اسلام آباد (ٹی این ایس) مسلم کمیونٹیز میں لڑکیوں کی تعلیم: چیلنجز اور مواقع”پر بین الاقوامی کانفرنس

 
0
62

(اصغر علی مبارک)

اسلام آباد (ٹی این ایس) وزیر اعظم پاکستان نے وفاقی وزارت تعلیم اور پیشہ ورانہ تربیت کو ہدایت کی کہ” مسلم کمیونٹیز میں لڑکیوں کی تعلیم: چیلنجز اور مواقع”کےموضوع پر 11سے12 جنوری 2025 اسلام آباد میں بین الاقوامی کانفرنس کا انعقادکرے۔کانفرنس کے انتظامات کی نگرانی کے لیےوزیر اعظم کے دفتر کی طرف سے تشکیل دی گئی کور کمیٹی کااجلاس نائب وزیراعظم محمد اسحاق ڈار کی زیر صدارت پاکستان کی میزبانی میں ”مسلم کمیونٹیز میں لڑکیوں کی تعلیم: چیلنجز اور مواقع“ کے موضوع پر بین الاقوامی کانفرنس کی تیاری کا جائزہ لیا گیا۔
دفتر خارجہ کی جانب سے جاری بیان کے مطابق اجلاس میں وزیراعظم یوتھ پروگرام کے چیئرمین رانا مشہود احمد خان، سیکرٹری وزارت خارجہ، سیکرٹری وزارت اطلاعات و نشریات، چیئرمین سی ڈی اے، وزارت خارجہ اور وزارت وفاقی تعلیم و پیشہ ورانہ تربیت کے دیگر اعلیٰ حکام نے شرکت کی۔ کمیٹی نے کانفرنس کی تیاریوں کا جائزہ لیا
جس میں لڑکیوں کی تعلیم میں حائل رکاوٹوں، لڑکیوں کی تعلیم کے سماجی اور معاشی فوائد اور تعلیمی مساوات کو آگے بڑھانے کے لیے جدید طریقے پر بات چیت بھی شامل ہے۔۔
بین الاقوامی کانفرنس ”مسلم کمیونٹیز میں لڑکیوں کی تعلیم: چیلنجز اور مواقع”کے اغراض و مقاصد میں ” ایک حق اور فرض کے طور پر لڑکیوں کی تعلیم کے بارے میں اسلامی نقطہ نظر کو اجاگر کرنا•” اسلامی تعلیمات کی ثقافتی غلط تشریحات سے پیدا ہونے والے چیلنجوں سے نمٹنا”۔” پسماندہ مسلم کمیونٹیز میں لڑکیوں کی تعلیم تک رسائی کو محدود کرنے والی رکاوٹوں کے حل تلاش کرنا۔” سماجی اور قومی ترقی میں تعلیم کے کردار کو فروغ دینا”۔”عالمی اور علاقائی اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ تعاون کے ذریعے لڑکیوں کی تعلیم کو آگے بڑھانے کے لیے قابل عمل حکمت عملی تیار کر کرنا” ہیں,
بین الاقوامی کانفرنس مسلم ورلڈ لیگ وفاقی وزارت تعلیم اور پیشہ ورانہ تربیت کے تعاون سے منعقد کی جا رہی ہے کانفرنس کے افتتاحی اور اختتامی سیشن جناح کنونشن سینٹر میں ہوں گے جبکہ بقیہ سیشن مقا می ہوٹل اسلام آباد میں ہوں گے۔ بین الاقوامی کانفرنس میں 47 ممالک کے 132 بین الاقوامی معززین نے اپنی شرکت کی تصدیق کی ہے۔ پاکستان کی طرف ارکان پارلیمنٹ، نامور اسکالرز، مذہبی علما کے ماہرین تعلیم، صوبائی وزرائے تعلیم اور تعلیم کے سیکرٹریز شامل ہیں۔وزارت برائے وفاقی تعلیم اور پیشہ ورانہ تربیت اور مسلم ورلڈ لیگ کے باہمی طور پر منظم پروگرام موضوع ”مسلم کمیونٹیز میں لڑکیوں کی تعلیم، چیلنجز اور مواقع”کے سپیکرز کانفرنس کے پہلے سیشن کا موضوع خواتین کی تعلیم: رکاوٹیں اور ان کا حل ہےاور کلیدی مقررین میں ڈاکٹر بشریٰ مرزا وائس چانسلر فاطمہ جناح ویمن یونیورسٹی راولپنڈی، ڈاکٹر انیلہ کاما وائس چانسلر، راولپنڈی ویمن یونیورسٹی راولپنڈی جب کہ سیشن کا دو موضوع خواتین کی تعلیم اور اسلامی چارٹر ”ہے۔ کلیدی مقررین پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد وائس چانسلر، رفاہ انٹرنیشنل یونیورسٹی اسلام آباد، محترمہ نگار سجاد ظہیر سابق چیئرپرسن جامعہ کراچی، سیشن کے تین کا موضوع ”انفارمیشن ٹیکنالوجی اور خواتین کی تعلیم ہے۔ کلیدی مقررین میں محترمہ عائشہ موریانی ایڈیشنل سیکرٹری (انچارج) وزارت موسمیاتی تبدیلی اسلام آباد، پروفیسر ڈاکٹر ضیاء القیوم ایگزیکٹیو ڈائریکٹر ایچ ای سی اسلام آباد چوتھے سیشن کا موضوع ”امن کی تعمیر میں خواتین کا کردار ہے اور کانفرنس کے مقررین محترمہ بیلہ جمیل سی ای او ادارہ تعلیم وآگاہی (آئی ٹی اے) تعلیم و شعورسینٹر لاہور،-محترمہ آمنہ رسول برنارڈو صدر فلپائنی سنٹر فار اسلام اور ڈیموکریسی (پی سی آئی ڈی) فلپائن اور جناب جمشید قاضی، کنٹری نمائندہ یو این ویمن پاکستان ہیں۔کانفرنس کااہتمام کرنے کے لیے، وزیر اعظم نے ایک اعلیٰ اختیاراتی کمیٹی تشکیل دی ہے اور بین الاقوامی کانفرنس کےانعقاد کے لیے مختلف وزارتوں اور محکموں کو کام تفویض کیے ہیں۔پاکستان نے مسلم ورلڈ لیگ کے تعاون سے مسلم معاشروں میں لڑکیوں کی تعلیم کو آگے بڑھانے کے لیے شراکت داری کے لیے ایک جامع پلیٹ فارم کا آغاز کیاہےانٹرنیشنل پارٹنرشپس فار ایجوکیشن ان مسلم سوسائٹیز پلیٹ فارم کا افتتاح 11-12 جنوری 2025 کو “مسلم کمیونٹیز میں لڑکیوں کی تعلیم: چیلنجز اور مواقع” کے عنوان سے ہونے والی ایک عالمی کانفرنس پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں کیا جائے گا۔
وزیر اعظم پاکستان محمد شہباز شریف کی زیر سرپرستی میں مسلم معاشروں میں لڑکیوں کی تعلیم کی حمایت کے لیے اس اہم منشور کا آغاز کیا جائے گا۔
پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں قائم اس اقدام کا مقصد حکومتی، اسلامی اور عالمی سول تنظیموں کے درمیان اتحاد قائم کرکے بین الاقوامی شراکت داری کو فروغ دینا ہے،
اس طرح لڑکیوں کی تعلیم کو آگے بڑھانے کے لیے ایک وسیع نیٹ ورک بنانا ہے۔
یہ اقدام مکہ کے چارٹر کے آرٹیکل 25 میں بیان کردہ اصولوں کے ساتھ ساتھ اسلامی مکاتب فکر اور فرقوں کے درمیان پل تعمیر کرنے کے چارٹر کے اصول 22 اور 23 کو نافذ کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
حرمین شریفین کے متولی شاہ سلمان بن عبدالعزیز آل سعود کی سخاوت مندانہ سرپرستی میں منعقدہ دو بین الاقوامی کانفرنسوں کے دوران ان اصولوں پر زور دیا گیا۔
مزید برآں، یہ اقدام اسلامی تعاون تنظیم کے رکن ممالک کی طرف سے دونوں چارٹروں کے حوالے سے منظور کردہ قراردادوں پر عمل درآمد کرے گا،
اسلامی فقہ کونسل کے سیکرٹری جنرل,انٹرنیشنل اسلامک فقہ اکیڈمی کے سیکرٹری جنرل ,مسلم ورلڈ لیگ کے سیکرٹری جنرل نے مفاہمت کی یادداشت پر مکہ مکرمہ میں دستخط کیے حکومت پاکستان اور مسلم ورلڈ لیگ کی مشترکہ طور پر بین الاقوامی کانفرنس میں پاکستان اور دنیا بھر سے سینئر مذہبی، دانشور، اور میڈیا رہنماوں کے ساتھ ساتھ سول سوسائٹی کے کارکنان ,تنظیموں، حکومتوں، اسلامی اداروں کے نمائندوں کی وسیع پیمانے پر شرکت ہوگی۔ اسلام نے عورتوں کودینی ودنیوی تعلیم کی نہ صرف اجازت دی ہے بلکہ ان کی تعلیم وتربیت کوبھی اتناہی اہم قراردیاہے، جتنامردوں کی تعلیم وتربیت کوضروری قراردیاہے۔اسلام ہر مسلمان کو علم حاصل کرنے کا پابند کرتا ہے، خواہ وہ مرد ہو یا عورت۔ اسلام نے مضبوط اور ذمہ دار نسلوں کی پرورش کی ذمہ داری خواتین کو سونپی ہے۔ صرف یہی فرض اسلام میں خواتین کے لیے تعلیم کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے۔ اس بات کو ثابت کرنے کے لیے متعدد احادیث ہیں۔اسلام ہر مسلمان کو علم حاصل کرنے کا پابند کرتا ہے، خواہ وہ مرد ہو یا عورت۔ اسلام نے مضبوط اور ذمہ دار نسلوں کی پرورش کی ذمہ داری خواتین کو سونپی ہے۔ صرف یہی فرض اسلام میں خواتین کے لیے تعلیم کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے۔ اس بات کو ثابت کرنے کے لیے متعدد احادیث ہیں۔حضرت محمدِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم سے جس طرح دین کی تعلیم مردحاصل کرتے تھے،اسی طرح عورتیں بھی حاصل کرتی تھیں۔آپ صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم خواتین کی تعلیم کابڑاخیال کرتے تھے،اس کیلئے آپ صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے الگ وقت متعین کر رکھا تھا۔ ابو سعیدخدریؓ فرماتے ہیں:عورتوں نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم سے درخواست کی کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کے پاس مردوں کی بھیڑرہتی ہے اس لیے ہم عورتوں کیلئے ایک دن مختص فرمادیجئے،اس پر آپ صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے ایک دن ان عورتوں کیلئے مقرر کر دیا، چنانچہ ایک دن آپ صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے ان کو نصیحت اورحکم بتائے، راوی کہتے ہیں:چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی نصیحت میں سے ایک یہ نصیحت تھی کہ جس کسی عورت کے تین بچے انتقال کرگئے ہوں، وہ بچے جہنم کی آگ سے خلاصی کاذریعہ ہوں گے،ایک عورت نے عرض کیاکہ اگرکسی کے دوبچے ،آپ صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے فرمایاکہ دوبچے‘‘(صحیح البخاری، کتاب العلم، باب ہل یجعل للنساء یوما علی حدۃ فی العلم ج:1، ص:57)۔ آمد اسلام سے قبل سرزمین عرب میں ساری برائیاں پائی جاتی تھیں،وہاں پر بداخلاقی تھی، بداعمالی تھی، قتل و غارت گری تھی، خالق کائنات نے جب حضرت آدم علیہ السلام کو پیداکیا،تو سب سے پہلے تعلیم کا بندو بست کیا، انہیں چیزوں کے نام سکھائے،پھر فرشتوں سے مقابلہ کرایا، کامیاب ہوئے تو خلافت سے بہرہ ور کیااور مسجود ملائکہ کے شرف سے نوازا،اس کے بعد رہنے، سہنے کا انتظام کیا۔
