اسلام آباد (ٹی این ایس) سید الشہدا حضرت امام حسین علیہ السلام کی شہادت ایک عظیم قربانی تھی اور اس نے مسلمانوں کے دلوں میں حق اور انصاف کے لیے جدوجہد کا جذبہ پیدا کیا۔ واقعہ کربلا نے ظلم کے خلاف مزاحمت اور حق کی سربلندی کے لیے ایک مثال قائم کی ہے۔ کربلا ایک ایسی درس گاہ ہےجس میں قربانی، سچائی اور آزادی جیسے بہت سے معنی سامنے آتے ہیں۔ واقعہ کربلا کو تاریخ اسلام کا ایک اہم موڑ سمجھا جاتا ہے
جنگ کی وجہ یہ تھی کہ امام حسین علیہ السلام نے یزید کی بیعت کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ یزید ایک ظالم اور جابر حکمران تھا اور امام حسین علیہ السلام نے اس کے خلاف کھڑے ہونے کا فیصلہ کیا۔ انہوں نے اپنے اہل خانہ اور چند اصحاب کے ساتھ کوفہ کی جانب سفر کیا تاکہ لوگوں کو یزید کے ظلم و جبر سے آگاہ کر سکیں۔ حسین ابن علی یزید ابن معاویہ کی حکمرانی کو غیر قانونی، ناجائز اور غیر شرعی سمجھتے تھے، جو حسن مجتبیٰ اور معاویہ ابن ابی سفیان کے درمیان میں صلح معاہدے کے خلاف، یزید اول کو وراثت میں ملی تھی۔جنگ کربلا انسانی تاریخ کا ایک بہت اہم واقعہ ہے۔ یہ نہ صرف ایک جنگ ہے بلکہ زندگی کے تمام پہلوؤں کے لیے رہنمائی بھی ہے۔ اس جنگ کی بنیاد حضرت محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کی وفات کے بعد رکھی گئی تھی۔ امام علی خلیفہ بن گئے کچھ لوگوں کو پسند نہیں آیا، لڑائیاں ہوئیں، علی شہید ہو گئے، پھر حضرت امام حسن بن علی چھ ماہ خلیفہ رہے وہ بھی ان کے بعد شہید ہو گئے۔ اس وقت کا حکمران یزید، بدکردار اور ظالم سمجھا جاتا تھا اور اس نے حکمرانی میں غیر اسلامی کام کیے، عراق اور کوفہ کی عوام نے حضرت امام حسین کو کئی خطوط لکھے اور انھیں کوفہ آنے کو کہا .یزید جانتا تھا کہ اگر امام حسین اس کے ساتھ آجائیں تو سارا اسلام یزید کی گرفت میں آجائے گا۔ بہت دباؤ کے بعد بھی، امام حسین نے یزید کی کسی بھی چیز کو قبول کرنے سے انکار کر دیا، لہذا یزید نے امام حسین کو روکنے کا منصوبہ بنایا۔ 4 مئی 680 ء کو، امام حسین مدینہ میں اپنا گھر چھوڑ کر مکہ پہنچ گئے، جہاں انھوں نے حج کرنے کا ارادہ کیا، لیکن معلوم ہوا کہ دشمن حاجیوں کے بھیس میں آسکتے ہیں۔امام حسین کعبہ جیسے مقدس مقام پر خون بہانا نہیں چاہتے تھے، تب امام حسین نے حج کا ارادہ بدلا اور کوفہ شہر کی طرف بڑھے۔ راستے میں، دشمنوں کی ایک فوج نے انھیں گھیر لیا اور انھیں کربلا لائے۔ تاہم، راستے میں کربلا کے مقام پر یزید کی فوج نے انہیں گھیر لیا
