اسلام آباد(ٹی این ایس) وزیراعظم شہباز شریف کا کرغزستان میں پاکستانی طلباء پر تشدد پراظہار تشویش

 
0
65

وزیراعظم شہباز شریف کا کرغزستان میں پاکستانی طلباء پر تشدد پراظہار تشویش.. وزیراعظم شہباز شریف کا کہنا ہے کہ کرغزستان سے جو طلبا پاکستان آنا چاہیں، سرکاری خرچ پر ان کی فوری واپسی یقینی بنائیں، طلبہ اور والدین کے درمیان رابطے کےلیے سفارتخانہ ہر قسم کی معاونت فراہم کرے۔ اعلامیہ وزیر اعظم آفس میں کہا گیا کہ امیر مقام بشکیک میں اعلیٰ سرکاری حکام سے ملاقات کریں گے، انجینئر امیر مقام پاکستانی طلبا سے بھی ملاقات کریں گے، ان کے مسائل سنیں گے۔

وزیراعظم نے کہا کہ کرغزستان میں غیر ملکی طلبا مخالف فسادات پر گہری تشویش ہوئی، پاکستانی سفارتخانہ زخمی طلبا کو علاج معالجے کی بہترین سہولتوں کی فراہمی میں معاونت یقینی بنائے، مشکل وقت میں پاکستان کے بیٹے اور بیٹیوں کو اکیلا نہیں چھوڑیں گے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے بشکیک میں پاکستانی سفیر کو پاکستانی طلبہ کی ہر ممکن مدد کرنے کی ہدایت کردی ہے وزیراعظم نے کرغزستان میں پاکستانی اور دیگر ممالک کے طلبہ کی صورتحال پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے اور وہ مسلسل اپنے آپ کو صورت حال سے آگاہ رکھے ہوئے ہیں۔شہباز شریف نے کرغزستان میں پاکستانی سفیر حسن علی سے ٹیلی فونک رابطہ کیا اور پاکستانی طلبہ کو ہر قسم کی مدد و معاونت فراہم کرنے کی ہدایت کی۔کرغزستان کے دارالحکومت بشکیک میں 13 مئی کو بودیونی کے ہاسٹل میں مقامی اور غیرملکی طلبہ میں لڑائی ہوئی تھی، جھگڑے میں ملوث 3 غیرملکیوں کو حراست میں لیا گیا تھا۔17مئی کی شام چوئی کرمنجان دتکا کے علاقے میں مقامیوں نے احتجاج کیا، مقامی افراد نے جھگڑے میں ملوث غیرملکیوں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا ، بشکیک سٹی داخلی امور ڈائرکٹریٹ کے سربراہ نے مظاہرہ ختم کرنے کی درخواست کی۔میڈیا کے مطابق حراست میں لیے گئے غیرملکیوں نے بعد میں معافی بھی مانگی لیکن مظاہرین نے منتشر ہونے سے انکار کیا اور وہ مزید تعداد میں جمع ہوگئے، پبلک آرڈر کی خلاف ورزی پر متعدد افراد کو حراست میں بھی لیا گیا۔کرغز وفاقی پولیس کے سربراہ سے مذاکرات کے بعد مظاہرین منتشر ہوگئے تھے۔کرغزستان میں پاکستانیوں سمیت غیرملکی طلبہ کے خلاف تشدد کے واقعات کے بعد کرغز سفارتخانے کے ناظم الامور کو ڈیمارش کیلئے دفتر خارجہ طلب کیا گیا تھا جبکہ وزیراعظم نے بھی پاکستانی طلبہ کی ہر ممکن مدد کرنیکی ہدایت کی ہے۔
