دہشت گردی اس وقت پاکستان کےلیے سب سے بڑا مسئلہ بنا ہوا ہے گُزشتہ روز اسلامی کیلنڈر کے مطابق 21 صفر کو میرے پیارے بھائی شہید مظہر علی مبارک کی 12ویں برسی راولپنڈی میں منائی گئی جنہیں کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے 25 دسمبر 2013 کو ایک دہشت گرد حملے میں شہید کر دیا تھا۔حالیہ دہشت گردانہ حملوں سے دہشت گرد تنظیموں نےحکومتی رٹ کوچیلنج کیا ہے، ملک کے خلاف کام کرنے والی مذہبی سیاسی جماعتوں کے خلاف سخت ایکشن لینا جائے اس لیے نیشنل ایکشن پلان پر سختی سے فوری عمل کرنا وقت کا تقاضا اور ضرورت ہے،بدقسمتی سے پاکستان میں دہشت گرد ی کےقوانین دہشت گردوں کو سزا دینے کے لیے بہت کمزور ہیں قانون نافذ کرنے والے ادارے دہشت گردوں کو رنگے ہاتھوں پکڑ کر ٹرائل کورٹس سے سزائیں دلواتے ہیں۔
لیکن اعلیٰ عدالتوں کی طرف سے دہشت گردوں کو اپیل میں رہا کرکیا دیاجاتاہے۔ اس مقصد کے لیے قانون شہادت کا جائزہ لینا چاہیے۔روزانہ کی بنیاد پر ہمارے سول اور فوجی افراد منظم کالعدم تنظیموں کے نشانے پر ہیں۔ بلوچستان کے حالات خراب کرنے میں بیرونی عناصر موجود ہیں جن کی خواہش ہے کہ بلوچستان عدم استحکام کا شکار ہو، یہ حملہ باقاعدہ منصوبہ بندی سے ہوا ہے، وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات عطا تارڑ نے قومی اسمبلی کے گُزشتہ اجلاس کے دوران ملک میں ’دہشت گردی‘ کے بڑھتے واقعات پر بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ حکومت نے نیشنل ایکشن پلان پر نظرثانی شروع کر دی ہے۔ ’دہشت گردی‘ کے واقعات میں اضافے سے متعلق توجہ دلاؤ نوٹس پر جواب دیتے ہوئے وزیر اطلاعات و نشریات عطا تارڑ نے کہا کہ تھا’گذشتہ حکومت نے دہشت گردوں کے ساتھ مذاکرات کو ترجیح دی پاکستان میں گذشتہ کچھ عرصے کے دوران ایک مرتبہ پھر ’دہشت گردی‘ کے واقعات میں اضافہ دیکھا گیا ہے جن میں سے بعض حملوں میں غیرملکیوں کو بھی نشانہ بنایا گیا ہے اس حوالے سے قومی اسمبلی میں عطا تارڑ نے کہا کہ ’اتحادی افواج کے انخلا کے بعد دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہوا لیکن دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑنے کے لیے حکومت سرگرم ہے۔ یاد رہے کہ گزشتہ روز بلوچستان میں عسکریت پسند گروپ بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) نے ایک ہی دن میں موسیٰ خیل، مستونگ، بولان اور قلات میں مختلف واقعات میں 40 افراد کو قتل کردیا تھا جب کہ سیکیورٹی فورسز کی جوابی کارروائی میں 21 دہشت گرد جہنم واصل ہوئے ۔پاکستان کی سیکیورٹی فورسز قوم کے شانہ بشانہ بلوچستان کے امن، استحکام اور ترقی کو سبوتاژ کرنے کی کوششوں کو ناکام بنانے کے لیے پرعزم ہیں , ہمارےشہداء کی یہ عظیم قربانیاں کسی صورت رائیگاں نہیں جائیں گی
