اسلام آباد(ٹی این ایس) عید میلاد النبی ﷺ کے سلسلے میں بین الاقوامی سیرت النبی کانفرنس

 
0
61

عید میلاد النبی ﷺ کے سلسلے میں بین الاقوامی سیرت النبی کانفرنس…….(اصغر علی مبارک))….. …… اللہ تعالٰیٰ نے قرآن کریم میں آنحضرت کی ذات گرامی کو بہترین نمونہ قرار دے کر اہل اسلام کو آپ کے اسوہ حسنہ پر عمل پیرا ہونے کا حکم ارشاد فرمایا ہے لہذا سیرت نبوی کو جانے بغیر آنحضرت کے اسوہ حسنہ پر عمل ممکن نہیں۔ اللہ تعالٰیٰ نے قرآن کریم میں اتباع رسول اور اطاعت رسول کو لازم اور فرض قرار دیا ہے۔ اس لحاظ سے سیرت نبوی کا مطالعہ از حد ضروری ہے تاکہ آنحضرت کے احکامات اور دیگر اوامر و نواہی کے ساتھ ساتھ آپ کی پسند و ناپسند کا علم بھی ہو سکے۔
دین اسلام کی تبلیغ اور نشر و اشاعت کے حوالے سے سیرت کا مطالعہ ناگزیر ہے تاکہ ایک تو ہر مبلغ تبلیغ کے اس مسنون طریقہ کار سے آگاہ ہو جس پر عمل پیرا ہو کر آنحضرت نے عرب کی کایا پلٹ دی اور دوسرا اس مطالعہ کے ذریعے مخاطب کو آنحضرت کے اسوہ حسنہ سے متعارف کروا کر اور موقع بہ موقع سیرت کے واقعات سُنا کر اسے متاثر کیا جا سکے۔ قرآن کا فہم مطالعہ سیرت کے بغیر نا ممکن ہے کیونکہ آ پ ہی قرآن کی عملی تصویر اور کامل تفسیر ہیں۔ مسلمانوں کے لیے سیرت کا مطالعہ محض ایک علمی مشغلہ ہی نہیں بلکہ اہم دینی ضرورت ہے جبکہ غیر مسلموں کے لیے سیرت کے مطالعہ کی نوعیت اس سے کچھ مختلف ہو سکتی ہے۔.وزارت مذہبی امور کے زیراہتمام 12ربیع الاوّل بمطابق 17ستمبر کو 49 ویں سالانہ قومی سیرت کانفرنس منعقد ہوگی۔ کانفرنس کے ابتدائی سیشن میں وزیراعظم شہباز شریف جبکہ دوسرے سیشن کے مہمان خصوصی صدر آصف علی زرادر ی ہونگے ،کانفرنس کے دونوں سیشن میں ملک کے نامور علمائے کرام و سکالرز اظہار خیال کریں گے ۔سال 2024 کے مقابلہ کتب سیرت ونعت کے لئے کل164کتابیں موصول ہوئیں جن میں انعام حاصل کرنے والے خوش نصیب افراد کی تعداد 30 ہے جبکہ 118مقالات سیرت موصول ہوئے جن میں انعام حاصل کرنیوالے خوش نصیب افراد کی تعداد33ہے ۔ اس طرح اس سال خوش نصیب انعام حاصل کرنیوالوں کی کل تعداد63 ہو گی ۔ نبی کریم ۖ ﷺکے اسوہ حسنہ پر عمل کرنے سے پاکستان دنیا کی طاقتور ترین ریاست بن سکتا ہے ، ہمیں اسوہ حسنہ کو خود پر لاگو کر کے دوسروں کو اس کا درس دینا چاہئے، جو چیز ہمارے پاس ہے اگر ہم اس کو خود پر لاگو کریں اور نبی کریم ۖ ﷺکے اسوہ حسنہ پر عمل کریں تو پاکستان کو دنیا کی طاقتور ترین ریاست بننے سے کوئی نہیں روک سکتا۔اسلام خدا کی واحدنیت اور مساوات کا درست دیتا ہے، ہمیں نبی کریمۖ ﷺکی سیرت کی پیروی کرنی چاہئے جس سے معاشرے کی ترقی میں نمایاں مدد حاصل کی جاسکتی ہے۔حضورﷺ ۖ کی سیرت سے سبق حاصل کرنا چاہئے۔معاشرہ کی بہتری اور ترقی میں سچائی اور امانتداری بھی بڑی اہمیت کی حامل ہے۔ حضورﷺۖ کا پہلا پیغام بھی صداقت کا پیغام ہے، آپﷺۖ کی صداقت اور امانت کا اعتراف مشرکین اور کفار بھی کرتے تھے۔ جب ہم محبتوں سے خود کو بدلیں گے تو پاکستان بدلے گا اور دنیا بدلے گی، قانون کی پاسداری کرنے والا معاشرہ ہی ترقی کرتا ہے، دنیا آج اقدار کی سیاست کی متمنی ہے جس کا نسخہ نبی کریم ۖ ﷺنے دیا تھا ، اخلاقیات سے انسانی معاشرہ میں ربط پیدا ہوتا ہے، نبی کریم ۖ ﷺنے اللہ کی بنائی ہوئی چیزوں سے محبت اور خصوصاً پانی کے ضیاع سے منع فرمایا ہےاسلامی قوانین اللہ تعالیٰ اور رسولﷺ ۖ کے احکامات پر مبنی ہیں جبکہ دنیاوی قوانین ہماری مقننہ بناتی ہیں ، اگر قانون پر عملدرآمد کو یقینی بنا کر جزا اور سزا پر عمل کر لیا جائے تو معاشرہ ترقی کر سکتا ہےقانون کی پاسداری کرنے والا معاشرہ ہی ترقی کرتا ہے، قانون کی پاسداری بہت ضروری ہے جس کا اسوہ حسنہ سے بھی سبق ملتا ہے۔معاشرہ اگر جرائم کی حوصلہ شکنی اور قانون کی پاسداری کو فروغ دیا جائے تو بہتری لائی جاسکتی ہے۔ جس معاشرے میں قانون کی پاسداری ہو تو دیگر لوگ بھی قانون کی پاسداری کرتے ہیں۔ حضور نبی کریمﷺ ۖ کی محبت کی وجہ سے تخلیق کائنات ہوئی اور ہمیں نبی کریم ۖ ﷺسے محبت کا درس دیا گیا ہے جن سے محبت کرنے سے خدا سے محبت کے راستے کھل جاتے ہیں۔سیرت طیبہ کا اصل اور سب سے زیادہ صحیح اور مستند مآخذ قرآن مجید ہے۔ قرآن مجید دو طرح سے سیرت کے مآخذ کا کام دیتا ہی۔ الف۔ اس میں آنحضرت کی مبارک زندگی کے متعدد واقعات، غزوات اور بعض دیگر پیش آمدہ حالات کا ذکر ہے۔ کہیں تفصیل اور کہیں اجمالی اشارات موجود ہیں۔ بعض لوگوں نے صرف قرآن کریم میں صراحتہً یا کنایتہً بیان کردہ واقعات سیرت کی ترتیب و جمع سے سیرت پر کتابیں تالیف کی ہیں۔ قرآن کریم میں وہ تمام تعلیمات ہیں جن کو آحضرت نے عملاً نافذ کیا۔ اسی طرح معاصر کفار کے بعض اعتراضات اور ان کے جوابات مذکور ہیں۔ قرآن کریم کی اس قسم کی آیات کی تفصیل اور زمانہ یا موضع نزول کے بارے میں سیرت طیبہ کے واقعات کی طرف رجوع کرنا ضروری ہو جاتا ہی۔ گویا قرآن کریم سیرت طیبہ کے بارے میں کچھ تفصیلی معلومات بھی دیتا ہے اور اجمالی اشارات کے ذریعے سے واقعات سیرت کی اصل کی نشان دہی کر کے اس کی تفصیلات جاننے پر آمادہ بھی کرتا ہے۔قرآن کریم کو رسول اللہ نے کس طرح سمجھا اور اسے کس طرح نافذ کیا، اس کی تفصیلات ہی کتب حدیث کا اصل موضوع ہے ۔ حدیث پاک کے مجموعہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمکے احکام، تعلیمات، خطبات، مواعظ اور قضایا یعنی قانونی فیصلے وغیرہ ہی بیان نہیں ہوئے بلکہ بعض نہایت اہم واقعات سیرت بھی بیان ہوئے ہیں۔ چونکہ حدیث کی روایت و نقل میں عام کتب تاریخ کی نسبت زیادہ تحقیق و چھان بین سے کام لیا جاتا ہے، اس لیے کتب حدیث میں بیان کردہ واقعات سیرت قرآن کے بعد باقی تمام مآخذ سیرت سے زیادہ مستند اور زیادہ قابل اعتماد ہیں۔اللہ تعالٰیٰ نے قرآن کریم میں آنحضرت کی ذات گرامی کو بہترین نمونہ قرار دے کر اہل اسلام کو آپ کے اسوہ حسنہ پر عمل پیرا ہونے کا حکم ارشاد فرمایا ہے لہذا سیرت نبوی کو جانے بغیر آنحضرت کے اسوہ حسنہ پر عمل ممکن نہیں۔
اللہ تعالٰیٰ نے قرآن کریم میں اتباع رسول اور اطاعت رسول کو لازم اور فرض قرار دیا ہے۔ اس لحاظ سے سیرت نبوی کا مطالعہ از حد ضروری ہے تاکہ آنحضرت کے احکامات اور دیگر اوامر و نواہی کے ساتھ ساتھ آپ کی پسند و ناپسند کا علم بھی ہو سکے۔
