اسلام آباد(ٹی این ایس) پاکستان میں حقیقی تبدیلی کیسے ممکن ہے؟

 
0
63

پاکستان میں حقیقی
تبدیلی کیسے ممکن ہے؟

فوجی آمریت میں جنرل ایوب خان اور جنرل یحیی خان ، جنرل ضیا الحق’ جنرل پرویز مشرف کا دور دیکھ لیں مختلف نعروں کی آڑ لے کر اقتدار میں آنے والے یہ آمر یہ سب یکے بعد دیگرے دھوکے دے کر چلتے بنے۔ فوجی آمریت کے دور میں بھی اس ملک کے کروڑوں عوام میں سے مخصوص لوگوں کے علاوہ کسی ایک شخص کی زندگی میں تبدیلی نہیں آئی کسی کو محرومیوں کے اندھیروں سے نکالنے کا اہتمام نہیں کیا گیا۔
2002 سے ملک میں جمہوریت کے نام پر جو پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیاں کام کر تی رہی ہیں ان کا حال پوری قوم کے سامنے ہیں-جو حکومتیں دن رات عوام سے جھوٹ بول کر گزارا کرتی ہیں جن کے وزراء اور نمائندگان ہر وقت باآواز بلند حقائق کو جھٹلانے میں جتے ہوتے ہیں’ ان کے ہاتھوں بہتر عمل نہیں ہوسکتا-یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ غلط بیانی کے پلندے روزانہ قوم کی کمر پر لادے جارہے ہوں اور اس کے ساتھ ساتھ بہترین جمہوری انداز حکمرانی بھی جاری ہو-اچھا حکمران سچا حکمران ہوتا ہے-اچھی جمہوریت کھری بات پر مبنی ہوتی ہے-آپ کبھی کبھار نظریہ اشد ضرورت کے تحت خود کو سچائی کے اصول سے ماورا تو کرلیتے ہیں مگر اس کو بطور عادت نہیں اپنا سکتے-
نام نہاد انتخاب کے نام پر لوگ منتخب ہو کر آتے ہیں، لہذا وہ کہتے ہیں ہمیں عوام نے منتخب کیا ہے۔ عوام ہی ہماری طاقت کا سرچشمہ ہیں حالانکہ اس ملک میں جمہوریت کی غرض و غایت اور جمہوریت کا تعلق عوام سے صرف اتنا ہے کہ انہیں ہر پانچ سال کے بعد اقتدار کے ان وارثوں کو منتخب کرنے کا حق دیا جاتا ہے۔ یہ ہے عوام کی طاقت!پانچ سال کے بعد دوبارہ ایک میلہ لگتا ہے، کروڑوں روپے خرچ کرنے والے پھر وہی خانوادے، کبھی ان کے بیٹے، کبھی بیٹیاں، کبھی بھتیجیاں اور کبھی بھانجے بھانجیاں یعنی تھوڑی سے جمع تفریق کے ساتھ یہی لوگ اقتدار کا حصہ ہوتے ہیں-
سوچنے کی بات یہ ہے کہ وہ جو کروڑوں لگا کے اسمبلی میں آئے گا وہ عوام کا پیٹ بھرے گا یا اپنا پیٹ بھرے گا؟ وہ پہلا خرچہ برابر کرنے کے بعد اگلے الیکشن کے لیے کروڑوں کیوں نہیں بنائے گا؟ کیونکہ اس نے اپنی ساکھ رکھنے کے لیے لوگوں کو آٹے کے تھیلے بھی دینے ہیں۔ اس نے سڑکیں بھی بنانی ہیں، کھمبے بھی لگانے ہیں، نالیاں بھی بنوانی ہیں، لوگوں کے گھر اناج بھی بھیجنا ہیں اور سب سے بڑھ کر کرپشن بھی کرنی ہے تاکہ اپنی اولادوں اور نسلوں کا مالی تحفظ بھی ہو جائے۔ کیا خبر کل ملک کی حالت کیا ہو، بیرونِ ملک اکانٹ بھی کھلوانے ہیں اور جائیدادیں بنانی ہیں۔ وہ پورے ملک کو لوٹے گا نہیں تو اور کیا کرے گا؟