وزیراعظم شہباز شریف نے نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ اسحاق ڈار کو کرغزستان بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے۔ وزیر خارجہ کے ہمراہ، وفاقی وزیر امیر مقام بھی کرغزستان جائیں گے۔ دونوں وزراء آج صبح خصوصی طیارے کے ذریعے بشکیک روانہ ہوں گے۔وزیر خارجہ بشکیک میں اعلیٰ حکام سے ملاقاتیں کریں گے۔ وزیر خارجہ زخمی طلباء کو علاج کی سہولتوں کی فراہمی یقینی بنائیں گے۔وزیر خارجہ پاکستانی طلبہ کی وطن واپسی کے معاملات کا جائزہ لیں گے۔وزیراعظم بشکیک میں پاکستانی سفیر سے بھی رابطے میں رہے اور پورا دن صورتحال کا جائزہ لیتے رہے۔کرغزستان کے دارالحکومت بشکیک میں پاکستانی طلبہ پر تشدد اور حملوں کی حقیقت سامنے آگئی۔پاکستانی طلبہ کا کہنا ہے کہ جھگڑا کرغز طلبہ کے مصری طالبات کو ہراساں کرنے پر شروع ہوا، مصری طلبہ کے ردعمل کے بعد ہنگامے پھوٹ پڑے۔کرغز طلبہ نے غیرملکی طلبا و طالبات پر حملے کیے اور سوشل میڈیا پر بھی حملوں کے لیے اکسایا گیا، ہاسٹل میں لڑکوں اور لڑکیوں پر تشدد بھی کیا گیا۔بشکیک میں 13 مئی کو بودیونی کے ہاسٹل میں مقامی اور غیرملکی طلبہ میں لڑائی ہوئی تھی، جھگڑے میں ملوث 3 غیرملکیوں کو حراست میں لیا گیا تھا۔کرغز میڈیا کے مطابق 17مئی کی شام چوئی کرمنجان دتکا کے علاقے میں مقامیوں نے احتجاج کیا، مقامی افراد نے جھگڑے میں ملوث غیرملکیوں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا ، بشکیک سٹی داخلی امور ڈائرکٹریٹ کے سربراہ نے مظاہرہ ختم کرنے کی درخواست کی۔ میڈیا کے مطابق حراست میں لیے گئے غیرملکیوں نے بعد میں معافی بھی مانگی لیکن مظاہرین نے منتشر ہونے سے انکار کیا اور وہ مزید تعداد میں جمع ہوگئے، پبلک آرڈر کی خلاف ورزی پر متعدد افراد کو حراست میں بھی لیا گیا۔وفاقی پولیس کے سربراہ سے مذاکرات کے بعد مظاہرین منتشر ہوگئے تھے۔پاکستانی سفیر حسن ضیغم نے کرغزستان کے نائب وزیر خارجہ امنگازیف الماز سے ملاقات کر کے پاکستانی طلبہ اور ان کے اہلخانہ کے خدشات سے آگاہ کیا۔پاکستانی سفیر نے نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار کی ہدایت پر ملاقات کی۔پاکستانی سفیر حسن ضیغم نے کہا کہ کرغز حکومت پاکستانی شہریوں کے تحفظ کو ترجیح دے۔کرغز نائب وزیر خارجہ نے کہا کہ کرغز حکام نےصورتحال پر قابو پالیا ہے، پولیس تمام ہاسٹلز کو سیکیورٹی فراہم کر رہی ہے، معاملے کی براہ راست نگرانی کرغز صدر کر رہے ہیں۔