانفرنس میں بھی یہ مسئلہ فلسطین اٹھا پاکستان کے عوام کی بھرپور ترجمانی کی ہے.کوپ 28 کے موقع پر نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا ہے کہ پاکستان جنگ بندی کی وکالت میں پیش پیش رہا ہے تاکہ اسرائیلی حکومت کے انتہائی غیر متناسب، ناقابل فہم تشدد کو روکا جا سکے۔انہوں نے کہا کہ اگر تشدد بند نہ کیا گیا تو یہ خطے کو اپنی لپیٹ میں لے سکتا ہے، مصر، شام، اردن اس کی لپیٹ میں آ سکتے ہیں اور شاید اس کی کوئی حد نہیں ہوگی۔ یاد رہے کہ 09 نومبر 2023نگران وزیر اعظم انوارالحق کاکڑ نے محصور غزہ میں جارحیت پر اسرائیل کے احتساب کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ اسرائیل کی ’مسلسل، مہلک‘ بمباری ’افسوسناک‘ ہے۔ ازبکستان کے شہر تاشقند میں 16ویں ای سی او سربراہی اجلاس سے خطاب کے دوران کیا۔ان کا کہنا تھا کہ میں ای سی او رکن ممالک پر زور دیتا ہوں کہ وہ غزہ میں جنگ بندی پر زور دیں، انسانی امداد کی فراہمی کے مطالبے کی حمایت کریں اور اسرائیل کے احتساب کی کوششوں کی حمایت کریں۔انہوں نے کہا کہ موسیٰ (علیہ السلام) کی پیدائش پر فرعون نے بچوں کو قتل کیا اور اب بدقسمتی سے جو لوگ ان کے پیروکار ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں وہ فرعون کے نقش قدم پر چل رہے ہیں۔نگران وزیر اعظم نے اس بات کا اعادہ کیا کہ پاکستان ان اقدامات کی شدید مذمت کرتا ہے، انہوں نے فلسطین کے بے سہارا لوگوں کی مدد کے لیے انسانی راہداری کی ضرورت پر زور دیا۔اپنی تقریر کے دوران نگران وزیر اعظم نے غزہ میں اسرائیل کے اقدامات کو اجاگر کیا جن کی عالمی سطح پر مذمت کی ضرورت ہے۔ 20نومبرکونگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ سے پاکستان میں سعودی عرب کے سفیر نواف بن سعید احمد المالکی نے ملاقات کی۔ نگران وزیراعظم نے غزہ کی صورتحال پر بات چیت کے لئے رواں ماہ کے اوائل میں او آئی سی کے غیر معمولی سربراہی اجلاس کی میزبانی کرنے پر سعودی قیادت کی تعریف کی انہوں نے غزہ میں تشدد کے خاتمے اور بے گناہ فلسطینیوں پر اسرائیل کی جانب سے ڈھائے جانے والے مظالم کو روکنے کے لئے سفارتی کوششوں میں پاکستان کی بھرپور حمایت کا اعادہ کیا۔-24 نومبر 2023کو نگران وزیرِ اعظم انوار الحق کاکڑ سے امام کعبہ پروفیسر ڈاکٹر شیخ صالح بن عبداللہ بن حُمَید نے ملاقات کی وزیرِ اعظم نے غزہ میں جاری نہتے فلسطینیوں پر ظلم اور بچوں کے قتلِ عام کی بھرپور الفاظ میں مذمت کی۔ وزیرِ اعظم نے فلسطینیوں کے ساتھ بھرپور اظہار یکجہتی اور غزہ میں فوری جنگ بندی کا مطالبہ کرنے کے ساتھ ساتھ غزہ میں امدادی سامان پہنچانے کیلئے فوری طور پر راہداری کے قیام پر بھی زور دیا۔وزیرِ اعظم نے اس امر پر زور دیا کہ اسلامی تعلیمات، تاریخ اور تقافت پر ڈاکیومینٹریز کو مختلف زبانوں میں نشر کیا جائے تاکہ دنیا کے ہر کونے میں لوگوں تک اسلام کا صحیح سیاق و سباق پہنچانے میں مدد مل سکے۔۔16اکتوبرکو نگران وزیرِ اعظم نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا تھاکہ پاکستان کو غزہ میں جاری تشدد اور جانی نقصان پر گہری تشویش ہے،ہم فلسطین کے مظلوم عوام سے یکجہتی کے لئے ان کےساتھ کھڑے ہیں اور غزہ میں فوری جنگ بندی اور محاصرہ ختم کرنےکا مطالبہ کرتے ہیں۔ ٹویٹ کے مطابق نگران وزیر اعظم نے کہا تھاکہ اسرائیل کا غزہ میں شہریوں کو جان بوجھ کر، بلا امتیاز اور غیر متناسب نشانہ بنانا تہذیب کے تمام اصولوں کے خلاف اور بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ انہوں نے کہا کہ تشدد کے خاتمے کو فلسطینی سرزمین پر برسوں کے جبری اور غیر قانونی قبضے اور اس کے عوام کے خلاف جابرانہ پالیسیوں کے تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔اقوام متحدہ اور عالمی برادری کو محصور غزہ تک فوری طور پر درکار امدادی سامان کی نقل و حمل کے لیے محفوظ اور غیر محدود انسانی راہداری کھولنے کے لیے کارروائی کرنی چاہیے۔12نومبرکو:نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے ہفتہ کو سعودی دارالحکومت ریاض میں مشترکہ عرب اسلامی غیر معمولی سربراہی اجلاس میں شرکت کے دوران عالمی برادری پر زور دیا ہے کہ وہ فوری مداخلت کرکے فلسطین کے مسئلہ کے پائیدار حل پر عمل درآمد کرائے، انہوں نے فوری اور غیر مشروط جنگ بندی کے ساتھ اسرائیل کی جارحیت اور بربریت کو ختم کرنے، غزہ کا محاصرہ ختم کرنے، تیز رفتار اور بلا روک ٹوک انسانی ہمدردی کی بنیادوں پرامداد کی ضرورت پر زور دیا، مسئلہ فلسطین کے حوالے سے جاری رہنے والی اسرائیلی فوجی جارحیت نسل کشی کا باعث بنی اور خطے کو وسیع تر تنازعات کی لپیٹ میں لے جانے کے خدشات کو جنم دیا۔
پاکستان کے وزیر اعظم مسلم دنیا کے ان سرکردہ رہنمائوں میں شامل تھے جنہوں نے 7 اکتوبر کے بعد اسرائیل کی اندھا دھند فضائی اور زمینی بمباری کی وجہ سے غزہ میں 11,000 سے زیادہ اموات کے ساتھ موجودہ انسانی بحران کی بنیادی وجوہات کو بھرپور انداز میں اجاگر کیا۔ سعودی عرب نے مشترکہ عرب اسلامی غیر معمولی سربراہی اجلاس کی میزبانی کی جس میں اسرائیل کے جارحانہ فوجی حملے سے فلسطینی علاقوں میں آنے والی انسانی تباہی پر غور کیا گیاسربراہی اجلاس کی اہمیت اس لیے سامنے آئی جب اس نے دنیا بھر اور براعظموں کے مسلمانوں کے رہنمائوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کیا، جنہوں نے متحدہ موقف کا اظہار کیا اور غزہ کے مظلوم شہریوں کے لیے بھائی چارے اور وابستگی کے جذبے کو فروغ دیا جو عالمی سطح پر اسرائیلی قابض افواج کی جانب سے ممنوعہ اور دیگر ہتھیاروں کے استعمال کی ہولناکیوں سے گزر رہے ہیں۔

نگراں وزیر اعظم کاکڑ نے اپنے خطاب میں اس بات کا اعادہ کیا کہ تنازعہ کا مستقل حل القدس الشریف کے ساتھ جون 1967 سے پہلے کی سرحدوں کی بنیاد پر فلسطین کی ایک محفوظ، قابل عمل، متصل اور خودمختار ریاست کے قیام میں ہے جس کا دارالحکومت القدس الشریف ہو۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ اسرائیلی قابض افواج بین الاقوامی انسانی اور انسانی حقوق کے قوانین کی صریح خلاف ورزی کر رہی ہیں اور طاقت کا اندھا دھند اور غیر متناسب استعمال جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کے مترادف ہے۔ انہوں نے فلسطینی عوام اور ان کے حق خود ارادیت کے لیے پاکستان کی یکجہتی اور حمایت کا بھی اعادہ کیا۔