سوچنے کی بات یہ ہے کہ جب ایک ایک شخص جب کروڑوں روپے لگا کر پارلیمنٹ میں پہنچے گا تو کیا وہ آپ کا نمائندہ ہوگا؟ وہ اس ملک کے محنت کشوں کا نمائندہ ہوگا؟ وہ طلبا کا نمائندہ ہوگا؟ وہ غریب عوام کا نمائندہ ہوگا؟ وہ کسانوں کا نمائندہ ہوگا؟ وہ تاجروں کا نمائندہ ہوگا؟ کس کا نمائندہ ہوگا؟
حقیقت یہ ہے کہ وہ صرف اپنے مفادات اور اپنی ذاتی ترجیحات کا نمائندہ ہوگا۔ الیکشن میں ایک امیدوار کروڑوں روپے کی سرمایہ کاری کرکے اسمبلی میں پہنچتا ہے یہ الیکشن ہی پاکستان کے ام کا سب سے بڑا دشمن ہے۔ یہ کبھی عوام کے دکھ اور مصائب حل کرنے میں کسی قسم کا ریلیف دینے میں کامیاب نہیں ہوسکا پہلے پہل تو ظاہر داری کرتے ہوئے جماعتیں اپنا منشور عوام کے سامنے پیش کردیتی تھیں لیکن اب تو جماعتوں کا منشور بھی ختم ہو چکا ہے۔ عوام نے دھوکے کھا کھا کر اس روِش کو بھی قبول کر لیا ہے۔ اب نہ کوئی منشور چھاپتا ہے اور نہ کوئی منشور پوچھتا ہے۔
اکثر اوقات یک نکاتی منشور چل پڑتا ہے۔ بس ایک کہہ دے گا کہ کرپشن کا خاتمہ میرا منشور ہے، قوم کو کچھ پتہ نہیں کہ یہ خاتمہ کس طرح ہوگا؟ اس کی خارجہ پالیسی کیا ہوگی؟ اس کی داخلہ پالیسی کیا ہوگی؟ اِس ملک کو کیسے خسارے سے نکالا جائے گا؟ امپورٹ اور ایکسپورٹ میں کیسے بہتری ہوگی؟ کتنا روزگار مہیا کیا جائے گا؟ ایجوکیشن پہ کتنا خرچ کرے گا؟ ہیلتھ پر کیا خرچ ہوگا؟ انفراسٹکچر پر کیا ہوگا؟ علاقائی تعلقات کیا ہوں گے؟ بین الاقوامی پالیسی کیا ہوگی؟ کچھ معلوم نہیں اور نہ ہی کوئی پوچھنے والا ہے۔
ایک لیڈر کہتا ہے کہ لٹی دولت واپس لائوں گا اتنا کافی ہے بس کسی کو اس کے کوئی منشور پوچھنے کی ضرورت نہیں ایک شخص کہہ دے گا کہ فلاں ملک دشمن جماعت ہے اور وہ نظریہ پاکستان بحال کرے گا قائداعظم کی فکر دے گا، اس کا پاکستان واپس دلائے گا۔ ایک نے کہا کہ جمہوریت دوں گا، کچھ نے کہہ دیا ہم اسلام لائیں گے۔ کوئی کہہ دے گا کہ لٹیروں کی لوٹ کھسوٹ کو ختم کریں گے۔ یہ جملے آپ غور سے سنیں، یہ سب یک لفظی منشور ہیں۔ کسی حقیقی منشور کی اس نظامِ اِنتخاب میں ضرورت نہیں رہی کیونکہ اب انتخابی جنگ جماعتوں سے ہٹ کر دھڑوں کے درمیان شروع ہوگئی ہے کئی بار اسمبلیاں ٹوٹیں، سیاست دان آپس کی جنگ اور باہمی منافرتوں کے ذریعے اور اپنی کرپشن کے ذریعے اسٹیبلشمنٹ کے لیے میدان ہموار کرتے رہے۔