کرغزستان حکومت مجرموں کے خلاف قانونی کارروائی کرے گی، پاکستانیوں سمیت 14 غیر ملکی شہریوں کو ابتدائی طبی امداد دی گئی ہےبشکیک میں پاکستانی طلبہ اب بھی مشکل میں ہیں طلبہ ہاسٹلز میں محصور ہوکر رہ گئے ہیں اور حکومت سے بحفاظت واپسی کی اپیل کی ہے۔کرغزستان کے دارالحکومت بشکیک میں موجود پاکستانی طالبہ نےبتایا ہے کہ یہاں ہنگامہ آرائی جاری ہے، غیرملکی طلبہ محصور ہیں, پاکستانی طالبہ کا کہنا ہے کہ پاکستانی لڑکے اور لڑکیاں ہاسٹلز سے باہر پانی اور کھانا لینے بھی نہیں جاسکتے، 13 مئی کو جھگڑا مصری طلبہ سے ہوا تھا مگر غصہ کل رات پاکستانی اور بھارتی طلبہ پر نکالا گیا۔طالبہ کا کہنا ہے کہ پاکستانی طالبات کو بھی ہراساں کیا گیا، پاکستانی لڑکیوں نے واش رومز میں چھپ کر اپنی جانیں اور عزتیں بچائیں، کرغز پولیس اور پاکستانی سفارتخانے نے ہماری کوئی مدد نہیں کی۔طالبہ کا کہنا ہے کہ مناس انٹرنیشنل ایئر پورٹ پر شرپسند کرغز نوجوان بڑی تعداد میں موجود ہیں، ہمیں ہاسٹل اور رہائش گاہوں سے نہ نکلنے کا کہا گیا ہے۔طالبہ نے کہا ہے کہ پاکستانی سفارت خانے سے کوئی جواب نہیں مل رہا ہم پریشان ہیں، ایئر پورٹ جانے والے غیرملکی طلبہ پر بھی حملے کیےجارہے ہیں۔ طلبہ کا کہنا ہے کہ جھگڑا کرغز طلبہ کے مصری طالبات کو ہراساں کرنے پر شروع ہوا اور پھر مصری طلبہ کے ردعمل کے بعد ہنگامے پھوٹ پڑے۔کرغزستان کی حکومت نے بشکیک میں ہونے والے ہنگاموں میں کسی بھی پاکستانی طالب علم کے جاں بحق نہ ہونے کی تصدیق کردی ہے۔حکام کا کہنا ہے کہ کرغزستان کی حکومت نے تصدیق کی ہے کہ غیرملکی طلبا کے خلاف پُرتشدد ہنگاموں میں کسی پاکستانی طالب علم کی موت نہیں ہوئی۔ کرغزستان کی وزارت داخلہ نے بھی پریس ریلیز جاری کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ صورتحال کنٹرول میں ہےاس سے قبل کرغزستان کے دارالحکومت بشکیک میں مقامی اور غیرملکی طلبہ میں لڑائی اور ہنگامہ آرائی کا واقعہ پیش آیا تھا۔
بعدازاں پاکستانی طلبہ کے ہاسٹلز پر حملے اور توڑ پھوڑ کے واقعے میں متعدد طلبہ زخمی بھی ہوئے۔بشکیک میں میڈیکل کے پاکستانی طالبعلم محمد عبداللہ نے کہا کہ جھگڑا کرغز طلبہ کی جانب سے مصری طالبات کو ہراساں کرنے پر شروع ہوا۔پاکستانی طالبعلم کا کہنا ہے کہ کرغز طلبہ کے خلاف مصری طلبہ کے ردعمل کے بعد ہنگامے پھوٹ پڑے، کرغز طلبہ پورے بشکیک میں غیرملکی طلبا و طالبات پر حملے کر رہے ہیں۔ترجمان دفتر خارجہ ممتاز زہرا بلوچ نے کہا کہ پاکستانی طلبہ سے متعلق پاکستان کرغز حکام سے رابطےمیں ہے۔ پاکستانیوں کی حفاظت انتہائی اہمیت کی حامل ہے، کرغزستان میں پاکستان کے سفیر اور انکی ٹیم ایمرجنسی نمبروں پر موجود ہے۔