آئی ایس پی آر کےمِطابق بلوچستان کے مختلف علاقوں میں دہشتگرد حملوں کے دوران بہادری سے لڑتے ہوئے جامِ شہادت نوش کرنے والے کیپٹن محمد علی قریشی شہید(عمر29سال، ساکن ضلع لاہور)، نائیک عطاء اللہ شہید(عمر27سال، ساکن ضلع مردان)، سپاہی محمد سلیم شہید(عمر26سال، ساکن ضلع میانوالی) اور سپاہی محمد یاسر بشیر شہید(عمر26سال، ساکن ضلع ملتان) مکمل فوجی اعزاز کے ساتھ آبائی علاقوں میں سپردِ خاک کردیا گیا کیپٹن محمد علی قریشی کی نماز جنازہ میں کور کمانڈر لاہور نے شرکت کی جبکہ دیگر شہداء کی نمازِ جنازہ اور تدفین میں پاک فوج کے سینئر افسران، جوانوں، شہداء کے لواحقین اور عمائدین علاقہ کی بڑی تعداد میں شرکت کی ,دوسری طرف یورپی یونین کی خارجہ امور اور سیکیورٹی پالیسی کی ترجمان نبیلہ مسرالی نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر پیغام جاری کرتے ہوئے بتایا کہ ہم بلوچستان میں علیحدگی پسند گروپوں کے گھناؤنے حملوں کی مذمت کرتے ہیں، دہشت گردی اور تشدد کی کہیں جگہ نہیں۔انہوں نے کہا کہ ایسی کارروائیاں جمہوریت کی بنیادوں کےلیے خطرہ ہے، ہماری ہمدردی دہشت گرد حملے میں متاثر ہونے والوں کے ساتھ ہے۔ سبی، پنجگور، مستونگ، تربت، بیلہ اور کوئٹہ میں دھماکوں اور دستی بم حملوں کی بھی اطلاعات موصول ہوئیں، حکام نے تصدیق کی ہے کہ حملہ آوروں نے مستونگ کے بائی پاس علاقے کے قریب پاکستان اور ایران کو ملانے والے ریلوے ٹریک کو دھماکے سے اڑا دیا۔ضلع قلات میں ہونے والے واقعات میں سیکیورٹی اہلکاروں سمیت 11 افراد جاں بحق اور 6 زخمی ہوئے۔ضلع بولان سے 6 افراد کی لاشیں ملی ہیں، جنہیں گولیاں مارکر قتل کیا گیاضلع موسٰی خیل کے علاقے راڑہ شم کے مقام پر ٹرکوں اور مسافر بسوں سے اتارکر شناخت کے بعد 25 افراد کو فائرنگ کرکے قتل کیا گیا۔
سوال یہ ہے کہ نیشنل ایکشن پلان کی موجودگی میں آپریشن عزم استحکام شروع کیوں نہیں کیا گیا؟ ہم کسی سیاسی حل کے منتظر کیوں ہیں؟ جبکہ تمام دہشت گرد تنظیمیں ایک دوسرے کے ساتھ ہاتھ ملا چکی ہیں جبکہ تمام سیاسی جماعتیں اب بھی اختلافات میں بٹی ہوئی ہیں, پاکستان میں جو دہشت گردی ہو رہی ہے اس میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) شامل ہے، جو گزشتہ روز واقعات ہوئے ہیں اس میں کچھ اور قوتیں بھی شامل ہیں ٹی ٹی پی نے اپنا سارا کا سارا ہیڈکوارٹر افغانستان میں رکھا ہواہے، اس میں بہت سارے دہشت گرد شامل ہیں جن کو ہم نے خود چھوڑا تھا، جو دہشت گرد ہم نے چھوڑے تھے وہی آج دہشت گردی کر رہے ہیں , ملک اس وقت جس دہشت گردی کا شکار ہے اس میں نیشنل ایکشن پلان پر تیزی سے عمل کی ضرورت ہے،بھارت اور افغانستان جس طرح پاکستان میں دہشت گردی کو فروغ دے رہے ہیں اس کی روک تھام انسداد دہشت گردی کی جامع حکمت عملی سے ہی کی جاسکتی ہے،