1988 سے لے کر 2023 تک بر سر اقتدار آنے والی وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے ملک وقوم کے لئے کیا گیا ہے- حالت اس نہج پر پہنچ چکی ہے کہ عوام کو بجلی’ گیس’ پانی’ آٹا’ کھانا ‘ روزگار نہیں مل رہا’ سٹریٹ کرائمز کی تعداد ریکارڈ سطح پر پہنچ چکی ہے’ لوگوں کی عزت و ناموس اور جان و مال محفوظ نہیں، ہر وقت خون کی ہولی کھیلی جا رہی ہے۔ عوام کو ا سمبلیوں کی قانون سازی نے کیا دیا؟ اسمبلیوں میں ترامیم اور قانونی موشگافیاں اپنے سیاسی مفاد کو تحفظ دینے اور اپنی کرپشن کو محفوظ رکھنے کے لئے ہوتی ہیں اسی لیے حکومتی پالیسیوں میں تسلسل نہیں ہے۔ ایک حکومت جاتی ہے تو اس سے منسوب تمام منصوبے اور ادارے اٹھا کر سمندر میں غرق کر دیے جاتے ہیں۔
پوری دنیا میں ایسا کبھی نہیں ہوتا کہ سیاسی جماعت اور حکومت بدلنے سے ملک کی مین ڈائریکشن ہی تبدیل ہو جائے۔ جمہوری ممالک میں سیاسی حکومت بدلتی ہے لیکن قومی ڈائریکشن وہی رہتی ہے۔ اہم کلیدی عہدوں پر سیاسی مداخلت نہیں ہوتی، نہ تقرری میں اور نہ برطرفی میں۔ قومی سلامتی کے اہم منصوبے بدستور جاری رہتے ہیں مگر پاکستان میں قومی سطح کے کسی ادارے کی ایک بھی سیٹ ایسی نہیں ہے کہ حکومت بدلتے ہی جس کے سربراہ بدل نہ جاتے ہوں۔ نئی حکومت آئے گی تو پھر سارے سربراہ بدل جائیں گے اور اہم سیٹوں پر نئی تقرریاں ہوں گی، ماتحت بدل جائیں گے، سارے جاری منصوبے تعطل کا شکار ہو کر رہ جائیں گے۔
ہر چار سال کے بعد نیا پلان جاری ہوگا، جو کام تین چار سال کے دوران مکمل ہو رہا ہوتا ہے دوبارہ نئے سے شروع ہو جاتا ہے۔ یوں ہر تین چار سال کے بعد ملک صفر پر کھڑا ہوتا ہے۔ کنوئیں کے بیل کی طرح قوم وہیں کی وہیں کھڑی رہتی ہے۔ کیا اس قوم نے کبھی محاسبہ کیا کہ سیاسی حکومتوں کو کیا حق ہے کہ وہ اپنی مرضی سے قومی اداروں اور قومی منصوبوں کو تاخت و تاراج اور برباد کریں؟نظام کسی ایک فرد یا شخصیات سے نہیں بلکہ اداروں’ جمہوری سوچ اور جمہوری رویے سے مستحکم ہوتا ہے-اپنی ذات اور نظام کو لازم وملزوم قرار دینا فوجی آمروں کا وطیرہ رہا ہے جن کے اقتدار کی کوئی آئینی اور عوامی بنیاد ہی نہیں ہوتی -اگر جمہوری نظام کو بھی جرنیلی آمریت کی ڈگر پر چلانے کی کوشش کی جائے گی تو پھر نظام کے استحکام کا تصور کیسے کیا جاسکتا ہے….