وزیر اعظم نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ وہ غزہ میں ایک اور جنگ کا مشاہدہ کر رہے ہیں جونسل کشی کی جنگ ہے۔ انہوں نے اسرائیل کی طرف سے ہسپتالوں، مہاجرین کے کیمپوں اور ایمبولینسوں پر گرائے جانے والے بموں کے پس منظر میں خواتین اور بچوں کی تکلیف دہ اور دکھی تصویروں پر اپنے دکھ کا اظہار کیا۔ غزہ کو ایک زندہ جہنم میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیل کی جانب سے بین الاقوامی قوانین کی بے دریغ خلاف ورزی کی تاریخ میں بہت کم مثالیں ملتی ہیں، انہوں نے ان مظالم کی سخت ترین الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے عالمی برادری پر زور دیا کہ وہ اسرائیل کو اس کے جرائم کا جوابدہ ٹھہرائے اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اراکین پر زور دیا کہ وہ اپنے اختلافات سے بالاتر ہو کر خطے میں امن و سلامتی کو برقرار رکھنے کی اپنی بنیادی ذمہ داری کو فوری طور پر ادا کریں۔ وزیراعظم کاکڑ نے کہا کہ دنیا بھر میں اربوں لوگ امن، ترقی اور خوشحالی کے خواہاں ہیں اور دنیا ایک اور جنگ کے دہانے پر جانے کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ انہوں نے اسرائیل کے جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم پر بین الاقوامی عدالت انصاف (آئی سی جے) میں کارروائی شروع کرنے کے علاوہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کی طرف سے ان جنگی جرائم کی تحقیقات کے لیے خصوصی کمیشن کے قیام کی تجویز بھی دی۔ اپنے تین روزہ دورے کے دوران وزیراعظم نے سربراہی اجلاس کے موقع پر عرب اور اسلامی ممالک کے رہنمائوں سے ملاقاتیں بھی کیں۔ وزیراعظم نے سربراہ اجلاس کے موقع پر سعودی ولی عہد اور سعودی عرب کے وزیراعظم محمد بن سلمان، کویتی ولی عہد شیخ مشعل الاحمد الجابر الصباح اور ملائیشیا کے وزیراعظم انور ابراہیم سے ملاقات کی۔ اپنی ملاقات کے دوران، وزیراعظم اور سعودی ولی عہد نے اسرائیل کو محصور اور معصوم فلسطینیوں کے خلاف وحشیانہ اور اندھا دھند جارحیت سے روکنے کے لیے فوری بین الاقوامی تعاون کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے مقبوضہ غزہ کی ناکہ بندی ہٹانے کی فوری ضرورت پر زور دیا تاکہ متاثرہ آبادی کو اہم انسانی اور طبی امداد کی فراہمی میں آسانی ہو۔ کویت کے ولی عہد شیخ مشعل الاحمد الجابر الصباح سے ملاقات کے دوران انہوں نے غزہ میں جاری اسرائیلی جارحیت اور محاصرے کے دوران شہریوں کے بنیادی ڈھانچے کی ہولناک تباہی اور ہلاکتوں کی تعداد کے ساتھ تشویشناک صورتحال پر گہری تشویش کا اظہار کیا۔ مشترکہ عرب اسلامی غیر معمولی سربراہی اجلاس کے موقع پر ملائیشیا کے وزیراعظم انور ابراہیم سے ملاقات میں وزیراعظم نے اسرائیلی افواج کی جانب سے جاری وحشیانہ مہم کی پاکستان کی شدید مذمت کا اعادہ کیا۔ ملاقاتوں میں دو طرفہ تعلقات اور تعاون پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔ مشترکہ سربراہی اجلاس میں فوری جنگ بندی، جاری اسرائیلی جارحیت اور غزہ کا محاصرہ ختم کرنے، ہلاکتوں اور تباہی، انسانی ہمدردی کی راہداری کے آغاز اور دو ریاستی حل کے فوری نفاذ پر زور دیا گیا۔ رہنمائوں نے غزہ کے رہائشیوں کی جبری نقل مکانی اور اسرائیلی مسلح افواج کی طرف سے علاقے پر قبضے کی مذمت کی۔ اسرائیلی جارحیت میں رہائشی عمارتوں اور سڑکوں کے بنیادی ڈھانچے کو زمین بوس کرنے کے لیے اندھا دھند اور وحشیانہ فضائی اور زمینی حملوں میں ہسپتالوں، مہاجرین کے کیمپوں اور اسکولوں کو بھی نشانہ بنایا گیا۔