تعلیم انسان و حیوان میں فرق و امتیاز پیدا کرتی ہے ۔تعلیم ہی کے ذریعہ انسان انسانیت کے آداب واصول کو سیکھتاہے ،اسے سنوارتاہے اور سجاتاہے۔تعلیم ہی سے انسان اپنے مقام و مرتبہ کو پہچانتاہے اور جہاں تعلیم نہ ہو نہ دنیاہاتھ آتی ہے اور نہ دین ۔دنیاایک تعلیم گاہ ہے ،ایک مدرسہ ہے ،ایک سیکھنے کی جگہ ،تمام انسان طالب علم ہیں،انبیاء کرام علیہ السلام خصوصی شاگرد ہیں اور تمام انسانوں کو پیداکرنے والی ذات ہی معلم ہیں۔ دنیاکی پیدائش ہی تعلیم کے مقصد سے ہوئی ہے۔ طالب علموں کی سہولت اور کھانے پینے کیلئے زمین بنائی گئی،مطالعہ کیلئے روشنی کی ضرورت پڑسکتی تھی تو چاند ،سورج اور ستارے پیداکئے گئے۔ تعلیم کے بارے میں سب سے پہلا امتحان قبر میں ہوگااور فائنل امتحان میدان محشر میں۔ مردوعورت کی تفریق کئے بغیر تعلیم سب پر ضروری ہے ،اس حوالے سے یہ حدیث ملاحظہ فرمائیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے فرمایا ’’حصول علم تمام مسلمانوں پر(بلا تفریق مرد و زن) فرض ہے‘‘ (سنن ابن ماجہ، المقدمہ،1:81، رقم: 664) ۔سب پڑھیں ،سب بڑھیں یہی مذہب اسلام کا اولین حکم ہے ۔اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم پر جو سب سے پہلی وحی نازل ہوتی ہے، پڑھواوروحی نبوت کی زبان سے یہ فرمان بھی جاری ہوتاہے کہ ’’ علم کا حاصل کرناہرمسلمان پر فرض ہے‘‘۔ خود خالق کائنات نے ایک جگہ ارشاد فرمایاہے:’’ان سے پوچھو کیاجاننے والے اور نہ جاننے والے دونوں برابرہوسکتے ہیں‘‘۔ مذہب اسلام جس کی بنیاد ہی تعلیم ہے ،افسوس کی بات ہے کہ اسی مذہب کے ماننے والے تعلیمی اعتبارسے سب سے پیچھے ہیں۔آج بھی ایسے خاندان و قبیلے موجود ہیں جو بچوں کو تو تعلیم دیتے ہیں ان پہ پیسہ خرچ کرتے ہیں لیکن بچیوں کو تعلیم نہیں دلاتے ۔ وہ اس وجہ سے کہ یہ تو کسی اور کے گھر جائیں گی ،انہیں تعلیم دے کر کیا فائدہ ۔یاد رکھیے کہ قوموں کی تعلیم ،ماں کی تعلیم پر موقوف ہے، ماں تعلیم یافتہ ہوگی تو بچے کو بھی تعلیم سے آشناکرے گی۔ اگر ماں کے دلوں میں تعلیمی رغبت موجود ہو تو بچے بھی اس رغبت سے فیضیاب ہوں گے۔اگر ماں خود رغبت سے خالی ہوتو ظاہر ہے کہ ان کی کوکھ سے پیداہونے والے بچوں سے مستقبل کی کیا امید کی جاسکتی ہے ؟ انسانی زندگی کی ابتدا ماں کے بطن سے ہوتی ہے۔ ماں کے پیٹ سے پیدا ہو کر دنیا میں آتاہے ،اسی لئے ماں کی گود کو انسان کی پہلی درسگاہ کہاجاتاہے اور ظاہر ہے مدرسہ میں تعلیم بہتر اسی وقت ہوسکتی ہے جب کہ معلم اچھے ہوں، اور جس گھر میں مائیں معلمہ ہوتی ہیں، یعنی وہ پڑھی لکھی تعلیم وتربیت سے معمور ہوتی ہیں، ایک دینی وتعلیمی ماحول دیکھنے کو ملتا ہے اور جہاں پر مائیں تعلیم وتربیت سے عاری اوربداخلاق ہوتی ہیں ،بچے بھی اس کے اثرات قبول کرتے ہیں۔ ہماری عورتوں کو بھی اکثریہ شبہ رہتاہے کہ ترقی اور علم وفضل کا میدان صرف مردوں کیلئے ہے ، عورتیں گھر میں بیٹھنے والی اور کچن سنبھالنے کیلئے ہیں،اسے علم سے کیا واسطہ؟ مگر سچائی اور مذہب اسلام کی تعلیمات اس کے بالکل برعکس ہے ۔رسول الل صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے لڑکیوں کی تعلیم کے بارے میں فرمایا ہے: ’’جس کے پاس تین بیٹیاں،یابہنیں ہوں،یادو بیٹیاں یا بہنیں ہوں،اس نے ان کی تربیت کی،ان کے ساتھ اچھابرتاؤ کیااوران کی شادی کرادی تواس کیلئے جنت ہے‘‘(ابو داؤد)۔ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓسے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ ’’جس شخص کے ہاں لڑکی پیدا ہو اور وہ خدا کی دی ہوئی نعمتوں کی اس پر بارش کرے اور تعلیم و تربیت اور حسنِ ادب سے بہرہ ور کرے تو میں خود ایسے شخص کیلئے جہنم کی آڑ بن جاؤں گا‘‘ (بخاری شریف) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے باندیوں اورخادماؤں کوعلم وادب سکھانے کی ترغیب دلائی ہے،ارشاد فرمایاہے: ’’جس شخص کے پاس کوئی باندی ہو اور وہ اس کوعمدہ تہذیب وشائستگی سکھائے اوراچھی تعلیم دلائے اورپھراس کوآزادکرکے شادی کر لے تو اس کے لیے دوہرااجرہے۔یہی وجہ تھی کہ اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا انصارکی عورتوں کی تعریف کرتے ہوئے فرماتی ہیں:انصارکی عورتیں بھی خوب تھیں کہ دین کی سمجھ بوجھ حاصل کرنے میں حیا وشرم ان کیلئے مانع نہیں بنتی تھی۔(بخاری شریف) ان ارشادات کی وجہ سے قرون اولیٰ میں خواتین کے درمیان بے پناہ تعلیمی بیداری آئی اور خواتین نے بھی علمی میدانوں میں غیرمعمولی کارنامے انجام دیئے۔ابتدائے اسلام میں پانچ خواتین اُم کلثومؓ ،عائشہ بنت سعدؓ،مریم بنت مقدادؓ، شفا بنت عبد اللہؓ ،عائشہ بنت ابی ابکرؓپڑھی لکھی تھیں۔اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی ازواج مطہرات بالخصوص حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بہت بڑی عالمہ تھیں، کتب حدیث میں دوہزار دوسو دس روایتیں ان کی طرف سے ہیں۔ مردوں میں حضرت ابوہریرہ ؓ، حضرت عبد اللہ بن عمرؓ ، حضرت انس بن مالکؓ کے علاوہ کوئی بھی روایت میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے آگے نہیں بڑھ سکے۔ اسی لئے بڑے بڑے صحابہ کرامؓ جب کسی مسئلے میں حل نہیں نکال پاتے تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاسے رجوع کرتے۔اُم المؤمنین حضرت اُم سلمہ رضی اللہ عنہا اپنی فقاہت کی وجہ سے صحابہ کرامؓ کیلئے مرجع کی حیثیت رکھتی تھیں،اس کے علاوہ دیگر عورتوں کے بے شمارعلمی و فقہی کارنامے کی ایک تاریخ ہے۔ عورتیں معاشرے کا نصف حصہ ہیں ،ظاہر ہے کہ ان کی تعلیم کے بغیر قوم اور معاشرے کی ترقی ناگزیرہے ۔ وہ دنیاوی اور دینی دونوں علوم سے آراستہ ہوں۔آج معاشرے کو پڑھی لکھی خواتین کی ا شد ضرورت ہے۔ صاحب منصب کو ان کی تربیت کیلئے عمدہ نظام قائم کرناچاہیے تاکہ وہ صاف ،ستھری اور اسلامی طریقے کے مطابق پاکیزہ زندگی بسر کر سکیں۔اللہ تعالیٰ اُمت مسلمہ کی مائوں، بہنوں، بیٹیوں کی حفاظت فرمائے، (آمین)کسی بھی معاشرے کو بہتر بنانے کے لئے لڑکیوں کی تعلیم سے گہرا رشتہ ہے۔ کیوں کہ لڑکیاں اگر تعلیم یافتہ ہوتی ہیں تو نہ صرف پورا خاندان تعلیم یافتہ ہوتا ہے بلکہ اس سے معاشرہ بھی فیضیاب ہوتا ہے۔ اس لئے ہمیں لڑکیوں کی تعلیم پر سب سے زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔مسلمانوں کو لڑکیوں کی تعلیم پر بھی اتنی ہی اہمیت دینی چاہیے جتنی اہمیت وہ لڑکوں کی تعلیم پر دیتے ہیں۔خواتین پر حملے، لڑکیوںکے ساتھ زیادتی اور ہراساں کیا جانا اس لئے بھی آسان ہے کیوں کہ لڑکیاں تعلیم سے دور ہیں اپنے حقوق و اختیارات سے اتنے واقف نہیں ہیں جتنے ہمیں ہونے چاہئیں۔ اگر لڑکیاں اپنے حقوق کا دفاع کرنا سیکھ جائیں تو لڑکیوں کی پریشانیاں کم ہوسکتی ہیں اور اس کا سب سے اہم ہتھیار تعلیم ہے، خاص طور پر لڑکیوں کی تعلیم۔لڑکیوں نے اپنی صلاحیت ثابت کر دیا ہے کہ وہ نہ صرف امور خانہ داری میں ماہر ہیں بلکہ ملک کے انتظام و انصرام بھی بہتر ڈھنگ سے چلاسکتی ہیں۔ آج لڑکیاں زندگی کے تمام شعبہ حیات میں چھائی ہوئی ہیں۔اس لئے انہیں نظر انداز کرنا قوم کی تعمیر و تشکیل کو نظر انداز کرنا ہےخواتین کواعلیٰ تعلیم تک رسائی کے لیے کئی رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان میں سے کچھ رکاوٹوں میں سماجی اور ثقافتی اصول، مالی مجبوریاں اور خاندانی تعاون کی کمی شامل ہیں۔ مزید یہ کہ اب بھی والدین کی اچھی خاصی تعداد ایسی ہے جو اپنی بیٹیوں کو ایک خاص سطح سے آگے کی تعلیم دینے پر یقین نہیں رکھتی ۔مسلم گھرانوں میں جس ماحول میں لڑکیوں کی پرورش ہوتی ہے ان میں کریئر بنانے سے زیادہ گھر بسانے کے خواب ہوتے ہیں۔لڑکیوں کا اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونا عام نہیں ،غریبی اس کی سب سے بڑی وجہ ہے۔اس کے علاوہ صنفی تفریق , والدین کا تعلیم یافتہ نہ ہونا بھی لڑکیوں کی اعلیٰ تعلیم کا سلسلہ منقطع کردیتا ہے لڑکیوں کی تربیت اس طرح سے ہوتی ہے کہ ان کو شادی کرنا ہے، گھر بسانا ہے، گھر میں سکون لانا ، شوہر اور بچوں کی دیکھ بھال کرنی ہے اور شوہر کی فیملی کے ساتھ مل جل کے رہنا ہے۔ ان کو یہ سب تربیت بچپن سے دی جاتی ہے ۔ اس کا کوئی ایک سبب نہیں ہوسکتا ہے ۔ خاندانی پس منظر سے ماحول اور معاشی مجبوریاں بھی ممکن ہیں لیکن اس میں مذہبی پہلو زیادہ نہیں ۔ معاشرےمیں تعلیم کا واحد مقصد کمانا سمجھا جاتا ہے اور تعلیم برائے معاش کا یہ مزاج بھی اس راہ میں رکاوٹ بنتا ہے۔عورتوں کے خلاف جرائم کی واردتیں اورچھیڑچھاڑ نے بھی لڑکیوں کو اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے سے دور رکھا ہواہے۔کبھی غیر معیاری ابتدائی تعلیم اور ناپسندیدہ مضمون کا انتخاب بھی اس کا سبب ہوتا ہے۔شادی بھی ایک بڑی وجہ ہے۔ کم عمری میں لڑکیوں کی شادی کی توقع کی جاتی ہے، جس کے سبب ان کا تعلیمی سلسلہ منقطع ہوجاتا ہے اور وہ اعلیٰ تعلیم کے حصول سے محروم رہ جاتی ہیں۔ لڑکیوں کو لڑکوں کی طرح تعلیمی مواقع نہیں ملتے ہیں۔ لڑکوں کی تعلیم کو لڑکیوں کی تعلیم پر فوقیت دی جاتی ہے۔ والدین لڑکیوں کی تعلیم پر پیسے خرچ کرنا نہیں چاہتے کیونکہ انہیں لگتا ہے کہ بالآخر شادی کے بعد انہیں گھر میں ہی رہنا ہے,کچھ کا ماننا ہے کہ لڑکیوں کو ایک خاص عمر سے زیادہ تعلیم نہیں دینی چاہیے لڑکیوں کو مخلوط اسکولوں میں نہیں جانا چاہیے۔بعض علاقوں میں ایسا بھی ہے کہ اعلیٰ تعلیمی ادارے نہیں ہوتے اس لیے لڑکیوں کے لیے گھر سے دور رہ کر پڑھائی کرپانا مشکل ہے۔ہمارے معاشرے میں ایسا سمجھا جاتا ہے کہ گھر کی ساری ذمہ داریاں لڑکیوں کی ہے۔ اس لیے بھی ایسی سوچ رکھنے والے لوگ بچیوں کی اعلیٰ تعلیم پرتوجہ نہیں دیتے ہیں۔