پاکستان میں دہشت گردی پیچیدہ مسئلہ رہاہے، دہشت گردی کے ساتھ ملک میں جرائم، منشیات، اسمگلنگ، انتہا پسندی اور مذہبی منافرت کے خاتمے کو یقینی بنانے کے لئے نیشنل ایکشن پلان پرعمل کی ضرورت ہے
ایپکس کمیٹی کے اجلاس میں آپریشن عزم استحکام کا فیصلہ کیا گیاتھا، نیشنل ایکشن پلان پر سختی سے فوری عمل کرنا وقت کی ضرورت ہےاس پر عمل کر کے ملک کو معاشی بحران سے نکالنے میں مدد ملے گی، غیر ملکی سرمایہ کاروں کے اعتماد میں اضافہ ہوگا،
دہشت گردی بلاشبہ پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ ہے اوراس مسئلے سے پاکستانی قوم گزشتہ کئی سالوں سے نبرد آزما ہے,سانحہ پشاور کے بعد قوم یکسو ہوئی اور ایک بھرپور نیشنل ایکشن پلان کا آغاز کیا گیا نیشنل ایکشن پلان بہت بڑے اہداف لئے ہوئے تھا پاکستان طویل عرصے سے دہشت گردی کا شکار ہے بنیادی طور پر دہشت گردی کی وجہ مذہبی شدت پسندی ہے کیونکہ دہشت گرد مذہب کے نام پر سب کو اپنی سوچ کے ہمنوا بنانے پر تلے ہوئے ہیں۔ ان گروہوں کا کفار کے ساتھ جنگ پر اپنی طرز کا ایمان ہے لہٰذایہ ریاست پاکستان کے ہر اس شخص کو کفار کے زمرے میں شمار کرتے ہیں جو ان جیسا نہیں۔ان کے ہاں نرمی اور شگفتگی گناہ کبیرہ شمار ہوتے ہیں ۔ آج تک ان کی جتنی بھی وڈیوز سامنے آئی ہیں وہ محض ان کی بربریت ظاہر کرتی نظر آتی ہیں۔ان گروہو ں میں زیادہ تر شدت پسند رجحانات کے حامل نوجوانوں کو شامل کیا جاتا ہے کیونکہ ایسے نوجوانوں کے انتہا پسندانہ خیالات کواستعمال میں لا کر انہیں با آسانی دہشت گردی کے لئے تیار کیا جا سکتا ہے ‘یہ لوگ ان گروہوں میں شامل ہوجاتے ہیں جہاں انہیں روپیہ بھی ملتا ہے اور اپنے باغیانہ جذبات کے اندھا دھند اظہار کا موقع بھی۔ان گروہوں نے ایک طویل عرصے تک پاکستان میں اپنی من مانی کی ,آرمی پبلک سکول پشاور کے سانحہ کے بعد حکومت نے تمام سیاسی جماعتوں کی مشاورت سے ان دہشت گردوں کے خلاف کاروائی کا پلان بنایا گیا جسے ’’نیشنل ایکشن پلان‘‘ کا نام دیا گیا۔نیشنل ایکشن پلان میں طے کیے جانے والے نکات یہ تھے!1 ۔ دہشت گردوں کے خلاف کاروائی جاری رہے گی۔
2 ۔ دو سال کی مدت کے لیے اسپیشل ٹرائل کورٹس(فوجی عدالتیں) بنیں گی اور مشکوک افراد کے خلاف کاروائی میں تیزی لائی جائے گی۔
3 ۔ ملک میں کوئی نجی متوازی مسلح فورس متحرک نہیں ہوگی۔