وہ زمین جس پر امام حسین نے کربلا میں اپنا خیمہ لگایا تھا، اس کو پہلے امام حسین نے خریدا تھا، پھر انھوں نے اسی جگہ پر اپنا خیمہ لگایا تھا۔ آپ نے خطبہ دیا۔ جس میں اپنے مقاصد کی وضاحت کی۔ آپ نے فرمایا:” لوگو! رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا ہے جس نے ظالم، محرمات الہٰی کے حلال کرنے والے، خدا کا عہد توڑنے والے، خدا اور رسول کی مخالفت اور خدا کے بندوں پر گناہ اور زیادتی کے ساتھ حکومت کرنے والے بادشاہ کو دیکھا اور قول و فعل کے ذریعہ سے غیرت کا اظہار نہ کیا تو خدا کا حق ہے کہ اس شخص کو اس بادشاہ کے ساتھ دوزخ میں داخل کر دے۔ لوگو! خبردار ہو جاؤ۔ ان لوگوں نے شیطان کی اطاعت اختیار کی اور رحمٰن کی اطاعت چھوڑ دی ہے۔ ملک میں فساد پھیلایا ہے۔ حدود الہٰی کو معطل کر دیا ہے۔ مال غنیمت میں اپنا حصہ زیادہ لیتے ہیں۔ خدا کی حرام کی ہوئی چیزوں کو حلال اور حلال کی ہوئی حرام کر دیا ہے۔ اس لیے مجھ کو غیرت میں آنے کا زیادہ حق ہے “ یزید امام حسین پر دباؤ ڈالتا رہا جب امام حسین نے یزید کی شرائط کو نہ مانا تو آخر کار دشمنوں نے نہر پر فوج کا پہرہ لگایا اور پانی کو حسین خیموں میں داخل ہونے سے روک دیا۔ یزید کی فوج کو دیکھ کر کوفہ عراق کے لوگ، جنھوں نے امام حسین کو بلایا تھا، وہ بھی ان کے ساتھ شامل ہو گئے۔ تین دن گذر جانے کے بعد، جب بچوں کو پیاس لگنے لگی، تو امام حسین نے یزیدی فوج سے پانی طلب کیا، دشمن نے پانی دینے سے انکار کر دیا، یزیدی فوج نے سوچا کہ امام حسین پیاس سے ٹوٹ کر ہمارے تمام حالات کو قبول کر لیں گے۔ جب تین دن کی پیاس کے بعد بھی امام حسین نے یزید کی بات نہیں مانی تو دشمنوں نے حسین کےخیموں پر حملہ کرنا شروع کر دیا۔ اس کے بعد، امام حسین نے ایک رات دشمنوں سے مہلت طلب کی امام حسین علیہ السلام نے اپنے رشتہ داروں اور مددگاروں کو خطبہ دیا، ” میں خدا کی حمد کرتا ہوں جس نے ہمیں محمد کی نبوت سے نوازا اور ہمیں قرآن اور دین کی تعلیم دی۔ میں اپنے دوستوں سے بہتر مددگار اور اپنے کنبہ سے زیادہ مخلص گھرانے کو نہیں جانتا ہوں۔ خدا آپ کو اجر دے۔ مجھے لگتا ہے کہ ہم کل مارے جائیں گے۔ میں آپ سے رخصت ہونے کا کہتا ہوں اور میں آپ کے قیام پر اصرار نہیں کرتا ہوں۔ رات کے اندھیرے کا استفادہ کرو اور جاؤ۔ “لیکن امام حسین علیہ السلام کے ساتھیوں قبول نہیں کیا اور ان کی بیعت پر وفادار رہے۔حضرت زینب کو نا امیدی سے غش آیا اور بیہوش ہوگئیں۔ لیکن امام حسین علیہ السلام نے انہیں تسلی دی۔امام حسین جنگ کے لیے تیار تھے۔ آپ نے خیموں کو ایک دوسرے کے نزدیک کیا اور طنابوں کو ایک دوسرے سے باندھ دیا۔ آپ نے خیموں کے آس پاس لکڑیاں اور سرکنڈے لگائے تھے تاکہ دشمن کو ان تک پہنچنے سے بچائے امام حسین اور ان کے ساتھیوں نے ساری رات نماز ادا کی 10 محرم 61ھ بمطابق10 اکتوبر 680 ء کو، نماز فجر کے بعد سے ہونے والی اس لڑائی میں ایک طرف یزید کی لاکھوں کی فوج تھی، دوسری طرف 72 جانثار اور چند نفر کا کنبہ تھا، جن میں 6 ماہ سے 13 سال تک کے بچے بھی شامل تھے۔ امام حسین کی فوج کی تعداد 32 گھڑسوار اور 40 پیادہ تھا ان کے سامنے یزیدی فوج تھی جس میں 30،000 کے قریب جوان تھے۔ صبح کی نماز کے بعد، دونوں فریقوں نے جنگی پوزیشنیں سنبھال لیں۔ امام حسین نے زہیر بن قین کو اپنی فوج کے دائیں حصے کی کمان کے لیے حبیب ابن مظہر کو بائیں بازو کی کمان سنبھالنے کے لیے اور بھائی عباس کو پرچم بردار مقرر کیا۔ امام حسین کے ساتھیوں کی تعداد بتیس گھوڑے سوار اور بیالیس پیدل چلنے والوں کی تھی لکڑی پر مشتمل کھائی کو روشن کر دیا گیا تھا۔ اس کے بعد امام حسین نے اپنے مخالفین کو ایک تقریر کی جس سے انھیں محمد کے نواسے کی حیثیت کی یاد دلادی گئی اور دعوت دینے اور پھر اسے چھوڑنے پر ملامت کی گئی۔ انھیں رخصت ہونے کی اجازت دینے کو کہا۔ انھیں بتایا گیا کہ پہلےانھیں یزید کے سامنے پیش کیا جائے، جس سے انکار کر دیا گیا۔ امام حسین کی تقریر نے حر کو امام حسین طرف موڑ دیا۔ امام حسین کی تقریر کے بعد، زہیر بن قین نے یزید کی فوج کو امام حسین کے قتل سے روکنے کی کوشش کی، لیکن بے سود۔ ابن سعد کی فوج نے تیروں کی کئی بوچھاڑیں کیں۔ اس کے بعد جنگ ہوئی جس میں امام حسین کے کئی ساتھی مارے گئے۔ عمرو بن الحجاج کی سربراہی میں کوفیوں کے دائیں بازو نے امام حسین کی فوج پر حملہ کیا، لیکن پسپا کر دیا گیا۔ آپس میں مبارزت کی لڑائی لڑنے کا سلسلہ رک گیا اور مزید تیروں کا تبادلہ ہوا۔ یزید کی فوج کے بائیں بازو کی کمان کرنے والے شمر نے حملہ کیا، لیکن اسے پسپا کر دیا گیا۔ اس کے بعد گھڑسوار کے حملے ہوئے۔ امام حسین کے گھڑسوار نے شدید مزاحمت کی اور ابن سعد بکتر بند گھڑسوار اور پانچ سو تیراندازوں کو لے کر آیا۔ ان کے گھوڑوں کو تیر کے ذریعے زخمی کرنے کے بعد، امام حسین کے گھڑسوار دستہ گھوڑے چھوڑ کر پیدل لڑے۔ چونکہ یزید کی فوج محاذ سے صرف امام حسین کی فوج کے پاس جا سکتی تھیں، ابن سعد نے خیموں کو جلا دینے کا حکم دیا۔
