راولپنڈی(ٹی این ایس)ملکی مسائل’ سیاستدان تدبر کا مظاہرہ کریں

 
0
46

پاکستان کو درپیش مشکلات اور بحرانوں کی سنگینی بارے عام آدمی کو شاید زیادہ پتہ نہ ہو لیکن ملک میں سیاسی بحران کیوں ہے؟ اس کا انجام کیا ہوگا اس بارے تمام سیاسی قائدین بخوبی آگاہ ہیں مگر ان بحرانوں کو ختم کیسے کرنا ہے اس بارے میں سوچنے کے بجائے سیاسی قائدین ایک دوسرے پر بالادستی اور برتری کی کشمکش میں مصروف ہیں’پاکستان کے ہمسائے میں کیا ہورہا ہے اس کے پاکستان پر کیا اثرات مرتب ہو رہے ہیں اس کے بارے میں بھی کسی کو کوئی پروا نہیں بڑوں کی لڑائی میں ریاست اور اس کے عوام کے مفادات دائو پر لگے ہوئے ہیں جو طبقہ خون پیسنے کی کمائی سے ٹیکس دے رہا ہے وہ پریشان ہے’ بدحال ہے لیکن ان کے ٹیکسوں سے بھارتی تنخواہیں’ سہولتیں اور مراعات لینے والے’ ٹیکس دہند گان کے مفادات کو قربان کرنے پر تلے ہوئے ہیں سیاسی اشرافیہ’ کاروباری اشرافیہ اور ریاستی مشینری کے کل پروزوں کا ایک طاقتور حصہ اپنے ہی طبقے کے دوسرے حصے پر حملہ آور ہے جبکہ عوام اور پاکستان ان کی لڑائی کا ایندھن بنے ہوئے ہیں
ملک میں سیاسی عدم استحکام کم ہونے کے بجائے بڑھتا چلا جارہا ہے اقتدار کے ستون جس طرح لڑ کھڑا رہے ہیں عوام ہی نہیں بلکہ اقوام عالم بھی اس کا مشاہدہ کر رہے ہیں’ سیاست کے نام پر جو کچھ ہوا اور ابھی تک ہورہا ہے اس کے نتائج واثرات اوپر سے لے کر انتہائی نچلی سطح تک محسوس ہورہے ہیں’ سیاسی عدم استحکام’ ادارہ جاتی سطح پر اختیارات کی جنگ’ انتظامیہ کا مفلوج ہونا’ علاقائی صورت حال ودیگر عوامل پاکستان کو درپیش مشکلات’ مسائل اور بحرانوں کوسنگین بنا رہے ہیں سیاسی رہنمائوں کے درمیان عدم اعتماد اور شخصیت پرستی کی سیاست سے پیدا ہونے والے عوارض کی وجہ سے بے یقینی اور بحران کی کیفیت سے دوچار ہے
ملک میں ایسی سیاسی انتشار اور بے یقینی کی فضا پیدا کی گئی ہے کہ جس سے ہر شعبہ بری طرح متاثر ہو رہا ہے اور یہ صورت حال ملک کی بقاء اور سلامتی کے لئے حقیقی طور پر سنگین خطرات کا موجب بن رہی ہے یہ کہنا بیجا نہ ہوگا کہ ملک میں سیاسی عدم استحکام پیدا کرنا’ اسے جاری رکھنا ایسی سیاسی مفاد پرستی ہے جو ملک کو اقتصادی طور پر تباہ کرتے ہوئے زمین سے لگانے کے ہولناک خطرات کا موجب بن سکتی ہے ہمیں اس حقیقت کو فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ اگر کسی ملک کی معیشت بیٹھ جائے تو نہ کوئی کوئی ادارہ اپنا وجود بر قرار رکھ سکتا ہے اور نہ ہی کسی کے پاس کوئی اختیار باقی بچے گا جب جیب خالی ہو تو کوئی دوست رہتا ہے اور نہ رشتے دار دنیا میں بہت ہی مضبوط اور طاقتور ریاستیں مالی بحران کا شکار ہوکر بکھر گئیں سوویت یونین’ سوڈان’ صومالیہ’ یمن’ شام’ عراق کے حالات میں تمام سٹیک ہولڈرکے لئے انتہائی واضح سبق موجود ہے بشرطیکہ وہ یہ سبق پڑھنے کے لئے تیار ہوں موجودہ بحران بھی ایسا نہیں کہ اس کا کوئی حل نہ نکل سکے لیکن اس کے لئے ضروری ہے کہ سٹیک ہولڈر غیر معمولی تدبر’ ذہانت’ زیرکی’ گہرائی اور معاملہ فہمی کا مظاہرہ اور اپنے اپنے رویوں میں لچک پیدا کریں اور انائوں کے خول کے باہر نکل کر صرف اور صرف پاکستان کے مفادات کو اولیت دیں تو موجودہ بحران کو بہترین طریقے سے بات چیت کے ذریعے بآسانی حل کیا جاسکتا ہے عام انتخابات کے نتائج پر پیدا ہونے والا اضطراب شدت اختیار کرتا جارہا ہے انتخابات میں منظم دھاندلی کے واقعات کو عالمی ذرائع ابلاغ نے جس طرح کوریج دی ہے اس نے پاکستان کے عالمی تشخص کو بری طرح متاثر کیا ہے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انتخابی نتائج پر پیدا ہونے والا اضطراب بڑے طوفان کی شکل اختیار کرتا جارہا ہے یہ صورت حال ایسے وقت میں پیدا ہوئی ہے جب ملک کے معاشی مسائل شدت اختیار کرچکے ہیں اور نئی حکومت کے لئے اہم چیلنجز میں یہ بھی شامل ہے کہ قرضوں کی ادائیگی کے لئے