4 نیشنل کاؤنٹر ٹیررازم اتھارٹی نیکٹا کو مضبوط اور فعال بنا یا جائے گا۔
5 ۔ نفرت انگیز مواد کو روکا جائے گا۔
6 ۔ دہشت گردوں اور دہشت گردی میں ملوث اداروں میں مالی معاونت کے عمل کو روکا جائے گا۔
7 ۔ کالعدم تنظیموں کو دوبارہ کام نہیں کرنے دیا جائے گا۔
8 ۔ دہشت گردوں کے خلاف ایک متوازی فورس قائم کی جائے گی۔
9 ۔ مذہبی تفرقہ بازی کے خلاف اقدامات کیے جائیں گے۔
10۔ تمام مدارس کی رجسٹریشن کی جائے گی۔
11 ۔ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر دہشت گردی اور دہشت گردوں کے اداروں کی تشہیر پر مکمل پابندی ہوگی۔
12 ۔ فاٹا میں ایڈمنسٹریٹو اور ترقیاتی بحالی اور آئی ڈی پیز کی واپسی پر توجہ دی جائے گی۔
13 ۔ دہشت گردی کے اداروں کے رابطے کے نیٹ ورک کو ختم کیا جائے گا۔
14 ۔ سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ پر دہشت گردی کے خلاف سوچ کو ابھارا جائے گا۔
15۔ پنجاب میں مسلح گروہوں کو قطعاً برداشت نہیں کیا جائے گا۔
16 ۔ کراچی میں جاری آپریشن کا منطقی طور پر خاتمہ کیا جائے گا۔
17 ۔ بلوچستان گورنمنٹ کے اختیارات بڑھائے جائیں گے۔
18 ۔ دہشت گردوں کے سرخیلوں سے سختی سے نمٹا جائے گا۔
19 ۔ افغان مہاجرین کی رجسٹریشن کی جائے گی۔
20 ۔ کریمنل جسٹس سسٹم کی بہتری کے لیے اقدامات اور صوبوں کی سی آئی ڈی کو مضبوط بنایا جائے گا تاکہ دہشت گردوں کے مابین ہونے والی ہر حرکت اور گفتگو پر دھیان رکھا جاسکے۔ وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی کا کہنا ہے کہ حملہ آور ناراض بلوچ نہیں دہشت گرد ہیں، بلوچستان میں حملہ کرنے والے دہشت گردوں کو بھرپور جواب دیں گے۔ لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے ذمہ دار ادارے نیکٹا کی سنجیدگی کاعالم یہ ہے کہ وفاقی وزیر داخلہ چیئرمین بورڈ آف گورنر نیکٹامحسن نقوی ہر وقت کرکٹ میں مصروف رہتے ہیں آپ دیکھ سکتے ہیں کہ چیئرمین محسن نقوی کی ترجیح پی سی بی اور کرکٹ ٹیم کو سیکیورٹی فراہم کرنا نظر آتی ہے وفاقی وزیر محسن نقوی سوچ رہے ہیں کہ کبھی چیز کرکٹ ہے اور وہ کرکٹ میں بھی ناکام ہیں جہاں بنگلہ دیش کی ٹیم نے کرکٹ کی تاریخ میں پہلی بار پاکستان کو شکست دی، محسن نقوی تمام شعبوں میں بری طرح ناکام ہوئے اور اب انہیں فوری استعفیٰ دینا چاہیے۔یاد رہے کہ نیکٹا ایکٹ کے تحت نیشنل کاؤنٹر ٹیررازم اتھارٹی کو ایک بورڈ آف گورنرز چلانا ہے، وفاقی وزیر داخلہ وفاقی وزیر، محسن نقو ی نیکٹا بورڈ آف گورنرز کے چیئرمین جبکہ سیکریٹری داخلہ، دفاع، قانون اینڈ فنانس، ڈی جی آئی بی، ڈی جی ایف آئی اے اور ڈی جیز آئی ایس آئی اینڈ ایم آئی، صوبائی ہوم سیکریٹریز اور صوبائی آئی جی نیکٹا کے بی او جی کے ممبران ہیں جن میں دو ممبران قومی اسمبلی اور دو ممبران سینیٹ اور ٹریژری اور اپوزیشن سے ایک ایک ممبر ہیں۔ نیشنل کوآرڈینیٹر نیکٹا بورڈ آف گورنرز کے سیکرٹری چیف ایگزیکٹو بھی ہیں۔ بورڈ آف گورنرز اتھارٹی کو اسٹریٹجک وژن فراہم کرتا ہے اور اس کے کاموں کی نگرانی کرتا ہے۔ یہ اتھارٹی کے سالانہ بجٹ کی بھی منظوری دیتا ہے۔ نیشنل کوآرڈینیٹر کے ذریعہ ایک ایگزیکٹو کمیٹی بلائی جاتی ہے جو بورڈ آف گورنرز کے ذریعہ تفویض کردہ کاموں کو انجام دیتی ہے۔نیشنل کاؤنٹر ٹیررازم اتھارٹی جسے عام طور پر نیکٹا کہا جاتا ہے، پاکستان کی داخلی سلامتی کا ادارہ ہے جو انسداد دہشت گردی اور انسداد انتہا پسندی کی پالیسیاں اور حکمت عملی بنانے کا ذمہ دار ہے۔
یہ دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف ایکشن پلان بھی تیار کرتا ہے اور ان پر عمل درآمد کا جائزہ لیتا ہے۔
اسے انسداد دہشت گردی کی حکمت عملی وضع کرنے کا حکم دیا گیا ہے جس میں مختصر، درمیانی اور طویل مدتی اہداف کو پورا کرنا چاہیے اور ان کے نفاذ کے لیے ایکشن پلان وضع کرنا چاہیے۔ یہ وقتاً فوقتاً جائزوں کے ساتھ خطرے کی تشخیص تیار کرتا ہے۔ یہ وفاقی حکومت کو دہشت گردی اور انتہا پسندی کے انسداد کے لیے مناسب اور بروقت کوششیں کرنے کا مشورہ دیتا ہے۔ نیکٹا کو ابتدائی طور پر 2008 میں انتظامی طور پر قائم کیا گیا تھا، لیکن اس کے اختیارات اور مینڈیٹ کو مارچ 2013 میں پارلیمنٹ کے ایک ایکٹ نیکٹا ایکٹ 2013 کے تحت واضح طور پر بیان کیا گیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا نیشنل ایکشن پلان کے لیےنیشنل کاؤنٹر ٹیررازم اتھارٹی نے قانون کے مطابق کام کیا ہے,واضح رہےکہ نیشنل کاؤنٹر ٹیررازم اتھارٹی کا کام
اعداد و شمار یا معلومات یا انٹیلی جنس کو حاصل کرنا اور ان کو اکٹھا کرنا، اور دہشت گردی اور انتہا پسندی کے انسداد کے لیے مناسب اور بروقت کوششیں کرنے کے لیے وفاقی حکومت کو پیش کیے جانے والے وقتاً فوقتاً جائزے کے ساتھ خطرات کے جائزے مرتب کرنے کے لیے تمام متعلقہ اسٹیک ہولڈرز کے درمیان پھیلانا اور ہم آہنگ کرنا؛ جامع قومی انسداد دہشت گردی اور انسداد انتہا پسندی کی حکمت عملیوں کو مربوط اور تیار کرنا، اور وقتاً فوقتاً ان کا جائزہ لینا؛دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف ایکشن پلان تیار کرنا اور ان منصوبوں پر عمل درآمد کے بارے میں وفاقی حکومت کو وقتاً فوقتاً رپورٹ کرنا؛ دہشت گردی اور انتہا پسندی سے متعلقہ موضوعات پر تحقیق کرنا اور دستاویزات تیار کرنا اور گردش کرنا؛ دہشت گردی اور انتہا پسندی سے متعلق شعبوں میں تعاون کو آسان بنانے کے لیے بین الاقوامی اداروں کے ساتھ رابطہ قائم کرنا؛ متعلقہ قوانین کا جائزہ لینا اور وفاقی حکومت کو ترامیم تجویز کرنا؛ اور