جمہوریہ کرغزستان وسط ایشیا میں واقع ایک ترکستانی ریاست ہے۔ اس کے شمال میں قازقستان، مغرب میں ازبکستان، جنوب میں تاجکستان اور مشرق میں عوامی جمہوریہ چین واقع ہیں۔ اس کا دار الحکومت اس کا سب سے بڑا شہر بشکیک ہے ۔ اس کا رقبہ تقریبا 198,500 مربع کلومیٹر ہے اور آبادی ساٹھ لاکھ کے قریب ہے جس میں سے 90 فیصد مسلمان ہیں۔ کرغیز کے علاوہ یہاں روسی، ازبک، ایغور اور زونگار بھی بڑی تعداد میں آباد ہیں۔کرغیز کے معنی ہیں “ہم چالیس” جس سے مراد کرغز کے وہ چالیس قبیلے ہیں جو ترک روایت کے مطابق زمانہ قدیم میں متٌحد ہو کر ایک قوم بن گئے تھے۔ کرغیزستانی جھنڈے پر اس اتحاد کی نشان دہی چالیس کرنیں ہیں۔ جبکہ درمیان میں دائیرہ مقامی خیمے، یرت کے مرکز کی نشان دہی کرتا ہے۔ بعض تاریخ دانوں اور زبان شناسوں کے مطابق قرقیز کے اصل لفظی معنی لال ہیں جو اس علاقہ میں مقیم ترک قبیلوں کا قومی رنگ ہوا کرتا تھا۔ کرغزستان کی تاریخ مختلف ثقافتوں اور سلطنتوں پر محیط ہے۔ اگرچہ جغرافیائی طور پر اپنے انتہائی پہاڑی علاقے کی وجہ سے الگ تھلگ ہے، لیکن کرغزستان دیگر تجارتی راستوں کے ساتھ شاہراہ ریشم کے حصے کے طور پر کئی عظیم تہذیبوں کے سنگم پر رہا ہے۔ قبائل اور خاندانوں کی پے در پے آباد ہونے کی وجہ سے کرغزستان کا ماضی بہت بڑے علاقے پر پھیلا ہوا ہے، مثال کے طور پر ترک خانہ بدوش، جو بہت سی ترک ریاستوں سے اپنا نسب جوڑتے ہیں۔ یہ سب سے پہلے یینیسی کرگی خاقانیت کے طور پر قائم کیا گیا۔ بعد میں، 13ویں صدی میں، کرغزستان کو منگولوں نے فتح کر لیا۔ اس نے دوبارہ آزادی حاصل کر لی، لیکن بعد میں زونگار خاقانیت نے اس پر حملہ کر دیا۔ زونگاروں کے زوال کے بعد، کرغیز اور کپچاک خوقند خاقانیت کا لازمی حصہ رہے۔ 1876ء ​​میں، کرغزستان روسی سلطنت کا حصہ بن گیا اور 1936ء میں، کرغیز سوویت سوشلسٹ جمہوریہ کو سوویت یونین کا ایک جزوی جمہوریہ بننے کے لیے تشکیل دیا گیا۔ سوویت روس میں میخائل گورباچوف کی جمہوری اصلاحات کے بعد، 1990ء میں آزادی کے حامی امیدوار عسکر آکایف صدر منتخب ہوئے۔ 31 اگست 1991ء کو کرغزستان نے ماسکو سے آزادی کا اعلان کیا اور ایک جمہوری حکومت قائم ہوئی۔ کرغزستان نے 1991ء میں سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد ایک قومی ریاست کے طور پر خود مختاری حاصل کی۔ آزادی کے بعد، کرغزستان باضابطہ طور پر ایک واحد صدارتی جمہوریہ تھا۔ ٹیولپ انقلاب کے بعد یہ ایک وحدانی پارلیمانی جمہوریہ بن گیا، حالانکہ اس نے بتدریج ایک ایگزیکٹو صدر بنایا اور 2021ء میں صدارتی نظام میں واپس آنے سے پہلے ایک نیم صدارتی جمہوریہ کے طور پر حکومت بنی۔ اپنی آزادی کے ساتھ ہی کرغیزستان اقتصادی مشکلات، عبوری حکومتوں اور سیاسی تنازعات کا شکار رہا ہے۔ کرغزستان آزاد ریاستوں کی دولت مشترکہ، یوریشین اکنامک یونین، اجتماعی سلامتی معاہدہ تنظیم، شنگھائی تعاون تنظیم، اسلامی تعاون تنظیم، یورپ میں سلامتی اور تعاون کی تنظیم، ترک ریاستوں کی تنظیم ، ترکسوئے کمیونٹی اور اقوام متحدہ کا رکن ہے۔ یہ ایک ترقی پزیر ملک ہے جو انسانی ترقی کے 118 ویں نمبر پر ہے اور پڑوسی ملک تاجکستان کے بعد وسطی ایشیا کا دوسرا غریب ترین ملک ہے۔ ملک کی عبوری معیشت سونے، کوئلے اور یورینیم کے ذخائر پر بہت زیادہ انحصار کرتی ہے۔
کرغیز ترک زبان کے لفظ جس کے معنی ہیں،”ہم چالیس ہیں” سے ماخوذ ہے، جس کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ ماناس کے چالیس قبیلوں کا حوالہ سے ہے، جو ایک افسانوی ہیرو تھا جس نے چالیس علاقائی قبیلوں کو متحد کیا۔ -ستان فارسی میں ایک لاحقہ ہے جس کا مطلب ہے “کا ملک”۔ کرغزستان کے جھنڈے پر 40 شعاعوں کا سورج انہی چالیس قبائل کا حوالہ ہے اور سورج کے مرکز میں تصویری عنصر لکڑی کے تاج کو دکھایا گیا ہے، جسے تندوک کہا جاتا ہے، یہ ایک یرت – ایک خیمہ گاہ جسے روایتی طور پر خانہ بدوش وسطی ایشیا کے میدانوں میں استعمال کرتے ہیں۔ ملک کا سرکاری نام جمہوریہ کرغیز ہے، جو بین الاقوامی طور پر اور خارجہ تعلقات میں استعمال ہوتا ہے۔ انگریزی بولنے والی دنیا میں، کرغزستان کے ہجے عام طور پر استعمال ہوتے ہیں، جبکہ اس کا سابقہ ​​نام کرغیزیا شاذ و نادر ہی استعمال ہوتا ہے۔
آٹھویں صدی میں جب عرب افواج نے وسط ایشیا فتح کیا تو یہاں مقیم آبادی مسلمان ہونے لگی۔ بارہویں صدی میں چنگیز خان نے اس علاقے کا قبضہ کر لیا اور یوں چھ صدیوں تک یہ چین کا حصہ رہا۔ اٹھارویں صدی کے آخر میں دو معاہدوں کے تحت یہ علاقہ روسی سلطنت کا مفوّضہ صوبہ کرغزیہ بن گیا۔ اس دور میں کئی سرکش کرغیز چین یا افغانستان منتقل ہو گئے۔ 1919ء سے یہاں سوویت دور شروع ہوا جو 31 اگست 1991ء میں جمہوریہ کرغیزستان کی آزادی کے ساتھ اپنے اختتام پر پہنچا۔