دفتر خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرہ بلوچ نے کہا کہ پاکستان اسرائیل کی جانب سے طاقت کے مسلسل استعمال اور شہریوں اور شہری تنصیبات اور انفراسٹرکچر پر اندھا دھند گولہ باری کو بین الاقوامی انسانی قانون کی صریح خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے اس کی شدید مذمت کرتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ غزہ کے محصور عوام نے جن مصائب اور اجتماعی عذاب کا سامنا کیا ہے وہ ناقابل قبول ہے، فلسطین اور خطے میں امن و سلامتی کے لیے ممکنہ طور پر ناقابل واپسی مضمرات کے ساتھ صورتحال تیزی سے خراب ہو رہی ہے اور اس طرح کے نتائج سے ہر صورت بچنا چاہیے۔ممتاز زہرہ بلوچ نے مزید کہا کہ ہم موجودہ صورتحال کے خاتمے اور انسانی تباہی کو روکنے کے لیے سیکریٹری جنرل کی جانب سے کی گئی اپیل میں ان کے ساتھ کھڑے ہیں اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو اپنے چارٹر کے تحت بنیادی ذمہ داری ادا کرتے ہوئے فوری اور غیر مشروط جنگ بندی نافذ کرنی چاہیے۔انہوں نے کہا کہ ہم اسرائیل کے حامیوں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اسرائیل پر زور دیں کہ وہ غزہ کے خلاف اپنے وحشیانہ حملے اور غیر انسانی محاصرہ ختم کرے اور ہم مسئلہ فلسطین پر طویل المدتی امن کے لیے بین الاقوامی کانفرنس کا بھی مطالبہ کرتے ہیں۔یاد رہے کہ غزہ میں دہ ماہ میں اب تک اسرائیلی فوج کی بمباری سے اب تک 17 ہزار سے زائد شہید ہو چکے ہیں جبکہ 46 ہزار زخمی ہیں۔ مقبوضہ مغربی کنارے میں بھی اسرائیلی جارحیت سے اب تک 266 شہید اور 3 ہزار سے زائد زخمی ہو چکے ہیں۔اسرائیلی فوج کے حملوں میں گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران 350 سے زائد فلسطینی شہید جبکہ ایک ہفتے میں 1 ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔غزہ میں عارضی جنگ بندی ختم ہوتے ہی اسرائیلی فوج کی غزہ پر بمباری اب تک جاری ہے، اسرائیلی فوج کی جانب سے مسجد العودہ اور عثمان بن کاشغر مسجد پر شدید بمباری کی گئی، رفاہ اور جبالیہ پناہ گزین کیمپ پر بھی حملے کئے گئے۔ دوسری جانب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے اسرائیلی بربریت کے شکار مظلوم فلسطینیوں کے حق میں 5 قراردادیں منظور کر لیں۔ ساتھ ہی ساتھ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں متحدہ عرب امارات کی طرف سے اسرائیل فلسطین تنازعہ کے حوالے سے پیش کی جانے والی قرارداد پر ووٹنگ ہوئی۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں فلسطینیوں کے حق میں پیش کی گئی 5 قراردادیں منظور کی گئیں۔ جنرل اسمبلی میں امریکہ سمیت 10 ممالک کی غیر حاضری میں فلسطینیوں کے حق میں پیش کی گئی 5 قراردادیں منظور کیں گئیں ۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں فلسطینیوں کے حق میں پیش کی گئی قراردادوں میں اسرائیلی جارحیت کی تحقیقات کرانے سمیت امدادی کاموں، بے گھر ہونے والوں کے اثاثوں کے تحفظ، یہودی آبادکاروں اور بنیادی حقوق کی عدم فراہمی شامل ہے۔سب سے پہلے فلسطینی پناہ گزینوں کے اثاثوں کے تحفظ سے متعلق قرارداد پیش کی گئی جسے 163 ارکان کی حمایت سے منظور کرلیا گیا۔ امدادی کاموں سے متعلق پیش کی گئی قرارداد کو 165 ووٹ ملے۔یہودی آبادکاروں کی بستیوں کے خلاف قرارداد کے حق میں 149 ممالک نے ووٹ دیا جب کہ بنیادی حقوق کی فراہمی سے متعلق قرار بھی 168 ووٹس سے منظور ہوگئی۔ تاہم فلسطینیوں کے حقوق کے خلاف اسرائیلی کارروائیوں کی تحقیقات سے متعلق قرارداد کو صرف 86 ووٹ ملے حاصل ہوئے اور 12 ممالک نے مخالفت کی جب کہ 75 ممالک رائے شماری کے وقت اجلاس سے غیرحاضر رہے۔