اتھارٹی کے مینڈیٹ اور کاموں سے متعلق شعبوں میں بات چیت کے لیے سرکاری اور غیر سرکاری اداروں کے ماہرین کی کمیٹی کا تقرر کرناہے۔ نیشنل ایکشن پلان کےتحت وزیر اعظم کی جانب سے 15 سب کمیٹیاں اناؤنس کی گئیں جو دہشت گردی سے نمٹنے کی حکمت عملی تیار کرنے کے مسلح گروپوں‘نفرت انگیز مواد‘ دہشت گردوں کو فنانس‘ کالعدم تنظیموں‘ دہشت گردی کے خلاف فورس‘ مذہبی تفرقہ بازی‘ مدرسوں کی رجسٹریشن اور میڈیا پر دہشت گردوں کے پیغامات روکنے کے حوالےسے کام کرنے کے لئےہیں,
اس میں کوئی مبالغہ نہیں ہےتمام کمیٹیاں فعال نہیں ہیں ہر محکمے نے کارگذاری رپورٹ سامنے ہے اگر ہم ان اہداف کودیکھیں جن کا تعین نیشنل ایکشن پلان میں کیا گیاتھا تو نتیجہ صفر ہے
نتیجتاً دہشت گرد اکٹھے ہو گئے نیشنل ایکشن پلان میں ہدف فوجی عدالتوں کا قیام بھی تھاقطع نظر اس بحث سے کہ یہ فیصلہ درست تھا یا نہیں ‘فوجی عدالتوں کے قیام کا ہدف بہترین انداز میں حاصل ہوا ‘ ان عدالتوں کے قیام کے لئے نہ صرف آئین میں ترمیم منظور کی گئی بلکہ اس تحت ذیلی قوانین بنائے گئے ‘فوجی عدالتیں قائم کی گئیں اور ان عدالتوں نے مجرمان کوسزا سنا ئی ,اگلا ہدف تھاکہ ملک میں مسلح جتھوں کو کام کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی یہ ہدف حاصل نہیں ہو سکا ‘ سرکار کی ناک کے نیچے مسلح گروہ مختلف ناموں سے کام کر رہے ہیں اب بھی جلسے منعقد کرتے ‘ ریلیاں نکالتے ہیں ‘ بیان بازی کرتے ہیں ,نیشنل ایکشن پلان میں
ہدف تھاکہ قومی ادارہ برائے انسداد دہشت گردی(نیکٹا) کو فعال اور موثر بنایا جائے گا۔اس ضمن میں بھی نتیجہ صفر ہے دہشت گردی کی جنگ میں متعلقہ ادارےکی ویب سائٹ کےسوا کچھ نہیں‘ا یک ہدف تھاکہ
نفرت پر مبنی تقاریر اور مواد شائع کرنے والوں کے خلاف سخت کاروائی کی جائے گی یہاں کچھ پیش رفت نہیں ہے ‘ وال چاکنگ کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے لاؤڈ سپیکر کی خلاف ورزی پر گرفتاری بھی نہیں کی جاتی‘ پنجاب حکومت نے دہشت گردوں کی حمایت کرنے کی پاداش میں سزا کا آرڈیننس بھی جاری کیا اس پرایکشن صفر ہے دہشت گرد تنظیموں کی فنڈنگ کے ذرائع بھی جاری ہیں۔موبائل فون سمز ہر اس جگہ پر مفت میں پیش کیے جاتے ہیں جہاں اب تک کوئی چیک اور بیلنس لاگو نہیں کیا گیا ہے، تصدیق پر ذاتی طور پر بایومیٹرک کی تصدیق کرنا ضروری ہے
مدرسوں کا ضابطہ کار ,ان میں اصلاحات میں پیش رفت نہیں کوئی اقدام نہیں کیا گیا اقلیتوں کے تحفظ اور مذہبی انتہا کے خاتمے کے لئے کوئی اقدام نہیں کیے گے ‘تمام واقعات ریکارڈ پر ہیں۔نیشنل ایکشن پلان میں