کرغیزستان کا رقبہ 198,500 مربع کلومیٹر ہے جس میں سے 80 فیصد تیان شان اور پامیر کے پہاڑی سلسلوں کا علاقہ ہے۔سب سے نچلا نقطہ کارا دریا میں 132 میٹر گہرا ہے اور سب سے اونچی چوٹیاں کاکشال۔تو رینج میں ہے، جو چینی سرحد کو تشکیل دیتی ہیں۔ چوٹی جینگش چوکسو سب سے اونچا مقام ہے۔ موسم سرما میں شدید برف باری موسم بہار کے سیلاب کا باعث بنتی ہے جو اکثر نیچے کی طرف شدید نقصان کا باعث بنتی ہے۔ پہاڑوں سے نکلنے والے پانی کے بہاؤ کو پن بجلی کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ اس علاقے کے شمال مشرق میں اسیک کول کی نمکین جھیل واقع ہے جو دنیا میں اس نوعیت کی ٹٹی کاکا کے بعد دوسری سب سے بڑی جھیل ہے۔ کرغیز زبان میں اس کے معنی “گرم جھیل” ہیں کیونکہ اتنے برفانی علاقے میں اور اس بلندی پر ہونے کے باوجود یہ سال بھر جمتی نہیں ہے۔ اس نمکین جھیل کے علاوہ کرغیزستان باقی کئی وسط ایشیائی ممالک کی طرح مکمل طور پر خشکی سے محصور ہے۔ اس کی سرحدیں کسی سمندر سے نہیں ملتیں۔ کرغزستان کی آبادی گذشتہ دہائیوں میں پچاس لاکھ تک پہنچ چکی ہے تاہم بیشتر کرغیزستانی اب بھی کسان یا خانہ بدوش ہیں۔ اسی فیصد کرغیزستانی ترک نژاد کرغز قوم سے تعلق رکھتے ہیں جب کہ بقیہ پچیس فیصد نسلاً ازبک اور روسی ہیں۔ ان کے علاوہ زونگار، تاتار، اوغر، قزاق، تاجک اور یوکرینی قومیں بھی یہاں آباد ہیں۔ اگرچہ یہاں کئی زبانیں بولی جاتی ہیں، سرکاری زبانیں صرف کرغیز اور روسی ہیں۔نوے فیصد کرغیزستانی مسلمان ہیں۔ ان میں سے اکثریت حنفی فقہ سے منسلک ہیں جو یہاں سترہویں صدی میں رائج ہوا۔ شہروں سے باہر اسلامی روایات مقامی ترک قبائلی روایات اور عقائد سے ملی ہوئی ہیں۔ بقیہ کرغیزستانی زیادہ تر روسی یا یوکرینی چرچ کے مسیحی ہیں۔ سوویت دور میں یہاں سرکاری لامذہبیت عائد تھی اور کرغیزستان کا آئین اب بھی حکومت میں دین کی مداخلت کو ممنوع قرار دیتا ہے۔ تاہم آزادی کے بعد اسلام معاشرتی اور سیاسی سطحوں پر بتدریج اہمیت حاصل کر رہا ہے۔ اس کے باوجود کچھ سیاسی اور معاشرتی گروہ اب بھی سوویت دور کی دہریت کے حامی ہیں۔کرغیزستان سات صوبوں میں مقسوم ہے جو اوبلاست کہلاتے ہیں دار الحکومت بشکیک اور وادئ فرغانہ میں واقع شہر اوش انتظامی طور پر خود مختار علاقے ہیں جو “شار” کہلاتے ہیں۔ صوباؤں کے نام ہیں: باتکین، چوئی، جلال آباد، نارین، اوش، تالاس اور ایسیک کول۔کرغیزستان کی بھاری اکثریت مسلمان آبادی پر مشتمل ہے، 1998ء کی مردم شماری کے مطابق کرغیزستان کی کل آبادی کا 86.3 فیصد اسلام کے پیروکاروں پر مشتمل ہے اور ان کی اکثریت اہلسنت ہے۔ مسلمان پہلے پہل یہاں آٹھویں صدی عیسوی میں وارد ہوئے۔آئین مذہبی آزادی کی ضمانت دیتا ہے۔ کرغزستان ایک کثیر النسلی اور اسلام کے ساتھ کثیر مذہبی ملک ہے ، بدھ مت، بہائیت، مسیحیت یہودیت اور دیگر مذاہب سب ملک میں موجود ہے۔ سنی اسلام ملک کا سب سے بڑا مذہب ہے،