دوپہر کی نماز کے بعد، امام حسین کے ساتھیوں کا گھیراؤ کیا گیا اور تقریباً سبھی ہلاک ہو گئے۔ یزیدی فوج نے پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے نواسے حسین ابن علی اور ان کے رفقا کو لڑائی میں شہید کیا، اسلام کی بنیادوں کی حفاظت کے لیے کربلا میں 72 افراد شہید ہوئے، جس میں دشمنوں نے چھ ماہ کے بچے علی اصغر کی گردن پر تین جہتی تیر مارا، 13 سالہ حضرت قاسم گھوڑے سموں کے سے پامال ہو گیا اور سات برس اور آٹھ برس کے بچے عون محمد سر پر تلوار کی ضرب سے شہید ہوئے۔ امام حسین کی شہادت کے بعد، یزیدی فوج نے حسین کی فوج کے 72 ارکان کے سروں کو نیزوں پر بلند کیا اور اجسام پر گھوڑے دوڑائے۔ یزیدی فوج نے کربلا کے صحرا میں مقتولین کی لاشیں چھوڑ دیں۔ بنی اسد کے لوگوں نے لاشوں کو تین دن بعد دفن کیا۔ واقعہ کربلا کے بعد، حسین ابن علی کی فوج سے وابستہ متعدد خواتین اور بچوں کو گرفتار کر کے قید کر دیا گیا، بازار اور ہجوم والے مقامات سے گذر کر ان کی توہین کی گئی اور انھیں یزید ابن معاویہ کے دربار شام بھیج دیا گیا, واقعہ کربلا کے بعد حضرت زینب کوقیدی بنا کر دمشق لایا گیا جہاں انہوں نے یزید کے دربار میں بڑی جرأت اور دلیری سے حق بات کہی۔ حضرت زینب نے اس خطبے میں صریح اور دوٹوک الفاظ میں بنی اُمَیّہ کی حکومت کے چہرے سے اسلام کا نقاب اتار دیا ۔ حضرت زینب نے خطبے میں یزید اور اس کے کارندوں کو ظالم ستم کار اور عذاب کا مستحق قرار دیا حضرت زینب کے خطبے کا ترجمہ یہ ہے کہ ”اللہ کے نام سے جو بہت رحم والا نہایت مہربان ہے” سب تعریفیں اس خدا کے لئے ہیں جو کائنات کا پروردگار ہے ۔ اور خدا کی رحمتیں نازل ہوں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر اور ان کی پاکیزہ عترت و اہل بیت(علیہم السلام) پر۔ اما بعد ! بالاخر ان لوگوں کا انجام برا ہے جنہوں نے اپنے دامن حیات کو برائیوں کی سیاہی سے داغدار کر کے اپنے خدا کی آیات کی تکذیب کی اور آیات پروردگار کا مذاق اڑایا ۔ اے یزید! کیا تو سمجھتا ہے کہ تو نے ہم پر زمین کے گوشے اور آسمان کے کنارے[مختلف طرح سے] تنگ کر دئیے ہیں اور آلِ رسول کو رسیوں اور زنجیروں میں جکڑ کر دربدر پھرانے سے تو خدا کی بارگاہ میں سرفراز ہوا اور ہم رسوا ہوئے ہیں؟۔ کیا تیرے خیال میں ہم مظلوم ہو کر ذلیل ہو گئے اور تو ظالم بن کر سر بلند ہوا ہے؟۔ کیا تو سمجھتا ہے کہ ہم پر ظلم کر کے خدا کی بارگاہ میں تجھے شان و مقام حاصل ہو گیا ہے؟۔ آج تو اپنی ظاہری فتح کی خوشی میں سرمست ہے ، مسرت و شادمانی سے سرشار ہو کر اپنے غالب ہونے پر اترا رہا ہے ۔ اور زمامداری[خلافت] کے ہمارے مسلمہ حقوق کو غصب کر کے خوشی و سرور کا جشن منانے میں مشغول ہے ۔ اپنی غلط سوچ پر مغرور نہ ہو اور ہوش کی سانس لے ۔ کیا تو نے خدا کا یہ فرمان بھلا دیا ہے کہ حق کا انکار کرنے والے یہ خیال نہ کریں کہ ہم نے انہیں جو مہلت دی ہے وہ ان کے لئے بہتر ہے ۔ بلکہ ہم نے انہیں اس لئے ڈھیل دے رکھی ہے کہ جی بھر کر اپنے گناہوں میں اضافہ کر لیں ۔ اور ان کے لئے خوفناک عذاب معین کیا جا چکا ہے ۔ اس کے بعد فرمایا :اے طلقاءکے بیٹے (آزاد کردہ غلاموں کی اولاد) کیا یہ تیرا انصاف ہے کہ تو نے اپنی مستورات اور لونڈیوں کو چادر اور چار دیواری کا تحفظ فراہم کر کے پردے میں بٹہا رکھا ہوا ہے جبکہ رسول زادیوں کو سر برہنہ در بدر پھرا رہا ہے ۔ تو نے مخدرات عصمت کی چادریں لوٹ لیں اور ان کی بے حرمتی کا مرتکب ہوا ۔ تیرے حکم پر اشقیاءنے رسول زادیوں کو بے نقاب کر کے شہر بہ شہر پھرایا ۔ تیرے حکم پر دشمنان خدا، اہل بیت رسولکی پاکدامن مستورات کو ننگے سر لوگوں کے ہجوم میں لے آئے ۔ اورلوگ رسول زادیوں کے کھلے سر دیکھ کر ان کا مذاق اڑا رہے ہیں اور دور و نزدیک کے رہنے والے سب لوگ ان کی طرف نظریں اٹھا اٹھا کر دیکھ رہے ہیں ۔ ہر شریف و کمینے کی نگاہیں ان پاک بی بیوں کے ننگے سروں پر جمی ہیں ۔آج رسول زادیوں کے ساتھ ہمدردی کرنے والا کوئی نہیں ہے ۔ آج ان قیدی مستورات کے ساتھ ان کے مرد موجود نہیں ہیں جو اِن کی سرپرستی کریں ۔ آج آلِ محمد کا معین و مددگار کوئی نہیں ہے ۔ اس شخص سے بھلائی کی کیا توقع ہو سکتی ہے جس کی ماں (یزید کی دادی) نے پاکیزہ لوگوں کے جگر کو چبایا ہو ۔ اور اس شخص سے انصاف کی کیا امید ہو سکتی ہے جس نے شہیدوں کا خون پی رکہا ہو۔ وہ شخص کس طرح ہم اہل بیت(علیہم اسلام) پر مظالم ڈھانے میں کمی کر سکتا ہے جو بغض و عداوت اور کینے سے بھرے ہوئے دل کے ساتھ ہمیں دیکھتا ہے ۔ اے یزید ! کیا تجھے شرم نہیں آتی کہ تو اتنے بڑے جرم کا ارتکاب کرنے اور اتنے بڑے گناہ کو انجام دینے کے باوجود فخر و مباہات کرتا ہوا یہ کہہ رہا ہے کہ آج اگر میرے اجداد موجود ہوتے تو ان کے دل باغ باغ ہو جاتے اور مجھے دعائیں دیتے ہوئے کہتے کہ اے یزید تیرے ہاتھ شل نہ ہوں ۔ اے یزید ! کیا تجھے حیا نہیں آتی کہ تو جوانانِ جنت کے سردار حسین ابن علی (علیہ السلم) کے دندان مبارک پر چھڑی مار کر ان کی بے ادبی کر رہا ہے ۔ اے یزید، تو کیوں خوش نہ ہو اور فخر و مباہات کے قصیدے نہ پڑھے کیونکہ تو نے اپنے ظلم و استبداد کے ذریعے فرزند رسول خدا اور عبدالمطلب کے خاندانی ستاروں کا خون بہا کر ہمارے دلوں کے زخموں کو گہرا کر دیا ہے اور شجرہ طیبہ کی جڑیں کاٹنے کے گھناونے جرم کا مرتکب ہوا ہے ۔تو نے اولاد رسول کے خون میں اپنے ہاتھ رنگین کئے ہیں ۔ تو نے عبدالمطلب کے خاندان کے ان نوجوانوں کو تہہ تیغ کیا ہے جن کی عظمت و کردار کے درخشندہ ستارے زمین کے گوشے گوشے کو منور کیے ہوئے ہیں ۔ آج تو آلِ رسول کو قتل کر کے اپنے بد نہاد[برے] اسلاف کو پکار کر انہیں اپنی فتح کے گیت سنانے میں منہمک ہے ۔ تو سمجہتا ہے کہ وہ تیری آواز سن رہے ہیں؟ ! (جلدی نہ کر) عنقریب تو بہی اپنے ان کافر بزرگوں کے ساتھ جا ملے گا اور اس وقت اپنی گفتار و کردار پر پشیمان ہو کر یہ آرزو کرے گا کہ کاش میرے ہاتھ شل ہو جاتے اور میری زبان بولنے سے عاجز ہوتی اور میں نے جو کچھ کیا اور کہا اس سے باز رہتا ۔ اس کے بعد حضرت زینب نے آسمان کی طرف منہ کر بارگاہِ الٰہی میں عرض کیا ! اے ہمارے پروردگار، تو ہمارا حق ان ظالموں سے ہمیں دلا دے اور تو ہمارے حق کا بدلہ ان سے لے ۔ اے پردگار تو ہی ان ستمگروں سے ہمارا انتقام لے ۔ اور اے خدا تو ہی ان پر اپنا غضب نازل فرما جس نے ہمارے عزیزوں کو خون میں نہلایا اور ہمارے مددگاروں کو تہہ تیغ کر دیا ۔ اے یزید ! (خدا کی قسم ) تو نے جو ظلم کیا ہے یہ اپنے ساتھ ظلم کیا ہے ۔ تو نے کسی کی نہیں بلکہ اپنی ہی کھال چاک کی ہے ۔ اور تو نے کسی کا نہیں بلکہ اپنا ہی گوشت کاٹا ہے ۔ تو رسولِ خدا کے سامنے ایک مجرم کی صورت میں لایا جائے گا اور تجھ سے تیرے اس گھناونے جرم کی باز پرس ہو گی کہ تو نے اولادِ رسول کا خونِ ناحق کیوں بہایا اور رسول زادیوں کو کیوں دربدر پھرایا ۔ نیز رسول کے جگر پاروں کے ساتھ ظلم کیوں روا رکھا ۔ اے یزید ! یاد رکھ کہ خدا، آلِ رسول کا تجھ سے انتقام لے کر ان مظلوموں کا حق انہیں دلائے گا ۔ اور انہیں امن و سکون کی نعمت سے مالامال کر دے گا ۔ خدا کا فرمان ہے کہ تم گمان نہ کرو کہ جو لوگ راہِ خدا میں مارے گئے وہ مر چکے ہیں ۔ بلکہ وہ ہمیشہ کی زندگی پا گئے اور بارگاہِ الٰہی سے روزی پا رہے ہیں ۔ اے یزید ! یاد رکھ کہ تو نے جو ظلم آلِ محمد پر ڈھائے ہیں اس پر رسول خدا ، عدالتِ الٰہی میں تیرے خلاف شکایت کریں گے ۔ اور جبرائیلِ امین آلِ رسول کی گواہی دیں گے ۔ پھر خدا اپنے عدل و انصاف کے ذریعہ تجھے سخت عذاب میں مبتلا کر دے گا ۔ اور یہی بات تیرے برے انجام کے لئے کافی ہے ۔ عنقریب وہ لوگ بھی اپنے انجام کو پہنچ جائیں گے جنہوں نے تیرے لئے ظلم و استبداد کی بنیادیں مضبوط کیں اور تیری آمرانہ سلطنت کی بساط بچھا کر تجھے اہل اسلام پر مسلط کر دیا ۔ ان لوگوں کو بہت جلد معلوم ہو جائے گا کہ ستمگروں کا انجام برا ہوتا ہے اور کس کے ساتھی ناتوانی کا شکار ہیں ۔ اس کے بعد فرمایا : اے یزید ! یہ گردش ایام اور حوادث روزگار کا اثر ہے کہ مجھے تجھ جیسے بدنہاد [برے انسان] سے ہمکلام ہونا پڑا ہے اور میں تجھ جیسے ظالم و ستمگر سے گفتگو کر رہی ہوں ۔ لیکن یاد رکھ میری نظر میں تو ایک نہایت پست اور گھٹیا شخص ہے جس سے کلام کرنا بھی شریفوں کی توہین ہے ۔ میری اس جرائت سخن پر تو مجھے اپنے ستم کا نشانہ ہی کیوں نہ بنا دے لیکن میں اسے ایک عظیم امتحان اور آزمائش سمجھتے ہوئے صبر و استقامت اختیار کروں گی اور تیری بد کلامی و بدسلوکی میرے عزم و استقامت پر اثر انداز نہیں ہو سکتی۔اے یزید ! آج ہماری آنکھیں اشکبار ہیں اور سینوں میں آتش غم کے شعلے بھڑک رہے ہیں ۔ افسوس تو اس بات پر ہے کہ شیطان کے ہمنوا اور بدنام لوگوں نے رحمان کے سپاہیوں اور پاکباز لوگوں کو تہہ تیغ کرڈالا ہے ۔ اور ابھی تک اس شیطانی ٹولے کے ہاتھوں سے ہمارے پاک خون کے قطرے ٹپک رہے ہیں ۔ ان کے ناپاک دہن ہمارا گوشت چبانے میں مصروف ہیں اور صحرا کے بھیڑیئے ان پاکباز شہیدوں کی مظلوم لاشوں کے ارد گرد گھوم رہے ہیں اور جنگل کے نجس درندے ان پاکیزہ جسموں کی بے حرمتی کر رہے ہیں ۔ اے یزید ! اگر آج تو ہماری مظلومیت پر خوش ہو رہا ہے اور اسے اپنے دل کی تسکین کا باعث سمجھ رہا ہے تو یاد رکھ کہ جب قیامت کے دن اپنی بد کرداری کی سزا پائے گا تو اس کا برداشت کرنا تیرے بس سے باہر ہو گا ۔ خدا عادل ہے اور وہ اپنے بندوں پر ظلم نہیں کرتا ۔ ہم اپنی مظلومیت اپنے خدا کے سامنے پیش کرتے ہیں ۔ اور ہر حال میں اسی کی عنایات اور عدل و انصاف پر ہمارا بھروسہ ہے ۔ اے یزید ! تو جتنا چاہے مکر و فریب کر لے اور بھر پور کوشش کر کے دیکھ لے مگر تجہے معلوم ہونا چاہیئے کہ تو نہ تو ہماری یاد لوگوں کے دلوں سے مٹا سکتا ہے اور نہ ہی وحی الٰہی کے پاکیزہ آثار محو کر سکتا ہے ۔تو یہ خیال خام اپنے دل سے نکال دے کہ ظاہر سازی کے ذریعے ہماری شان و منزلت کو پا لے گا ۔تو نے جس گھناونے جرم کا ارتکاب کیا ہے اس کا بد نما داغ اپنے دامن سے نہیں دھو پائے گا ۔ تیرا نظریہ نہایت کمزور اور گھٹیا ہے ۔تری حکومت میں گنتی کے چند دن باقی ہیں ۔ تیرے سب ساتھی تیرا ساتھ چھوڑ جائیں گے ۔ تیرے پاس اس دن کی حسرت و پریشانی کے سوا کچھ بھی نہیں بچے گا ۔ جب منادی ندا کرے گا کہ ظالم و ستمگر لوگوں کے لئے خدا کی لعنت ہے ۔ ہم خدائے قدوس کی بارگاہ میں سپاس گزار ہیں کہ ہمارے خاندان کے پہلے فرد حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو سعادت و مغفرت سے بہرہ مند فرمایا اور امام حسین علیہ السلام کو شہادت و رحمت کی نعمتوں سے نوازا ۔ ہم بارگاہِ ایزدی میں دعا کرتے ہیں کہ وہ ہمارے شہیدوں کے ثواب و اجر میں اضافہ و تکمیل فرمائے اور ہم باقی سب افراد کو اپنی عنایتوں سے نوازے، بے شک خدا ہی رحم و رحمت کرنے والا اور حقیقی معنوں میں مہربان ہے ۔ خدا کی عنایتوں کے سوا ہمیں کچھ مطلوب نہیں اور ہمیں صرف اور صرف اسی کی ذات پر بھروسہ ہے اس لئے کہ اس سے بہتر کوئی سہارا نہیں ہے