ہدف تھاکہ کالعدم تنظیموں کوکسی اور نام سے کام کرنے کی اجازت نہیں ہوگی‘ کالعدم تنظیم کے افراد کو بلیک لسٹ کیا جائے کیونکہ کالعدم تنظیمیں نئے نام لے کر سامنے آتی ہیں لیکن افراد وہی رہتے ہیں,اس ضمن میں دیکھنا چاہیے کون سی کالعدم تنظیمیں نام بدل کر کام کر رہی ہیں فوجداری عدالتی نظام میں اصلاحات کی غرض سے آئین میں ترمیم کے بعد ضروری قوانین نافذ کرنےمیں پیش رفت نہیں ہو سکی‘نیشنل ایکشن پلان میں انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے ذریعے دہشت گرد وں کا پروپیگنڈا بند کیا جاناتھا‘ سوشل میڈیا پر دہشت گرد پھیلے ہوئے ہیں۔ پاک فوج اور دیگر اداروں کو دشمنوں کی طرف سے نشانہ بنایا جاتا ہے جو قوانین متعارف کرائے ہیں دہشت گرد وں کو سزا نہیں دی جا سکتی۔
نتیجتاً سوشل میڈیا پاک فوج دشمنی سے بھرا ہوا ہے۔
اس مقصد کے لیے ڈیجیٹل دہشت گردی کے خلاف نئے قوانین متعارف کرائے جائیں جو پہلے کی ضروریات پوری نہیں کر سکتے۔
ہدف تھاکہ خصوصی فورس برائے انسداد دہشت گردی کھڑی کی جائے گی ‘یہ ہدف بہت حد تک پنجاب اور بلوچستان میں حاصل کر لیا گیا‘لیکن بلوچستان میں معصوم لوگوں پر حالیہ حملے سوالیہ نشان ہیں کیونکہ ہم کام اور فرض پاک فوج پر نہیں ڈال سکتے اس حوالے سے دیگر ذمہ دار کہاں ہیں؟نیشنل ایکشن پلان میں ہدف تھاکہ میڈیا میں دہشت گردوں کے بیانئے کو جگہ نہیں دی جائے گی ‘یہ ہدف بھی حاصل نہیں ہوا اس میں میڈیا نے خود ذمہ داری نہیں دکھائی, میڈیا کو ایک ہی سیٹلائٹ پر لانے کی کوشش کی گئی تاکہ ان پر موثر کنٹرول رکھا جاسکے تاہم اس پر بعض میڈیا مالکان نے اسے آزادی اظہار کے خلاف قرار دیا۔صوبوں میں دہشت گردی کے حوالے فوری ردعمل کے لیے سپیشل فورس’’نیشنل کاؤنٹر ٹیررزم اتھارٹی‘‘ بنائی گئی جن میں پنجاب خیبرپختونخواہ بلوچستان اور سندھ سے شامل کیے گئے۔اس نیشنل کاؤنٹر ٹیررزم اتھارٹی کو ہر قسم کی خفیہ معلومات فراہم کی گئیں تاکہ یہ اپنے طور پر ان کا تجزیہ کرکے دہشت گردی کے خلاف اپنا کردار ادا کر سکیں۔نیشنل ایکشن پلان میں کا کردار بھی واضح کیا گیا لیکن نتیجہ صفر ہے ہدف تھاکہ افغا ن مہاجرین ملک بدر کیا جاناتھااس کارکردگی کا جواب اطمینان بخش نہیں ہزاروں افغانی اب بھی پاکستان میں ہیں اور زیادہ تر وارداتیں دہشت گردوں نےافغان عوام کی مدد سے کی ہیں اس کے علاوہ نیشنل ایکشن پلان میں فرقہ واریت کو کچلنے کا عزم ‘دہشت گردوں کا مواصلاتی نظام تباہ کرنے کا ذکر تھا ‘یہ ہدف بھی حاصل نہیں ہوا پاکستان میں افغان مہاجرین کی تین نسلیں آباد ہیں جن میں سے 1.7 ملین رجسٹرڈ ہیں اور1.4 ملین غیر رجسٹرڈ۔ عمومی طور پاکستان میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی اور جرائم کے ڈانڈے انہی افغان مہاجرین سے جاملتے ہیں ,لہٰذا گورنمنٹ آف پاکستان , افغان گورنمنٹ اور اقوام متحدہ ہائی کمشنر برائے مہاجرین سے رابطے کے بعد ان افغان مہاجرین کو واپس افغانستان بھجوانے کا بندو بست کرے تاکہ یہ افغان مہاجرین اپنے ملک جاسکیں اور پاکستان میں ان کی دوبارہ واپسی ممکن نہ ہوسکے۔ نیشنل ایکشن پلان کے تحت جو کمیٹیاں تھیں ان کی کارکردگی پر بھی ابھی تک سوالیہ نشان ہے۔ گُزشتہ دنوں وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کی زیرِ صدارت اقتصادی رابطہ کمیٹی ای سی سی اجلاس میں آپریشن عزم استحکام کیلیے 20 ارب روپے کی منظوری دے دی گئی۔اس حوالے سے جون میں وزیر اعظم شہباز شریف کی زیرِ صدارت وزیر اعظم ہاؤس میں نیشنل ایکشن پلان کی اپیکس کمیٹی کا اجلاس ہوا تھا جس میں ملک میں جاری دہشتگردی کے خلاف عزم استحکام آپریشن شروع کرنے کی منظوری دی گئی تھی، اعلامیہ کے مطابق فورم نے دہشتگردی کے خلاف جاری مہم کا جامع جائزہ لیا اور انسداد دہشتگردی کی مؤثر حکمت عملی پر زور دیا۔ وزیر اعظم شہناز شریف نے تمام اسٹیک ہولڈرز کے اتفاق رائے سے مہم کو دوبارہ متحرک کرنے کی منظوری دی۔ اجلاس میں انسداد دہشتگردی کی ایک جامع اور نئی حکمت عملی کی ضرورت پر زور دیا گیا تھا۔ فورم نے کہا تھا کہ ملک سے انتہا پسندی اور دہشتگردی کا خاتمہ کیا جائے، انتہا پسندی اور دہشتگردی کے خلاف جنگ پاکستان کی جنگ ہے علاقائی تعاون کے ذریعے دہشتگردوں کیلیے آپریشنل جگہ کو کم کرنے کی کوششیں تیز کی جائیں گی، مسلح افواج کی کوششوں کو تمام قانون نافذ کرنے والے اداروں کی حمایت سے بڑھایا جائے گا، لوگوں کے حقیقی خدشات کو دور کرنا اور انتہا پسندانہ رجحانات کی حوصلہ شکنی کرنے والا ماحول بنانا ہے، مہم کی حمایت میں ایک متحد قومی بیانیہ کو فروغ دینے کیلیے معلومات کی جگہ کا فائدہ اٹھایا جائے گا۔ فورم نے فیصلہ کیا تھا کہ کسی کو ریاست کی رٹ چیلنج کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ اجلاس میں پاکستان میں چینی شہریوں کیلیے فول پروف سکیورٹی کو یقینی بنانے کے اقدامات کا بھی جائزہ لیا گیا تھا۔ اعلامیے کے مطابق وزیر اعظم شہباز شریف کی منظوری کے بعد متعلقہ محکموں کو نئے ایس او پیز جاری کیے گئے،نیشنل ایکشن پلان تحریری طور پر تو مکمل ہے لیکن اس پر مکمل عمل درآمد نہیں ہوا حالیہ دہشت گردانہ حملوں سے دہشت گرد تنظیمیں نےحکومت کی رٹ کوچیلنج کیا ہے اس لیے نیشنل ایکشن پلان پرعمل درآمد کرانے کی سخت ضرورت ہے