نئے قرضوں کا بندوبست کرے عام انتخابات کے نتیجے میں یہ توقع کی جارہی تھی کہ منتخب حکومت قائم ہونے سے ملک میں گزشتہ دو برس سے جاری انتشار’ افراتفری’ عدم استحکام اور بے یقینی کا خاتمہ ہوگا لیکن انتخابات کی شفافیت پر پیدا ہونے والے اعتراضات نے پہلے سے موجود مسائل میں مزید اضافہ کردیا ہے انتخابی مینڈیٹ پر اٹھنے والے اعتراضات کے سائے میں بننے والی حکومت کی ساکھ کیا ہوگی اس کا اندازہ کرنا یقینا مشکل نہیں اگرچہ ہمارے ہاں کا یہ معروف سیاسی محاورہ بن چکا ہے کہ ملک ایک نازک موڑ پر ہے تاہم اس وقت جو سیاسی حالات بنے ہوئے ہیں یہ کہنا یقینا مبالغہ آرائی نہیں کہ ملک واقعی ایک نازک موڑ پر ہے چنانچہ ضروری ہے کہ سبھی سٹیک ہولڈر ان حالات میں اجتماعی دانش کو موقع پر اور ملک کو اس بے یقینی سے نکالنے اور استحکام پیدا کرنے کے لئے سنجیدگی کا مظاہرہ کریں مسلم لیگ(ن) اور پیپلز پارٹی میں حکومت سازی کے لئے اتفاق رائے سامنے آچکا ہے مگر وفاقی وزارتوں کے معاملے میں ابھی تک صورت حال واضح نہیں پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلا ول بھٹو زرداری کا ایک بار پھر واضح طور پر یہ کہنے کہ مرکز میں وزیر اعظم کو ووٹ تو دیں گے مگر وزارتیں نہیں لیں گے کا مطلب بظاہر یہی سمجھ میں آتا ہے کہ یہ جانتے ہوئے کہ آنے والی حکومت پھولوں کی سیج نہیں کانٹوں کا بستر ہوگی’ پیپلز پارٹی خود کوئی ذمہ داریاں لینے سے اجتناب کر رہی ہے مگر صدر مملکت’ چیئرمین سینٹ اور سپیکر قومی اسمبلی جیسے محفوظ مگر خاصے بااختیار عہدے حاصل کرکے وہ حکومت کے بالائی حلقے میں اپنی موجودگی اور اختیارات کو بر قرار رکھنا چاہتی ہے
پیپلز پارٹی یہ تو چاہتی ہے کہ آنے والی وفاقی حکومت اس کی مرہون منت رہے مگر اس کی ذمہ داریوں کے معاملے میں کوئی بوجھ اٹھانا نہیں چاہتی سوال یہ ہے کہ موجودہ حالات میں جبکہ معیشت خاصی کمزور حالت میں ہے اور اسی مالی سال کے دوران ادائیگیوں کے ایک پہاڑ کا بھی سامنا ہوگا ایسی حکومت جس کی بقاء کا دار ومدار کہیں اور ہو ‘اپنے آپ میں اتنی مضبوط اور موثر ثابت ہوسکے گی کہ ملک کے اہم چیلنجز کا مقابلہ کرسکے؟ یہ پی ڈی ایم حکومت کے بالکل بر عکس صورت ہوگی کیونکہ اس وقت کوئی درجن بھر جماعتوں میں ذمہ داریاں تقسیم تھیں اگر چہ اہم عہدے مسلم لیگ(ن) کے پاس تھے مگر حکومت مجموعی طور پر کثیر جہتی تھی اگر چہ اس حکومت کے منفی اثرات کے حامل فیصلوں کا مسلم لیگ(ن) کو انتخابی نتائج کی صورت میں نقصان بھی اٹھانا پڑا ہے
بہر حال ملک اس وقت جن حالات سے دوچار ہے سیاسی جماعتوں کا فرض بنتا ہے کہ کہ وہ بھاری ذمہ داریوں سے راہ فرار اختیار کرنے کے بجائے ہمت سے کام لیں یہ واضح ہے کہ کوئی سیاسی جماعت بھی چیلنجز سے اکیلے نمٹنے کا حوصلہ نہیں رکھتی اس لئے آئینی عہدوں کو انجوائے کرنے کے بجائے پیپلز پارٹی کو قومی ذمہ داریوں کے بھاری پتھر کو اٹھانے میں بھی شراکت داری کرنی چاہیے بادی النظر میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کا مجوزہ اتحاد موجودہ سیاسی صورت حال میں بہتری کی جانب انتہائی اہم پیش رفت ثابت ہوسکتا ہے تاہم اس اتحاد کی مضبوطی ذمہ داریوں کی یکساں تقسیم سے مشروط ہے
اگر اتحاد کا ایک دھڑا بعض خاص عہدے لے کر مطمئن ہوکر الگ بیٹھ جائے اور حکومت کے تمام تر چیلنجز صرف اس جماعت کے لئے بچیں جس کے پاس وزارت عظمی ہو تو اس سے موثر حکومت کا قیام اور مسائل کا مداوا ممکن نہیں نہیں آتا جیسا کہ خود بلا ول بھٹو نے کا کہنا ہے کہ تمام سیاست دان ذاتی مفادات کے بجائے عوام کا سوچیں تو اس ضمن میں انہیں خود پہل کرنی چاہیے ملک کے مسائل کو سلجھانے کے لئے وسیع تر مفاہمت اور سیاسی اتفاق رائے کی ضرورت ہے صرف وزارت عظمی کا ووٹ دینا اور حکومت میں کوئی ذمہ داری قبول نہ کرنا موجودہ حالات میں قومی تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں۔۔۔۔