دین اسلام کی تبلیغ اور نشر و اشاعت کے حوالے سے سیرت کا مطالعہ ناگزیر ہے تاکہ ایک تو ہر مبلغ تبلیغ کے اس مسنون طریقہ کار سے آگاہ ہو جس پر عمل پیرا ہو کر آنحضرت نے عرب کی کایا پلٹ دی اور دوسرا اس مطالعہ کے ذریعے مخاطب کو آنحضرت کے اسوہ حسنہ سے متعارف کروا کر اور موقع بہ موقع سیرت کے واقعات سُنا کر اسے متاثر کیا جا سکے۔
قرآن کا فہم مطالعہ سیرت کے بغیر نا ممکن ہے کیونکہ آ پ ہی قرآن کی عملی تصویر اور کامل تفسیر ہیں۔
مسلمانوں کے لیے سیرت کا مطالعہ محض ایک علمی مشغلہ ہی نہیں بلکہ اہم دینی ضرورت ہے جبکہ غیر مسلموں کے لیے سیرت کے مطالعہ کی نوعیت اس سے کچھ مختلف ہو سکتی ہے۔گزشتہ سال عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سلسلے میں اسلام آباد میں سیرت النبی کانفرنس کا موضوع “سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں ملک کے معاشی استحکام کے لیے حکمت عملی” تھا۔علمائے کرام نے زور دیا کہ ملک میں امن و استحکام کو فروغ دینے کے لیے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حقیقی تعلیمات کو فروغ دیں پاکستان اسلام کا قلعہ ہے اور اسے معاشی بحران میں دھکیل کر اور مذہب کے نام پر تشدد کو ہوا دے کر کمزور کرنے کی سازشیں کی جا رہی ہیں ان سازشوں کو ہماری صفوں میں اتحاد کے ذریعے ناکام بنایا جانا چاہیے، اس حوالے سے علمائے کرام کے اہم کردار کو اجاگر کرنا چاہیے۔ تمام چیلنجز پر قابو پانے کے لیے ہمیں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کو اپنانا چاہیے۔ آخری نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم رحمت اللعالمین ہیں جنہوں نے ہمیں باوقار زندگی گزارنے کا طریقہ سکھایا۔پاکستان اسلام کا قلعہ ہے اور اسے معاشی بحران میں دھکیل کر اور مذہب کے نام پر تشدد کو ہوا دے کر کمزور کرنے کی سازشیں کی جا رہی ہیں۔ان سازشوں کو ہماری صفوں میں اتحاد کے ذریعے ناکام بنایا جانا چاہیے، اس حوالے سے علمائے کرام کے اہم کردار کو اجاگر کرنا چاہیے۔عصر جدید جہاں اپنی سائنسی ترقی کے بام عروج تک جاپہنچا ہے وہیں اپنے جلو میں ایسے بہت سے مسائل و چیلنجز لئے ہوئے ہے ان حالات میں امت مسلمہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ اقوام عالم کی رہبری و امامت کا فریضہ انجام دیں سیرت طیبہ کا یہ اعجاز ہے کہ ہر نوع اور ہر آن تبدیل ہوتی ہوئی دنیا کے ہمرکاب ہے اور ہمہ جہت رشد وہدایت کے ایسے باب وا کرتی ہے کہ جو بھٹکی ہوئی انسانیت کو نشا ن منزل عطا کرتی ہے۔ اسلام میں اقدار بہت اہم موضوع ہے۔ اقدار ایک قدر کی بنیاد اور حدود ہے۔ دین مکمل ہونے کا دعویٰ کسی رسول نے نہیں کیا سوائے رسول اللہﷺ کے۔ اللہ کے نبی ﷺنے جو کام کیا وہ اخلاق بن گیا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہم نے آپﷺ کو اخلاق عظمیٰ پر فائز کیا۔یاد رکھیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تعلیمات اور آپ کی حیات طیبہ کی جملہ معلومات آپ کے اصحاب، آپ کی ازواج اور دیگر اہل بیت کے پاس موجود تھیں۔ چونکہ آپ بطور رسول اللہ ان سب کی توجہ کا مرکز تھے اس لیے یہ تمام اصحاب باہمی میل ملاپ اور گفت و شنید سے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ذات گرامی سے متعلقہ مختلف قسم کی معلومات کا تبادلہ بھی کرتے جیسے کسی تازہ ترین وحی، کسی واقعہ یا کسی فرمان کا باہمی تبادلہ وغیرہ۔آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے وصال فرمانے کے بعد آپ کے پیروکاروں کے دل میں اپنے ہادی و پیشوا کی ذاتِ مبارک، آپ کے اخلاق و عادات اور آپ کی زندگی سے متعلق باتیں دریافت کرنے کا شوق بڑھتا چلا گیا۔ اس شوق و جستجو سے رفتہ رفتہ روایات کا ایک وسیع ذخیرہ ہونا شروع ہو گیا۔ صحابہ کے بعد تابعین کے دور نہ صرف روایات جمع کرنے کا کام ہوا بلکہ ان روایات کو مختلف طریقوں سے منظم کرنے کا کام بھی شروع ہو گیا مثلاً ایک تابعی مختلف صحابہ کرام سے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے وعظ، تقریر اور نصائح کے حوالے سے عام روایات کو یاد کرتا یا اِرقام کر لیتا تو دوسرا تابعی اپنے ملنے والے صحابہ کرام سے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے غزوات اور دیگر واقعات دریافت کر کے اِرقام کر لیتا۔ اس طرح ایک ایک تابعی کے پاس دس بیس یا پچاس صحابہ کرام کے ذریعے سے حاصل ہونے والی معلومات جمع ہوتی گئیں۔ فتوحات کے نتیجہ میں جب صحابہ کرام ایران، عراق، شام اور مصر وغیرہ میں پھیلے تو ان سے معلومات جمع کرنے کا کام ان علاقوں میں بھی جاری رہا۔ تابعین کے بعد تبع تابعین کے دور میں صحابہ کرام اور تابعین سے جمع شدہ روایات اور بیسیوں چھوٹی چھوٹی کتابوں میں ذخیرہ شدہ معلومات کو مناسب تقسیم اور ترتیب دے کر بڑی اور جامع کتب مرتب ہوئیں۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ اسی نسل کے زمانے میں قرآن، حدیث اور فقہ کے بنیادی علوم کے ماتحت ان کے ذیلی علوم اور ان علوم میں مہارت کے حامل مخصوص افراد سامنے آئے۔ ان افراد نے جب تفسیر، حدیث، تاریخ، مغازی و سیرت کے بڑے بڑے مجموعات مرتب کیے تو ان کی مقبولیت کے باعث ماقبل کے چھوٹے چھوٹے مجموعے متروک ہوتے چلے گئے تاہم ان چھوٹے مجموعوں کے حوالے بڑے مجموعوں اور جامع کتب میں بکثرت ملتے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان جامع کتب کی تدوین کے زمانے تک یہ چھوٹے، مختصر مگر اصل مآخذ موجود تھے اور پڑھے پڑھائے جاتے تھے۔ اسی پسِ منظر میں تدوین سیرت کا کام بھی یوں شروع ہوا کہ جب مسلمانوں نے اپنے ہادی برحق کے اقوال و افعال اور احوال کو اختیار کیا اور تفصیل سے جمع و محفوظ کرنا شروع کیا تو بعض بزرگوں نے صرف واقعات سیرت سے متعلق مواد جمع کرنے کو ہی اپنا دینی و علمی مشغلہ اور میدانِ اختصاص بنا لیا اور اس فن میں خاصی شہرت پائی۔ تابعین اور تبع تابعین میں سے جن لوگوں نے سیرت و مغازی پر مواد جمع کیا اور ابتدائی کتابیں اِرقام کیے جن کا ذکر بعد کی اِرقام کی ہوئی کتابوں میں ملتا ہے، ان میں سے مشہور لوگوں کے نام سنین وفات کی ترتیب سے پیش کیے جا رہے ہیں تا کہ یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح عیاں ہو جائے کہ کس طرح سیرت نگاری کا عمل ایک تسلسل سے جاری رہا اور تفسیر، حدیث اور تاریخ کی طرح تیسری صدی ہجری کے آخر تک مکمل ہوا۔